– بٹائی کا یہ طریقہ اصولاً صحیح ہے کہ پیداوار جو کچھ بھی ہو اس میں سے مالک زمین اور کاشت کار متناسب طریق پر حصہ تقسیم کرلیں، مثلاً یہی کہ۵/۲ مالک کا اور ۵/۳ کاشت کار کا۔ مگر اس معاملے میں انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لیے یہ لحاظ رکھنا چاہیے کہ ہر کاشت کار کو کم از کم آپ اتنی زمین کاشت کے لیے دیں جس کی پیداوار کا حصہ اس کی انسانی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ نیز تناسب مقرر کرنے میں رواج سے قطع نظر کر کے انصاف کے ساتھ یہ دیکھیں کہ حاصل شدہ پیداوار کی تیاری میں آپ کا اور آپ کے کاشت کار کا واقعی کتنا حصہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی عالم گیر ضابطہ تو بنایا نہیں جاسکتا، اس لیے کہ ہر علاقے کے زراعتی حالات مختلف ہوتے ہیں۔ البتہ بادی النظر میں یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ کی صرف زمین ہو، اور بیج، ہل اور محنت سب کاشتکار کی ہو تو اس صورت میں 2/5 اور 3/5 کی نسبت مبنی برانصاف نہیں ہے۔ بہرحال یہ ضروری ہے کہ مالکانِ زمین اپنے معاملات کو صرف شرعی ضوابط کے مطابق درست کرنے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ کھلے دل سے انصاف کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
۲- آپ کو اس بات کی نگرانی کرنے کا حق ضرور پہنچتا ہے کہ کاشت کاربٹائی سے پہلے مشترک غلے میں بے جا تصرف نہ کریں اور مزارع کی حیثیت سے اپنے فرائض بھی ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں۔ لیکن اس نگرانی کو اس حد تک نہ بڑھنا چاہیے کہ مزارع کی حیثیت بالکل ملازم یا مزدور کی سی ہو کر رہ جائے اور آپ کا نگران عملہ بالکل اپنے حکم کے تحت ان سے کام لینے لگے۔ اصولاً ایک مزارع آپ کا ملازم یا مزدور نہیں ہے بلکہ ایک شریک کاروبار کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرنا چاہیے۔ مجھے مزارعین کی جو شکایات معلوم ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زمیندار اور ان کے ملازمین ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے ہیں اور ان کے ہر کام میں مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ میرا مدعا اسی طریقے کی اصلاح ہے۔