Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۵ ۔نتائج

لٹریچر پیش قدمی کرتا ہے۔ رائے عام اس کے پیچھے آتی ہے۔ آخر میں اجتماعی اَخلاق، سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب سپر ڈالتے جاتے ہیں۔ جہاں پیہم ڈیڑھ سو سال تک فلسفہ، تاریخ، اَخلاقیات، فنونِ حکمت، ناول، ڈراما، تھیٹر، آرٹ، غرض دماغوں کو تیار کرنے والے اور ذہنوں کو ڈھالنے والے تمام آلات اپنی متحدہ طاقت کے ساتھ ایک ہی طرز خیال کو انسانی ذہن کے ریشہ ریشہ میں پیوست کرتے رہیں، وہاں اس طرزِ خیال سے سوسائٹی کا متاثر نہ ہونا غیرممکن ہے۔ پھر جس جگہ حکومت اور ساری اجتماعی تنظیمات کی بنیاد جمہوری اصولوں پر ہو وہاں یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ رائے عام کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میں تغیر نہ ہو۔
۱۔ صنعتی انقلاب اور اس کے اثرات
اتفاق یہ کہ عین وقت پر دوسرے تمدنی اسباب بھی سازگار ہو گئے۔ اسی زمانہ میں صنعتی انقلاب (industrial revolution) رو نما ہوا۔ اس سے معاشی زندگی میں جو تغیرات واقع ہوئے، اور تمدنی زندگی پر ان کے جو اثرات مرتب ہوئے وہ سب کے سب حالات کا رخ اسی سمت میں پھیر دینے کے لیے تیار تھے جدھر یہ انقلابی لٹریچر انھیں پھیرنا چاہتا تھا۔ شخصی آزادی کے جس تصور پر نظام سرمایہ داری کی تعمیر ہوئی تھی اسے مشین کی ایجاد اور کثیر پیداواری (mass production)کے امکانات نے غیر معمولی قوت بہم پہنچا دی۔ سرمایہ دار طبقوں نے بڑے بڑے صنعتی اور تجارتی ادارے قائم کیے۔ صنعت و تجارت کے نئے مرکز رفتہ رفتہ عظیم الشان شہر بن گئے۔ دیہات و متصلات سے لاکھوں کروڑوں انسان کھچ کھچ کر ان شہروں میں جمع ہوتے چلے گئے۔ زندگی حد سے زیادہ گراں ہو گئی۔ مکان، لباس، غذا اور تمام ضروریاتِ زندگی پر آگ برسنے لگی۔ کچھ ترقی تمدن کے سبب سے اور کچھ سرمایہ داروں کی کوششوں سے بے شمار نئے اسباب عیش بھی زندگی کی ضروریات میں داخل ہو گئے، مگر سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کی تقسیم اِس طرز پر نہیں کی کہ جن آسائشوں، لذتوں اور آرائشوں کو اس نے زندگی کی ضروریات میں داخل کیا تھا، انھیں حاصل کرنے کے وسائل بھی اسی پیمانہ پر سب لوگوں کو بہم پہنچاتا۔ اس نے تو عوام کو اتنے وسائلِ معیشت بھی بہم نہ پہنچائے کہ جن بڑے بڑے شہروں میں وہ انھیں گھسیٹ لایا تھا، وہاں کم از کم زندگی کی حقیقی ضروریات… مکان، غذا اور لباس وغیرہ… ہی انھیں بآسانی حاصل ہو سکتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شوہر پر بیوی اور باپ پر اولاد تک بارِ گراں بن گئی۔ ہر شخص کے لیے خود اپنے آپ ہی کو سنبھالنا مشکل ہو گیا، کجا کہ وہ دوسرے متعلقین کا بوجھ اٹھائے۔ معاشی حالات نے مجبور کر دیا کہ ہر فرد کمانے والا فرد بن جائے۔ کنواری، شادی شدہ اور بیوہ سب ہی قسم کی عورتوں کو رفتہ رفتہ کسبِ رزق کے لیے نکل آنا پڑا۔ پھر جب دونوں صنفوں میں ربط و اختلاط کے مواقع زیادہ بڑھے اور اس کے فطری نتائج ظاہر ہونے لگے تو اسی شخصی آزادی کے تصور اور اسی نئے فلسفۂ اخلاق نے آگے بڑھ کر باپوں اور بیٹیوں، بہنوں اور بھائیوں، شوہروں اور بیویوں، سب کو اطمینان دلایا کہ کچھ گھبرانے کی بات نہیں، جو کچھ ہو رہا ہے، خوب ہو رہا ہے، یہ گراوٹ نہیں اُٹھان (emancipation)ہے، یہ بد اخلاقی نہیں عین لطفِ زندگی ہے، یہ گڑھا جس میں سرمایہ دار تمھیں پھینک رہا ہے دوزخ نہیں جنت ہے جنت!
۲۔ سرمایہ دارانہ خود غرضی
اور معاملہ یہیں تک نہیں رہا۔ حریت شخصی کے اس تصور پر جس نظامِ سرمایہ داری کی بِنا اُٹھائی گئی تھی اس نے فرد کو ہر ممکن طریقہ سے دولت کمانے کا غیر مشروط اور غیر محدود اجازت نامہ دے دیا اور نئے فلسفہ اَخلاق نے ہر اس طریقہ کو حلال و طیب ٹھہرایا جس سے دولت کمائی جا سکتی ہو، خواہ ایک شخص کی دولت مندی کتنے ہی اشخاص کی تباہی کا نتیجہ ہو۔ اس طرح تمدن کا سارا نظام ایسے طریقے پر بنا کہ جماعت کے مقابلہ میں ہر پہلو سے فرد کی حمایت تھی اور فرد کی خود غرضیوں کے مقابلہ میں جماعت کے لیے تحفظ کی صورت نہ تھی۔ خود غرض افراد کے لیے سوسائٹی پر تاخت کرنے کے سارے راستے کھل گئے۔ انھوں نے تمام انسانی کم زوریوں کو چن چن کر تاکا اور انھیں اپنی اغراض کے لیے استعمال (exploit)کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کرنا شروع کیے۔ ایک شخص اُٹھتا ہے اور وہ اپنی جیب بھرنے کے لیے لوگوں کو شراب نوشی کی لعنت میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ کوئی نہیں جو سوسائٹی کو اس طاعون کے چوہے سے بچائے۔ دوسرا اٹھتا ہے اور وہ سود خواری کا خیال دنیا میں پھیلا دیتا ہے۔ کوئی نہیں جو اس جونک سے لوگوں کے خونِ حیات کی حفاظت کرے…… بلکہ سارے قوانین اسی جونک کے مفاد کی حفاظت کر رہے ہیں تاکہ کوئی اس سے ایک قطرہ خون بھی نہ بچا سکے…… تیسرا اُٹھتا ہے اور وہ قمار بازی کے عجیب طریقے رائج کرتا ہے، حتّٰی کہ تجارت کے بھی کسی شعبہ کو قمار بازی کے عنصر سے خالی نہیں چھوڑتا۔ کوئی نہیں جو اس تپ محرقہ سے انسان کی حیات معاشی کا تحفظ کر سکے ۔ انفرادی خود سری اور بغی و عدوان کے اس ناپاک دور میں غیر ممکن تھا کہ خود غرض افراد کی نظر انسان کی اس بڑی اور شدید ترین کم زوری… شہوانیت… پر نہ پڑتی جسے بھڑکا کر بہت کچھ فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس سے بھی کام لیا گیا اور اتنا کام لیا گیا جتنا لینا ممکن تھا۔ تھیٹروں میں، رقص گاہوں میں اورفلم سازی کے مرکزوں میں سارے کاروبار کا مدار ہی اس پر قرار پایا کہ خوب صورت عورتوں کی خدمات حاصل کی جائیں، انھیں زیادہ سے زیادہ برہنہ اور زیادہ سے زیادہ ہیجان انگیز صورت میں منظر عام پر پیش کیا جائے اور اس طرح لوگوں کی شہوانی پیاس کو زیادہ سے زیادہ بھڑکا کر ان کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جائے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے عورتوں کو کرایہ پر چلانے کا انتظام کیا اور قحبہ گری کے پیشہ کو ترقی دے کر ایک نہایت منظم بین الاقوامی تجارت کی حد تک پہنچا دیا۔ کچھ اور لوگوں نے زینت اور آرائش کے عجیب عجیب سامان نکالے اور انھیں خوب پھیلایا تاکہ عورتوں کے پیدائشی جذبہ حسن آرائی کو بڑھا کر دیوانگی تک پہنچا دیں اور اس طرح دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹیں۔ کچھ اور لوگوں نے لباس کے نئے شہوت انگیز اور عریاں فیشن نکالے اور خوب صورت عورتوں کو اس لیے مقرر کیا کہ وہ انھیں پہن کر سوسائٹی میں پھریں، تاکہ نوجوان مرد کثرت سے راغب ہوں، اور نوجوان لڑکیوں میں اس لباس کے پہننے کا شوق پیدا ہو اور اس طرح موجدِ لباس کی تجارت فروغ پائے۔ کچھ اور لوگوں نے برہنہ تصویروں اور فحش مضامین کی اشاعت کو روپیہ کھینچنے کا ذریعہ بنایا اور اس طرح عوام کو اخلاقی جذام میں مبتلا کرکے خود اپنی جیبیں بھرنا شروع کر دیں۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مشکل ہی سے تجارت کا کوئی ایسا شعبہ باقی رہ گیا ہو جس میں شہوانیت کا عنصر شامل نہ ہو۔ کسی تجارتی کاروبار کے اشتہار کو دیکھ لیجیے۔ عورت کی برہنہ یا نیم برہنہ تصویر اس کی جزوِ لاینفک ہو گی۔ گویا عورت کے بغیر اب کوئی اشتہار، اشتہار نہیں ہو سکتا، ہوٹل، ریسٹوران، شوروم کوئی جگہ آپ کو ایسی نہ ملے گی جہاں عورت اس غرض سے نہ رکھی گئی ہو کہ مرد اس کی طرف کھچ کر آئیں۔ غریب سوسائٹی جس کا کوئی محافظ نہیں، صرف ایک ہی ذریعہ سے اپنے مفاد کی حفاظت کر سکتی تھی کہ خود اپنے اَخلاقی تصورات سے ان حملوں کی مدافعت کرتی اور اس شہوانیت کو اپنے اوپر سوار نہ ہونے دیتی۔ مگر نظامِ سرمایہ داری ایسی کچی بنیادوں پر نہیں اٹھا کہ یوں اس کے حملے کو روکا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مکمل فلسفہ اور زبردست شیطانی لشکر…… لٹریچر بھی تو تھا جو ساتھ ساتھ اَخلاقی نظریات کی شکست و ریخت بھی کرتا جا رہا تھا۔ قاتل کا کمال یہی ہے کہ جسے قتل کرنے جائے اسے بطوع و رغبت قتل ہونے کے لیے تیار کر دے۔
۳۔ جمہوری نظامِ سیاست
مصیبت اتنے پر بھی ختم نہ ہوئی۔ مزید برآں، اسی تصورِ آزادی نے مغرب میں جمہوری نظامِ حکم رانی کو جنم دیا جو اس اَخلاقی انقلاب کی تکمیل کا ایک طاقت وَر ذریعہ بن گیا۔
جمہوریتِ جدیدہ کا اصل الاصول یہ ہے کہ لوگ خود اپنے حاکم اور خود اپنے قانون ساز ہیں، جیسے قوانین چاہیں اپنے لیے بنائیں اور جن قوانین کو پسند نہ کریں ان میں جیسی چاہیں ترمیم و تنسیخ کر دیں۔ ان کے اوپر کوئی ایسا بالاتر اقتدار نہیں جو انسانی کم زوریوں سے پاک ہو اور جس کی ہدایت و راہ نمائی کے آگے سرجھکا کرانسان بے راہ روی سے بچ سکتا ہو۔ ان کے پاس کوئی ایسا اساسی قانون نہیں جو اٹل ہو اور انسان کی دست رس سے باہر ہواور جس کے اصولوں کو ناقابلِ ترمیم و تنسیخ مانا جائے۔ ان کے لیے کوئی ایسا معیار نہیں جوصحیح اور غلط کی تمیز کے لیے کسوٹی ہو اور انسانی اہوا اور خواہشات کے ساتھ بدلنے والا نہ ہو بلکہ مستقل اور ثابت ہو۔ اس طرح جمہوریت کے جدید نظریہ نے انسان کو بالکل خود مختار اور غیر ذمہ دار فرض کرکے آپ ہی اپنا شارع بنا دیا اور ہر قسم کی قانون سازی کا مدار صرف رائے عام پر رکھا۔
اب یہ ظاہر ہے کہ جہاں اجتماعی زندگی کے سارے قوانین رائے عام کے تابع ہوں اور جہاں حکومت اسی جمہوریتِ جدیدہ کے اِلٰہ کی عبد ہو۔ وہاں قانون اور سیاست کی طاقتیں کسی طرح سوسائٹی کو اَخلاقی فساد سے نہیں بچا سکتیں۔ بلکہ بچانا کیا معنی، آخرکار وہ خود اسے تباہ کرنے میں معین و مددگار بن کر رہیں گی۔ رائے عام کے ہر تغیر کے ساتھ قانون بھی بدلتا چلا جائے گا۔ جوں جوں عام لوگوں کے نظریات بدلیں گے، قانون کے اصول اور ضوابط بھی ان کے مطابق ڈھلتے جائیں گے۔ حق، خیر اور اصلاح کا کوئی معیار اس کے سوا نہ ہوگا کہ ووٹ کس طرف زیادہ ہیں۔ ایک تجویز، خواہ وہ بجائے خود کتنی ہی ناپاک کیوں نہ ہو، اگر عوام میں اتنی مقبولیت حاصل کر چکی ہے کہ ۱۰۰ میں سے ۵۱ ووٹ حاصل کر سکتی ہے تو اسے تجویز کے مرتبے سے ترقی کرکے شریعت بن جانے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ اس کی بدترین عبرت انگیز مثال وہ ہے جو نازی دَور سے پہلے جرمنی میں ظاہر ہوئی۔ جرمنی میں ایک صاحب ڈاکٹر ماگنوس ہر شفیلڈ (Magnus Hirsch Feld) ہیں جو دُنیا کی مجلس اِصلاح صنفی (World League of Sexual Reform) کے صدر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے عملِ قومِ لوط کے حق میں چھے سال تک زبردست پروپیگنڈا کیا۔ آخر کار جمہوریت کا اِلٰہ اس حرام کو حلال کرنے پر راضی ہو گیا اور جرمن پارلیمنٹ نے کثرتِ رائے سے یہ طے کر دیا کہ اب یہ فعل جرم نہیں ہے بشرطیکہ طرفین کی رضا مندی سے اس کا اِرتکاب کیا جائے اور معمول کے نابالغ ہونے کی صورت میں اس کا ولی ایجاب و قبول کی رسم ادا کر دے۔
قانون اس جمہوری اِلٰہ کی عبادت میں ذرا نسبتاً سست کار واقع ہوا ہے۔ اس کے اوامر کا اتباع کرتا تو ہے مگر کسل اور کاہلی کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ نقص جو عبودیت کی تکمیل میں باقی رہ گیا ہے، اس کی کسر حکومت کے انتظامی کل پرزے پوری کر دیتے ہیں۔ جو لوگ ان جمہوری حکومتوں کے کاروبار چلاتے ہیں وہ قانون سے پہلے اس لٹریچر اور ان اَخلاقی فلسفوں کا اور ان عام رجحانات کا اثر قبول کر لیتے ہیں جو ان کے گرد و پیش پھیلے ہوتے ہیں۔ ان کی عنایت سے ہر وہ بداخلاقی سرکاری طور پر تسلیم کر لی جاتی ہے جس کا رواج عام ہو گیا ہو۔ جو چیزیں قانونًا ابھی تک ممنوع ہیں ان کے معاملہ میں عملًا پولیس اور عدالتیں قانون کے نفاذ سے احتراز کرتی ہیں اور اس طرح وہ گویا حلال کے درجے میں ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اسقاط ہی کو لے لیجیے۔ یہ مغربی قوانین میں اب بھی حرام ہے مگر کوئی ملک ایسا نہیں جہاں علی الاعلان اور بکثرت اس کا ارتکاب نہ ہو رہا ہو۔ انگلستان میں کم از کم اندازہ کے مطابق ہر سال ۹۰ ہزار حمل اسقاط کیے جاتے ہیں۔ شادی شدہ عورتوں میں سے کم از کم ۲۵ فی صدی ایسی ہیں جو یا تو خود اسقاط کر لیتی ہیں یا کسی ماہرِ فن کی مدد حاصل کرتی ہیں۔ غیرشادی شدہ عورتوں میں اس کا تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔ بعض مقامات پر عملاً باقاعدہ اسقاط کلب قائم ہیں۔ جنھیں خواتین کرام ہفتہ وار فیس ادا کرتی ہیں تاکہ موقع پیش آنے پر ایک ماہرِ اسقاط کی خدمات آسانی سے حاصل ہو جائیں۔ لندن میں ایسے بہت سے نرسنگ ہوم ہیں جہاں زیادہ ترمریضات وہ ہوتی ہیں جنھوں نے اسقاط کرایا ہوتا ہے۔{ FR 6796 }
اس کے باوجود انگلستان کی کتابِ آئین میں اسقاط ابھی تک جرم ہی ہے۔
۴۔حقائق و شواہد
اب مَیں ذرا تفصیل سے بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں عناصر، یعنی جدید اَخلاقی نظریات، سرمایہ دارانہ نظامِ تمدن اور جمہوری نظامِ سیاسی، مل جل کر اجتماعی اَخلاق اور مرد و عورت کے صنفی تعلق کو کس طرح متاثر کر رہے ہیں اور ان سے فی الحقیقت کس قسم کے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ چوں کہ اس وقت تک میں نے زیادہ تر سرزمین فرانس کا ذکر کیا ہے جہاں سے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ لہٰذا میں سب سے پہلے فرانس ہی کو شہادت میں پیش کروں گا۔{ FR 6798 }
۵۔ اَخلاقی حس کا تعطل
پچھلے باب میں جن نظریات کا ذکر کیا جا چکا ہے ان کی اشاعت کا اولین اثر یہ ہوا کہ صنفی معاملات میں لوگوں کی اخلاقی حس مفلوج ہونے لگی۔ شرم و حیا اور غیرت و حمیت روز بروز مفقود ہوتی چلی گئی۔ نکاح و سفاح کی تمیز دلوں سے نکل گئی اور زنا ایک معصوم چیز بن گئی جسے اب کوئی عیب یا قباحت کی بات سمجھا ہی نہیں جاتا کہ اسے چھپانے کا اہتمام کیا جائے۔
انیسویں صدی کے وسط بلکہ اخیر تک عام فرانسیسیوں کے اخلاقی نظریہ میں صرف اتنا تغیر ہوا تھا کہ مردوں کے لیے زنا کو بالکل ایک معمولی فطری چیز سمجھا جاتا تھا۔ والدین اپنے نوجوان لڑکوں کی آوارگی کو (بشرطیکہ وہ امراضِ خبیثہ یا عدالتی کارروائی کا موجب نہ بن جائے) بخوشی گوارا کرتے تھے، بلکہ اگر وہ مادی حیثیت سے مفید ہو، تو اس پر خوش بھی ہوتے تھے۔ ان کے خیال میں کسی مرد کا کسی عورت سے نکاح کے بغیر تعلق رکھنا کوئی معیوب فعل نہ تھا۔ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ والدین نے اپنے نوجوان لڑکوں پر خود زور دیا ہے کہ وہ کسی بااثر مال دار عورت سے تعلقات قائم کرکے اپنا مستقبل درخشاں بنائیں۔ لیکن اس وقت تک عورت کے معاملہ میں نظریہ اس سے بہت مختلف تھا۔ عورت کی عصمت بہرحال ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھی۔ وہی والدین جو اپنے لڑکے کی آوارگی کو جوانی کی ترنگ سمجھ کر گوارا کر لیتے تھے۔ اپنی لڑکی کے دامن پر کوئی داغ دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ بدکار مرد جس طرح بے عیب سمجھا جاتا تھا، بدکار عورت اس طرح بے عیب نہ سمجھی جاتی تھی۔ پیشہ ور فاحشہ کا ذکر جس ذلت کے ساتھ کیا جاتاتھا، اس کے پاس جانے والے مرد کے حصہ میں وہ ذلت نہ آتی تھی۔ اسی طرح ازدواجی رشتہ میں بھی عورت اور مرد کی اَخلاقی ذمہ داری مساوی نہ تھی۔ شوہر کی بدکاری گوارا کر لی جاتی تھی مگر بیوی کی بدکاری ایک سخت ترین معیوب چیز تھی۔
بیسویں صدی کے آغاز تک پہنچتے پہنچتے یہ صورتِ حال بدل گئی۔ تحریکِ آزادی نسواں نے عورت اورمرد کی اَخلاقی مساوات کا جو صور پھونکا تھا اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ عام طور پر عورت کی بدکاری کو بھی اسی طرح غیر معیوب سمجھنے لگے جس طرح مرد کی بدکاری کو سمجھتے تھے، اور نکاح کے بغیر کسی مرد سے تعلق رکھنا عورت کے لیے بھی کوئی ایسا فعل نہ رہا جس سے اس کی شرافت و عزت پر بٹا لگتا ہو۔
پول بیورو لکھتا ہے:
نہ صرف بڑے شہروں میں بلکہ فرانس کے قصبات و دیہات میں اب نوجوان مرد اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ جب ہم عفیف نہیں ہیں تو ہمیں اپنی منگیتر سے بھی عفت کا مطالبہ کرنے اور یہ چاہنے کا کہ وہ ہمیں کنواری ملے، کوئی حق نہیں ہے۔ برگنڈی، بون اور دوسرے علاقوں میں اب یہ عام بات ہے کہ ایک لڑکی شادی سے پہلے بہت سی ’’دوستیاں‘‘ کر چکتی ہے اور شادی کے وقت اسے اپنے منگیتر سے اپنی گزشتہ زندگی کے حالات چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ لڑکی کے قریب ترین رشتہ داروں میں بھی اس کی بدچلنی پر کسی قسم کی ناپسندیدگی نہیں پائی جاتی۔ وہ اس کی ’’دوستیوں‘‘ کا ذکر آپس میں اس طرح بے تکلف کرتے ہیں گویا کسی کھیل یا روزگار کا ذکر ہے اور نکاح کے موقع پر دولھا صاحب جو اپنی بیوی کی سابق زندگی سے نہیں بلکہ ان کے ان ’’دوستوں‘‘ تک سے واقف ہوتے ہیں جو اب تک اس کے جسم سے لطف اٹھاتے رہے ہیں، اس امر کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو اس بات کا شبہ تک نہ ہونے پائے کہ انھیں اپنی دولہن کے ان مشاغل پر کسی درجہ میں بھی کوئی اعتراض ہے۔ (ص:۹۴)
آگے چل کر لکھتا ہے:
فرانس میں متوسط درجہ کے تعلیم یافتہ طبقوں میں یہ صورت حال بکثرت دیکھی جاتی ہے اور اب اس میں قطعًا کوئی غیر معمولی پن نہیں رہا ہے کہ ایک اچھے خاندان کی تعلیم یافتہ لڑکی، جو کسی دفتر یا تجارتی فرم میں ایک اچھی جگہ پر کام کرتی ہے اور شائستہ سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے، کسی نوجوان سے مانوس ہو گئی اور اس کے ساتھ رہنے لگی۔ اب یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ آپس میں شادی کر لیں۔ دونوں شادی کے بغیر ہی ایک ساتھ رہنا مرجع سمجھتے ہیں۔ محض اس لیے کہ دونوں کے دل بھر جانے کے بعد الگ ہونے اور کہیں اور دل لگانے کی آزادی حاصل رہے۔ سوسائٹی میں ان کے تعلق کی یہ نوعیت سب کو معلوم ہوتی ہے۔ شائستہ طبقوں میں دونوں مل کر آتے جاتے ہیں۔ نہ وہ خود اپنے تعلق کو چھپاتے ہیں، نہ کوئی دوسرا ان کی ایسی زندگی میں کسی قسم کی بُرائی محسوس کرتا ہے۔ ابتدا میں یہ طرزِ عمل کارخانوں میں کام کرنے والے لوگوں نے شروع کیا تھا۔ اوّل اوّل اسے سخت معیوب سمجھا گیا۔ مگر اب یہ اُونچے طبقے میں عام ہو گیا ہے اور اجتماعی زندگی میں اس نے وہی جگہ حاصل کر لی ہے جو کبھی نکاح کی تھی۔ (ص ۹۴۔۹۶)
اس نوعیت کی داشتہ کو اب باقاعدہ تسلیم کیا جانے لگا۔ موسیو برتلیمی (M. Berthelemv) پیرس یونی ورسٹی کا معلمِ قانون لکھتا ہے کہ رفتہ رفتہ ’’داشتہ‘‘ کو وہی قانونی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جو پہلے ’’بیوی‘‘ کی تھی۔ پارلیمنٹ میں اس کا تذکرہ آنے لگا ہے۔ حکومت اس کے مفادکی حفاظت کرنے لگی ہے۔ ایک سپاہی کی داشتہ کو وہی نفقہ دیا جاتا ہے جو اس کی بیوی کے لیے مقرر ہے۔ سپاہی اگر مرجائے تو اس کی داشتہ کو وہی پنشن ملتی ہے جو منکوحہ بیوی کو ملتی ہے۔
فرانسیسی اخلاقیات میں زنا کے غیر معیوب ہونے کی کیفیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ۱۹۱۸ء میں ایک مدرسہ کی معلمہ مس ہونے کے باوجود حاملہ پائی گئی۔ محکمہ تعلیم میں کچھ پرانے خیالات کے لوگ بھی موجود تھے۔ انھوں نے ذرا شور مچایا۔ اس پر معززین کا ایک وفد وزارتِ تعلیم میں حاضر ہوا اور اس کے حسبِ ذیل دلائل اتنے وزنی پائے گئے کہ معلمہ کا معاملہ رفع دفع کر دیا گیا:
۱۔ کسی کی پرائیویٹ زندگی سے لوگوں کو کیا مطلب؟
۲۔ اور پھر اس نے آخر کس جرم کا ارتکاب کیا ہے؟
۳۔ اورکیا نکاح کے بغیر ماں بننا زیادہ جمہوری طریقہ نہیں ہے؟
فرانسیسی فوج میں سپاہیوں کو جو تعلیم دی جاتی ہے اس میں من جملہ دوسرے ضروری مسائل کے یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ امراضِ خبیثہ سے محفوظ رہنے اور حمل روکنے کی کیا تدابیر ہیں۔ گویا یہ بات تو مسلم ہی ہے کہ ہر سپاہی زنا ضرور کرے گا۔ ۳؍مئی ۱۹۱۹ء کو فرانس کی ۱۲۷ ویں ڈویژن کے کمانڈر نے سپاہیوں کے نام ایک اعلان شائع کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:
معلوم ہوا ہے کہ فوجی قحبہ خانوں پربندوقچیوں کے ہجوم کی وجہ سے عام سوار اور پیادہ فوج کے سپاہیوں کو شکایت ہے۔ وہ گلہ کرتے ہیں کہ بندوقچیوں نے ان جگہوں پراپنا اجارہ قائم کر لیا ہے اور وہ دوسروں کو موقع ہی نہیں دیتے۔ ہائی کمانڈ کوشش کر رہا ہے کہ عورتوں کی تعداد میں کافی اضافہ کر دیا جائے، مگرجب تک یہ انتظام نہیں ہوتا، بندوقچیوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ زیادہ دیر تک اندر نہ رہا کریں اور اپنی خواہشات کی تسکین میں ذرا عجلت سے کام لیا کریں۔
غور تو کیجیے یہ اعلان دنیا کی ایک مہذب ترین حکومت کے فوجی محکمہ کی طرف سے باضابطہ سرکاری طور پر شائع کیا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زنا کے اخلاقًا معیوب ہونے کا وہم تک ان لوگوں کے دل و دماغ میں باقی نہیں رہا ہے۔ سوسائٹی، قانون، حکومت سب کے سب اس تصور سے خالی ہو چکے ہیں۔{ FR 6800 }
جنگِ عظیم سے کچھ مدت پہلے فرانس میں ایک ایجنسی اس اصول پر قائم کی گئی تھی کہ ہر عورت خواہ وہ اپنے حالات، ماحول، مالی کیفیت اور عادی اخلاقی چال چلن کے اعتبار سے کیسی ہی ہو، بہرحال ’’ایک نئے تجربے‘‘ کے لیے آمادہ کی جا سکتی ہے۔ جو صاحب کسی خاتون سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہوں وہ بس اتنی زحمت اٹھائیں کہ ان لیڈی صاحبہ کا اتا پتا بتا دیں اور ۲۵ فرانک ابتدائی فیس کے طور پر داخل کر دیں۔ اس کے بعد صاحبہ موصوفہ کو معاملہ پر راضی کر لینا ایجنسی کا کام ہے۔ اس ایجنسی کے رجسٹر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ فرنچ سوسائٹی کا کوئی طبقہ ایسا نہ تھا جس کے کثیر التعداد لوگوں نے اس سے ’’بزی نس‘‘ نہ کیا ہو اور یہ کاروبار حکومت سے بھی مخفی نہ تھا۔ (پول بیورو، صفحہ۱۶)
اس اخلاقی زوال کی انتہا یہ ہے کہ:
فرانس کے بعض اضلاع میں بڑے شہروں کی گھنی آبادی رکھنے والے حصوں میں قریب ترین نسبی رشتہ داروں کے درمیان حتّٰی کہ باپ اور بیٹی اور بھائی اور بہن کے درمیان صنفی تعلقات کا پایا جانا بھی اب کوئی انوکھا واقعہ نہیں رہا ہے۔
۶۔ فواحش کی کثرت
جنگِ عظیم سے پہلے موسیو بیولو (M.Bulot)فرانس کے اٹارنی جنرل نے اپنی رپورٹ میں ان عورتوں کی تعداد ۵ لاکھ بتائی تھی جو اپنے جسم کو کرایہ پر چلاتی ہیں۔ مگر وہاں کی زنانِ بازاری کو ہندوستان کی پیشہ ور فاحشات پر قیاس نہ کر لیجیے۔ شائستہ اور متمدن ملک ہے۔ اس کے سب کام شائستگی، تنظیم اور فی الجملہ بلند پیمانے پر ہوتے ہیں۔ وہاں اس پیشہ میں فن اشتہار سے پورا کام لیا جاتا ہے۔ اخبار، مصور، پوسٹ کارڈ، ٹیلی فون اور شخصی دعوت نامے، غرض تمام مہذب طریقے گاہکوں کی توجہ منعطف کرانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور پبلک کا ضمیر اس پر کوئی ملامت نہیں کرتا۔ بلکہ اس تجارت میں جن عورتوں کو زیادہ کام یابی نصیب ہو جاتی ہے وہ بسا اوقات ملکی سیاسیات، مالیات اور اعیان و امرا کے طبقوں میں کافی بااقتدار ہو جاتی ہیں۔ وہی ترقی جو کبھی یونانی تمدن میں اس طبقہ کی عورتوں کو نصیب ہوئی تھی۔
فرنچ سینٹ کے ایک رکن موسیو فروناں وریفو (M. Ferdinand Dreyfus) نے اب سے چند سال پہلے بیان کیا تھا کہ قحبہ گری کا پیشہ اب محض ایک انفرادی کام نہیں رہا ہے بلکہ اس کی ایجنسی سے جو عظیم مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کی وجہ سے اب یہ ایک تجارت (business) اور ایک منظم حرفہ (organised industry)بن گیا ہے۔ اس کے ’’خام پیداوار‘‘ مہیا کرنے والے ایجنٹ الگ ہیں، سفری ایجنٹ الگ ہیں۔ اس کی باقاعدہ منڈیاں موجود ہیں۔ جوان لڑکیاں اور کم سن بچیاں وہ تجارتی مال ہیں جس کی درآمد برآمد ہوتی ہے، اور دس سال سے کم عمر لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے۔
پول بیورو لکھتا ہے:
یہ ایک زبردست نظام ہے جو پورے منظم طریقہ سے تنخواہ یاب عہدہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ چل رہا ہے۔ ناشرین اور اہلِ قلم (publicist)خطبا و مقررین، اطبا اور قابلات (mid wives) اور تجارتی سیاح اس میں باقاعدہ ملازم ہیں اور اشتہاراورمظاہرہ کے جدید طریقے اس کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
فحش کاری کے ان اڈوں کے ماسوا ہوٹلوں، چائے خانوں اور رقص خانوں میں علی الاعلان قحبہ گری کا کاروبار ہو رہا ہے اور بعض اوقات بہیمیت انتہائی ظلم اور قساوت کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ ۱۹۱۲ء میں ایک مرتبہ مشرقی فرانس کے ایک میربلد(mayor)کو مداخلت کرکے ایک ایسی لڑکی کی جان بخشی کرانا پڑی تھی جسے دن بھر میں ۴۷ گاہکوں سے پالا پڑ چکا تھا اور ابھی مزید گاہک تیار کھڑے تھے۔
تجارتی قحبہ خانوں کے علاوہ خیراتی ’’قحبہ خانوں‘‘ کی ایک نئی قسم پیدا کرنے کا شرف جنگِ عظیم کو حاصل ہوا۔ جنگ کے زمانہ میں محب وطن خواتین نے سرزمین فرانس کی حفاظت کرنے والے بہادروں کی ’’خدمت‘‘ فرمائی تھی اور جنھیں اس خدمت کے صلے میں بے باپ کے بچے مل گئے تھے، انھیں (war-god mothers)کا معزز لقب عطا ہوا۔ یہ ایسا اچھوتا تخیل ہے کہ اردو زبان اس کا ترجمہ کرنے سے عاجز ہے۔ یہ خواتین منظم صورت میں قحبہ گری کرنے لگیں اور ان کی امداد کرنا سیاہ کاروں کے لیے ایک اخلاقی کام بن گیا۔ بڑے بڑے روزانہ اخباروں اور خصوصًا فرانس کے دو مشہور مصور جریدوں فنتاسیو (Fantasion) اور لاوی پاریزیاں (La-vie-Parisienne)نے ان کی طرف ’’مردانِ کار‘‘ کی توجہ منعطف کرانے کی خدمت سب سے بڑھ کر انجام دی۔ ۱۹۱۷ء کے آغاز میں موخر الذکر اخبار کا صرف ایک نمبر ان عورتوں کے ۹۹ اشتہارات پر مشتمل تھا۔
۷۔شہوانیت اور بے حیائی کی وبا
فواحش کی یہ کثرت اور مقبولیت شہوانی جذبات کے جس اشتعال کا نتیجہ ہے وہ لٹریچر، تصاویر، سینما، تھیٹر، رقص اور برہنگی و بے حیائی کے عام مظاہروں سے رونما ہوتا ہے۔
خود غرض سرمایہ داروں کا ایک پورا لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے اور اس ذریعہ سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔ روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات، مصور جرائد اور نصف ماہی اور ماہ وار رسالے انتہا درجہ کے فحش مضامین اور شرم ناک تصویریں شائع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے زیادہ موثر ذریعہ ہے۔ اس کام میں اعلیٰ درجہ کی ذہانت، فن کاری اور نفسیات کی مہارت صرف کی جاتی ہے تاکہ شکار کسی طرف سے بچ کر نہ جا سکے۔ ان کے علاوہ صنفی مسائل پر حد درجہ ناپاک لٹریچر پمفلٹوں اور کتابوں کی شکل میں نکلتا رہتا ہے، جن کی کثرتِ اشاعت کا یہ حال ہے کہ ایک ایک ایڈیشن پچاس ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے اور بسا اوقات ساٹھ ساٹھ ایڈیشنوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ بعض اشاعت خانے تو صرف اسی لٹریچر کی اشاعت کے لیے مخصوص ہیں۔ بہت سے اہلِ قلم ایسے ہیں جو اسی ذریعہ سے شہرت اور عزت کے مرتبے پر پہنچے ہیں۔ اب کسی فحش کتاب کا لکھنا کسی کے لیے بے عزتی نہیں ہے، بلکہ اگر کتاب مقبول ہو جائے تو ایسے مصنّفین فرنچ اکیڈمی کے ممبر یا کم از کم ’’کردے دانیو‘‘ (corix d honneus) { FR 7932 } کے مستحق ہو جاتے ہیں۔
حکومت ان تمام بے شرمیوں اور ہیجان انگیزیوں کو ٹھنڈے دل سے دیکھتی رہتی ہے۔ کبھی کوئی بہت ہی زیادہ شرم ناک چیز شائع ہو گئی تو پولیس نے بادل نخواستہ چالان کر دیا۔ مگر اوپر فراخ دل عدالتیں بیٹھی ہیں جن کی بارگاہِ عدل سے اس قسم کے مجرموں کو صرف تنبیہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جو لوگ عدالت کی کرسیوں پر جلوہ فرما ہوتے ہیں ان میں سے اکثر اس لٹریچر سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور بعض حکامِ عدالت کا اپنا قلم فحش صنفی لٹریچر کی تصنیف سے آلودہ ہوتا ہے۔ اتفاقًا اگر کوئی مجسٹریٹ دقیانوسی خیال کا نکل آیا اور اس سے ’’بے انصافی‘‘ کا اندیشہ ہوا تو بڑے بڑے ادیب اور نام وَر اہلِ قلم بالاتفاق اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہیں، اور زورشور سے اخبارات میں لکھا جاتا ہے کہ آرٹ اور لٹریچر کی ترقی کے لیے آزاد فضا درکار ہے، قرونِ مظلمہ کی سی ذہنیت کے ساتھ اَخلاقی بندشیں لگانے کے معنی تو یہ ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا گلا گھونٹ دیا جائے۔
اور یہ فنونِ لطیفہ کی ترقی ہوتی کس کس طرح ہے؟ اس میں ایک بڑا حصہ ان ننگی تصویروں اور عملی تصویروں کا ہے جن کے البم لاکھوں کی تعداد میں تیار کیے جاتے ہیں اور نہ صرف بازاروں، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں بلکہ مدرسوں اور کالجوں تک میں پھیلائے جاتے ہیں۔ امیل پوریسی (Emile Poureisy)نے جمعیت انسداد فواحش کے دوسرے اجلاس عام میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں وہ لکھتا ہے:
یہ گندے فوٹو گراف لوگوں کے حواس میں شدید ہیجان و اختلال برپا کرتے ہیں اور اپنے بد قسمت خریداروں کو ایسے ایسے جرائم پر اکساتے ہیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں پر ان کا تباہ کن اثر حد بیان سے زیادہ ہے۔ بہت سے مدرسے اور کالج انھی کی بدولت اَخلاقی اور جسمانی حیثیت سے برباد ہو چکے ہیں۔ خصوصًا لڑکیوں کے لیے تو کوئی چیز اس سے زیادہ غارت گر نہیں ہو سکتی۔
اور انھی فنونِ لطیفہ کی خدمت تھیٹر، سینما، میوزک ہال اور قہوہ خانوں کی تفریحات کے ذریعہ سے ہو رہی ہے۔ وہ ڈرامے جن کی تمثیل کو فرنچ سوسائٹی کے اونچے سے اونچے طبقے دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں اور جن کے مصنّفین اور کام یاب نقالوں پر تحسین و آفرین کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں۔ بلا استثنا سب کے سب شہوانیت سے لبریز ہیں اور ان کی نمایاں خصوصیت بس یہ ہے کہ اَخلاقی حیثیت سے جو کریکٹر بدترین ہو سکتا ہے اسے ان میںمثل اعلیٰ اور اسوہ حسنہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پول بیورو کے بقول ’’تیس چالیس‘‘ سال سے ہمارے ڈراما نگار زندگی کے جو نقشے پیش کر رہے ہیں انھیں دیکھ کر اگر کوئی شخص ہماری تمدنی زندگی کا اندازہ لگانا چاہے تو وہ بس یہ سمجھے گا کہ ہماری سوسائٹی میں جتنے شادی شدہ جوڑے ہیں سب خائن اور ازدواجی وفاداری سے عاری ہیں۔ شوہر یا بے وقوف ہوتا ہے یا بیوی کے لیے بلائے جان اور بیوی کی بہترین صفت اگرکوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہر وقت شوہر سے دل برداشتہ ہونے اور ادھر ادھر دل لگانے کے لیے تیار رہے۔
اُونچی سوسائٹی کے تھیٹروں کا جب یہ حال ہے تو عوام کے تھیٹروں اور تفریح گاہوں کا جو رنگ ہو گا اس کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ بدترین آوارہ منش لوگ جس زبان، جن ادائوں اور جن عریانیوں سے مطمئن ہو سکتے ہیں وہ بغیر کسی شرم و حیا اور لاگ لپیٹ کے وہاں پیش کر دی جاتی ہیں اور عوام کو اشتہارات کے ذریعہ سے یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ تمھاری شہوانی پیاس جو جو کچھ مانگتی ہے وہ سب یہاں حاضر ہے۔ ہمار اسٹیج تکلف سے خالی اور حقیقت پر مبنی (realistic) ہے۔ امیل پوریسی نے اپنی رپورٹ میں متعدد مثالیں پیش کی ہیں جو مختلف تفریح گاہوں میں گشت لگا کر جمع کی گئی تھیں۔ ناموں کو اس نے حروفِ تہجی کے پردے میں چھپا دیا ہے۔
’’ب‘‘ میں ایکٹریس کے گیت، تکلمات (monologues) اور حرکات، انتہا درجہ کے فحش تھے اور پردہ پر جو پس منظر پیش کیا گیا تھا وہ بعض صنفی اختلاط کے آخری مدارج تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا تھا۔ ایک ہزار سے زیادہ تماشائی موجود تھے جن میں شرفا بھی نظر آتے تھے اور سب عالمِ بے خودی میں صداہائے آفرین و مرحبا بلند کر رہے تھے۔
’’ن‘‘ میں چھوٹے چھوٹے گیت، ان کے درمیان چھوٹے چھوٹے بول اور ان کے ساتھ حرکات و سکنات، بے شرمی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ بچے اور کم سن نوجوان اپنے والدین کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس تماشے کو دیکھ رہے تھے اور پرجوش طریقے سے ہر شدید بے شرمی پر تالیاں بجاتے تھے۔
’’ل‘‘ میں حاضرین کے ہجوم نے پانچ مرتبہ شور مچا کر ایک ایسی ایکٹریس کو اعادے پر مجبور کیا جو اپنے ایکٹ کو ایک حد درجہ فحش گیت پر ختم کرتی تھی۔
’’ر‘‘ میں حاضرین نے ایسی ہی ایک اور ایکٹریس سے بار بار فرمائش کرکے ایک نہایت فحش چیز کا اعادہ کرایا۔ آخر اس نے بگڑ کر کہا ’’تم کتنے بے شرم لوگ ہو، دیکھتے نہیں کہ ہال میں بچے موجود ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایکٹ پورا کیے بغیر ہٹ گئی۔ چیز اتنی فحش تھی کہ وہ عادی مجرمہ بھی اس کی تکرارکو برداشت نہ کر سکتی تھی۔
’’ز‘‘ میں تماشا ختم ہونے کے بعد ایکٹرسوں پر لاٹری ڈالی گئی۔ لاٹری کے ٹکٹ خود ایکٹریسیں دس دس سانتیم میں فروخت کر رہی تھیں۔ جس شخص کے نام جو ایکٹریس نکل آئی وہ اس رات کے لیے اس کی تھی۔
پول بیورو لکھتا ہے کہ بسا اوقات اسٹیج پر بالکل برہنہ عورتیں تک پیش کر دی جاتی ہیں جن کے جسم پر کپڑے کے نام کا ایک تار بھی نہیں ہوتا۔اڈولف بریساں (Adolphe Briason) نے ایک مرتبہ فرانس کے مشہور اخبار ’’طان‘‘ (tamps) میں ان چیزوں پر احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ اب بس اتنی کسر رہ گئی ہے کہ اسٹیج پر فعل مباشرت کا منظر پیش کر دیا جائے۔‘‘ اور یہ سچ ہے کہ ’’آرٹ‘‘ کی تکمیل تو اسی وقت ہو گی!
مانع حمل کی تحریک اور صنفیات (sexual science) کے نام نہاد علمی اور طبی لٹریچر نے بھی بے حیائی پھیلانے، اور لوگوں کے اَخلاق بگاڑنے میں بڑا حصہ لیا ہے۔ پبلک جلسوں میں تقریروں اور میجک لینٹرن کے ذریعہ سے، اور مطبوعات میں تصاویر اور تشریحی بیانات کے ذریعہ سے حمل اور اس کے متعلقات اور مانع حمل آلات کے طریق استعمال کی وہ وہ تفصیلات بیان کی جاتی ہیں جن کے بعد کوئی چیز قابلِ اظہار باقی نہیں رہ جاتی۔ اسی طرح صنفیات کی کتابوں میں تشریحِ بدن سے لے کر آخر تک معاملات صنفی کے کسی پہلو کو بھی روشنی میں لائے بغیر نہیں چھوڑا جاتا۔ بظاہر ان سب چیزوں پر علم اور سائنس کا غلاف چڑھا دیا گیا ہے تاکہ یہ اعتراض سے بالاتر ہو جائیں۔ بلکہ مزید ترقی کرکے ان چیزوں کی اشاعت کو ’’خدمتِ خلق‘‘ کے نام سے بھی موسوم کر دیا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم تو لوگوں کو صنفی معاملات میں غلطیاں کرنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس لٹریچر اور اس تعلیم کی عام اشاعت نے عورتوں، مردوں اور کم سن نوجوانوں میں سخت بے حیائی پیدا کر دی ہے۔ اس کی بدولت آج یہ نوبت آ گئی ہے کہ ایک نوخیز لڑکی جو مدرسے میں تعلیم پاتی ہے اور ابھی سن بلوغ کو بھی پوری طرح نہیں پہنچتی ہے، صنفی معاملات کے متعلق وہ معلومات رکھتی ہے جو کبھی شادی شدہ عورتوں کو بھی حاصل نہ تھیںاور یہی حال نوخیز بلکہ نابالغ لڑکوں کا بھی ہے ان کے جذبات قبل از وقت بیدار ہو جاتے ہیں۔ ان میں صنفی تجربات کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ پوری جوانی کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ اپنے آپ کو خواہشاتِ نفسانی کے چنگل میں دے دیتے ہیں۔ نکاح کے لیے تو عمر کی حد مقرر کی گئی ہے مگر ان تجربات کے لیے کوئی حد مقرر نہیں۔ بارہ تیرہ سال کی عمر ہی سے ان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
۸۔ قومی ہلاکت کے آثار
جہاں بد اخلاقی، نفس پرستی اور لذاتِ جسمانی کی بندگی اس حد کو پہنچ چکی ہو، جہاں عورت، مرد، جوان، بوڑھے سب کے سب عیش کوشی میں اس قدر منہمک ہو گئے ہوں اور جہاں انسان کو شہوانیت کے انتہائی اشتعال نے یوں آپے سے باہر کر دیا ہو، ایسی جگہ ان تمام اسباب کا بروئے کار آ جانا بالکل ایک طبعی امر ہے جو کسی قوم کی ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں۔ لوگ اس قسم کی برسرِانحطاط علی شفا حفرۃ من النار قوموں کو برسر عروج دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ان کی عیش پرستی ان کی ترقی میں مانع نہیں ہے بلکہ الٹی مددگار ہے اور یہ کہ ایک قوم کے انتہائی عروج و ترقی کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب وہ لذت پرستی کے انتہائی مرتبہ پر ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک سراسر غلط استنتاج ہے۔ جہاں تعمیر اور تخریب کی قوتیں ملی جلی کام کر رہی ہوں اور مجموعی حیثیت سے تعمیر کا پہلو نمایاں نظر آتا ہو، وہاں تخریبی قوتوں کو بھی اسبابِ تعمیر میں شمار کر لینا صرف اس شخص کا کام ہو سکتا ہے جس کی عقل خبط ہو گئی ہو۔
مثال کے طور پراگر ایک ہوشیار تاجر اپنی ذہانت، محنت اور آزمودہ کاری کے سبب لاکھوں روپیہ کما رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ مے نوشی، قمار بازی اور عیاشی میں بھی مبتلا ہو گیا ہے، تو آپ کتنی بڑی غلطی کریں گے اگر اس کی زندگی کے ان دونوں پہلوئوں کو اس کی خوش حالی اور ترقی کے اسباب میں شمار کر لیں گے۔ دراصل اس کی صفات کا پہلا مجموعہ اس کی تعمیر کا موجب اور دوسرا مجموعہ اس کی تخریب میں لگا ہوا ہے۔ پہلے مجموعہ کی طاقت سے اگر عمارت قائم ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ دوسرے مجموعہ کی تخریبی طاقت اپنا اثر نہیں کر رہی ہے۔ ذرا گہری نظر سے دیکھیے تو پتا چلے گا کہ یہ تخریبی قوتیں اس کے دماغ اور جسم کی طاقتوں کو برابر کھائے جا رہی ہیں۔ اس کی محنت سے کمائی ہوئی دولت پر ڈاکا ڈال رہی ہیں، اور اسے بتدریج تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وقت اس تاک میں لگی ہوئی ہیں کہ کب ایک فیصلہ کن حملہ کا موقع ملے اور یہ ایک ہی وار میں اس کا خاتمہ کر دیں۔ قمار بازی کا شیطان کسی بُری گھڑی اس کی عمر بھر کی کمائی کو ایک سیکنڈ میں غارت کر سکتا ہے اور وہ اس گھڑی کا منتظر بیٹھا ہے۔ مے نوشی کا شیطان وقت آنے پر اس سے عالمِ مدہوشی میں ایسی غلطی کرا سکتا ہے جو یک لخت اسے دیوالیا بنا کر چھوڑ دے اور وہ بھی گھات میں لگا ہوا ہے۔ بدکاری کا شیطان بھی اس گھڑی کا انتظارکر رہا ہے جب وہ اسے قتل یا خود کشی یا کسی اور اچانک تباہی میں مبتلا کر دے۔ تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اگر وہ ان شیاطین کے چنگل میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو اس کی ترقی کا کیا حال ہوتا۔
ایسا ہی معاملہ ایک قوم کا بھی ہے۔ وہ تعمیری قوتوں کے بل پر ترقی کرتی ہے، مگر صحیح راہ نمائی نہ ملنے کی وجہ سے ترقی کی طرف چند ہی قدم بڑھانے کے بعد خود اپنی تخریب کے اسباب فراہم کرنے لگتی ہے۔ کچھ مدت تک تعمیری قوتیں اپنے زور میں اسے آگے بڑھائے لیے چلی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ تخریبی قوتیں اس کی زندگی کی طاقت کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھاتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ آخر کار اسے اتنا کھوکھلا کرکے رکھ دیتی ہیں کہ ایک اچانک صدمہ اس کے قصرِ عظمت کو آن کی آن میں پیوندِ خاک کر سکتا ہے۔ یہاں مختصر طور پر ہم ان بڑے بڑے نمایاں اسبابِ ہلاکت کو بیان کریں گے جو فرنچ قوم کے اس غلط نظامِ معاشرت نے ان کے لیے پیدا کیے ہیں۔
۹۔ جسمانی قوتوں کا اِنحطاط
شہوانیت کے اس تسلط کا اولین نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فرانسیسیوں کی جسمانی قوت رفتہ رفتہ جواب دیتی چلی جا رہی ہے۔ دائمی ہیجانات نے ان کے اعصاب کم زور کر دیے ہیں۔ خواہشات کی بندگی نے ان میں خبط اور برداشت کی طاقت کم ہی باقی چھوڑی ہے اور امراضِ خبیثہ کی کثرت نے ان کی صحت پر نہایت مہلک اثر ڈالا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ کیفیت ہے کہ فرانس کے فوجی حکام کو مجبورًا ہر چند سال کے بعد نئے رنگروٹوں کے لیے جسمانی اہلیت کے معیار کو گھٹا دینا پڑتا ہے، کیوں کہ اہلیت کا جو پہلے معیار تھا اب اس معیار کے نوجوان قوم میں کم از کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک معتبر پیمانہ ہے جو تھرما میٹر کی طرح قریب قریب یقین صحت کے ساتھ بتاتا ہے کہ فرنچ قوم کی جسمانی قوتیں کتنی تیزی کے ساتھ بتدریج گھٹ رہی ہیں۔ امراضِ خبیثہ اس تنزل کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہیں۔ جنگِ عظیم اوّل کے ابتدائی دو سالوں میں جن سپاہیوں کو محض آتشک کی وجہ سے رخصت دے کر ہسپتالوں میں بھیجنا پڑا ان کی تعداد ۷۵۰۰۰ تھی۔ صرف ایک متوسط درجہ کی فوجی چھائونی میں بیک وقت ۲۴۲ سپاہی اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ ایک طرف اس وقت کی نزاکت کو دیکھیے کہ فرانسیسی قوم کی موت اور حیات کا فیصلہ درپیش تھا اور اس کے وجود و بقا کے لیے ایک ایک سپاہی کی جاں فشانی درکار تھی۔ ایک ایک فرانک بیش قیمت تھا اور وقت، قوت، وسائل ہر چیز کی زیادہ سے زیادہ مقدار دفاع میں خرچ ہونے کی ضرورت تھی۔ دوسری طرف اس قوم کے جوانوں کو دیکھیے کہ کتنے ہزار افراد اس عیاشی کی بدولت نہ صرف خود کئی کئی مہینوں کے لیے بے کار ہوئے بلکہ انھوں نے اپنی قوم کی دولت اور وسائل کو بھی اس آڑے وقت میں اپنے علاج پر ضائع کرایا۔
ایک فرانسیسی ماہر فن ڈاکٹر لیرید (Dr. Laredde) کا بیان ہے کہ فرانس میں ہر سال صرف آتشک اور اس کے پیدا کردہ امراض کی وجہ سے ۳۰ ہزار جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور دق کے بعد یہ مرض سب سے زیادہ ہلاکتوں کا باعث ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک مرضِ خبیث کا حال ہے اور امراض خبیثہ کی فہرست صرف اسی ایک مرض پر مشتمل نہیں ہے۔
۱۰۔ خاندانی نظام کی بربادی
اس بے قید شہوانیت اور آوارہ منشی کے اس رواج عام نے دوسری عظیم الشان مصیبت جو فرانسیسی تمدن پر نازل کی ہے وہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ خاندان کا نظام عورت اور مرد کے اس مستقل اور پائدار تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے۔ اسی تعلق کی بدولت افراد کی زندگی میں سکون، استقلال اور ثبات پیدا ہوتا ہے۔ یہی چیز ان کی انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرتی ہے اور انتشار (انارکی) کے میلانات کو دبا کر انھیں تمدن کا خادم بناتی ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت، امن اور ایثار کی وہ پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے جس میں نئی نسلیں صحیح اخلاق، صحیح تربیت اور صحیح قسم کی تعمیر سیرت کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں۔ لیکن جہاں عورتوں اور مردوں کے ذہن سے نکاح اور اس کے مقصد کا تصور بالکل ہی نکل گیا ہو اور جہاں صنفی تعلق کا کوئی مقصد شہوانی آگ کو بجھا لینے کے سوا لوگوں کے ذہن میں نہ ہو اور جہاں ذواقین و ذواقات کے لشکر کے لشکر بھنوروں کی طرح پھول پھول کا رس لیتے پھرتے ہوں۔ وہاں یہ نظام نہ قائم ہو سکتا ہے۔ نہ قائم رہ سکتا ہے۔ وہاں عورتوں اور مردوں میں یہ صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی کہ ازدواج کی ذمہ داریوں، اس کے حقوق و فرائض اور اس کے اَخلاقی انضباط کا بوجھ سہار سکیں اور ان کی اس ذہنی و اَخلاقی کیفیت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہر نسل کی تربیت پہلی نسل سے بدتر ہوتی ہے۔ افراد میں خود غرضی و خود سری اتنی ترقی کر جاتی ہے کہ تمدن کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نفوس میں تلون اور سیماب وشی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ قومی سیاست اور اس کے بین الاقوامی رویہ میں بھی کوئی ٹھہرائو باقی نہیں رہتا۔ گھرکا سکون بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے افراد کی زندگی تلخ اور تلخ تر ہوتی جاتی ہے اور ایک دائمی اضطراب انھیں کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔ یہ دنیوی جہنم کا عذاب ہے جسے انسان اپنی احمقانہ لذت طلبی کے جنون میں خود مول لیتا ہے۔
فرانس میں سالانہ سات آٹھ فی ہزار کا اوسط اُن مردوں اور عورتوں کا ہے جو ازدواج کے رشتہ میں منسلک ہوتے ہیں۔ یہ اوسط خود اتنا کم ہے کہ اسے دیکھ کر آسانی کے ساتھ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آبادی کا کتنا کثیر حصہ غیر شادی شدہ ہے۔ پھر اتنی قلیل تعداد جو نکاح کرتی ہے ان میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہیں جو باعصمت رہتے اور پاک اَخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیت سے نکاح کرتے ہیں۔ اس ایک مقصد کے سوا ہردوسرا ممکن مقصد ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔ حتّٰی کہ عامۃ الورود مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نکاح سے پہلے ایک عورت نے جو بچہ ناجائز طور پر جنا ہے، نکاح کرکے اسے مولود جائز بنا دیا جائے۔ چنانچہ پول بیورو لکھتا ہے کہ فرانس کے کام پیشہ لوگوں (working classes) میں یہ عام دستور ہے کہ نکاح سے پہلے عورت اپنے ہونے والے شوہر سے اس بات کا وعدہ لے لیتی ہے کہ وہ اس کے بچہ کو اپنا بچہ تسلیم کرے گا۔ ۱۹۱۷ء میں سین (Seine) کی عدالتِ دیوانی کے سامنے ایک عورت نے بیان دیا کہ ’’میں نے شادی کے وقت ہی اپنے شوہر کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس شادی سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قبل از نکاح آزادانہ تعلقات سے ہمارے جو بچے پیدا ہوئے ہیں انھیں ’’حلالی‘‘ بنا دیا جائے۔ باقی رہی یہ بات کہ مَیں اس کے ساتھ بیوی بن کر زندگی گزاروں تو یہ نہ اس وقت میرے ذہن میں تھی اور نہ اب ہے۔ اسی بِنا پر جس روز شادی ہوئی اسی روز ساڑھے پانچ بجے میں اپنے شوہر سے الگ ہو گئی اور آج تک اس سے نہیں ملی کیوں کہ مَیں فرائضِ زوجیت ادا کرنے کی کوئی نیت نہ رکھتی تھی۔‘‘ (صفحہ: ۵۵)
پیرس کے ایک مشہور کالج کے پرنسپل نے پول بیورو سے بیان کیا کہ عمومًا نوجوان نکاح میں صرف یہ مقصد پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ گھر پر بھی ایک داشتہ کی خدمت حاصل کر لیں۔ دس بارہ سال تک وہ ہر طرف آزادانہ مزے چکھتے پھرتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس قسم کی بے ضابطہ، آوارہ زندگی سے تھک کر وہ ایک عورت سے شادی کر لیتے ہیں تاکہ گھر کی آسائش بھی کسی حد تک بہم پہنچے اور آزادانہ ذواقی کا لطف بھی حاصل کیا جاتا رہے۔ (صفحہ: ۵۶)
فرانس میں شادی شدہ اشخاص کا زنا کار ہونا قطعًا کوئی معیوب یا قابلِ ملامت فعل نہیں۔ اگرکوئی شخص اپنی بیوی کے علاوہ کوئی مستقل داشتہ رکھتا ہو تو وہ اسے چھپانے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور سوسائٹی اس فعل کو ایک معمولی اور متوقع بات سمجھتی ہے۔ (صفحہ ۷۶۔۷۷)
ان حالات میں نکاح کا رشتہ اس قدر بودا ہو کر رہ گیا ہے کہ بات بات پر ٹوٹ جاتا ہے۔ بسا اوقات اس بے چارے کی عمر چند گھنٹوں سے متجاوز نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرانس کے ایک معزز شخص نے جو کئی مرتبہ وزیر رہ چکا تھا، اپنی شادی کے صرف پانچ گھنٹا بعد اپنی بیوی سے طلاق حاصل کر لی۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں طلاق کا موجب بن جاتی ہیں جنھیں سن کر ہنسی آتی ہے۔ مثلاً فریقین میں سے کسی ایک کا سوتے میں خراٹے لینا یا کتے کو پسند نہ کرنا۔ سین عدالت دیوانی نے ایک مرتبہ صرف ایک تاریخ میں ۲۹۴ نکاح فسخ کیے۔ ۱۸۴۴ء میں جب طلاق کا نیا قانون پاس ہوا تھا، چار ہزار طلاقیں واقع ہوئی تھیں۔ ۱۹۰۰ء میں یہ تعداد ساڑھے سات ہزار تک پہنچی۔ ۱۹۱۳ء میں ۱۶ ہزار اور ۱۹۳۱ء میں ۲۱ ہزار۔
۱۱۔ نسل کُشی
بچوں کی پرورش ایک اعلیٰ درجہ کا اخلاقی کام ہے جو ضبطِ نفس، خواہشات کی قربانی، تکلیفوں اور محنتوں کی برداشت اور جان و مال کا ایثار چاہتا ہے۔ خود غرض نفس پرست لوگ جن پر انفرادیت اور بہیمیت کا پورا تسلط ہو چکا ہو، اس خدمت کی انجام دہی کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہوسکتے۔
ساٹھ ستر برس سے فرانس میں مانع حمل کی تحریک کا زبردست پرچار ہو رہا ہے۔ اس تحریک کی بدولت سرزمین فرانس کے ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت تک ان تدابیر کا علم پہنچا دیا گیا ہے جن سے آدمی اس قابل ہو سکتا ہے کہ صنفی تعلق اور اس کی لذات سے متمتع ہونے کے باوجود اس فعل کے قدرتی نتیجہ، یعنی استقرار حمل اور تولید نسل سے بچ سکے۔ کوئی شہر، قصبہ یا گائوں ایسا نہیں ہے جہاں مانع حمل دوائیں اور آلات برسرِ عام فروخت نہ ہوتے ہوں اور ہر شخص انھیں حاصل نہ کر سکتا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آزاد شہوت رانی کرنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ شادی شدہ جوڑے بھی کثرت سے ان تدابیر کو استعمال کرتے ہیں اور ہر زن و مرد کی یہ خواہش ہے کہ ان کے درمیان بچہ، یعنی وہ بلا جو تمام لطف و لذت کو کرکرا کر دیتی ہے، کسی طرح خلل انداز نہ ہونے پائے۔ فرانس کی شرح پیدائش جس رفتار سے گھٹ رہی ہے اسے دیکھ کر ماہرین فن نے اندازہ لگایا ہے کہ مانع حمل کی اس وبائے عام کی بدولت کم از کم ۶ لاکھ انسانوں کی پیدائش روک دی جاتی ہے۔
ان تدابیر کے باوجود حمل ٹھہر جاتے ہیں، انھیں اسقاط کے ذریعہ سے ضائع کیا جاتا ہے اور اس طرح مزید تین چار لاکھ انسان دنیا میں آنے سے روک دیے جاتے ہیں۔ اسقاطِ حمل صرف غیرشادی شدہ عورتیں ہی نہیں کراتیں بلکہ شادی شدہ بھی اس معاملہ میں ان کی ہم پلہ ہیں۔ اخلاقًا اس فعل کو ناقابلِ اعتراض، بلکہ عورت کا حق سمجھا جاتا ہے۔ قانون نے اس کی طرف سے گویا آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اگرچہ کتاب آئین میں یہ فعل ابھی تک جرم ہے، لیکن عملًا یہ حال ہے کہ ۳۰۰ میں سے بمشکل ایک کے چالان کی نوبت آتی ہے، اور پھر جن کا چالان ہو جاتا ہے ان میں سے بھی ۷۵ فی صد عدالت میں جا کر چھوٹ جاتے ہیں۔ اسقاط کی طبی تدابیر اتنی آسان اور اس قدر معلوم عوام کر دی گئی ہیں کہ اکثر عورتیں خود ہی اسقاط کر لیتی ہیں اور جو نہیں کر سکتیں انھیں طبی امداد حاصل کرنے میں کوئی دقت نہیں۔ پیٹ کے بچے کو ہلاک کر دینا ان لوگوں کے لیے بالکل ایسا ہو گیا ہے جیسے کسی درد کرنے والے دانت کو نکلوا دینا۔
اس ذہنیت نے فطرتِ مادری کو اتنا مسخ کر دیا ہے کہ وہ ماں جس کی محبت کودنیا ہمیشہ سے محبت کا بلند ترین منتہیٰ سمجھتی رہی ہے، آج اپنی اولاد سے بے زار، متنفر بلکہ اس کی دشمن ہو گئی ہے۔ مانعِ حمل اور اسقاط سے بچ بچا کر جو بچے دنیا میں آ جاتے ہیں ان کے ساتھ سخت بے رحمی کا برتائو کیا جاتا ہے۔ اس دردناک حقیقت کو پول بیورو نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
آئے دن اخبارات میں ان بچوں کے مصائب کی اطلاعات شائع ہوتی رہتی ہیں جن پر ان کے ماں باپ سخت سے سخت ظلم ڈھاتے ہیں۔ اخباروں میں تو صرف غیر معمولی واقعات ہی کا تذکرہ آتا ہے۔ مگر لوگ واقف ہیں کہ عمومًا ان بچوں…… ناخواندہ مہمانوں…… کے ساتھ کیسا بے رحمانہ برتائو کیا جاتا ہے جن سے ان کے والدین صرف اس لیے دل برداشتہ ہیں کہ ان کم بختوں نے آ کر زندگی کا سارا لطف غارت کر دیا۔ جرأت کی کمی اسقاط میں مانع ہو جاتی ہے اور اس طرح ان معصوموں کو آنے کا موقع مل جاتا ہے، مگر جب یہ آ جاتے ہیں تو انھیں اس کی پوری سزا بھگتنا پڑتی ہے۔(صفحہ ۷۴)
یہ بے زاری اور نفرت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ایک مرتبہ ایک عورت کا چھے ماہ کا بچہ مر گیا تو وہ اس کی لاش کو سامنے رکھ کر خوشی کے مارے ناچی اور گائی اور اپنے ہم سایوں سے کہتی پھری کہ ’’اب ہم دوسرا بچہ نہ ہونے دیں گے۔ مجھے اور میرے شوہر کو اس بچے کی موت سے بڑا اطمینان نصیب ہوا ہے۔ دیکھو تو سہی ایک بچہ کیا چیز ہوتا ہے۔ ہر وقت روں روں کرتا رہتا ہے، گندگی پھیلاتا ہے اور آدمی کو کبھی اس سے نجات نصیب نہیں ہوتی۔
اس سے بھی زیادہ دردناک بات یہ ہے کہ بچوں کو قتل کرنے کی وبا تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور فرانسیسی حکومت اور اس کی عدالتیں اسقاطِ حمل کی طرح اس جرمِ عظیم کے معاملہ میںبھی کمال درجہ کا تغافل برت رہی ہیں۔ مثلاً فروری ۱۹۱۸ء میں لوار (loire) کی عدالت میں دو لڑکیاں اپنے بچوں کے قتل کے الزام میں پیش ہوئیں اور دونوں بری کر دی گئیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نے اپنے بچے کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کیا تھا۔ اس کے ایک بچے کو اس کے رشتہ دار پہلے سے پرورش کر رہے تھے اور اس دوسرے بچے کو بھی وہ پرورش کرنے کے لیے آمادہ تھے، مگر اس نے پھر بھی یہی فیصلہ کیا کہ اس غریب کو جیتا نہ چھوڑے۔ عدالت کی رائے میں اس کا جرم قابلِ معافی تھا۔ دوسری لڑکی نے اپنے بچے کو گلا گھونٹ کر مار دیا اور جب گلا گھونٹنے پر بھی اس میں کچھ جان باقی رہ گئی تو دیوار پر مار کر اس کا سر پھوڑ دیا۔ یہ عورت بھی فرانسیسی ججوں اور جیوری کی نگاہ میں قصاص کی سزاوار نہ ٹھہری۔ اسی ۱۹۱۸ء کے ماہ مارچ میں سین کی عدالت کے سامنے ایک رقاصہ پیش ہوئی جس نے اپنے بچہ کی زبان حلق سے کھینچنے کی کوشش کی، پھر اس کا سرپھوڑا اور اس کا گلا کاٹ ڈالا۔ یہ عورت بھی جج اور جیوری کی رائے میں مجرم نہ تھی۔
جو قوم اپنی نسل کی دشمنی میں اس حد کو پہنچ جائے اسے دنیا کی کوئی تدبیر فنا ہونے سے نہیں بچا سکتی۔ نئی نسلوں کی پیدائش ایک قوم کے وجود کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ اگرکوئی قوم اپنی نسل کی دشمن ہے تو دراصل وہ آپ اپنی دشمن ہے، خود کشی کر رہی ہے، کوئی بیرونی دشمن نہ ہو تب بھی وہ آپ اپنی ہستی کو مٹا دینے کے لیے کافی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، فرانس کی شرح پیدائش گزشتہ ساٹھ سال سے پیہم گرتی جا رہی ہے۔ کسی سال شرح اموات شرحِ پیدائش سے بڑھ جاتی ہے، کسی سال دونوں برابر رہتی ہیں اور کبھی شرح پیدائش، شرح اموات کی بہ نسبت مشکل سے ایک فی ہزار زائد ہوتی ہے۔ دوسری طرف سرزمین فرانس میں غیر قوموں کے مہاجرین کی تعداد روز افزوں ہے۔ چنانچہ ۱۹۳۱ء میں فرانس کی ۴ کروڑ ۱۸ لاکھ کی آبادی میں ۲۸ لاکھ ۹۰ ہزار غیر قوموں کے لوگ تھے۔ یہ صورتِ حال یوں ہی رہی تو بیسویں صدی کے اختتام تک فرانسیسی قوم عجب نہیں کہ خود اپنے وطن میں اقلیت بن کر رہ جائے۔
یہ ا نجام ہے ان نظریات کا جن کی بنا پر عورتوں کی آزادی اور حقوقِ نسواں کی تحریک انیسویں صدی کے آغاز میں اٹھائی گئی تھی۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں