Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
باب اوّل: دُنیوی زندگی کا اسلامی تصور
دُنیوی زندگی کا اِسلامی تصوّر
باب دوم: زندگی کا نصب العین
زِندگی کا نصب العین
حصہ سوم: ۱۔ ایمان کی حقیقت و اہمیت
۲۔اسلام کے ایمانیات
۳۔ ایمان باللّٰہ
۴۔ ایمان بالملائکہ
۵۔ ایمان بالرُّسُل
۶۔ ایمان بالکتب
۷۔ ایمان بالیوم الآخر
۸۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی اہمیت
ضمیمہ: زندگی بعد موت

اسلامی تہذیب اور اس کے اُصول ومبادی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

۶۔ ایمان بالکتب

اسلام کی اصطلاح میں ’’کتاب‘‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی راہ نمائی کے لیے اللّٰہ کی طرف سے رسول پرنازل کی جاتی ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے کتاب گویا اسی پیغام کا سرکاری بیان یا اسلامی اصطلاح کے مطابق ’’الٰہی کلام‘‘ ہے جسے لوگوں تک پہنچانے، اور جس کی توضیح و تشریح کرنے، اور جس کو عمل کا جامہ پہنانے کے لیے پیغمبر دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ یہاں اس بحث کا موقع نہیں کہ ’’کتاب‘‘ کس معنی میں اللّٰہ کا کلام ہے، اور اس کے کلام اللّٰہ ہونے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ خالص الٰہیات کی بحث ہے جس کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس پر صرف اس پہلو سے نظر ڈالنی ہے کہ تہذیبِ اسلامی کی تاسیس میں ایمان بالکتب کا کیا حصہ ہے؟ اور اس کے لیے صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ پیغمبرؐ کے ذریعے سے جو تعلیم بندوں کو دینی مقصود ہے، اس کے اصول اور امہات مسائل خدا کی طرف سے پیغمبر کے دل پر القا ہوتے ہیں، اس کے الفاظ اور معانی دونوں میں پیغمبر کی اپنی عقل و فکر، اس کے ارادے، اور اس کی خواہش کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ لفظاً اورمعناًخدا کا کلام ہوتا ہے نہ کہ پیغمبر کی تصنیف۔ پیغمبر اس کلام کو ایک امانت دار قاصد کی حیثیت سے خدا کے بندوں تک پہنچا دیتا ہے، پھر خدا کی عطا کی ہوئی بصیرت سے اس کے معانی اور مطالب کی تشریح کرتا ہے، اور انھی الٰہی اصولوں پر اخلاق و معاشرت اور تہذیب وتمدن کا نظام قائم کرتا ہے۔ اپنی تعلیم و تلقین اور اپنی پاکیزہ سیرت سے لوگوں کے خیالات و رجحانات اورافکار میں ایک انقلاب برپا کرتا ہے۔ تقویٰ وطہارت اور پاکیزگیِ نفس اور حُسنِ عمل کی رُوح ان میں پھونکتا ہے۔ اپنی تربیت اور عملی راہ نمائی سے ان کو اس طور پر منظم کرتا ہے کہ ان سے ایک نئی سوسائٹی نئی ذہنیت، نئے افکار و خیالات، نئے آداب واطوار، اور نئے آئین و قوانین کے ساتھ وجود میں آ جاتی ہے۔ پھر وہ ان میں اللّٰہ کی کتاب اور اس کے ساتھ اپنی تعلیم اور اپنی پاکیزہ سیرت کے آثار چھوڑ جاتا ہے، جو ہمیشہ اس جماعت اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ ہدایت کا کام دیتے ہیں۔
رسالت اور کتاب کا تعلق
’’رسالت‘‘ اور ’’کتاب‘‘ دونوں اسی ایک خدا کی طرف سے ہیں۔ دونوں ایک امرِ ربانی کے اجزا اور ایک ہی مقصد اور ایک ہی دعوت کی تکمیل کے ذریعے ہیں۔ وہی اللّٰہ کا علم اور اس کی حکمت رسول کے سینے میں بھی ہے اور کتاب کے اوراق میں بھی۔ جس تعلیم کا لفظی بیان ’’کتاب‘‘ ہے، اسی کا عملی نمونہ رسولؐ کی زندگی ہے۔
انسان کی فطرت کچھ اس طور پر واقع ہوئی ہے کہ وہ مجرد کتابی تعلیم سے کوئی غیر معمولی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اس کو علم کے ساتھ ایک انسانی معلّم اورراہ نما کی بھی حاجت ہوتی ہے جو اپنی تعلیم سے اس علم کو دلوں میں بٹھا دے اور اس کا مجسمہ بن کر اپنے عمل سے لوگوں میں وہ روح پھونک دے جو اس تعلیم کا حقیقی منشا ہے۔ آپ کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہ مل سکے گی کہ تنہا کسی کتاب نے انسانی معلم کی ہدایت اور تعلیم کے بغیر کسی قوم کی ذہنیت اور زندگی میں انقلاب پیدا کیا ہو۔ جن راہ نمائوں نے قوموں کے افکار و اعمال میں زبردست انقلاب پیدا کیے ہیں، اگر وہ خود اپنی تعلیم کے مکمل عملی نمونے بن کر نہ پیدا ہوتے، اور صرف ان کی تعلیمات اور ان کے اصول کسی کتاب کی شکل میں شائع ہو جاتے، تو انسانی فطرت کا کوئی رازدان یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ محض اس کتاب سے وہی انقلابات رونما ہوتے جو ان راہ نمائوں کی عملی تعلیم سے ہوئے۔
دوسری طرف یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ انسانی راہ نما کے ساتھ اس کی تعلیم کا ایک مستند اور معتبر بیان بھی چاہتی ہے، خواہ وہ کاغذ پر لکھا ہوا ہو، یا سینوں میں محفوظ ہو۔ راہ نما جن اصولوں پر جماعت کے افکار و اعمال اور اخلاق و تمدن کی بِنا رکھتا ہے، وہ اگر اپنی اصلی شکل میں محفوظ نہ رہیں تو رفتہ رفتہ اس کی تعلیم کا نقش دھندلا ہوتا جاتا ہے اور اس نقش کے مٹنے کے ساتھ انفرادی سیرت اوراجتماعی نظم و آئین کی بنیادیں بھی کم زور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ آخرمیں اس جماعت کے پاس صرف افسانے رہ جاتے ہیں جن میں ایک طاقت وَر نظامِ تمدن کو سنبھالنے کی قوت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جن راہ نمائوں کی تعلیم محفوظ نہیں رہی، ان کے متبعین گمراہی میں پڑ گئے، ان کی بنائی ہوئی امت ہر قسم کے اعتقادی، فکری، عملی، اخلاقی اور تمدنی مفاسد میں مبتلا ہو گئی،اور کوئی چیز اُن کے پیچھے باقی نہیں رہی جس سے وہ صحیح اور اصلی اصول اخذ کیے جا سکیں جن پر ابتدائً اس امت کی شیرازہ بندی کی گئی تھی۔
فاطرِ کائنات اپنی مخلوق کی اس فطرت سے واقف تھا، اس لیے اس نے جب نوعِ بشری کی ہدایت کا ذمہ لیا تو اس کے لیے رسالت اور تنزیل دونوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری کیا۔ ایک طرف بہترین سیرت رکھنے والے انسانوں کو راہ نمائی کے منصب پر مقرر کیا اور دوسری طرف اپنا کلام بھی نازل کیا، تاکہ یہ دونوں چیزیں انسانی فطرت کے ان دونوں مطالبوں کو پورا کر دیں۔ اگر راہ نما کتاب کے بغیر آتے، یا کتابیں راہ نمائوں کے بغیر آتیں تو حکمت کا مقصود پورا نہ ہو سکتا۔
چراغ اور راہ نُما کی قرآنی مثال
رسالت اور کتاب کے اس تعلق کو قرآن مجید ایک تمثیلی پیرایے میں بیان کرتا ہے۔ اس نے جگہ جگہ رسول کو راہ نما اور بدرقے سے تشبیہ دی ہے جس کا کام گم راہوں کو سیدھا رستہ بتانا ہے، مثلاً:
وَجَعَلْنٰہُمْ اَىِٕمَّۃً يَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا الانبیائ 73:21
اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔
وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍo الرعد 7:13
اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہے۔
فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّاo مریم 43:19
آپ میرے پیچھے چلیں، میں آپ کو سیدھا راستہ بتائوں گا۔
وَاَہْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰىo نازعات 19:79
اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا) خوب تیرے اندر پیدا ہو؟
دوسری طرف وہ کتاب کو ’’نور‘‘ اور ’’ضیاء‘‘ اور ’’برہان‘‘ اور ’’فرقان‘‘ اور ’’منیر‘‘ اور ’’مبین‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے، مثلاً:
وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ الاعراف 157:7
اور اُسی روشنی کی پیروی اختیار کریں، جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَہٰرُوْنَ الْـفُرْقَانَ وَضِيَاۗءً الانبیائ 48:21
پہلے ہم موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور (ذکر) عطا کر چکے ہیں۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo المائدہ 15:5
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایسی حق نما کتاب۔
قَدْ جَاۗءَكُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ النسائ 174:4
تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے۔
یہ تشبیہات محض شاعری نہیں ہیں بلکہ ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان سے یہ بتانا مقصود ہے کہ معمولی انسان کو فطری عقل اور اکتسابی علم سے اتنی روشنی اور راہ نمائی حاصل نہیں ہوتی جس سے وہ حق کی سیدھی راہ پر چل سکے۔ اس اجنبی اور اندھیری منزل میں اسے ایک ایسے غیر معمولی راہ نما کی ضرورت ہے جو اس منزل کی رسم و راہ سے واقف ہو، اور ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں ایک چراغ بھی ہو، تاکہ وہ اسے لیے ہوئے قدم قدم پر بتاتا چلے کہ یہاں گڑھا ہے، یہاں قدم پھسلتا ہے، یہاں کانٹے اور جھاڑیاں ہیں، یہاں سے دوسرے ٹیڑھے اور غلط راستے نکلتے ہیں، اور اس کے پیچھے چلنے والا انسان خود بھی اس چراغ کی روشنی میں راہ کے نشانات کو دیکھ کر، سیدھی راہ کی علامات کو پہچان کر، ٹیڑھے راستوں کے موڑوں اور نکڑوں سے واقف ہو کر، علیٰ وجہ البصیرت اس کا اقتدا کرے۔ رات کے اندھیرے میں راہ نما اور چراغ کے درمیان جو تعلق ہوتا ہے، وہی تعلق رسول اور کتاب میں بھی ہے۔ اگر ہم راہ نما کے ہاتھ سے چراغ چھین لیں اور خود اس کو لے کر چلنے لگیں تو راستے میں ہم کو بہت سے ایسے تراہے چوراہے اور متشابہ راستے ملیں گے جہاں ہمیں یا تو حیران و پریشان ہو کرٹھیر جانا ہو گا، یا ہم اس چراغ کی روشنی میں کسی غلط راستے پر چلنے لگیں گے، کیوں کہ محض چراغ کا وجود انسان کو راہ نما سے بے نیاز نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر راہ نما کے ہاتھ میں چراغ نہ ہو تو ہم محض اندھے مقلد کی طرح اس کا دامن پکڑتے ہوئے چلیں گے اور روشنی کے بغیر ہم میں خود اتنی بصیرت پیدا نہ ہو گی کہ سیدھے راستے کو ٹیڑھے راستوں سے ممتاز کرکے دیکھ سکیں اور سیدھی راہ کے ان نازک مقامات کو بھی پہچان لیں جہاں انسان ٹھوکر کھاتا ہے یا اس کا قدم پھسل جاتا ہے۔ پس جس طرح ہم کو رات کی تاریکیوں میں اجنبی راہوں پر چلنے کے لیے ایک ایسے بدرقے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس منزل کی رسم و راہ سے خوب واقف ہو، اور ایک مشعل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی روشنی میں ہم اس راستے کو خوب پہچان سکیں، ان دونوں میں سے کسی ایک سے بھی ہم بے نیاز نہیں ہو سکتے، اسی طرح حقیقت کی اجنبی منزل میں، جہاں ہماری عقل کی روشنی تنہا کام نہیں دیتی، ہم کو رسول اورکتاب دونوں کی یکساں ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے کسی کے اتباع کو چھوڑ کر ہم سیدھی راہ نہیں پا سکتے۔
رسول وہ ماہر بدرقہ ہے جوخدا کی دی ہوئی بصیرت سے ہدایت کی صراطِ مستقیم کوجانتا ہے اور اس منزل کی رسم و راہ سے ایسا واقف ہوتا ہے جیسا کسی راہ پر سیکڑوں مرتبہ چلا ہوا بدرقہ اس کے ہرہر قدم کی تفصیلی کیفیات سے واقف ہوا کرتا ہے۔ اس بصیرت کا نام ’’حکم‘‘ اور ’’علم‘‘ اور ’’شرحِ صدر‘‘اور ’’تعلیم الٰہی‘‘ و ’’ہدایتِ ربانی‘‘ ہے، جسے خصوصیت کے ساتھ انبیاؑ کو عطا کیے جانے کا ذکر بار بار قرآن میں آیا ہے، مثلاً
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَo الم نشرح 1:94
(اے نبیؐ) کیا ہم نے تمھارا سینہ تمھارے لیے کھول نہیں دیا؟
وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۝۰ۭ النسائ 113:4
اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمھیں معلوم نہ تھا، اور اس کا فضل تم پر بہت ہے۔
وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا الانبیائ 79:21
حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔
اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔــلُكُمْ اَجْرًا وَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَo یٰس 21:36
پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر ہیں۔
اور کتاب وہ روشن چراغ ہے جس کی مدد سے رسول اپنے پیرووں کو نہ صرف سیدھی راہ چلاتا ہے، بلکہ انھیں اسی نورِ علم اور روشنی فکر اور عرفانِ حق سے بہرہ مند کر دیتا ہے جو ایک بالاتر درجے میں اللّٰہ کی طرف سے خود اس کو عطا ہوا ہے، اور اپنی تعلیم و تربیت سے انھیں اس قابل بنا دیتا ہے کہ اگر وہ اس کے نقشِ قدم پر چلیں اور اس چراغ کو ہاتھ میں رکھیں تو نہ صرف خود ہدایت پائیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہ نما اور امام بن جائیں۔
كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ۝۰ ابراہیم 1:14
یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے تیری طرف اتارا تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ يَتَفَكَّرُوْنَo
النحل 44:16
اور ہم نے تجھ پر ذکر (قرآن) اتارا تاکہ تو لوگوں کے لیے اس ہدایت کو واضح کر دے جو ان کی طرف اتاری گئی ہے، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔
پھر ایک بلیغ انداز میں قرآن نے یہ بھی بتا دیا کہ مادی اور جسمانی عالم میں چراغ اور راہ نما کے درمیان جو مغائرت ہے، وہ عالمِ حقیقت میں رسول اور کتاب کے درمیان نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک اتحادی رشتہ ہے۔ چنانچہ بعض جگہ جس چیز سے کتاب کوتشبیہ دی گئی ہے اسی چیز سے کسی دوسری جگہ رسول کو بھی تشبیہ دی گئی ہے، اور اسی طرح اس کے برعکس۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاo وَّدَاعِيًا اِلَى اللہِ بِـاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًاo الاحزاب 45-46:33
اے نبیؐ، ہم نے تمھیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
میں رسول کو چراغ روشن کہا گیا ہے، اورآیۂ:
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ بنی اسرائیل 9:17
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔
میں کتاب کو راہ نما کہا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اور رسول کا تعلق حقیقتاً ناقابلِ انقطاع ہے۔ انسان کو ہدایت کے لیے دونوں کی یکساں ضرورت ہے۔ انسان جس فکری و عملی نظام اور جس تہذیب و تمدن کو قائم کرنا چاہتا ہے، اس کے قیام و استحکام، اور اس کے دائماً اپنی صحیح شکل میں رہنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہمیشہ رسالت اورکتاب دونوں کے ساتھ اس کا تعلق برقرار رہے۔ اسی شدید ضرورت کی بِنا پررسالت اور کتاب دونوں کو الگ الگ مستقل اجزائے ایمان قرار دیا گیا اور ہر ایک پر ایمان لانے کی بار بار تاکید کی گئی۔ اگر تاکید مقصود نہ ہوتی تو ایسا کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیوں کہ رسول کی تصدیق اس کی لائی ہوئی کتاب کی تصدیق کو متضمن ہے، اور کتاب کی تصدیق اس کے لانے والے کی تصدیق کو۔
تمام کتب ِ آسمانی پر ایمان
جہاں تک ایمان کا تعلق ہے، اسلام ان تمام کتابوں کو ماننے کا حکم دیتا ہے جو خدا کی طرف سے اس کے رسولوں پر نازل کی گئی ہیں۔ مسلمان ہونے کے لیے جس طرح تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تمام کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ چنانچہ قرآن میں باربار کہا گیا ہے:
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ البقرہ 4:2
اور پرہیز گار وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تیری طرف اتاری گئی ہے اوران کتابوں پر جو تجھ سے پہلے اتاری گئی تھیں۔
كُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰۗىِٕكَتِہٖ وَكُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ۝۰ۣ البقرہ 285:2
رسولؐ اور سب مومن ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر۔
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ آل عمران 3:3
اللّٰہ نے تجھ پر حق کے ساتھ کتاب اتاری جو تصدیق کرتی ہے ان تمام کتابوں کی جو اس سے پہلے آ چکی ہیں۔
قُلْ اٰمَنَّا بِاللہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ عَلٰٓى اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَالنَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ۝۰۠ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ۝۰ۡوَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَo آل عمران 84:3
کہہ دے کہ ہم ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کتاب پرجو ہم پر اتاری گئی ہے، اور ان کتابوں پر جو ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اوراولادِ یعقوبؑ پراتاری گئی تھیں، اور جو موسیٰ ؑاور عیسیٰؑ اور دوسرے نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی تھیں۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اس کے تابعِ فرمان ہیں۔
اَلَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِالْكِتٰبِ وَبِمَآ اَرْسَلْنَا بِہٖ رُسُلَنَا۝۰ۣۛ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَo اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ وَالسَّلٰسِلُ۝۰ۭ يُسْحَبُوْنَo فِي الْحَمِيْمِ ۥۙ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُوْنَo
المومن 70-72:40
جن لوگوں نے اس کتاب اور ان کتابوں کو جھٹلایا جن کے ساتھ ہم نے اپنے رسولوں کو بھیجا تھا، ان کو عن قریب اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ جب طوق و سلاسل ان کی گردنوں میں پڑے ہوں گے اور وہ کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹے جائیں گے، پھر آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۝۰ۚ الحدید 25:57
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تھا اور ان کے ساتھ کتاب اتاری تھی، اور ترازو تاکہ لوگ حق پر قائم ہوں۔
اس اجمالی بیان کے ساتھ بعض کتابوں کے نام لے کر بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، مثلاً توریت کو ہدایت، نور، فرقان، ضیاء، امام اور رحمت کہا گیا ہے (القصص:۸۶)، الانبیاء(۴۸)، احقاف (۱۲)۔ اور انجیل کو بھی ہدایت، نور اور موعظت کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے (المائدہ:۴۶)۔ پس یہ بات اسلام کے اصولوں میں سے ہے کہ جن کتابوں کا ذکر تصریح کے ساتھ قرآن میں کیا گیا ہے، ان پر صراحتاً ،اور جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ان پر اجمالاً ایمان لایا جائے۔ اسلامی اعتقاد کے مطابق دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں اللّٰہ کے رسول اس کی طرف سے کتابیں لے کر نہ آئے ہوں، اورجتنی کتابیں دنیا کے مختلف خطوں اور مختلف قوموں میں آئیں، وہ سب ایک ہی سرچشمے کی نہریں، ایک ہی آفتاب کی شعاعیں تھیں۔ سب اسی حق اور صداقت اور ہدایت اور نور کے ساتھ آئی تھیں جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اس لیے جو ’’مسلم‘‘ ہے وہ ان سب پر ایمان لاتا ہے، اورجو ان میں سے کسی ایک کی تکذیب کرتا ہے وہ سب کی تکذیب اور درحقیقت اصل سرچشمے کی تکذیب کا مجرم ہے۔
صرف قرآن کا اتباع
لیکن ایمان کے بعد جہاں سے بالفعل اتباع کی سرحد شروع ہوتی ہے، وہاں دوسری کتابوں سے تعلق منقطع کرکے صرف قرآن کے ساتھ تعلق رکھنا ضروری ہے۔ اس کے متعدد وجوہ ہیں:
اوّلاً، کتب آسمانی میں بہت سی کتابیں تو اب معدوم ہیں، اور جو پائی جاتی ہیں ان میں قرآن کے سوا کوئی کتاب اپنے اصل الفاظ اور معانی میں محفوظ نہیں ہے۔ کلامِ الٰہی کے ساتھ کلامِ انسانی لفظاً اور معناً دونوں طرح شریک ہو گیا ہے۔ ہدایت کے ساتھ گم راہی، جو خواہشاتِ نفسانی کے اتباع کا لازمی نتیجہ ہے، ان کتابوں میں مل جل گئی ہے۔ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ان میں حق کس قدر ہے اور باطل کس قدر۔ یہی حال ان کتابوں کا بھی ہے جن پر مختلف ملتیں اپنے دین کا مدار رکھتی ہیں، اور جن کے آسمانی ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جن میں منزل من اللہ ہونے کا تخیل ہی سرے سے موجود نہیں ہے۔ بعض کے متعلق یہ تک پتا نہیں چلتا کہ اگر وہ خدا کی طرف سے آئی تھیں تو کن نبیوں کے پاس آئیں اور کس زمانے میں آئیں۔ بعض کی زبانیں ایسی مردہ ہو چکی ہیں کہ آج ان کے صحیح معانی متعین کرنا مشکل ہے۔ بعض میں انسانی خواہشات اور غلط تخیلات و اوہام کی صریح آمیزش معلوم ہوتی ہے۔ بعض میں شرک، غیر اللّٰہ کی پرستش اور ایسے ہی دوسرے غلط عقائد اور اعمال کی صریح تعلیم موجود ہے جو کسی طرح حق نہیں ہو سکتی۔ ایسی کتابیں جن کا یہ حال ہو، انسان کو صحیح علم اور صحیح روشنی نہیں دے سکتیں۔ انسان ان کا اتباع کرکے گم راہی سے محفوظ نہیں ہو سکتا۔
ثانیاً، قرآن کے سوا جتنی کتابیں اس وقت موجود ہیں، عام اس سے کہ آسمانی ہوں یا ان کے متعلق آسمانی ہونے کا شبہ کیا جا سکتا ہو، ان کی تعلیمات اور ان کے احکام میں یا تو محدود نسلی قومیت کا اثر نمایاں ہے، یا مخصوص زمانی حالات کا اقتضا غالب۔ وہ ہر زمانے میں تمام نوعِ بشری کے لیے ہدایت و راہ نمائی کا نہ کبھی ذریعہ بنی ہیں اور نہ بن سکتی ہیں۔
ثالثاً، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کتابوں میں سے ہر ایک میں ایسی تعلیمات موجود ہیں جو حق اور صدق ہیں، اوران میں انسان کے اخلاق اور معاملات کی اصلاح کے لیے بعض اچھے اصول اور قوانین بھی موجود ہیں، لیکن ان میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں ہے جو تمام خیرات کی جامع ہو، جس میں پورا حق ظاہر کر دیا گیا ہو، جو تنہا انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی صحیح راہ نمائی کر سکتی ہو۔
قرآن مجید ان تینوں خامیوں سے پاک ہے:
۱۔ وہ انھی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسولؐ اللہ نے اسے پیش کیا تھا۔ اوّل روز سے سیکڑوں، ہزاروں، لاکھوں آدمیوں نے ہر زمانے میں اس کو لفظ بلفظ یاد کیا ہے، لاکھوں کروڑوں آدمیوں نے روزانہ اس کی تلاوت کی ہے، ہمیشہ اس کے نسخے ضبط کتابت میں لائے جاتے رہے ہیں، اور کبھی اس کی عبارت میں ذرّہ برابر اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ لہٰذا اس امر میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہے کہ جو قرآن نبی عربی ﷺکی زبان سے سنا گیا تھا وہی آج دنیا میں موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس میں کبھی ایک لفظ کا تغیر و تبدل نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔
۲۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے۔ اس کے بولنے والے اور سمجھنے والے آج کروڑوں انسان موجود ہیں، اور آج تک اس زبان کا فصیح اور معیاری لٹریچر وہی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھا۔ اس کے معانی اور مطالب معلوم کرنے میں انسان کے لیے وہ دقتیں نہیں ہیں جو مردہ زبانوں کی کتابوں کے سمجھنے میں پیش آتی ہیں۔
۳۔ وہ سراسر حق، اوراز اوّل تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس میں کہیں انسانی جذبات، نفسانی خواہشات، قومی یا طائفی خود غرضیوں، اور جاہلانہ گمراہیوں کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اس کے اندر کلامِ الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرّہ برابر آمیزش نہیں ہو سکی ہے۔
۴۔ اس میں تمام نوعِ بشری کو خطاب کیا گیا ہے اورایسے عقائد، اصولِ اخلاق اور قوانینِ عمل پیش کیے گئے ہیں جو کسی ملک و قوم اور کسی خاص زمانے کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ اس کی ہر تعلیم عالم گیر بھی ہے اور جاودانی بھی۔
۵۔ اس کے اندر ان تمام حقائق و معارف اور خیرات و صالحات کو جمع کر دیا گیا ہے جو اس سے پہلے آسمانی کتابوں میں بیان کیے گئے تھے۔ کسی مذہب کی کتاب سے ایسی کوئی بات نکال کر نہیں بتائی جا سکتی جو حق اور نیکی ہو اور قرآن اس کے ذکر سے خالی ہو۔ ایسی جامع کتاب کی موجودگی میں انسان آپ سے آپ دوسری تمام کتابوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
۶۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (Latest Edition) ہے۔ بعض ہدایات، جو پچھلی کتابوں میں مخصوص حالات کے تحت دی گئی تھیں، وہ اس میں سے نکال دی گئیں، اور بہت سی نئی تعلیمات جو پچھلی کتابوں میں نہ تھیں، اس میں اضافہ کر دی گئیں۔ لہٰذا جو شخص آبأو اجداد کا نہیں بلکہ فی الواقع خدائی ہدایت کا پیرو ہے، اس کے لیے لازم ہے کہ اسی آخری اور جدید ایڈیشن کا اتباع کرے نہ کہ پرانے ایڈیشنوں کا۔
یہی وجوہ ہیں جن کی بِنا پر اسلام نے تمام کتابوں سے اتباع کا تعلق منقطع کرکے صرف قرآن پاک کو متبوع قرار دیا ہے اور تمام دنیا کو دعوتِ دی ہے کہ وہ اسی کتاب کو اپنا دستور العمل بنائے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ النسائ 105:4
ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس علمِ حق کے ساتھ فیصلہ کرے جو خدا نے تجھے دیا ہے۔
فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۝۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ اس نبی پرایمان لائے اور جنھوں نے اس کی مدد اور حمایت کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اترا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ ان قوموں کو بھی قرآن پاک پر ایمان لانے اور اس کا اتباع کرنے کی دعوت دی گئی ہے جن کے پاس پہلے سے کوئی آسمانی کتاب موجود ہے۔ چنانچہ بار بار قرآن میں حکم دیا جاتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ النسائ 47:4
اے وہ لوگو جنھیں کتاب دی گئی ہے، ایمان لائو اس کتاب (قرآن) پر جسے ہم نے اتارا ہے اورجو ان کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو تمھارے پاس ہیں۔
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo المائدہ 15-16:5
اے کتاب والو! تمھارے پاس ہمارا رسول آ گیا ہے جو تمھارے لیے ان بہت سی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے، اور بہت سی چیزوں سے معاف بھی کر دیتا ہے۔ تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب آ گئی ہے جس کے ذریعے سے اللّٰہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت بخشتا ہے جو اس کی خوش نودی کا اتباع کرتے ہیں، اور وہ اپنے اذن سے ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ اٰيٰتٍؚبَيِّنٰتٍ۝۰ۚ وَمَا يَكْفُرُ بِہَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَo البقرہ 99:2
اور ہم نے تیری طرف واضح اور کھلی ہوئی آیتیں اتار دی ہیں، اور ان کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔
قرآن کے متعلق تفصیلی عقیدہ
جو کتاب انسان کے لیے فکر و اعتقاد کی صحیح راہ نما قرار دی گئی ہو، اور جسے عملی زندگی کے لیے واجب الاتباع قانون مقرر کیا گیا ہو، اس کی پیروی اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان اس کے صحیح اور برحق ہونے اور غلطیوں سے محفوظ ہونے کا پورا پورا یقین نہ رکھتا ہو۔ کیوں کہ اگر اس کی صحت کے متعلق کسی قسم کے شک نے راہ پالی تو اس پر سے اطمینان اٹھ جائے گا اور پھر جمعیت ِ خاطر کے ساتھ اس کی پیروی نہ کی جا سکے گی۔ اس ضرورت کی بِنا پر ایمان بالقرآن کے لازمی اجزا حسب ذیل ہیں جنھیں قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے:
۱۔ قرآن جس زبان میں اترا تھا اسی عبارت میں محفوظ ہے، کسی قسم کی کمی بیشی اس میں نہیں ہوئی۔ اس پر حسب ذیل آیات دلالت کرتی ہیں:
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗo ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَہٗo
القیامہ 17-19:75
اسے جمع کرنا اور پڑھا دینا ہمارے ذمے ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھیں، تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ پھر اس کے معانی کو سمجھا دینا بھی ہمارا کام ہے۔
سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓىo اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ الاعلیٰ 6-7:87
ہم تمھیں ایسا پڑھائیں گے کہ تم بھولنے نہ پائو گے، بجز اس کے جسے خدا بھلانا چاہے۔
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo الحجر 9:15
اس ذکر (قرآن) کو ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ۝۰ۭۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ الکہف 27:18
تیری طرف تیرے رب کی کتاب سے جو کچھ وحی کیا گیا ہے اس کی تلاوت کر، اس کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔
۲۔ قرآن کی تنزیل میں کسی شیطانی قوت کا ذرّہ برابر دخل نہیں ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّيٰطِيْنُo وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَo اِنَّہُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَo الشعرائ 210-212:26
اسے لے کر شیطان نہیں اترے ہیں، نہ یہ کام ان کے کرنے کا ہے، نہ وہ اسے کر سکتے ہیں، بلکہ وہ تو وحی کے سننے سے بھی دور رکھے گئے ہیں۔
۳۔ قرآن میں خود نبیؐ کی خواہش کا بھی کوئی دخل نہیں:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 3-4:53
وہ اپنے دل کی خواہش سے نہیں بول رہا ہے، بلکہ یہ جو کچھ ہے وحی ہے جو اس پر اتاری جاتی ہے۔
۴۔ قرآن میں باطل کو ہرگز کوئی راہ نہیں ملی:
وَاِنَّہٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌo لَّا يَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ۝۰ۭ تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍo حمٰ سجدہ 41-42:41
یقیناً یہ ایک محفوظ و مضبوط کتاب ہے، باطل نہ اس کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ یہ ایک حکیم اور سزاوارِ حمد ہستی کی اتاری ہوئی ہے۔
۵۔ قرآن سراسر حق ہے، گمان اور اندازے کی بِنا پر نہیں بلکہ علم کی بِنا پر اتارا گیا ہے، اس میں کجی اور ٹیڑھ نہیں ہے، ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ دکھاتا ہے:
وَيَرَى الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ہُوَالْحَقَّ۝۰ۙ وَيَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِo سبا 6:34
اور جو لوگ علم رکھتے ہیں وہ اس کتاب کو، جو تیری طرف تیرے رب کے پاس سے اتاری گئی ہے، سمجھتے ہیں کہ یہ حق ہے اور خدائے عزیز و حمید کی طرف ہدایت کرتی ہے۔
وَلَقَدْ جِئْنٰہُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰہُ عَلٰي عِلْمٍ ہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَo
الاعراف 52:7
اور ہم ان کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جسے ہم نے علم کی بِناپر مومنوں کے لیے مفصل ہدایت اور رحمت بنایا ہے۔
قُلْ اَنْزَلَہُ الَّذِيْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ الفرقان 6:25
اے محمدؐ! کہہ دو کہ یہ کتاب اس نے اتاری ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب راز جانتا ہے۔
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ۝۰ۚۖۛ فِيْہِ البقرہ 2:2
یہی ایک کتاب ہے جس میں کوئی بات شک کی بِنا پرنہیں کہی گئی ہے۔
وَلَمْ يَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًاo قَيِّـمًا الکہف 1-2:18
اور خدا نے اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔ وہ بالکل سیدھا ہے۔
اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ يَہْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ بنی اسرائیل 9:17
اور بے شک یہ قرآن وہی راستہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔
۶۔ قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات میں رد و بدل کا حق کسی کو، حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی نہیں ہے:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۝۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۝۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍo یونس 15:10
اے محمدؐ! کہہ دو کہ میں اس کتاب کو اپنی طرف سے بدلنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اسی وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف اتاری جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
۷۔ جو چیز قرآن کے خلاف ہے وہ ہرگز قابلِ اتباع نہیں ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭ الاعراف 3:7
جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر دوسرے کار سازوں کی پیروی نہ کرو۔
یہ قرآن مجید کے متعلق اسلام کا تفصیلی عقیدہ ہے اور اس کے ہر جز پر اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ جس کے عقیدے میں کسی جز کی بھی کمی ہو گی وہ قرآن کا صحیح اور کامل اتباع نہ کر سکے گا اور اس راہِ راست سے ہٹ جائے گا جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔
جامعۂ اسلامی کا سنگِ بنیاد
ایک کتاب اورایک رسول پر ایمان، اسی کا اتباع، اسی کے بنائے ہوئے سانچے میں ذہنیتوں کا ڈھل جانا، اسی ایک منبع سے تمام اعتقادات و عبادات اور اخلاق و معاملات اور جملہ مدنی قوانین کا ماخوذ ہونا، اور اسی ایمان و اطاعت اور اتباع کے رشتے میں تمام پیروانِ اسلام کا منسلک ہونا، اسلام کو ایک مستقل تہذیب اور مسلمانوں کو ہر قسم کے نسلی و لسانی اور لونی و جغرافی اختلاف کے باوجود ایک قوم بناتا ہے۔ علم و عقل، تحقیق و اجتہاد، نقطۂ نظر اور رجحانِ طبع کے فطری اختلاف سے یہ ممکن ہے کہ آیاتِ قرآنی اور سنتِ نبویؐ سے مسائل کے استنباط میں اور ان کے مفہوم و مقصود کے سمجھنے میں اختلاف واقع ہو جائے۔ لیکن ایسا اختلاف محض جزوی اور فروعی اختلاف ہے، اور یہ ان مختلف فقہی اورکلامی مذاہب کو الگ الگ دین، اور ان کے ماننے والوں کو جدا جدا قومیں نہیں بناتا۔ اصل چیز جس پر ملت اسلام کی بِنا قائم ہے، محمدؐ کو بحیثیت ِ رسولؐ خدا ہونے کے واحد مقتدا، اور قرآن کو بحیثیت کتابِ الٰہی ہونے کے واحد کتابِ آئین تسلیم کرنا اور اسی سرچشمے کو جملہ عقائد اور قوانین کا ماخذ قرار دینا ہے۔ اس اصل میں جو لوگ متفق ہیں وہ سب ایک قوم ہیں، خواہ ان کے درمیان فرعی امور میں کتنا ہی اختلاف ہو۔ اور اس اصل سے جو لوگ اختلاف رکھتے ہیں وہ سب اسلام کی نظر میں ایک دوسری قوم ہیں، خواہ وہ خود آپس میں کتنی ہی مختلف قومیّتوں میں بٹے ہوئے ہوں۔
قرآن دراصل ان تمام امور کا جامع ہے جن پر اسلام کی بِنا قائم ہے۔ جو قرآن پر ایمان لایا، وہ گویا خدا اور اس کے ملائکہ اور اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یومِ آخر پر بھی ایمان لے آیا۔ کیوں کہ یہ تمام ایمانیات اپنی تفصیلات کے ساتھ قرآن میں موجود ہیں اور ایمان بالقرآن کے راست اور درست ہو جانے کا یقینی ثمرہ یہی ہے کہ انسان کو پورا ایمان حاصل ہو جائے۔ اسی طرح قرآن میں شریعت اسلام کے تمام اصول اور اساسی قوانین بھی مندرج ہیں جن کو صاحبِ شریعت علیہ السلام نے اپنے قول اور اپنے عمل سے واضح اور مشرّح کر دیا ہے۔ لہٰذا جو شخص صحیح ایمان کے ساتھ قرآن اور سنت ِ رسول کو اپنی زندگی کے تمام معاملات میں واجب الاتباع قانون قرار دیتا ہے، وہ یقیناً اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے مسلمان ہے۔ اسی ایمان اور اتباع کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں موجود ہوں گی وہاں اسلام بھی ہو گا اور جہاں یہ نہ ہوں گی وہاں اسلام بھی نہ ہو گا۔

شیئر کریں