اعتراض: آپ پوچھتے ہیں کہ اللّٰہ نے نبی اکرم ﷺ کو جو حکم دیا تھا کہ تم زید کی بیوی سے نکاح کر لو تو وہ قرآن میں کہاں ہے؟ پہلے تو یہ دیکھیے کہ آپ نے لکھا ہے کہ حضورﷺ نے وہ نکاح ’’خدا کے حکم‘‘ سے کیا تھا۔ حالانکہ آیت میں فقط یہ ہے کہ زَوَّجْنٰکَھَا جس کا ترجمہ آپ نے بھی یہ کیا ہے کہ ’’ہم نے اس خاتون کا نکاح تم سے کر دیا۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ جو باتیں خدا کے بتائے ہوئے قاعدے اور قانون کے مطابق کی جائیں۔ انھیں خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے، خواہ وہ کسی کے ہاتھوں سرزد ہوں، جیسے (مثلاً) سورۂ انفال میں مقتولین جنگ کے متعلق ہے۔ فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ 17:8 ’’انھیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللّٰہ نے قتل کیا۔‘‘ حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ قتل جماعتِ مومنین کے ہاتھوں ہی سرزد ہوا تھا۔ یہی مطلب زَوَّجْنٰکَھَا سے ہے یعنی حضورﷺ نے وہ نکاح خدا کے قانون کے مطابق کیا۔ وہ قانون یہ تھا کہ تم پر حرام ہیں۔ حَلَائِلُ اَبْنَائِ کُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ 23:4 ’’تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھارے صلب سے ہوں‘‘ اور چوں کہ منہ بولا بیٹا صلبی نہیں ہوتا اس لیے اس کی بیوی سے نکاح حرام نہیں، جائز ہے۔ حضورﷺ نے خدا کے اس حکم کے مطابق حضرت زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا تھا۔
جواب: منکرینِ حدیث کے پیش نظر تو قرآن سے صرف اپنا مطلب نکالنا ہوتا ہے لیکن اس بحث کو جو لوگ سمجھنا چاہتے ہوں ان سے میں عرض کروں گا کہ براہِ کرم سورۂ احزاب کی پہلی چار آیتیں بغور پڑھیے، پھر پانچویں رکوع کی وہ آیتیں دیکھیے جن میں حضرت زیدؓ کی مطلقہ بیوی سے حضورﷺ کے نکاح کا ذکر ہے۔ پہلی چار آیتوں میں فرمایا گیا ہے کہ اے نبی! کافروں اور منافقوں سے نہ دبو اور اللّٰہ کے بھروسے پر اس وحی کی پیروی کرو جو تم پر کی جا رہی ہے، منہ بولے بیٹے ہرگز اصلی بیٹے نہیں ہیں، یہ صرف ایک قول ہے جو تم لوگ منہ سے نکال دیتے ہو۔ اس ارشاد باری تعالیٰ سے یہ اشارہ تو صاف ملتا ہے کہ جس وحی کا ذکر آیت نمبر ۲ میں کیا گیا ہے وہ منہ بولے بیٹوں کے معاملے سے تعلق رکھتی تھی، لیکن اس میں کوئی صراحت اس امر کی نہیں ہے کہ اس رسم کو توڑنے کے لیے حضورﷺ کو خود اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیات نمبر ۳۷۔۳۹ کے یہ فقرے ملاحظہ ہوں:
فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا۰ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ مَفْعُوْلًاo مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللہُ لَہٗ۰ۭ سُـنَّۃَ اللہِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۰ۭ وَكَانَ اَمْرُ اللہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَۨاo الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللہِ وَيَخْشَوْنَہٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللہَ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ حَسِيْبًاo الاحزاب 37-39:33
پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس خاتون کا نکاح تم سے کر دیا تاکہ اہل ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی ٗبیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے جی بھر چکے ہوں اور اللّٰہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی تھا۔ نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللّٰہ نے اس کے لیے فرض کر دیا ہو۔ اللّٰہ کا یہی طریقہ ان لوگوں کے لیے بھی مقرر تھا جو پہلے گزر چکے ہیں۔ اللّٰہ کا حکم ( ان پیغمبروں کے لیے) ایک جچا تلا فیصلہ ہے، جو اللّٰہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اس کے سوا کسی سے ڈرتے نہیں، اور حساب لینے کے لیے اللّٰہ کافی ہے۔
اس پوری عبارت پر اور خصوصًا خط کشیدہ فقروں پر غور کیجیے۔ کیا یہ مضمون اور یہ اندازِ بیان یہی بتا رہا ہے کہ ایک کام نبی ﷺ نے اللّٰہ کے قانون کے مطابق کیا تھا، اس لیے اللّٰہ نے اسے اپنی طرف منسوب کر دیا؟ یا یہ صاف طور پر اس بات کی صراحت کر رہا ہے کہ اس نکاح کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی حکم دیا تھا اور اس متعین مقصد کے لیے دیا تھا کہ منہ بولے بیٹوں کی بیویاں حقیقی بہوئوں کی طرح حرام نہ رہیں؟ عام لوگوں کے لیے تو ایسے بیٹوں کی مطلقہ بیویوں سے نکاح صرف جائز تھا مگر نبی ﷺ کے لیے اس کو فرض کیا گیا تھا اور یہ فرض اس فریضۂ رسالت کا ایک حصہ تھا جسے ادا کرنے کے لیے حضورﷺ مامور تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کی تقریر ملاحظہ کیجیے اور خود اندازہ کیجیے کہ یہ لوگ واقعی قرآن کے پیرو ہیں، یا قرآن کو اپنے نظریات کا پَیرو بنانا چاہتے ہیں۔