اعتراض: آپ نے آگے چل کر لکھا ہے کہ ’’وحی لازمًا الفاظ کی صورت میں ہی نہیں ہوتی، وہ ایک خیال کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے جو دل میں ڈال دیا جائے۔‘‘ آپ کا دعوٰی تو ہمہ دانی کا ہے اور معلوم اتنا بھی نہیں کہ یہ بات ممکنات میں سے نہیں کہ کسی شخص کے دل میں ایک خیال آئے اور اس کے لیے الفاظ نہ ہوں۔ نہ کوئی خیال الفاظ کے بغیر پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کوئی لفظ بلاخیال کے وجود میں آ سکتا ہے۔ ارباب علم سے پوچھیے کہ ’’وحی بلا الفاظ‘‘ کی ’’مہمل ترکیب‘‘ کا مطلب کیا ہے؟‘‘
جواب: منکرین حدیث کو یہ معلوم نہیں ہے کہ خیال اور جامۂ الفاظ دونوں اپنی حقیقت میں بھی مختلف ہیں اور ان کا وقوع بھی ایک ساتھ نہیں ہوتا، چاہے انسانی ذہن کسی خیال کو جامۂ الفاظ پہنانے میں ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ ہی وقت لے، لیکن بہرحال خیال کے ذہن میں آنے اور ذہن کے اس کو جامۂ الفاظ پہنانے میں ترتیب زمانی ضرور ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دعوٰی کرے کہ انسان کے ذہن میں خیال لازمًا لفظ ہی کے ساتھ آتا ہے تو وہ اس کی کیا توجیہہ کرے گا کہ ایک ہی خیال انگریز کے ذہن میں انگریزی، عرب کے ذہن میں عربی اور ہمارے ذہن میں اردو الفاظ کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انسانی ذہن میں پہلے ایک خیال اپنی مجرد صورت میں آتا ہے، پھر ذہن اس کا ترجمہ اپنی زبان میں کرتا ہے۔ یہ عمل عام طور پر تو بہت تیزی کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو سوچ کر بولنے یا لکھنے کا کبھی موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ بسا اوقات ذہن میں ایک تخیل گھوم رہا ہوتا ہے اور ذہن کو اس کے لیے جامۂ الفاظ تلاش کرنے میں خاصی کاوش کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے یہ بات صرف ایک اناڑی ہی کہہ سکتا ہے کہ خیال الفاظ ہی کی صورت میں آتا ہے یا خیال اور الفاظ لازمًا ایک ساتھ آتے ہیں۔ وحی کی بہت سی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مجرد ایک خیال نبی کے دل میں ڈالا جاتا ہے اور نبی خود اس کو اپنے الفاظ کا جامہ پہناتا ہے اس طرح کی وحی کے غیر متلو ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نہ تو الفاظ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے القا ہوتے ہیں اور نہ نبی اس بات پر مامور ہوتا ہے کہ خاص الفاظ میں اسے لوگوں تک پہنچائے۔