اب میں آپ کے سامنے اسلامی ریاست کی ترکیب اور اس کے طرز عمل کی تھوڑی سی تشریح کروں گا۔ یہ بات میں آپ سے عرض کرچکا ہوں کہ اسلام میں اصلی حاکم اللہ ہے۔ اس اصل الاصول کو پیش نظر رکھ کر جب آپ اس سوال پر غور کریں گے کہ زمین میں جو لوگ خدا کے قانون کو نافذ کرنے کے لیے اٹھیں ان کی حیثیت کیا ہونی چاہیے تو آپ کا ذہن خود بخود پکارے گا کہ وہ اصلی حاکم کے نائب قرار پانے چاہییں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حیثیت اسلام نے بھی ان کو دی ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۔ النور24:55
جو تم میں سے ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا اسی طرح جس طرح ان سے پہلے اس نے دوسروں کو خلیفہ بنایا تھا۔
یہ آیت اسلام کے نظریۂ ریاست (theory of state)پر نہایت صاف روشنی ڈالتی ہے۔ اس میں دو بنیادی نکات بیان کیے گئے ہیں:
٭ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام حاکمیت کے بجائے خلافت (vicegerency) کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ چونکہ اس کے نظریے کے مطابق حاکمیت اللہ کی ہے، لہٰذا جو کوئی اسلامی دستور کے تحت زمین پر حکمران ہو اُسے لامحالہ حاکم اعلیٰ کا خلیفہ (vicegerent)ہونا چاہیے جو محض تفویض کردہ اختیارات (delegated powers) استعمال کرنے کا مجاز ہوگا۔
٭ دوسری کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کسی کو خلیفہ بنائوں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوتی ہے، وہ عمومی خلافت (popular vicegerency)ہے۔ کسی شخص یا خاندان یا نسل یا طبقے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مومن اپنی جگہ اللہ کا خلیفہ ہے۔ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے فردًا فردًاہر ایک اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ (کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۳۵؎ ) اور ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کے مقابلے میں کسی حیثیت سے فروتر نہیں ہے۔
اسلامی جمہوریت کی حیثیت
یہ ہے اسلام میں جمہوریت کی اصل بنیاد۔ عمومی خلافت کے اس تصور کا تجزیہ کرنے سے حسب ذیل نتائج نکلتے ہیں:
۱۔ ایسی سوسائٹی جس میں ہر شخص خلیفہ ہو، اور خلافت میں برابر کا شریک ہو‘ طبقات کی تقسیم اور پیدائشی یا معاشرتی امتیازات کو اپنے اندر راہ نہیں دے سکتی۔ اس میں تمام افراد مساوی الحیثیت اور مساوی المرتبہ ہوں گے۔ فضیلت جو کچھ بھی ہوگی شخصی قابلیت اور سیرت کے اعتبار سے ہوگی۔ یہی بات ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار بہ تصریح بیان فرمایا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے فرمایا:
یٰاَیُّھَا النَّاسُ الَاَ اِنَّ رَبُّکُمْ وَاحِدٌ لَافَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَسْوَدٍ عَلٰی اَحْمَرَ وَلَا لِاَ حْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔
(روح المعانی، بحوالہ بیہقی و ابن مردویہ‘ ج ۲۶،ص۱۴۸)
لوگو! سن رکھو‘ تمھارارب ایک ہے۔ عربی کو عجمی پر، یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں‘ نہ کالے کو گورے پر، یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے۔ فضیلت اگر ہے تو تقویٰ کی بنا پر ہے۔ درحقیقت تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہے۔
فتح مکہ کے بعد جب تمام عرب اسلامی ریاست کے دائرے میں آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے خاندان والوں کو‘ جو عرب میں برہمنوں کی سی حیثیت رکھتے تھے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عَیْبَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَکَبُّرَھَا یٰاَیُّھَا النَّاسُ اَلنَّاسُ رَجُلَانِ بَرٌّ تَقِیٌّ کَرِیْمٌ عَلَی اللّٰہِ وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ ھَیِّنٌ عَلَی اللّٰہِ اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آٰدَمَ وَ خَلَقَ اللّٰہُ آٰدَمَ مِنْ تُرَابٍ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی…الایۃ۔ (بخاری، کتاب الاحکام)
شکر ہے اس اللہ کا جس نے جاہلیت کا عیب اور تکبر تم سے دور کر دیا۔ لوگو‘ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو نیک اور پرہیزگار ہو‘ وہ اللہ کے نزدیک معزز ہے۔ دوسرا وہ جو بداعمال اور شقی ہو‘ وہ اللہ کے نزدیک فرومایہ ہے۔ اصل کے اعتبار سے سب انسان اولاد آدم ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’لوگو! ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے۔‘‘
۲۔ ایسی سوسائٹی میں کسی فرد یا کسی گروہ افراد کے لیے اس کی پیدائش، یا اس کے معاشرتی مرتبے (social status) یا اس کے پیشے کے اعتبار سے اس قسم کی رکاوٹیں (disabilities) نہیں ہوسکتیں جو اس کی ذاتی قابلیتوں کے نشوونما اور اس کی شخصیت کے ارتقا میں کسی طرح بھی مانع ہوں۔ اس کو سوسائٹی کے تمام دوسرے افراد کی طرح ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہونے چاہییں۔ اس کے لیے راستہ کھلا ہوا ہونا چاہیے کہ اپنی قوت و استعداد کے لحاظ سے جہاں تک بڑھ سکتا ہے بڑھتا چلا جائے‘ بغیر اس کے کہ دوسروں کے اسی طور پر بڑھنے میں مانع ہو۔ یہ چیز اسلام میں بدرجۂ اَتم پائی جاتی ہے۔ غلام اور غلام زادے فوجوں کے سپہ سالار اور صوبوں کے گورنر بنائے گئے اور بڑے بڑے اونچے گھرانوں کے شیوخ نے ان کی ماتحتی کی۔ چمار جوتیاں گانٹھتے گانٹھتے اٹھے اور امامت کی مسند پر بیٹھ گئے۔ جولا ہے اور بَزَّاز ٭ مفتی اور قاضی اور فقیہ بنے اور آج ان کے نام اسلام کے بزرگوں کی فہرست میں ہیں۔ حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَلَوْ اِسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ (بخاری، کتاب الاحکام، مشکوٰۃ ۳۴۹۳) سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمھارا سردار ایک حبشی ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔
۳۔ایسی سوسائٹی میں کسی شخص یا گروہ (group) کی ڈکٹیٹر شپ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے کہ یہاں ہر شخص خلیفہ ہے‘ کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں ہے کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو سلب کرکے خود حاکم مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکمران بنایا جاتا ہے اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان یا اصطلاحی الفاظ میں‘ تمام خلفا اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس کی ذات میں مرکوز (concentrate)کر دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے جنھوں نے اپنی خلافت اس کو تفویض کی ہے۔ اب اگر وہ غیر ذمہ دار مطاع مطلق یعنی آمر (dictator)بنتا ہے تو خلیفہ کے بجائے غاصب کی حیثیت اختیار کرتا ہے، کیونکہ آمریت دراصل عمومی خلافت کی نفی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلامی ریاست ایک ہمہ گیر ریاست ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کا دائرہ وسیع ہے‘ مگر اس کلیت اور ہمہ گیری کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کا وہ قانون ہمہ گیر ہے جسے اسلامی حکومت کو نافذ کرنا ہے۔ خدا نے زندگی کے ہر شعبے کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وہ یقیناً پوری ہمہ گیری کے ساتھ نافذ کی جائیں گی، مگر ان ہدایات سے ہٹ کر اسلامی حکومت خود ضابطہ بندی (regimentation) کی پالیسی اختیار نہیں کرسکتی۔ وہ لوگوں کو مجبور نہیں کرسکتی کہ فلاں پیشہ کریں اور فلاں پیشہ نہ کریں‘ فلاں فن سیکھیں اور فلاں نہ سیکھیں‘ اپنے بچوں کو فلاں قسم کی تعلیم دلوائیں اور فلاں قسم کی نہ دلوائیں، اپنے سر پر فلاں قسم کی ٹوپی پہنیں‘ اپنی زبان کے لیے فلاں رسم الخط اختیار کریں‘ اپنی عورتوں کو فلاں قسم کا لباس پہنائیں۔ یہ خداوندانہ اختیارات جو روس اور جرمنی اور اٹلی میں ڈکٹیٹروں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے اور جن کو اتاترک نے ترکی میں استعمال کیا‘ اسلام نے اپنے نظام میں امیر کو ہرگز عطا نہیں کیے ہیں۔ علاوہ بریں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اسلام میں ہر فرد شخصی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ شخصی جواب دہی (personal accountability) ایسی ہے جس میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں۔ لہٰذا اس کو قانون کی حدود کے اندر پوری آزادی ہونی چاہیے کہ اپنے لیے جو راستہ چاہے اختیار کرے اور جدھر اس کا میلان ہو‘ اپنی قوتوں کو اسی طرف بڑھنے کے لیے استعمال کرے۔ اگر امیر اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گا تو وہ خود اس ظلم کے لیے اللہ کے ہاں پکڑا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپؐ کے خلفائے راشدین کی حکومت میں ضابطہ بندی (regimentation) کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
۴۔ ایسی سوسائٹی میں ہر عاقل و بالغ مسلمان کو‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت‘ رائے دہی کاحق حاصل ہونا چاہیے‘ اس لیے کہ وہ خلافت کا حامل ہے۔ اللہ نے اس خلافت کو کسی خاص معیارِ لیاقت یا کسی معیار ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے‘ بلکہ صرف ایمان و عمل ِ صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا رائے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک طرف اسلام نے یہ کمال درجے کی جمہوریت قائم کی ہے۔ دوسری طرف ایسی انفرادیت (individualism) کا سدباب کر دیا ہے جو اجتماعیت کی نفی کرتی ہو۔ یہاں افراد و جماعت کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کی شخصیت جماعت میں گم ہو جائے‘ جس طرح کمیونزم اور فاشزم کے نظام اجتماعی میں ہو جاتی ہے اور نہ فرد اپنی حد سے اتنا بڑھ جائے کہ جماعت کے لیے نقصان دہ ہو‘ جیسا کہ مغربی جمہوریتوں کا حال ہے۔ اسلام میں فرد کا مقصد حیات وہی ہے جو جماعت کا مقصد حیات ہے۔ یعنی قانونِ الٰہی کا نفاذ اور رضائے الٰہی کا حصول۔ مزید برآں اسلام میں فرد کے حقوق پوری طرح تسلیم کرنے کے بعد اس پر جماعت کے لیے مخصوص فرائض بھی عائد کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح انفرادیت اور اجتماعیت میں ایسی موافقت پیدا ہوگئی ہے کہ فرد کو اپنی قوتوں کے نشوونما کا پورا موقع بھی ملتا ہے اور پھر وہ اپنی ان ترقی یافتہ قوتوں کے ساتھ اجتماعی فلاح و بہبود میں مددگار بھی بن جاتا ہے۔ یہ ایک مستقل بحث ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کا یہاں موقع نہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرنے سے میرا مقصد صرف ان غلط فہمیوں کا سدباب کرنا تھا جو اسلامی جمہوریت کی مذکورہ بالا تشریح سے پیدا ہوسکتی تھیں۔