وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًاo وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًاo الفرقان67,68:25
جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں انتہائوں کے درمیان رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔
یعنی نہ تو ان کا یہ حال ہے کہ عیاشی اور قماربازی اور شراب نوشی اور یارباشی اور میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں، اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا، مکان، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زرپرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں، نہ خود کھائیں اور نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں، اور نہ کسی راہِ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں۔ عرب میں دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تنعم تھا یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی اور دولت مندی کے ڈنکے بجوانا۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی ۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی، اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے نمایاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ تھے۔
اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے:
۱۔ ایک ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔
۲۔ دوسرے جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹھ میں صرف کرتا چلا جائے۔
۳۔ تیسرے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مگر اللہ کے لیے نہیں ریا اور نمائش کے لیے۔
اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے۔ ان دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مِنْ فِقْہِ الرَّجُلِ قَصْدُہٗ فِی مَعِیْشَتِہٖ ’’اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ (دانا) ہونے کی علامتوں میں سے ہے۔‘‘ (احمد و طبرانی بروایت ابی الدرداءؓ)( تفہیم القرآن ، جلد اول، ص ۴۹۸۔۴۹۹۔)