اس معاملے میں بھی اسلام نے وہی مقصد پیش نظر رکھا ہے۔ جنگ میں جو مالِ غنیمت فوجوں کے ہاتھ آئے اس کے متعلق یہ قانون بنایا گیا کہ اس کے پانچ حصے کئے جائیں۔ چار حصے فوج میں تقسیم کر دیئے جائیں اور ایک حصہ اس غرض کے لیے رکھ لیا جائے کہ عام قومی مصالح میں صرف ہو:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ الانفال41:8
جان لو کہ جو کچھ تم کو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رسولؐ کے رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔
اللہ اور رسولؐ کے حصہ سے مراد ان اجتماعی اغراض و مصالح کا حصہ ہے جن کی نگرانی اللہ اور رسولؐ کے تحت حکم اسلامی حکومت کے سپرد کی گئی ہے۔
رسولؐ کے رشتہ داروں کا حصہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہ تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حصہ میں سے اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے تھے۔ بعد میں یہ حصہ بھی پہلی مد میں صرف کیا جانے لگا۔
اس کے بعد خمس میں تین طبقوں کا حصہ خصوصیت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔
قوم کے یتیم بچے، تا کہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہو اور ان کو زندگی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے قابل بنایا جائے۔
مساکین، جن میں بیوہ عورتیں، اپاہج، معذور، بیمار اور نادار سب شامل ہیں۔
ابن السبیل یعنی مسافر۔ اسلام نے اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں مسافر نوازی کا میلان خاص طور پر پیدا کیا ہے اور اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات اور غنائم جنگ میں بھی مسافروں کا حق رکھا ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جس نے اسلامی ممالک میں تجارت، سیاحت، تعلیم اور مطالعہ و مشاہدۂ آثار و احوال کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت میں بڑی آسانیاں پیدا کر دیں۔
جنگ کے نتیجے میں جو اراضی اور اموال اسلامی حکومت کے ہاتھ آئیں ان کے لیے یہ قانون بنایا گیا کہ ان کو بالکلیہ حکومت کے قبضے میں رکھا جائے:
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۰ۭ ……. لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ ……. وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ …….. وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ الحشر 7-10:59
جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستیوں کے باشندوں سے فَے میں دلوایا ہے وہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور رسولؐ کے رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے تا کہ یہ مال صرف تمہارے دولت مندوں ہی کے درمیان چکر نہ لگاتا رہے… اور اس میں ان نادار مہاجرین کا بھی حصہ ہے جو اپنے گھربار اور جائیدادوں سے بے دخل کر کے نکال دیے گئے ہیں… اور ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جو مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی دارالاسلام میں مقیم تھے… اور ان آئندہ نسلوں کا بھی حصہ ہے جو بعد میں آنے والی ہیں۔
اس آیت میں نہ صرف ان مصارف کی توضیح کی گئی ہے جن میں اموالِ فَے کو صرف کیا جائے گا، بلکہ صاف طور پر اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے جس کو اسلام نے صرف اموالِ فَے کی تقسیم ہی میں نہیں بلکہ اپنے پورے معاشی نظام میں پیشِ نظر رکھا ہے، یعنی کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (مال تمہارے مال داروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے)۔ یہ مضمون جس کو قرآن مجید نے ایک چھوٹے سے جامع فقرے میں بیان کر دیا ہے، اسلامی معاشیات کا سنگِ بنیاد ہے۔