اعتراض: آپ کہتے ہیں کہ ’’عربی زبان میں وحی کے معنی اشارۂ لطیف کے ہیں۔‘‘ سوال ’’وحی‘‘ کے لغوی معنی کے متعلق نہیں، سوال اس اصطلاحی ’’وحی‘‘ کے متعلق ہے جو اللّٰہ کی طرف سے حضرات انبیائے کرام کو ملتی تھی۔ کیا اس وحی کے محض ’’لطیف اشارات‘‘ خدا کی طرف سے ہوتے تھے، یا الفاظ بھی منزل من اللّٰہ ہوتے تھے؟ اگر محض لطیف اشارات ہی ہوتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم کے الفاظ حضورﷺ کے اپنے تھے۔‘‘
جواب: اس کا جواب اس کتاب میں ( بہ عنوان: وحی کی اقسام از رُوئے قرآن) موجود ہے جس کے ایک دو فقرے لے کر ڈاکٹر صاحب یہ بحث فرما رہے ہیں۔ قرآن کریم میں معنی اور لفظ دونوں اللّٰہ تعالیٰ کے ہیں اور نبی ﷺ پر اس کو اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپﷺ اسے انھی الفاظ میں لوگوں تک پہنچائیں۔ اسی لیے اس کو وحی متلو کہا جاتا ہے۔ وحی کی دوسری قسم یعنی غیر متلو اپنی نوعیت وکیفیت اور مقصد میں اس سے بالکل مختلف ہے، وہ رسول اللّٰہﷺ کی راہ نُمائی کے لیے آتی تھی اور لوگوں تک وہ اللّٰہ تعالیٰ کے الفاظ میں نہیں بلکہ حضورﷺ کے ارشادات، فیصلوں اور کاموں کی صورت میں پہنچتی تھی۔ اگر ایک شخص یہ تسلیم کرتا ہو کہ نبی کے پاس پہلی قسم کی وحی آ سکتی ہے تو آخر اسے یہ ماننے میں کیا چیز مانع ہے کہ اسی نبی کے پاس دوسری چیز بھی آ سکتی ہے؟ اگر قرآن کا معجزانہ کلام ہمیں یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ اللّٰہ ہی کا کلام ہو سکتا ہے تو کیا رسول پاکﷺ کی معجزانہ زندگی اور آپ کے معجزانہ کارنامے ہمیں یہ یقین نہیں دلاتے کہ یہ بھی خدا ہی کی راہ نُمائی کا نتیجہ ہیں؟