اعتراض: چھٹی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے:
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَ الانفال 7:8
اور جب کہ اللّٰہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں (یعنی تجارتی قافلے اور قریش کے لشکر) میں سے ایک تمھارے ہاتھ آئے گا اور تم چاہتے تھے کہ بے زور گروہ (یعنی تجارتی قافلہ) تمھیں ملے، حالانکہ اللّٰہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی کمر توڑ دے۔
اس کے بعد آپ دریافت فرماتے ہیں کہ:
کیا آپ پورے قرآن میں کسی آیت کی نشان دہی فرما سکتے ہیں جس میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نازل ہوا ہو کہ: اے لوگو جو مدینہ سے بدر کی طرف جا رہے ہو! ہم دو گروہوں میں سے ایک پر تمھیں قابو عطا فرمائیں گے؟
اصولی طور پر یہ وہی کلّی وعدہ تھا جس کے مطابق خدا نے جماعت مومنین سے کہہ رکھا تھا کہ انھیں استخلاف فی الارض عطا کرے گا۔ خدا اور رسولﷺ کامیاب رہیں گے۔ غلبہ وتسلط حزب اللّٰہ کا ہو گا۔ مومن اعلَون ہوں گے۔ خدا کافروں کو مومنوں پر کبھی کامیابی نہیں دے گا۔ مجاہدین مخالفین کے اموال واملاک تک کے مالک ہوں گے، وغیرہ وغیرہ، اور اس خاص واقعے میں یہ ’’وعدہ‘‘ پیش افتادہ حالات (circumstances) دلا رہے تھے جن کی وضاحت قرآن کریم نے یہ کہہ کر دی ہے کہ: وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ الانفال 7:8 یعنی ان میں سے ایک گروہ بغیر ہتھیاروں کے تھا اور اس پر غلبہ پا لینا یقینی نظر آتا تھا۔
مَیں یہ پہلے وضاحت سے بتا چکا ہوں کہ جو باتیں طبعی قوانین کے مطابق ہوں، خدا انھیں بھی اپنی طرف منسوب کر سکتا ہے۔ یہ ’’اللّٰہ کا وعدہ‘‘ بھی اسی قبیل سے تھا یعنی حالات بتا رہے تھے کہ ان دونوں میں سے ایک گروہ پر قابو پا لینا یقینی ہے۔
جواب: یہاں پھر سیاق وسباق اور موقع ومحل کو نظر انداز کرکے سخن سازی کی کوشش کی گئی ہے۔ ذکر ایک خاص موقع کا ہے۔ ایک طرف مکہ سے کفار کا لشکر بڑے سازوسامان کے ساتھ آ رہا تھا اور اس کی فوجی طاقت مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔ دوسری طرف شام سے قریش کا تجارتی قافلہ آرہا تھا جس کے ساتھ بہت سا مال تھا اور فوجی طاقت برائے نام تھی۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس موقع پر ہم نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک پر تم کو غلبہ حاصل ہوجائے گا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ تجارتی قافلے پر ہمیں غلبہ حاصل ہو جائے۔ یہ ایک صاف اور صریح وعدہ تھا جو دو متعین چیزوں میں سے ایک کے بارے میں کیا گیا تھا مگر ڈاکٹر صاحب اس کی دو تاویلیں کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد اِسْتِخلَاف فِی الارض اور اَنْتُمُ الْاَعُلَوْن والا وعدۂ عام ہے، حالانکہ اگر وہ مراد ہوتا تو دونوں پر ہی غلبے کا وعدہ ہونا چاہیے تھا، نہ کہ دو میں سے ایک پر۔ دوسری تاویل وہ یہ کرتے ہیں کہ اس وقت حالات بتا رہے تھے کہ دونوں میں سے ایک گروہ پر قابو پا لینا یقینی ہے، اور حالات کی اسی نشان دہی کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ قرار دیا ہے۔ حالانکہ بدر کی فتح سے پہلے جو حالات تھے وہ یہ بتا رہے تھے کہ تجارتی قافلے پر قابو پا لینا تو یقینی ہے لیکن لشکر قریش پر قابو پانا سخت مشکل ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اسی آیت سے پہلے والی آیت میں خود فرما رہا ہے کہ اس لشکر کے مقابلے پر جاتے ہوئے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہو رہی تھی کہكَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَہُمْ يَنْظُرُوْنَo الانفال6:8 ’’گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں۔‘‘کیا یہی وہ حالات تھے جو بتا رہے تھے کہ لشکرِ قریش پر بھی قابو پا لینا اسی طرح یقینی ہے جس طرح قافلے پر قابو پانا؟ اسی طرح کی سخن سازیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ منکرین حدیث کا یہ گروہ قرآن سے اپنے نظریات نہیں بناتا، بلکہ قرآن پر اپنے نظریات ٹھونستا ہے، خواہ اس کے الفاظ کتنا ہی ان سے انکار کر رہے ہوں۔