اسلام کا تصور حاکمیت بہت صاف اور واضح ہے۔ خدا اس کائنات کا خالق ہے اور وہی اس کا حاکمِ اعلیٰ بھی۔ اقتدار اعلیٰ صرف اسی کا حصہ ہے۔ انسان کی حیثیت حاکمِ اعلیٰ کے خلیفہ اور نمائندے کی ہے اور سیاسی نظام کو اسی حاکم اعلیٰ کے قانون کے تابع ہونا چاہیے۔ خلیفہ کاکام حاکم اعلیٰ کے قانون کو اس کے اصل منشا کے مطابق نافذ کرنا ہے اور نظام سیاسی کو اس کی ہدایات کے مطابق چلانا ہے:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔ یوسف12:39-40
اے زنداں کے ساتھیو! تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق رب بہتر ہیں، یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے؟ اس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آبائو اجداد نے رکھ لیے ہیں‘ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں کی۔ فرماںروائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریق زندگی ہے‘ مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی تقریر کا ایک حصہ ہے اور توحید اور حاکمیت الٰہی پر بہترین تقریروں میں سے ہے۔ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام دین کے اس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہلِ حق کا راستہ اہلِ باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے‘ یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقل عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان سے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اتر گئی ہوگی‘ کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کرسکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقائوں کا‘ اور سارے جہاں کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجائو‘ بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو! اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا، مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں‘ مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر، بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا‘ کسی کو خداوند نعمت‘ کسی کو مالک زمین اور کسی کو رب دولت یا خود مختار صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو‘ یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں‘ ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی ان داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرماںروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔۴۲؎
(الف) وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ۔ القصص28:38
اور فرعون نے کہا: اے اہلِ دربار! میں تو اپنے سوا تمھارے کسی الٰہ کو نہیں جانتا۔
اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ میں ہی تمھارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں‘ کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی۔ اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ میرے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں ہے کیونکہ اہل مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبودیت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا۔ سب سے بڑی شہادت قرآن مجید کی موجود ہے کہ فرعون خود بہت سے دیوتائوں کا پرستار تھا۔ (الاعراف۷:۱۲۷)
اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن اُن ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد و خود مختار ہو کر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں۔ وہ خواہ سرچشمۂ قانون اور صاحب امر و نہی کسی بادشاہ کو مانیں یا قوم کی مرضی کو‘ بہرحال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول ؑ کا نہیں، بلکہ ہمارا حکم چلے گا، اس وقت تک ان کے اور فرعون کے موقف میں کوئی اصولی فرق نہیں ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے رہیں اور ان ریاستوں کو سندِ جواز عطا کرتے رہیں۔ حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے ’اِلٰہ‘کا لفظ استعمال کیا تھا اور یہ اسی معنی میں ’حاکمیت‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔۴۳؎
(ج) الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا ۔ الفرقان25:2
وہ جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جس نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ہے‘ جس کے ساتھ بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے‘ جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔
یہاں لفظ ملک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی‘ اقتدار اعلیٰ اور حاکمیت (sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرماںروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے، اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہوسکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ جَلَّ شَاْنُہ‘ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی‘ نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا‘ نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گائے گی، یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہوسکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی اطاعت و بندگی بجا لائے‘ یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے۔۴۴؎
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ البقرہ2:284
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے۔ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو، خواہ چھپائو۔ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے معاف کردے اور جسے چاہے سزا دے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کی اولین بنیاد خدا کی حاکمیت کا عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مالک زمین و آسمان ہونا اور ان تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں‘ اللہ ہی کی مِلک ہونا‘ دراصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرز عمل اس کے سوا جائز اور صحیح نہیں ہوسکتا کہ وہ اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دے۔ پھر اس آیت میں جواب دہی کے تصور اور انفرادی ذمے داری کے اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر انسان فردًا فردًا اللہ کے سامنے ذمے دار اور جواب دہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جس بادشاہ زمین و آسمان کے سامنے جواب دہ ہے‘ وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے حتیٰ کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں اور آخر میں اللہ کے اختیار مطلق کا بیان ہے۔ اس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو، بلکہ وہ مالک مختار ہے۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلی اختیارات اس کو حاصل ہیں۔۴۵؎
(ھ) وَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ وَ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ o اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ۔
آل عمران 50-51:3
اور میں اس تعلیم و ہدایت کی تصدیق کرنے والا بن کر آیا ہوں جو تورات میں سے اس وقت میرے زمانے میں موجود ہے اور اس لیے آیا ہوں کہ تمھارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کردوں جو تم پر حرام کر دی گئی تھیں اور میں تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس نشانی لے کر آیا ہوں‘ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ میرا رب بھی ہے اور تمھارا رب بھی۔ لہٰذا تم اسی کی بندگی اختیار کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے بھی بنیادی نکات یہی تین تھے:
۱۔ ایک یہ کہ اقتدار اعلیٰ‘ جس کے مقابلے میں بندگی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور جس کی اطاعت پر اخلاق و تمدن کا پورا نظام قائم ہوتا ہے‘ صرف اللہ کے لیے مختص تسلیم کیا جائے۔
۲۔ دوسرے یہ کہ اس مقتدر اعلیٰ کے نمائندے کی حیثیت سے نبی کے حکم کی اطاعت کی جائے۔
۳۔ تیسرے یہ کہ انسانی زندگی کو حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کی پابندیوں سے جکڑنے والا قانون و ضابطہ صرف اللہ کا ہو، اور دوسروں کے عاید کردہ قوانین منسوخ کر دیے جائیں۔
پس درحقیقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے مشن میں یک سرِمُو فرق نہیں ہے۔ جن لوگوں نے مختلف پیغمبروں کے مختلف مشن قرار دیے ہیں اور ان کے درمیان مقصد و نوعیت کے اعتبار سے فرق کیا ہے انھوں نے سخت غلطی کی ہے۔ مالک الملک کی طرف سے اس کی رعیت کی طرف جو شخص بھی مامور ہو کر آئے گا اس کے آنے کا مقصد، اس کے سوا اور کچھ ہوسکتا ہی نہیں کہ وہ رعایا کونافرمانی اور خود مختاری سے روکے اور شرک سے (یعنی اس بات سے کہ وہ اقتدار اعلیٰ میں کسی حیثیت سے دوسروں کو مالک الملک کے ساتھ شریک ٹھیرائیں اور اپنی وفاداریوں اور عبادت گزاریوں کو ان میں منقسم کریں) منع کرے اور اصل مالک کی خالص بندگی و اطاعت اور پرستاری و وفاداری کی طرف دعوت دے۔
افسوس ہے کہ موجودہ اناجیل میں مسیح علیہ السلام کے مشن کو اس وضاحت کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا جس طرح اوپر قرآن میں پیش کیا گیا ہے۔ تاہم منتشر طور پر اشارات کی شکل میں وہ تینوں بنیادی نکات ہمیں ان کے اندر ملتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً: یہ بات کہ مسیح علیہ السلام صرف اللہ کی بندگی کے قائل تھے ان کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتی ہے:
تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔ (متی۴:۱۰)
اور صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے قائل تھے، بلکہ ان کی ساری کوششوں کا مقصود یہ تھا کہ زمین پر خدا کے امر شرعی کی اسی طرح اطاعت ہو جس طرح آسمان پر اس کے امر تکوینی کی اطاعت ہورہی ہے:
تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔ (متی۶:۱۰)
پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السلام اپنے آپ کو نبی اور آسمانی بادشاہت کے نمائندے کی حیثیت سے پیش کرتے تھے اور اسی حیثیت سے لوگوں کو اپنی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے، ان کے متعدد اقوال سے معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے جب اپنے وطن ناصرہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کے اپنے ہی بھائی بند اور اہلِ شہران کی مخالفت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس پر متی‘ مرقس اور لوقا تینوں کی متفقہ روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا، اور جب یروشلم میں ان کے قتل کی سازشیں ہونے لگیں اور لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کہیں اور چلے جائیں تو انھوں نے جواب دیا:
ممکن نہیں کہ نبی یروشلم سے باہر ہلاک ہو۔ (لوقا ۱۳:۲۳)
آخری مرتبہ جب وہ یروشلم میں داخل ہو رہے تھے تو ان کے شاگردوں نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا:
’مبارک ہے وہ بادشاہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے۔‘
اس پر یہودی علما ناراض ہوئے اور انھوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ آپ اپنے شاگردوں کو چپ کرائیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’اگر یہ چپ رہیں گے تو پتھر پکار اٹھیں گے۔ (لوقا ۱۹:۳۸۔۴۰)
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:
اے محنت اٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو! سب میرے پاس آئو‘ میں تم کو آرام دوں گا۔ میرا جوا اپنے اوپر اٹھالو… میرا جوا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔ (متی۱۱:۲۸۔۳۰)
پھر یہ بات کہ مسیح علیہ السلام انسانی ساخت کے قوانین کے بجائے خدائی قانون کی اطاعت کرانا چاہتے تھے متی اور مرقس کی اس روایت سے صاف طور پر مترشح ہوتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودی علما نے اعتراض کیا کہ آپ کے شاگرد بزرگوں کی روایات کے خلاف ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کیوں کھالیتے ہیں۔ اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ تم ریاکاروں کی حالت وہی ہے جس پر یسعیاہ نبی کی زبان سے یہ طعنہ دیا گیا ہے کہ ’’یہ امت زبان سے تو میری تعظیم کرتی ہے مگر ان کے دل مجھ سے دور ہیں‘ کیونکہ یہ انسانی احکام کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘ تم لوگ خدا کے حکم کو تو باطل کرتے ہو اور اپنے گھڑے ہوئے قوانین کو برقرار رکھتے ہو۔ خدا نے توراۃ میں حکم دیا تھا کہ ماں باپ کی عزت کرو اور جو کوئی ماں باپ کو برا کہے وہ جان سے مارا جائے، مگر تم کہتے ہو کہ جو شخص اپنی ماں یا باپ سے یہ کہہ دے کہ میری جو خدمات تمھارے کام آسکتی تھیں انھیں میں خدا کی نذر کر چکا ہوں‘ اس کے لیے بالکل جائز ہے کہ پھر ماں یاباپ کی کوئی خدمت نہ کرے۔ (متی ۱۵:۳۔۹۔مرقس ۷:۵۔۱۳)۴۶؎
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ الاعراف7:54
درحقیقت تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا‘ پھر اپنے تخت سلطنت پر متمکن ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔ جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے۔ سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار رہو! اسی کی خلق ہے اور اسی کا امر ہے۔ بڑا بابرکت ہے اللہ‘ سارے جہانوں کا مالک اور پروردگار۔
خدا کے استوا عَلَی الْعَرش (تختِ سلطنت پر متمکن ہونے) کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لامحدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرما دیا ہو، اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر وجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جارہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو، اور اس پر متمکن ہو جانے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کرکے اس کی زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لی۔ بہرحال اِستوا علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو‘ قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کرانا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق کائنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبر کائنات بھی ہے۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے، بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جزو کل پر فرماںروائی کر رہا ہے۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں‘ ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے‘ ذرہ ذرہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں۔ اس طرح قرآن اس بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختاری و خود سری کی ضلالت میں۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسروں سے وابستہ سمجھے اور ان کے آگے سرجھکا دے، یا پھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے۔
یہاں ایک بات اور قابل توجہ ہے۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ‘ مصطلحات‘ استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہو اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ’تصنیف‘ ہے، اس زمانے میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے (جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا۔ حالانکہ دراصل قرآن جس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے اور حاکمیت (sovereignty)جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے اور یہ نظام کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے، لہٰذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کلی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہوسکتا کہ اسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان (sovereign)بھی تسلیم کرے۔
لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ الاعراف7:54 کے الفاظ سے اسی مضمون کی مزید تشریح کی گئی ہے جو ’’استوا علی العرش‘‘ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حاکم بھی ہے۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کرکے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ اس میں حکم چلائیں اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے، بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ لیل و نہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے‘ جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے۔ سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں، بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے۔۴۷؎
(ز) اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ المائدہ5:1
بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
یعنی اللہ حاکم مطلق ہے۔ اسے پورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی برمصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کردی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دوسری بنیاد پر نہیں، بلکہ صرف اس بنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پورے زور کے ساتھ یہ اصول قائم کرتا ہے کہ اشیا کی حرمت و حلت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بنیاد کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز۔۴۸؎
(ک) وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَo النحل116:16
اور یہ جو تمھاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام‘ تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو۔ جو لوگ اللہ پر جھوٹے افترا باندھتے ہیں وہ ہرگز فلاح نہیں پایا کرتے۔
یہ آیت صاف تصریح کرتی ہے کہ خدا کے سوا تحلیل و تحریم کا حق کسی کو بھی نہیں‘ یا بالفاظ دیگر قانون ساز صرف اللہ ہے۔ دوسرا جو شخص بھی جائز اور ناجائز کا فیصلہ کرنے کی جرأت کرے گا وہ اپنی حد سے تجاوز کرے گا‘ الایہ کہ وہ قانون الٰہی کو سند مان کر اس کے فرامین سے استنباط کرتے ہوئے یہ کہے کہ فلاں چیز یا فلا ں فعل جائز ہے اور فلاں ناجائز۔
اس خود مختارانہ تحلیل و تحریم کو اللہ پر جھوٹ اور افترا اس لیے فرمایا گیا کہ جو شخص اس طرح کے احکام لگاتا ہے‘ اس کا یہ فعل دو حال سے خالی نہیں ہوسکتا:
۱۔ یا وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جسے وہ کتاب الٰہی کی سند سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کہہ رہا ہے اسے خدا نے جائز یا ناجائز ٹھیرایا ہے۔
۲۔ یا اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ نے تحلیل وتحریم کے اختیارات سے دست بردار ہو کر انسان کو خود اپنی زندگی کی شریعت بنانے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے۔
ان میں سے جو دعویٰ بھی وہ کرے وہ لامحالہ جھوٹ اور اللہ پر افترا ہے۔ ۴۹؎
(ل) قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللہُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَــعَلْتُمْ مِّنْہُ حَرَامًا وَّحَلٰلًا۰ۭ قُلْ اٰۗللہُ اَذِنَ لَكُمْ اَمْ عَلَي اللہِ تَفْتَرُوْنَo یونس59:10
اے نبی! ان سے کہو: تم لوگوں نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ جو رزق اللہ نے تمھارے لیے اتارا تھا اس میں سے تم نے خود ہی کسی کو حرام اور کسی کو حلال ٹھیرا لیا‘ ان سے پوچھو اللہ نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟۔
اردو زبان میں رزق کا اطلاق صرف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے، اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیا میں‘ مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنیاد پر لوگوں نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلاء یا عوام ہی نہیں‘ علما تک مبتلا ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک تک محدود نہیں ہے بلکہ عطا اور بخشش اور نصیب کے معنوں میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے حتیٰ کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رزیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے: اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ‘ یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کے اتباع کی توفیق دے۔محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ عِلْمًا ‘ فلاں شخص کو علم دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رزق اور اس کی مدت عمر اور اس کاکام لکھ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائے گا۔ خود قرآن میں ہے: وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ البقرہ 3:2 جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملے میں لوگوں نے بطور خود اختیار کرلی ہیں‘ سخت غلطی ہے اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت اور جواز و عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کرلیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے اور اسی بنا پر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سازی کی جانے لگے تو عامی تو درکنار علمائے دین و مفتیان شرع متین اور مفسرینِ قرآن و شیوخِ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کو یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت ِ الٰہی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کرلینا۔
پھر فرمایا جارہا ہے کہ تمھیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ کتنا سخت باغیانہ جرم ہے جو تم کر رہے ہو۔ رزق اللہ کا ہے اور تم خود اللہ کے ہو‘ پھر یہ حق آخر تمھیں کہاں سے حاصل ہوگیا کہ اللہ کی املاک میں اپنے تصرف‘ استعمال اور انتفاع کے لیے خود حد بندیاں مقرر کرو؟ کوئی نوکر اگر یہ دعویٰ کرے کہ آقا کے مال میں اپنے تصرف اور اختیارات کی حدیں اسے خود مقرر کرلینے کا حق ہے اور اس معاملے میںآقا کے کچھ بولنے کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں‘ تو اس کے متعلق تمھاری کیا رائے ہے؟ تمھارا اپنا ملازم اگر تمھارے گھر میں اور تمھارے گھر کی سب چیزوں میں اپنے عمل اور استعمال کے لیے اس آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے تو تم اس کے ساتھ کیا معاملہ کرو گے؟ ____ اس نوکر کا معاملہ تودوسرا ہی ہے جو سرے سے نہیں مانتا کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور کوئی اس کا آقابھی ہے اور یہ کسی اور کا مال ہے جو اس کے تصرف میں ہے۔ اس بدمعاش غاصب کی پوزیشن یہاں زیر بحث نہیں ہے۔ یہاں سوال اس نوکر کی پوزیشن کا ہے جو خود مان رہا ہے کہ وہ کسی کا نوکر ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ مال اسی کا ہے جس کا وہ نوکر ہے اور پھر کہتا ہے کہ اس مال میں اپنے تصرف کے حقوق مقرر کرلینے کا حق مجھے آپ ہی حاصل ہے اور آقا سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
آخر میں یہ بات بھی واضح کر دی گئی ہے کہ تمھاری یہ پوزیشن صرف اسی صورت میں صحیح ہوسکتی تھی کہ آقا نے خود تم کو مجاز کر دیا ہو تا،کہ میرے مال میں تم جس طرح چاہو تصرف کرو‘ اپنے عمل اور استعمال کے حدود‘ قوانین‘ ضوابط سب کچھ بنالینے کے جملہ حقوق میں نے تمھیں سونپے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا تمھارے پاس واقعی اس کی کوئی سند ہے کہ آقا نے تم کو یہ اختیارات دے دیے ہیں، یا تم بغیر کسی سند کے یہ دعویٰ کر رہے ہو کہ وہ تمام حقوق تمھیں سونپ چکا ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو براہ کرم وہ سند دکھائو، ورنہ بصورت دیگر یہ کھلی بات ہے کہ تم بغاوت پر جھوٹ اور افترا پردازی کا مزید جرم کر رہے ہو۔ ۵۰؎
(ج) وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo ……… الظٰلِمُوْنَ … …الْفٰسِقُوْنَ
المائدہ 47-45-44:5
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں…… ظالم ہیں…… فاسق ہیں۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں:
ایک یہ کہ وہ کافر ہیں‘ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں‘ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے، یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے‘ وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے:
٭ اولاً ،اس کا یہ فعل حکمِ خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔
٭ ثانیاً، اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہوسکتا تھا وہ تو خدا نے دیا تھا‘ اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔
٭ تیسرے یہ کہ، بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اور یہی فسق ہے۔
یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو، وہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہ ہوں، البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔ جو شخص حکم الٰہی کے خلاف اس بنا پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کو غلط اور اپنے یا کسی دوسرے انسان کے حکم کو صحیح سمجھتا ہے وہ مکمل کافر اور ظالم اور فاسق ہے، اور جو اعتقاداًحکمِ الٰہی کو برحق سمجھتا ہے مگر عملاً اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ اگرچہ خارج از ملت تو نہیں ہے مگر اپنے ایمان کو کفر‘ ظلم اور فسق سے مخلوط کر رہا ہے۔ اسی طرح جس نے تمام معاملات میں حکمِ الٰہی سے انحراف اختیار کرلیا ہے وہ تمام معاملات میں کافر‘ ظالم اور فاسق ہے اور جو بعض معاملات میں مطیع اور بعض میں منحرف ہے، اس کی زندگی میں ایمان و اسلام اور کفر و ظلم و فسق کی آمیزش ٹھیک ٹھیک اسی تناسب کے ساتھ ہے جس تناسب کے ساتھ اس نے اطاعت اور انحراف کو ملا رکھا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے ان آیات کو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص قرار دینے کی کوشش کی ہے، مگر کلامِ الٰہی کے الفاظ میں اس تاویل کے لیے کوئی گنجایش موجود نہیں۔ اس تاویل کا بہترین جواب وہ ہے جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے دیا ہے۔ ان سے کسی نے کہا کہ یہ تینوں آیتیں تو بنی اسرائیل کے حق میں ہیں۔ کہنے والے کا مطلب یہ تھا کہ یہودیوں میں سے جس نے خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا ہو وہی کافر‘ وہی ظالم اور وہی فاسق ہے۔ اس پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
نِعْمَ الْاِخْوَۃُ لَکُمْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ اَنْ کَانَتْ لَھُمْ کُلَّ مُرَّۃٍ وَلَکُمْ کُلَّ حُلْوَۃٍ کَلاَّ وَاللّٰہِ لَتَسْلُکُنَّ طَرِیْقَھُمْ قَدْرَ الشِّرَاکِ۔
کتنے اچھے بھائی ہیں تمھارے لیے یہ بنی اسرائیل کہ کڑوا کڑوا سب ان کے لیے ہے اور میٹھا میٹھا سب تمھارے لیے! ہرگز نہیں‘ خدا کی قسم تم انھی کے طریقے پر قدم بہ قدم چلو گے۔۵۱؎
حاکمیت الٰہی کا یہی اصل الاصول ہے جس پر قرآن میں جگہ جگہ گفتگو کی گئی ہے۔ خدا کے سوا جس کو بھی مختار مطلق مانا جائے گا اس کی حیثیت قرآن کی اصطلاح میں طاغوت کی ہے اور یہ بندگیِ الٰہی کی ضد ہے۔
(ت) فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌo البقرہ 256:2
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا‘ اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
طاغوت لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا جو اپنی جائز حد سے تجاوز کرگیا ہو۔ قرآن کی اصطلاح میں طاغوت سے مراد وہ بندہ ہے جو بندگی کی حد سے تجاوز کرکے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں:
٭ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اصولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اس کا نام فسق ہے۔
٭ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اصولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے لگے‘ یہ کفر ہے۔
٭ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے ملک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔۵۲؎
ایک دوسری آیت پر غور کیجیے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۰ۭ۔ النسائ 60:4
اے نبیؐ! تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمھاری طرف نازل کی گئی اور ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیںمگر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں حالانکہ انھیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہاں صریح طور پر’طاغوت‘ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الٰہی کے سوا کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخری سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنی میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت ’طاغوت‘ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلے کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کردے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان اور طاغوت سے کفر دونوں لازم و ملزوم ہیں اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جھکنا عین منافقت ہے۔۵۳؎
مندرجہ بالا بحث سے قرآن کا تصور حاکمیت واضح ہو جاتا ہے۔ اس تصور کے لحاظ سے حاکمیت میں انسان کا سرے سے کوئی حصہ نہیں ہوسکتا۔ اسی بنا پر قرآن انسان کو زمین پر خدا کا خلیفہ اور نائب قرار دیتا ہے اور اس نائب کا اصل مشن یہ بتاتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے مالک کے حکم کے مطابق کام کرے۔ اسی چیز کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً۰ۭ۔ البقرہ2:30
جب کہ تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
خلیفہ اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ وہ مالک نہیں ہوتا‘ بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے‘ بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا‘ بلکہ اس کاکام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کرکے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے‘ تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہوں گے۔۵۴؎