سوال: اسلامی مملکت میں اقلیتی فرقوں کو‘ مثلاً عیسائی‘ یہودی‘ بدھ‘ جین‘ پارسی‘ ہندو وغیرہ کو کیا مسلمانوں کی طرح پورے حقوق حاصل ہوں گے؟ کیا ان کو اپنے مذہب کی تبلیغ بھی اسی طرح کرنے کی اجازت ہوگی جیسا کہ آج کل پاکستان اوردیگر ممالک میں کھلے بندوں پرچار ہوتا ہے؟ کیا اسلامی مملکت میں ایسے مذہبی یا نیم مذہبی ادارے مثلاً: ادارہ مکتی فوج (salvation army)،کیتھڈرل‘ کانونٹ‘ سینٹ جان یا سینٹ فرانسز وغیرہ جیسے ادارے قانونًابند کر دیے جائیں گے (جیسا کہ حال میں سیلون میں ہوا یا دو ایک ممالک میں ہو چکا ہے)‘ یا فراخ دلی سے مسلمان بچوں کو وہاں بھی ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے کی عام اجازت ہوگی؟ کیا اس صدی میں بھی ان اقلیتی فرقوں سے جزیہ وصول کرنا مناسب ہوگا (عالمی حقوق انسانی کی روشنی میں بھی) جب کہ وہ نہ صرف فوج اورسرکاری عہدوں پر فائز اور حکومت کے وفادار ہوں؟
جواب: اسلامی مملکت میں غیر مسلم گروہوں کو تمام مدنی حقوق (civil rights) مسلمانوں کی طرح حاصل ہوں گے، مگر سیاسی حقوق (political rights)مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ریاست کے نظام کو چلانا مسلمانوں کی ذمے داری ہے اور مسلمان اس بات پر مامور ہیں کہ جہاں بھی ان کو حکومت کے اختیارات حاصل ہوں وہاں وہ قرآن اورسنت کی تعلیمات کے مطابق حکومت کا نظام چلائیں۔ چونکہ غیر مسلم نہ قرآن اور سنت کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور نہ اس کی اسپرٹ کے مطابق ایمان داری سے کام چلا سکتے ہیں اس لیے وہ اس ذمے داری میں شریک نہیں کیے جا سکتے، البتہ نظم و نسق میں ایسے عُہدے ان کو دیے جاسکتے ہیں جن کاکام پالیسی بنانانہ ہو۔ اس معاملے میں غیر مسلم حکومتوں کا طرزِ عمل منافقانہ ہے اور اسلامی حکومت کا طرز عمل صاف صاف ایمان دارانہ۔ مسلمان اس بات کو صاف صاف کہتے ہیں اور اس پر عمل درآمد کرنے میں خدا کے سامنے اپنی ذمے داری ملحوظ رکھتے ہوئے غیرمسلموں کے ساتھ انتہائی شرافت اور فراخ دلی کا برتائو کرتے ہیں۔ غیر مسلم بظاہر کاغذ پرقومی اقلیتوں (national minorities)کو سب قسم کے حقوق دے دیتے ہیں، مگر عملاً انسانی حقوق تک نہیں دیتے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو دیکھ لے کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں (negroes)کے ساتھ اور روس میں غیر کمیونسٹ باشندوں کے ساتھ اور چین و ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خواہ مخواہ دوسروں سے شرما کر ہم اپنے مسلک کو صاف صاف کیوں نہ بیان کریں اور اس پر صاف صاف کیوں نہ عمل کریں۔
جہاں تک غیر مسلموں کی تبلیغ کا معاملہ ہے اس کے بارے میں یہ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ہم بالکل خود کشی کے لیے ہی تیار نہ ہو جائیں ہمیں یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے کہ اپنے ملک کے اندر ایک طاقت ور اقلیت پیدا ہونے دیں جو غیر ملکی سرمائے سے پرورش پائے اور بڑھے اور جس کی پشت پناہی بیرونی حکومتیں کرکے ہمارے لیے وہی مشکلات پیدا کریں جو ایک مدت دراز تک ترکی کے لیے عیسائی اقلیتیں پیدا کرتی رہی ہیں۔
عیسائی مشنریوں کو یہاں مدارس اور ہسپتال جاری رکھ کر مسلمانوں کے ایمان خریدنے کی کوشش کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی ملت سے بیگانہ (de-nationalise) کرنے کی کھلی اجازت دینا بھی میرے نزدیک قومی خود کشی ہے۔ ہمارے حکمران اس معاملے میں انتہائی کم نظری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ ان کو قریب کے فائدے تو نظر آتے ہیں، مگر دُور رَس نتائج دیکھنے سے ان کی آنکھیں عاجز ہیں۔
اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جب کہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں،یا کسی معاہدے کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عاید کرنا میرے نزدیک شرعًاضروری نہیں ہے۔