Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ

گذشتہ مضمون’سورۂ یوسف کے متعلق چند سوالات‘ کی اشاعت کے کچھ مدت بعد ایک مشہور بزرگ نے (جن کا اب انتقال ہو چکا ہے اور جو خان بہادر کا خطاب رکھتے تھے‘ یو پی میں کلکٹر اور ہندستان کی ایک ریاست میں دیوان رہ چکے تھے) اس پر ایک مفصل تنقید لکھی۔ چونکہ مولانا مودودی صاحب کے جواب کو سمجھنا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ صاحب موصوف کی تنقید ناظرین کے سامنے ہو‘ اس لیے ہم پہلے اس کے متعلقہ حصے یہاں نقل کرتے ہیں‘ پھر مصنف کا جواب نقل کریں گے۔۲۰؎
مستفسر نے جو بات دریافت کی تھی اور جو بات دراصل بحث طلب ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ آیا یوسف علیہ السلام ایک غیر اسلامی نظام حکومت کے رکن اور شریک کار بنے ہیں یا نہیں؟ اور اگر بنے تو حضرت یوسف علیہ السلام کا ایسا کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا نہیں؟ مولانا مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’حضرت یوسف علیہ السلام کی حیثیت مصر میں غیر خدائی نظام حکومت کے شریک کار کی نہ تھی‘‘ اور تعجب ہے کہ اپنی اس رائے کی تائید میں کلام پاک کی وہی آیت قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضِ پیش کرتے ہیں جو دراصل اس کے ضد کو ثابت کرتی ہے۔
آیت مذکور کا لفظی ترجمہ شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے الفاظ میں یہ ہے کہ:
’’یوسف ؑ نے کہا مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر‘ میں نگہبان ہوں، خوب جاننے والا اور یوں قدرت دی ہم نے یوسفؑ کو اس زمین میں، جگہ پکڑتا تھا اس میں جہاں چاہتا۔‘‘
اب دیکھیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام فرعونِ مصر سے خواہش کرتے ہیں کہ تو مجھ کو ملک کے خزانوں پر مقرر کر دے۔ فرعون آپ کا مطالبہ منظور کرتا ہے اور آپ فرعون کے محکمہ مال کے افسر مقرر ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ آپ فرعون کے نظام حکومت کے ایک رکن یا شریک کار بن جاتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب اس بدیہی نتیجے سے بچنے کی ناکام کوشش کرتے ہیںجب کہ وہ فرماتے ہیں کہ: مطالبہ کلی اختیارات کا تھا اور ملے بھی کلی اختیارات۔
……اول تو کلی اختیارات کا لفظ کلامِ پاک میں ہے نہیں۔ یہ لفظ مولانا اپنی طرف سے کلام پاک کی عبارت پر بڑھانا چاہتے ہیں، تاکہ کلام پاک مولانا کے ذاتی نظریوں کا تابع ہوجائے نہ یہ کہ مولانا اپنے ذاتی نظریوں کی اصلاح مفہوم قرآنی کے مطابق کرلیں۔ اسی جیسی ذہنیت کے متعلق غالباً اقبال مرحوم نے کہا تھا: ’’خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘ لیکن اس کلی کے لفظ کے ناجائز اضافے سے بھی مولانا کے اجتہاد یا نظریے کی تائید نہیں ہوتی۔ یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کلی اختیاراتِ مال کا مطالبہ کیا تھا اور کلی اختیارات ہی ملے تھے‘ لیکن وہ اختیارات فرعون مصر ہی سے تو مانگے گئے تھے اور فرعون مصر ہی نے تو وہ اختیارات عطا کیے تھے۔ اس لیے باوجود ان کلی اختیارات کے حضرت یوسف علیہ السلام کی حیثیت اس وقت کے نظام حکومت میں ایک رکن یا ایک شریک کار سے زائد کی نہیں ہوسکتی۔
اسی طرح مولانا مودودی صاحب کا یہ فرمانا کہ:حضرت یوسف علیہ السلام کا مطالبہ یہ تھا کہ سلطنت مصر کے تمام وسائل میرے اختیار میں دے دیے جائیں اور اس کے نتیجے میں جو اختیارات ان کو ملے وہ ایسے تھے کہ پھر ساری زمین ِ مصراُن کی تھی‘ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ یہ مان بھی لیا جاوے کہ یوسف علیہ السلام نے مال کے جملہ اختیارات کا مطالبہ کیا تھا اور مال کے جملہ اختیارات آپ کو تفویض ہوگئے تھے‘ تاہم سلطنت میں مال کے علاوہ بہت سے دیگر محکمے ہوتے ہیں‘ مثلاً: پولیس‘ فوج‘ عدالت۔ ان میں سے نہ کسی کا مطالبہ یوسف علیہ السلام کی طرف سے کیا گیا، نہ یہ محکمے آپ کے سپرد کیے گئے، تو پھر مولانا مودودی کا یہ کہنا کہ ’جو اختیارات انھیں ملے وہ ایسے تھے کہ پھر ساری زمین ِ مصراُن کی تھی‘ بالکل بے بنیاد ہے۔اس لیے یوسف علیہ السلام کی حیثیت مصر کے خزائن پر متصرف ہونے کے بعد بھی سلطنت کے ایک رکن یا شریک کار کی رہتی ہے جب تک کہ کسی ذریعے سے یہ ثابت نہ ہو کہ فرعونِ مصر اپنی سلطنت اور حکومت سے دست بردار ہو گیا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام اس کی جگہ مصر کے بادشاہ اور ملک بن گئے تھے۔ سو یہ تاریخ سے ثابت ہے‘ نہ کلام پاک سے‘ بلکہ کلام پاک سے بصراحت اس کی تردید ہوتی ہے۔ آیت زیر بحث سے عین ماقبل یہ آیت ہے:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖٓ اَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِیْ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِیْنٌ اَمِیْنٌ۔
یوسف12: 54
انھیں میرے پاس لے آئو کہ میں انھیں اپنے لیے چن لوں۔ پھر جب اس سے (یوسف علیہ السلام سے) بات کی‘ کہا: بے شک آپ ہمارے یہاں معزز معتمد ہیں۔
ان ہر دو آیات سے بالکل واضح ہے کہ فرعون مصر نے یوسف علیہ السلام کو اپنی سلطنت کا معزز اور معتمد رکن اور اپنا مشیر خاص بنایا۔ ان آیات میں اس بات کا شائبہ بھی نہیں کہ فرعون مصر اپنی سلطنت، یا اپنے اختیارات سے دست بردار ہوگیا تھا۔ نیز ایک مابعد کی آیت سے بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے خزائن مصر پر متصرف ہونے کے عرصہ بعد تک فرعون مصر کی سلطنت قائم تھی اور فرعون مصر کا دین ہی ملک پر جاری تھا، کیونکہ جب برادرانِ یوسف دوسری مرتبہ غلے کی بھرتی کرنے آئے اور اپنے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کی خواہش کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بنیامین کو بھی لائے اور حضرت یوسف ؑ نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھااور بنیامین پر ظاہر بھی کر دیا کہ وہ ان کا حقیقی بھائی ہے، مگر اپنے دوسرے بھائیوں پر اس امر کو ظاہر نہیں کیا اور چونکہ حضرت یوسف ؑ بنیامین کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے اس لیے دوسرے بھائیوں پر اس امر کے ظاہر کیے بغیر کہ بنیامین ان کا بھائی ہے اس کی یہ تدبیر کی کہ جب برادرانِ یوسف کے واسطے ان کا اسباب تیار کیا گیا تو بنیامین کے اسباب میں ایک پانی پینے کا پیالہ رکھوا دیا اور جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو موذن یا پکارنے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو!تم البتہ چور ہو۔ برادران یوسف ؑ نے اس سے انکار کیا تو پکارنے والے نے کہا کہ کیا سزا ہے اس کی اگر تم جھوٹے نکلے؟ برادران یوسف ؑ نے کہا: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں ہاتھ آوے، وہی اس کے بدلے میں جاوے۔ ہم یہی سزا دیتے ہیں ظالموں کو۔ اس کے بعد تلاشی لی گئی اور پیالہ بنیامین کے اسباب میں سے برآمد ہوا۔ چنانچہ بنیامین پیالے کے بدلے میں روک لیے گئے۔ اس موقع پر ارشاد خداوندی ہے:
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ۔ یوسف12:76
جس کا لفظی ترجمہ ہے:
وہ (یعنی یوسف ؑ) ہرگز نہ لے سکتا تھا اپنے بھائی کو دین میں اس بادشاہ کے مگر جو چاہے اللہ۔
خط کشیدہ عبارت صاف بتاتی ہے کہ مصر کا ملکی قانون اس وقت تک ملک مصر میں جاری تھا اور اس قانون کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام اپنے بھائی بنیامین کو چوری کے الزام میں اپنے بھائیوں سے لے نہیں سکتے تھے‘ مگر خداوند عالم نے خود ان کے بھائیوں کے منہ سے کہلوا دیا کہ چوری کی سزا یہ ہے کہ جس کے اسباب میں سے چوری کا مال ہاتھ آوے‘ وہی اس کے بدلے میں جاوے۔ چنانچہ اس آیت کریمہ کی جو تفسیر مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ؒنے کی ہے وہ یہ ہے کہ:
یعنی بھائیوں کی زبان سے آپ ہی نکلا کہ جس کے پاس سے مال نکلے اس کو غلام بنا لو۔ اس پر پکڑے گئے، ورنہ حکومت مصر کا قانون یہ نہ تھا۔ اگر ایسی تدبیر نہ کی جاتی کہ وہ اپنے اقرار میں بندھ جاویں تو ملکی قانون کے مطابق کوئی صورت بنیامین کو روک لینے کی نہ تھی۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ملک مصر کی وزارت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے تبلیغ کاکام نہیں کیا، یا اپنی رسالت کے اعلان سے گریز کیا۔ برخلاف اس کے صاحب ممدوح نے اس وقت جب کہ آپ سجن یا جیل میں تھے، اسی وقت وحدانیت کی تبلیغ شروع کر دی تھی۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے ساتھی قیدیوں سے فرماتے ہیں:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ o مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ۔ یوسف12:39-40
اسی طرح وزارت کے عہدے پر متمکن ہونے کے بعد بھی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی تبلیغ کاکام ضرورجاری رکھا ہوگا۔ البتہ جو بات ان آیات سے بلاشک و شبہہ ثابت ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک غیر اسلامی نظام حکومت کے رکن خود اپنی خواہش اور درخواست پر بنے اور حضرت یوسفؑ کے اس حکومت کے رکن بننے کے بعد بھی ملک میں غیر اسلامی نظام حکومت اور غیر اسلامی قانون ہی نافذ رہا اور یوسف علیہ السلام کے اس عمل پر بجائے اس کے کہ خداوند عالم کی طرف سے کوئی سرزنش کی جاوے یوسف علیہ السلام کے اس عمل کو ایک طرح سراہا جاتا ہے کیونکہ یوسف علیہ السلام کے اس تَمَکُّن فی الارض کو انعام خداوندی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ یوسف12:56
جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان تو مسلمان انبیاء تک کے لیے غیر اسلامی نظام حکومت کارکن بننا جائز ہے اور جائز ہی نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں بطور فرض کفایہ کے واجب ہے‘ کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا خود خواہش کرکے مصر کے خزائن پر متصرف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کرنے کو یوسف علیہ السلام اپنے لیے جائز ہی نہیں بلکہ اپنے اوپر واجب خیال فرماتے تھے، ورنہ وہ فرعون سے ایسی خواہش کبھی نہ فرماتے اور نہ ایسی خواہش کرتے وقت وہ اپنے حفیظ و علیم ہونے کا اظہار کرتے، کیونکہ اگرآپ کے نزدیک ملک مصر کا وزیر بننا آپ پر لازم اور واجب نہیں تھا تو آپ کا اپنے آپ کو حفیظ اور علیم بتانا، بے جا مدح سرائی اور خود ستائی میں داخل ہوتا ہے۔
(اس کے بعد موصوف نے اپنے بیان کی تائید میں چند حوالے پیش کیے ہیں اور کچھ عقلی دلائل بھی فراہم کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ نیز ہجرت حبشہ سے بھی استدلال کیا ہے۔ چونکہ ان کے دلائل کا جوہر اوپر آگیا ہے، اس لیے ہم بخوف طوالت باقی حصہ حذف کر رہے ہیں۔)
جواب
ہم جناب خان بہادر صاحب کے بہت شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اس مسئلے کو چھیڑ کر پھر ایک مرتبہ ہمیں اپنا نقطۂ نظر صاف صاف پیش کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا۔ ہم اس بحث میں اپنا وقت صرف اس امید پر صرف کر رہے ہیں کہ بہت سے طالبین حق کو اس سلسلے میں اکثر گمراہ کن دلائل کا جواب مل جائے گا جو اطاعت غیر اللہ، یا بالفاظ دیگر اسلام لغیر اللہ کو جائز قرار دینے اور نظام کفر کی بندگی کو مباح، بلکہ فرض کفایہ ٹھیرانے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں۔
قصۂ یوسف علیہ السلام کے زیر نظر پہلو پر ہم اس سے پہلے دو مرتبہ بحث کر چکے ہیں۔ پہلی بحث زیادہ مفصل و مدلل تھی اور دوسری مجمل و مختصر، لیکن خان بہادر صاحب نے نہ معلوم کیوں پہلی کو چھوڑ کر دوسری کو مدارِ گفتگو بنا لیا۔ حالانکہ جو اعتراضات انھوں نے اپنے مضمون میں درج فرمائے ہیں‘ ان میں سے اکثر کا‘ بلکہ شاید سب ہی کا جواب ہماری پہلی بحث میں انھیں مل جاتا۔۲۱؎ بہرحال یہ عدم التفات خواہ کسی وجہ سے ہو‘ ہمارے لیے اس میں خیر ہی کا پہلو نکل آیا کہ جن باتوں کو بار بار چھیڑ کر ہمارے لیے واضح کرنا مشکل تھا انھیں دوسروں کے چھیڑنے پر بیان کرنے کا ہمیں موقع مل گیا۔
کیا اسلام میں تناقض ہے؟
دنیا میں ایک معقول آدمی سے جن چیزوں کی توقع کی جاتی ہے غالباً ان میں سب سے پہلی چیز یہی ہوتی ہے کہ اس کی باتوں میں تناقض نہ ہو۔ ایک معمولی عقل کا گنوار آدمی بھی جب کسی شخص کو ایسی باتیں کرتے دیکھتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف پڑتی ہوں تو فوراً ٹوک دیتا ہے، کیوں کہ اس کی نہایت موٹی عقل بھی متناقض باتوں کی غیر معقولیت کو برداشت نہیں کرسکتی، لیکن یہ عجیب ماجرا ہے کہ جن باتوں کی توقع کسی گھٹیا سے گھٹیا، مگر ذی عقل انسان سے نہیں کی جاسکتی ان کی توقع اس اللہ سے کی جاتی ہے جو خود عقل کا خالق اور تمام حکمت کا مالک ہے اور اس سے بھی عجیب تر ماجرا یہ ہے کہ اللہ سے اس انتہائی نامعقولیت کی توقع رکھنے والے‘ بلکہ اس کا مطالبہ کرنے والے کوئی جاہل‘ کو دن لوگ نہیں ہیں، بلکہ وہ ذی علم لوگ ہیں جو دنیا بھر کو علم و عقل کے درس دیتے ہیں اور وہ فاضل اصحاب ہیں جن کی عقلیں اپنی دنیا کے معاملات چلانے میں خوب لڑتی ہیں۔ یہ ہوش مند حضرات اپنے خدا سے چاہتے ہیں، اور یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ اس کی باتوں میں تناقض ہو۔ یعنی وہ یہ بھی کہے کہ میں بادشاہ زمین و آسمان ہوں اور پھر اپنی زمین کے کسی گوشے پر کسی اور کی بادشاہی تسلیم بھی کرے۔ وہ یہ بھی کہے کہ لوگو! تم سب میرے احکام کی اطاعت کرو‘ پھر لوگوں کو یہ اجازت بھی دے‘ بلکہ اس کو فرض تک قرار دے دے کہ ان حاکموں کی اطاعت بجا لائیں جو اس کے حکم کی سند کے بغیر‘ اور اکثر حالات میں اس کے حکم کے خلاف احکام دیتے ہیں۔ وہ انسانوں کے لیے خود ایک قانون بھی بنائے اور یہ اعلان کرے کہ میرا یہی قانون ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے‘ باطل ہے‘ اور پھر اس کے ساتھ دوسرے قوانین کے نفاذ کو بھی جائز رکھے اور انھی انسانوں کو جن کے لیے اس نے قانون بنایا ہے یہ ’حق‘ بھی دے کہ چاہیں خود اپنے لیے قانون بنائیں اور چاہیں دوسروں کے قوانین کی پیروی کرتے رہیں۔ وہ اپنے پیغمبروں کو خاص اسی غرض کے لیے مبعوث بھی کرے کہ زمین کے باشندوں کو اس کا دین قبول کرنے کی دعوت دیں اور پھر انھی پیغمبروں کو یا ان میں سے کسی کو اس بات کی اجازت بھی دے (بلکہ خان بہادر صاحب کے بقول اس خدمت پر سراہے بھی) کہ اس دین کے سوا کسی اور دین کے نظام میں کارکن و خدمت گزار بن جائیں اور اسے کامیابی کے ساتھ چلانے میں اپنی قابلیتیں صرف کر دیں۔ وہ ساری دنیا کے باشندوں میں سے چھانٹ کر ایک امت خاص اس مقصد کے لیے بنائے کہ اس معروف کا حکم دے جسے اس نے معروف قرار دیا ہے اور اس منکر کو مٹائے جسے اس نے منکر ٹھیرایا ہے‘ اور پھر اسی امت کے لیے اس بات کو حلال، بلکہ اس کے بعض ’برگزیدہ‘ افراد کے لیے فرض کفایہ ٹھیرا دے کہ ان منکرات کو قائم کرنے اور رواج دینے میں حصہ لیں جنھیں اس کے باغی معروف ٹھیرا چکے ہیں اور ان معروفات کو مٹانے اور دبانے میں آلہ کار بنیں جو اس کے نافرمانوں کی نگاہ میں منکر قرار پا چکے ہیں۔
یہ ایسی صریح متناقض باتیں ہیں جن کے تناقض کو سمجھنے کے لیے کسی گہرے غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے لیکن عجیب بات ہے کہ جو لوگ تفسیریں لکھنے اور فقہ و معقولات کا درس دینے کی قابلیت رکھتے ہیں‘ اور جو اتنی عقل رکھتے ہیں کہ کلکٹری اور دیوانی جیسے بڑے بڑے مناصب کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں‘ انھیں یا تو ان باتوں میں کوئی تناقض نظر نہیں آتا‘ یا پھر خداوند عالم کے متعلق ان کی رائے اتنی بری ہے کہ وہ اس سے ان بے عقلیوں اور نادانیوں کی توقع رکھتے ہیں جنھیں ایک جاہل گنوار بھی اپنی چوپال کے کسی رفیق میں پاکر صبر نہیں کرسکتا۔
خان بہادر صاحب اپنے اسی مضمون میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
ایک بعد کی آیت سے بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کے خزائن مصر پر متصرف ہونے کے بعد تک فرعون مصر کی سلطنت قائم تھی اور فرعون مصر کا دین ہی ملک میں جاری تھا۔
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ یوسف12:76
(ہرگز نہ لے سکتا تھا اپنے بھائی کو دین میں اس بادشاہ کے مگر جو چاہے اللہ)یہ عبارت صاف بتاتی ہے کہ مصر کا ملکی قانون اس وقت تک مصر میں جاری تھا۔
دین کا مفہوم
ان الفاظ کو تحریر کرتے وقت صاحب موصوف جس بات کو ثابت کرنے کی دھن میں لگے ہوئے تھے اس نے شاید انھیں اتنی مہلت نہ دی کہ کچھ دیر ٹھیر کر اس صریح تناقض پر غور کرلیتے جو ان کی مزعومہ تفسیر کے لحاظ سے یہاں قرآن کے بیان میں پیدا ہو جاتا ہے۔ براہ کرم، اب وہ ہمارے ہی توجہ دلانے سے غور فرمائیں۔ یہاں خود ان کی اپنی نقل کردہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مصر کے ملکی قانون کو جو فرعون مصر کی حاکمیت کی بنیاد پر تھا ’دین الملک‘ (بادشاہ کا دین) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دین صرف اس پوجا پاٹ ہی کا نام نہیں ہے جو مندروں اور معبدوں میں کی جاتی ہے‘ بلکہ اس قانون کا نام بھی ہے جس کے مطابق پولیس مجرموں کو پکڑتی ہے‘ جس کے تحت عدالت معاملات دیوانی و فوج داری کا فیصلہ کرتی ہے‘ جس کی پیروی میں ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے اور جس پر تمدن کا سارا نظام قائم ہوتا ہے۔ زندگی کے یہ سارے شعبے بحیثیت مجموعی جس طریقے پر چلتے ہیں‘ اسی کا نام قرآن کی اصطلاح میں ’دین‘ ہے اور چونکہ ملک مصر میں وہ طریقہ فرعون کی مشیت سے ماخوذ اور اس کے اقتدار اعلیٰ پر مبنی تھا‘ اس لیے قرآن اس کو ’دین الملک‘ کہہ رہا ہے۔ اسی سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ’دین اللہ‘ بھی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے جو مسجدوں اور نماز روزے تک محدود ہو‘ بلکہ اس سے مراد بھی اس پوری شریعت کی پابندی ہے جو اللہ کی رضا سے ماخوذ اور اس کی حاکمیت پر مبنی ہو اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوئوں کو اپنی گرفت میں لے لے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نبی ہونے کی حیثیت سے کس کام کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے؟ ’دین اللہ‘ کی دعوت دینے کے لیے یا ’دین الملک‘کو فروغ دینے کے لیے؟ اگر خان بہادر صاحب کی تاویل اور ان حضرات کی تفسیر‘ جن کے بڑے بڑے نام لے کر خان بہادر صاحب ہم کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں‘ مان لی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو اپنے نبی کو اس بات پر مامور فرمایا کہ اس کی مخلوق کو‘ اور خصوصاً اس مخلوق کو جو مصر میں رہتی تھی‘ ’دین اللہ‘ اختیار کرنے کی دعوت دے‘ اور دوسری طرف وہی نبی خود اللہ تعالیٰ کی ہدایت و نگرانی میں ’دین الملک‘ کے قیام و استحکام کی خدمت انجام دینے لگا، اور لطف یہ ہے کہ اللہ میاں اس صریح متناقض طرز عمل کا تناقض تو کیا محسوس فرماتے‘ الٹا اس نبی کے اس فعل کو‘ خان بہادر صاحب کے اپنے الفاظ میں سراہنے لگے اور نظامِ کفر میں اپنے نبی کے بعہدۂ وزارت فائز ہو جانے کو ’انعام خداوندی‘ سے تعبیر فرمانے لگے۔گویا کہ اللہ میاں کا حال بھی معاذ اللہ ہمارے زمانے کے ان دین دار بزرگوں کا سا ہے جو خود تو پیشانی پر سیاہ گٹا لیے ہوئے مصلے پر سجدہ گردانی فرما رہے ہوتے ہیں مگر صاحب زادے جب ایم۔ اے پاس کرکے نیم انگریز بنے ہوئے آبکاری کی انسپکٹری پر فائز ہو جاتے ہیں تو وہی دین مجسم بزرگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کے خاندان کو اپنی نعمت سے نواز دیا۔
آگے چل کر خان بہادر صاحب پھر فرماتے ہیں:
’’اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ملک مصر کی وزارت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے تبلیغ حق کاکام نہیں کیا‘ یا اپنی رسالت کے اعلان سے گریز کیا۔ برخلاف اس کے صاحب ممدوح نے اس وقت جب کہ آپ جیل میں تھے‘ اسی وقت وحدانیت کی تبلیغ شروع کر دی تھی… البتہ جو بات آیات سے بلاشک و شبہ ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ایک غیر اسلامی نظام حکومت کے رکن خود اپنی خواہش اور درخواست پر بنے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے اس حکومت کے رکن بننے کے بعد بھی ملک میں غیر اسلامی نظام حکومت اور غیر اسلامی قانون ہی نافذ رہا۔‘‘
یہاں پھر کھلا ہوا تناقض پایا جاتا ہے جس کی طرف صاحب موصوف نے اپنے مدعا کی دُھن میں توجہ نہیں فرمائی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے آخر یہ کس قسم کی وحدانیت کی تبلیغ فرمائی تھی؟ اگر اس ’وحدانیت‘ کے معنی یہ تھے کہ وہ پوجا جو معبد میں کی جاتی ہے اور وہ اطاعت قانون جس پر سوسائٹی کا نظم اور ملک کا انتظام قائم ہوتا ہے‘ ایک ہی خدا کے لیے ہو‘ یعنی پوری زندگی دین اللہ کی تابع ہو جائے‘ تو خان بہادر صاحب کی تاویل کے لحاظ سے حضرت یوسف ؑ نے نوکری کرکے خود اپنی اس تبلیغ ِ حق کے خلاف عمل کیا، اور اگر یہ تبلیغ اس بات کی تھی کہ معبد میں’’دین ُ اللہ‘‘ جاری ہو اور ملک اور سوسائٹی کا سارا انتظام ’دین الملک‘ پر بدستور چلتا رہے، تو ظاہر ہے کہ یہ وحدانیت کی نہیں، بلکہ ثنویت اور دو عملی کی تبلیغ تھی۔
پھر مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی رسالت کا اعلان آخر کس معنی میں کیا تھا؟ اگر انھوں نے بادشاہ سمیت تمام لوگوں سے کہا تھا کہ میں مالک زمین و آسمان کا نمائندہ ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو‘ جیسا کہ تمام انبیاء علیھم السلام کہتے رہے ہیں: کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ الشعراء26:108
تو اس اعلان کے ساتھ ان کا غیر مسلم بادشاہ کی آقائی تسلیم کرنا اور اس کی اطاعت میں اسلامی نظام کے بجائے، غیر اسلامی نظام کی خدمت انجام دینا کسی طرح مطابقت نہیں رکھتا، اور اگر انھوں نے یہ کہا تھا کہ لوگو! میں ہوں تو بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ‘ مگر میرا مسلک یہ ہے کہ بادشاہ مصر کی اطاعت کروں اور تم کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ اسی کی اطاعت کرو‘ تو صرف یہی نہیں کہ یہ ایک صریح متناقض بات کا اعلان تھا جس کا استقبال سنجیدگی کے بجائے قہقہے سے ہونا چاہیے تھا اور ایسا اعلان کرنے والے کو ایوان وزارت کے بجائے پاگل خانے میں جگہ ملنی چاہیے تھی‘ بلکہ آج بھی ایسی کتاب ہرگز ایمان لائے جانے کے قابل نہیں رہتی جو ایک طرف تو خود ہی یہ قاعدہ کلیہ بیان کرتی ہے کہ خدا نے جو رسول بھی بھیجا ہے اس لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کے تحت وہ مطاع بن کر رہے۔(وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ) النساء4:64‘ اور دوسری طرف وہی کتاب ایک ایسے شخص کو رسول بھی قرار دیتی ہے جو مطاع بن کر نہیں بلکہ غیر اللہ کا مطیع بن کر رہا اور دوسرے بندگانِ خدا کو بھی اذنِ خداوندی کے تحت اپنا نہیں، بلکہ اسی غیر خدا کا مطیع بناتا رہا۔ قرآن اپنے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں خود یہ معیار پیش کرتا ہے کہ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا النساء4:82
یعنی اگر یہ کتاب، اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتی تو لوگ اس میں بہت کچھ اختلافِ بیان پاتے‘ لیکن اگر ہم خان بہادر صاحب اور ان کے طرز خیال کے لوگوں کی تاویلات تسلیم کرلیں تو قرآن کے بیانات میں یہاں ایسے کھلے ہوئے تناقضات پائے جائیں گے جن سے قرآن آپ اپنے ہی پیش کردہ معیار کی رو سے اللہ کے سوا کسی اور کا کلام قرار پائے گا بلکہ وہ ’اور‘ بھی جس کی تصنیف اسے سمجھا جائے گا بہرحال کوئی صحیح الدماغ انسان تو نہ ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ خان بہادر صاحب جس طرز خیال کی نمائندگی فرما رہے ہیں وہ اپنے پیچھے اخلاقی انحطاط کی ایک طویل اور درد ناک تاریخ رکھتا ہے۔
تفریقِ دین و سیاست کا تاریخی اور نفسیاتی جائزہ
مسلمان جب اپنے اصل مقصد کو بھول کر اور اپنے حقیقی مشن کو چھوڑ کر دنیا پرستی میں مبتلا ہوگئے اور دین داری کے معنی ان کی نگاہ میں صرف یہ رہ گئے کہ عبادات اور معاشرت میں چند شرعی طور طریقوں کی پابندی کی جاتی رہے‘ خواہ مقاصد ِ زندگی وہی ہوں جو دنیا پرستوں کے ہوتے ہیں‘ خواہ نظام اجتماعی کی زمامِ کار صالحین کے ہاتھ میں ہو یا فجار کے ہاتھ میں‘ اور خواہ اجتماعی امامت اپنے اصول اور نصب العین کے اعتبار سے اسلامی ہو یا غیر اسلامی‘ تو اس غفلت کی سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں اس شکل میں دی گئی کہ ان کی بڑی بڑی آبادیاں پے درپے کفار کی تابع فرمان ہوتی چلی گئیں، لیکن انھوں نے اور ان کے علما نے اسے سزا سمجھنے اور اس اصلی قصور کی‘ جس کی پاداش میں یہ سزا ملی تھی‘ تلافی کرنے کے بجائے الٹا یہ سوچنا شروع کر دیا کہ نظامِ کفر میں ’اسلامی زندگی‘ کیسے بسر کی جائے۔ چنانچہ ’اضطرار‘ کے بہانے سے اس شرعی اور اسلامی زندگی کا ایک نیا نقشہ مرتب کیا گیا جو غیر شرعی اور غیر اسلامی نظام کے اندر بسر کی جاسکے۔
اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید سزائوں کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ انھیں آزمایا جائے کہ یہ سنبھل کر پلٹتے ہیں یا اپنی ضلالت میں بعید سے بعید تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اضطرار جسے ابتداء ً صرف ایک ہی اضطرار سمجھا گیا تھا‘ اللہ کی سنت کے مطابق آگے بڑھا اور اس نے دائمی‘ روز افزوں اور غیر متناہی اضطراروں کی شکل اختیار کرلی۔ ہر نئے اضطرار نے مطالبہ کیا کہ جو حدود تم نے کفر کے اندر اسلام اور کفر کے ماتحت اسلامی زندگی کے لیے تجویز کیے ہیں انھیں سکیڑو اور سکیڑتے چلے جائو، مگر یہ جتنے عذاب اللہ کی طرف سے آئے ان میں سے کسی نے بھی مسلمانوں کی آنکھیں نہ کھولیں اور انھوں نے مستقل طور پر یہ قاعدہ ہی طے کرلیا کہ واقعی ہر اضطرار کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اسلامی زندگی کے حدود سکیڑتے رہیں اور تسلط کفر کی حدوں کو پھیلنے دیں۔
پھر اس ’اضطرار‘کے تصور نے بھی انھیں ستانا شروع کیا، کیونکہ اضطرار کے نیچے حرمت کا تصور لازماً موجود رہتا ہے۔ کوئی صاحب عقل آدمی اس صریح بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب آپ محض مضطر ہونے کی وجہ سے سور کا گوشت کھائیں گے تو بہرحال سور آپ کی نگاہ میں حرام تو ضرور ہی رہے گا اور جب اسے آپ فی الاصل حرام سمجھتے ہوئے مجبوراًکھائیں گے تو ناممکن ہے کہ آپ کے دل میں نفرت و کراہت نہ ہو،ٗ ناممکن ہے کہ آپ اس سے لذت لیں‘ شوق سے کھائیں‘ زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے اور پیٹ بھر کر کھانے کی کوشش کریں اور اس کے کباب اور قورمہ اور پلائو پکوانے کی فکر کریں۔ ایسے ہی اجتناب اور تنفر کا جذبہ ان تمام معاملات میں ناگزیر طور پر پیدا ہوتا ہے جنھیں آپ حقیقت کے اعتبار سے حرام سمجھتے ہوں اور صرف اضطرار کی وجہ سے اپنے لیے عارضی طور پر جائز کرلیں، مگر ایک پوری قوم کا اپنی زندگی کے سارے تمدنی‘ معاشی‘ سیاسی معاملات میں دائماً اس طرح رہنا کہ اس پر اضطرار کی شرعی و نفسیاتی کیفیت طاری رہے‘ اور وہ حاضر الوقت نظام زندگی سے نفرت و کراہیت کے ساتھ ہمہ گیر اجتناب کرتی رہے‘ اور صرف اس حد تک اس سے تعلق رکھے جس حد تک ایسا تعلق جینے کے لیے ناگزیر ہو‘ عملاً محال ہے۔ ایسی حالت کو ایک قلیل مدت سے زیادہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ بہت جلدی طبائع اس سے تھک جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ تھکاوٹ بھی مسلمانوں میں ٹھیک اپنے وقت پر پیدا ہوئی لیکن پہلے سے دینی انحطاط جس تسلسل کے ساتھ بڑھتا چلا آرہا تھا اس نے ان تھکنے والوں کے ذہن کو اس طرف متوجہ نہ ہونے دیا کہ اپنے اُس غلط نظریے پر نظر ثانی کرتے جو ’نظام کفر میں اسلامی زندگی‘ کے امکان کے متعلق انھوں نے ابتداء ً قائم کیا تھا اور اس حالتِ اضطرار کو ختم کرنے کی تدبیریں سوچتے جس کی وجہ سے وہ ہر طرف ہر شعبۂ زندگی میں حرمتوں سے محصور اور خبائث میں مبتلا ہونے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس دینی انحطاط کی سابق رفتار انھیں جس رخ پر بڑھا لے گئی وہ یہ تھا کہ سرے سے ’اضطرار‘ کے بہانے ہی کو ختم کر دیں‘ تاکہ جو حرمتیں نظامِ کفر میں ترقیات اور آسائشوں کے دروازے ان پر بند کیے ہوئے ہیں وہ ٹوٹ جائیں اور اباحت و حلت میں تبدیل ہو کر رہیں۔
اس غرض کے لیے دین کا ایک نیا نظریہ قائم کیا گیا۔ وہ نظریہ یہ تھا کہ دین کا تعلق صرف عقائد و عبادات اور چند معاشرتی امور مثل نکاح و طلاق وغیرہ سے ہے۔ اگر ان معاملات میں کوئی نظامِ حکومت مسلمانوں کو امن دینے کا ذمہ لے لے تو اسلامی زندگی کا اصل مدعا حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد دارالکفر، دارالامن ہے۔ اس کی وفاداری و اطاعت لازم ہے‘ اس کے تحت سارے تمدنی معاملات (جو اس نئے نظریے کے مطابق ’’دنیا بمقابلہ دین‘‘ کے زیر عنوان آجاتے ہیں) انھی قوانین کے مطابق چلنے چاہییں جو کافرانہ اصولوں پر بنائے گئے ہوں‘ اور اس کی قانونی و انتظامی مشین کو چلانے میں‘ بلکہ اس کے تحفظ اور اس کی توسیع کے لیے جان کی قربانیاں تک دینے میں بھی کوئی ’مضائقہ‘ نہیں ہے۔لیکن یہ معاملہ صرف ’عدم مضائقہ‘ یا اباحت و حلت پر بھی نہ رکا۔ دارالکفرمیں مسلمانوں کی ضروریات نے جلد ہی انھیں مجبور کرنا شروع کیا کہ اپنی نئی نسلوں کو خدمت کفر کا شوق دلانے کی کوشش کریں، تاکہ ان نقصانات کی تلافی ہو جو اول اول کچھ مدت کے ’’مضائقے‘‘ نے انھیں پہنچایا تھا۔ اس لیے ایک آخری دلیل یہ تصنیف کی گئی کہ مسلمانوں کی ترقی و فلاح اور بعض حالات میں ان کی زندگی کا انحصار ہی اس بات پر ہے کہ وہ نظامِ کفر کے عدالتی‘ تشریعی‘ انتظامی‘ فوجی‘ صنعتی‘ غرض تمام شعبوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں‘ ورنہ امت کے وفات پا جانے یا کم از کم ترقی کی دوڑ میں غیر مسلموں سے پیچھے رہ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس دلیل نے بہ یک جنبشِ قلم اسی چیز کو جو کل تک صرف مباح کے مقام پر تھی‘ فرض کے درجے پر پہنچا دیا اور واجب ہوگیا کہ اگر ساری قوم نہیں تو اس میں سے ایک طبقہ تو اس فرض کے انجام دینے کے لیے ضرور نکلتا ہی رہے‘ گویا حکم الٰہی یوں قرار پایا کہ:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الْکُفْرِ وَلِیُضِلُّوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یُضِلُّوْنَ اور وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الشَّرِّ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ ‘
دین میں یہی وہ عظیم الشان ترمیم تھی جس کی بدولت بڑے بڑے متقی و دین دارحضرات تسبیحوں کو گردش دیتے ہوئے وکالت اور منصفی کے پیشوں میں داخل ہوئے‘ تاکہ جس قانون پر وہ ایمان نہیں رکھتے اس کے مطابق وہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں اور کرائیں، اور جس قانون پر ایمان رکھتے ہیں اس کی تلاوت صرف اپنے گھروں میں کرتے رہیں۔ اسی ترمیم کی بدولت بڑے بڑے صلحا و اتقیا کے بچے نئی درس گاہوں میں داخل ہوئے اور وہاں سے بے دینی و مادہ پرستی اور بداخلاقی کے سبق لے لے کر نکلے اور پھر اس نظامِ کفر کے صرف عملی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ اکثر حالات میں اخلاقی اور اعتقادی حیثیت سے بھی خدمت گزار بن گئے جو ان کے اسلاف کی غفلتوں اور کمزوریوں کی بدولت ان پر ابتداء ً محض اوپر سے مسلط ہوا تھا۔ پھر اسی ترمیم نے یہاں تک نوبت پہنچائی کہ مردوں سے گزر کر جاہلیت اور ضلالت اور بداخلاقی کا طوفان عورتوں تک پہنچا۔ وہی ’فرض کفایہ‘ جسے ادا کرنے کے لیے پہلے مرد اٹھے تھے‘ عورتوں پر بھی عائد ہوگیا‘ اور ان بے چاریوں کو بھی آخر اس ’دینی خدمت‘ کی بجا آوری کے لیے نکلنا پڑا۔ نہ نکلتیں تو خطرہ تھا کہ کہیں غیر مسلم ان سے بازی نہ لے جائیں۔۲۲؎
کہیں یہ گمان نہ کر لیجیے گا کہ دین میں یہ ترمیم آج کچھ نئی ہوئی ہے۔ درحقیقت اس کی بنا آج سے صدیوں پہلے پڑ چکی تھی‘ جبکہ تاتار کے کفار مسلمانوں پر مسلط ہوئے تھے۔ صرف یہی نہیں کہ ’نظام کفر میں اسلامی زندگی‘ کا نقشہ پہلی مرتبہ اسی دور کے علما نے مرتب کیا تھا‘ بلکہ اسی زمانے میں بڑے بڑے علما و صلحا نے خود نظامِ کفر کی خدمت گزاری اختیار فرمائی تھی اور ان میں بکثرت لوگ وہ تھے جن کی کتابیں پڑھ پڑھ کر آج ہمارے مدارس عربیہ میں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین تیار ہوتے ہیں۔ اسی قدامت کی وجہ سے یہ غلطی اب ایک مقدس غلطی بن چکی ہے اور کوئی تعجب نہیں ہے اگر ہمارے زمانے کے فقیہ اور محدث اور مفسر سب اس میں مبتلا نظر آتے ہیں، لیکن یہ ظاہر ہے کہ غلط بات نہ اس دلیل سے صحیح ہوسکتی ہے کہ وہ پہلے سے ہوتی چلی آ رہی ہے اور نہ اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ بڑے بڑے لوگ اس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ حق کا اثبات اگر ہوسکتا ہے تو اللہ کی کتاب اور رسولوں کی سنت ہی سے ہوسکتا ہے۔
اس پورے انحطاط کے دوران میں‘ جو ابتدائی اضطرار کی بنا پر اسلام ’زیر سایہ کفر‘ کے نظریے سے شروع ہوا‘ پھر رفتہ رفتہ ’نظام کفر کی خدمت جائز ____ مستحب ____ فرض کفایہ ‘ کے نظریے تک پہنچا اور بالآخر گرتے گرتے اس انتہائی ذلیل نقطۂ نظر کی پستیوں میں جاگرا کہ ’معمولی آزادی دینے والے حکمرانوں کی وفاداری عین مقتضائے دین ہے۔‘ مسلمانوں کی کوشش برابر یہی رہی کہ اپنے تنزل کے ہر مرحلے میں نیچے اور زیادہ نیچے اترنے کے لیے دلیل بہرحال انھیں اللہ کے دین ہی سے ملنی چاہیے۔ یہ مطالبہ بظاہر تو ان کے زعم میں اس فارمولے پر مبنی تھا کہ’خدا کا دین چونکہ ہماری تمام ضرورتوں کا ضامن ہے، اس لیے جو ضرورتیں اب پیش آرہی ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے بھی اسی دین سے ہم کو رہنمائی ملنی چاہیے‘ لیکن دراصل اس ظاہر فارمولے کے باطن میں جو حقیقی فارمولا چھپا ہوا تھا اور جس پر فی الواقع یہ لوگ کام کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ جب ہم نے اس دین پر یہ احسان کیا ہے کہ اس کو اپنے ایمان سے سرفراز کیا تو اس کے بدلے میں کم سے کم جو فرض اس دین پر عائد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہمارے آگے چلنے کے بجائے ہمارے پیچھے چلنا شروع کردے۔ یعنی اب ہمارا اور اس کا تعلق یہ نہ ہو کہ ہم اسے اپنے اوپر اور خدا کی زمین پر قائم کرنے کی سعی کریں اور اس سعی کے سلسلے میں جو جو ضرورتیں ہم کو پیش آتی جائیں یہ انھیں پورا کرنے کی ضمانت لیتا جائے‘ بلکہ تعلق کی صورت اب یہ ہونی چاہیے کہ ہم اس کی اقامت کاکام‘ حتیٰ کہ اُس کا خیال تک چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی میں جس جس وادی کی خاک چھانتے پھریں اس میں یہ ہمارے ساتھ ساتھ گردش کرتا رہے اور جن جن ادیانِ باطلہ کے ہم تابع فرمان بنتے جائیں ،ان کے ماتحت ساری غلامانہ حیثیتیں یہ بھی اختیار کرتا چلا جائے اور اس کے منشاء کے خلاف جو جو طرز زندگی ہم قبول کریں ان میں پیش آنے والی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کا یہ ضامن ہو۔
چنانچہ اسی غلط نقطۂ نظر کو لیے ہوئے ان لوگوں نے قرآن و سنت میں رہنمائی تلاش کرنی شروع کی اور حاصل یہ ہوا کہ پورے قرآن میں اگر کسی چیز پر جاکر ان کی نگاہ ٹھیری تو وہ سورہ عنکبوت تھی‘ نہ بقرہ‘ نہ آل عمران‘ نہ انفال‘ نہ توبہ‘ بلکہ سورہ یوسف تھی۔ اور اس کے بھی صرف وہ مقامات جن سے خان بہادر صاحب استدلال فرما رہے ہیں۔ اسی طرح پوری سیرت نبوی میں بھی اگر کوئی چیز ان کو قابلِ اتباع ملی تو وہ نہ مکے کی تپتی ہوئی ریت تھی‘ نہ طائف کی سنگ باری‘ نہ بدر و احد کے میدان‘ بلکہ صرف یہ واقعہ کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کرکے حبش گئی تھی اور وہاں ایک عیسائی بادشاہ کے ماتحت چند سال رعایا بن کر رہی، لیکن جو شخص مطلب جُو ذہنیت نہ رکھتا ہو بلکہ طالب حق ہو اس کے لیے یہ سوال غایت درجہ اہمیت رکھتا ہے کہ درحقیقت یوسف علیہ السلام کے زیر بحث واقعات سے بھی کیا وہی نتیجہ نکلتا ہے‘ جو یہ حضرات نکالنا چاہتے ہیں؟ اور اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ وہی نتیجہ نکلتا ہے‘ یعنی یہ کہ ایک نبی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت ایک نظامِ کفر کی خدمت اور غیر الٰہی قانون (دین الملک) کے اجراء و نفاذ کی ذمے داری اسی غرض کے لیے قبول کی تھی کہ ایسا کرنا فی نفسہٖ مقصود تھا‘ یہ کہ مسلمانوں نے مکہ سے حبش کی طرف اسی بنیاد پر ہجرت کی تھی کہ ایک مسلم جماعت کے لیے ایک غیر مسلم نظام تمدن و سیاست بالکل ایک موزوں جائے قیام ہے، بشرطیکہ وہ مسجد میں اپنے منشا کے مطابق پوجا کرلینے کی اور اپنے سینے میں کچھ عقائد رکھ لینے اور زبان سے ان کے پھاگ اڑا لینے کی اس کو اجازت دے دے‘ تو اس کے بعد کچھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں جو اوپر کے سوال سے بدرجہا زیادہ اہم اور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ یہ بات مان لینے کے بعد تو یہی امر تحقیق طلب ہو جاتا ہے کہ:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے نوع انسانی کے لیے بھیجا آیا وہ صرف عبادت گاہ کے لیے تھا یا پوری انسانی زندگی کے لیے؟
۲۔ اور جو انبیاء اس دین کو لے کر آئے وہ سارے کے سارے ایک ہی مقصد کے لیے آئے تھے اور ایک ہی ان کا مشن تھا، یا مختلف مقاصداور مختلف مشنوں کے لیے‘ جن میں سے بعض مشن بعض کی ضد پڑتے ہوں؟
۳۔ اور یہ کہ انسان سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ فی الواقع کیا ہے؟ ____ اپنی پوری زندگی میں اس کی بندگی کرے اور اسی کے قانون کی متابعت میں کام کرے، یا صرف پوجا اس کی کرتا رہے اور باقی اپنے سارے معاملات جن طریقوں پر چاہے چلائے؟
ان سوالات کا ایک جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اللہ نے جو دین بھیجا ہے اُس کا تعلق صرف اس محدود زندگی سے ہے جو آج کل کے تصور کے لحاظ سے ’مذہبی‘ کہلاتی ہے، مگر یہ مان لینے کے بعد قرآن میں اور دوسری کتب آسمانی میں تمدن‘ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست‘ قانون دیوانی و فوج داری‘ ضوابط شہادت و عدالت اور مسائل صلح و جنگ وغیرہ کے متعلق جو ہدایات دی گئی ہیں وہ سب بے معنی قرار پاتی ہیں، یا پھر ان کی حیثیت احکام کی نہیں، بلکہ سفارشات کی رہ جاتی ہے جن پر عمل ہو جائے تو اچھا اور نہ ہو تو اللہ میاں کو کوئی خاص شکایت نہ ہوگی۔
اسی طرح دوسرے سوال کا جواب بھی یہ ہوسکتا ہے اور ہوسکتا کیا معنی‘ آج کل عام طور پر نبوت کا تصور یہی ہے کہ مختلف انبیاء مختلف مشن لے کر آئے ہیں، حتیٰ کہ ایک نبی کا مقصد بعثت اگر یہ رہا ہے کہ نظامِ کفر کو توڑنے کے لیے لڑے اور اس کی جگہ نظامِ اسلامی کو زمین پر حکمران ہونے کی حیثیت سے قائم کرے تو دوسرے نبی کا مقصد بعثت اس کے برعکس یہ رہا ہے کہ نظامِ کفر کے اندر نہ صرف یہ کہ محدود قسم کی مذہبی و اخلاقی اصلاح پر اکتفا کرے‘ بلکہ اس نظامِ کفر کا مطیع و وفادار بن کر رہے اور موقع ملے تو اس کو چلانے اور فروغ دینے کے لیے خود اپنی خدمات پیش کر دے، مگر یہ بات نہ تو قرآن کے بیان کے مطابق ہے جو پورے زور کے ساتھ یہ تصور پیش کرتا ہے کہ سارے انبیاء ؑ کا مقصد بعثت ایک ہی تھا اور نہ عقل یہ باور کرنے کے لیے تیار ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی متضاد اور باہم متصادم حرکات کا ظہور ہوسکتا ہے۔ شاید کوئی معقول آدمی بھی اس خدا کوایک حکیم خدا ماننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا جو انسانوں کی طرف اپنے پیغمبر کبھی کسی مقصد کے لیے بھیجے اور کبھی اس کے بالکل برعکس کسی دوسرے مقصد کے لیے۔
یہ الگ بات ہے کہ ایک نبی نظام اسلامی کو قائم کرنے کی جدوجہد میں کامیابی کے آخری مرحلوں پر پہنچ جائے‘ دوسرا نبی بیچ کے کسی مرحلے میں یا ابتدائی مرحلے ہی میں آخر وقت تک کام کرتا رہے اور کوئی تیسرا نبی دعوت و تبلیغ یا جنگ کے بجائے کسی درمیانی صورت کو اپنے مخصوص حالات میں قابل عمل پا کر اسے اختیار کرلے، اور ان اشکال کے اختلاف کے باوجود مقصد سب کا ایک ہی ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے نظام زندگی کو مکمل طور پر دنیا میں قائم کرنے کی سعی کرنا‘ لیکن اس اختلافِ اشکال کو یہ معنی پہنانا کہ انبیاء کے مقاصد بعثت ہی سرے سے مختلف و متضاد تھے‘ اللہ پر ایسا بہتان لگانا ہے جس سے بدتر بہتان شاید کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔
اس طرح تیسرے سوال کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے اور آج کل کے مسلمان بالعموم یہی سمجھتے ہیں کہ انسان سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ صرف اتنا ہی ہے کہ وہ اس کی پوجا کرلیا کرے اور کچھ مسائل غسل و طہارت اور چند مخصوص حدودِ حلال و حرام کی پابندی کرلے۔ اس سے آگے نہ اللہ کا کوئی مطالبہ ہے اور نہ اس سے کچھ بحث کہ آدمی زندگی کے وسیع تر معاملات میں اپنے نفس کے قوانین کی پیروی کرتا ہے، یا ان شیاطینِ جن و انس کے احکام کی جو اس کی وسیع زمین پر مسلط ہوگئے، مگر یہ جواب موجودہ زمانے کے دنیا پرستوں کے لیے خواہ کتنا ہی اطمینان بخش ہو اور خواہ ’الَدِّیْنُ یُسْرٌ‘ اور وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ الحج22:78 کا یہ منشا قرار دے کر وہ اپنے لیے اس سے کتنی ہی سہولتیں پیدا کر لیں‘ بہرحال یہ تصور عبدیت و بندگی کے تصور کی قطعی نفی ہے۔ بندگی کا شاید اس سے زیادہ مضحکہ انگیز مفہوم کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ بندہ چوبیس گھنٹوں میں سے دو گھنٹوں کے لیے بندہ ہو اور باقی اوقات میں آزاد‘ یا صرف آقا کو سلامی دے دینے پر اس کی بندگی ختم ہوجائے اور پھر سارے کام اسے اپنے، یا دوسروں کے منشا کے مطابق کرتے رہنے کی آزادی حاصل ہو۔ پھر وہ اللہ تو ہرگز اللہ مانے جانے کے قابل نہیں ہے جو ایک طرف اپنے آپ کو انسان کا خالق اور رب بھی کہتا ہو، اور دوسری طرف پورے انسان کو چھوڑ کر صرف اس کے ایک نہایت ہی قلیل اور غیر اہم جز تک اپنی آقائی و فرماں روائی کو اور اس کی بندگی و غلامی کو محدود رکھنے پر راضی ہو جائے۔ کوئی باپ اپنے بیٹے پر اپنی پدرانہ حیثیت کو‘ کوئی شوہر اپنی بیوی پر شوہرانہ حیثیت کو‘ کوئی حاکم اپنی مملکت اور اپنی رعایا پر اپنی حاکمانہ حیثیت کو اس حد تک محدود کرنے پر راضی نہیں ہوتا کہ چند مراسم اطاعت و وفاداری ادا ہو جانے کے بعد پدریت اور شوہریت اور حاکمیت کا مقتضا پورا ہو جائے اور پھر بیٹے کو اختیار ہو کہ جس جس کو چاہے اپنا باپ بناتا پھرے اور عورت کو اختیار ہو کہ جس جس کے لیے مناسب سمجھے وجۂ سکون بنتی پھرے‘ اور رعایا کو اختیار ہو کہ جس جس کے قانون کی چاہے پیروی کرے‘ جس کو چاہے ٹیکس دے اور جس کے احکام کی چاہے اطاعت کرتی رہے، مگر یہ اللہ آخر کیسا اللہ ہے کہ جو انسان سارے کا سارا اس کی مخلوق اور اسی کا پروردہ ہے اور اسی کے بل پر قائم و موجود ہے‘ اس پر وہ اپنی آقائی کو محدود کر لینے اور اس سے بندگی کی چند رسمی باتیں قبول کرکے اسے خود مختار، یا ہر ایک کی غلامی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینے پر راضی رہے؟
دین اور نبوت اور تقاضائے عبدیت کے یہ تصورات اگر صحیح نہیں ہیں‘ اگر فی الواقع اللہ کا بھیجا ہوا دین انسان کی ساری اجتماعی و انفرادی زندگی سے تعلق رکھتا ہے‘ اگر اللہ کا مطالبہ اپنے بندوں سے یہی ہے کہ وہ ہر حیثیت سے اس کے قانون کے پیرو اور اس کی ہدایت کے متبع ہو کر رہیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو اسی غرض سے بھیجا تھا کہ وہ اس برحق نظام زندگی کو قائم کرنے کی دعوت دیں اور اسی کی اقامت کے لیے سعی کریں جو خدائے واحد کی اطاعت پر مبنی ہو‘ تو کسی معقول آدمی کے لیے یہ تسلیم کرنا سخت مشکل ہے کہ سارے نبیوں میں سے تنہا ایک حضرت یوسف علیہ السلام ہی ایسے انوکھی قسم کے نبی تھے جن کے سپرد دین اللہ کو قائم کرنے کی سعی کے بجائے یہ خدمت کی گئی تھی کہ دین ِ الملک کے تحت وزارت مال کی نوکری کریں اور اسی طرح کوئی معقول آدمی ان دو متضاد باتوں کو بھی باہم منطبق نہیں کرسکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف تو عرب کے غیر اسلامی نظام میں دین حق کی اقامت کے لیے جدوجہد بھی فرما رہے تھے اور دوسری طرف آپؐ کے نزدیک حبش کا غیر اسلامی نظام اس درجہ برحق بھی تھا کہ ایک مسلم جماعت کے لیے وہ ایک مناسب جائے قیام ہو سکتا تھا۔ جو لوگ دین کو ایک معقول و متناسب نظام فکر کی حیثیت سے نہیں دیکھتے‘ بلکہ اس کو منتشر اور ایک دوسرے سے بے تعلق اجزا کا مجموعہ سمجھتے ہیں‘ ان کے لیے تویہ بہت آسان ہے کہ انبیاء کے حالات زندگی‘ قرآن کی تعلیمات اور دین کے احکام و اوامر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر ایک کی ایسی تاویلیں اور تفسیریں کریں جن سے ایک جز دوسرے جز سے اور ایک پہلو دوسرے پہلو سے صریح تناقض کا رنگ اختیار کرلے، لیکن اس دین کو ایک حکیم کے بنائے ہوئے مرتب و مربوط اور متناسب نظام کی حیثیت سے دیکھنے والوں کے لیے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس کے ہر پہلو اور ہر جز کی وہی تفسیر و تاویل اختیار کریں جو کلی نظام کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہو اور کسی ایسی تعبیر کو‘ خواہ وہ کیسے ہی بڑے علما کی طرف سے پیش کی گئی ہو‘ قبول نہ کریں جس سے اس دین کے اندر تناقض اور اس کی تعلیمات اور انبیاء علیہم السلام کے کاموں کے درمیان تصادم لازم آتا ہو۔
اب ہم سورۂ یوسف کے زیر بحث مقامات اور ہجرت حبشہ کے واقعات سے براہ راست بحث کریں گے۔
قصۂ یوسف علیہ السلام سے غلط استدلال
حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ جس طریقے سے سورۂ یوسف میں بیان ہوا ہے اس پر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب قبل اس کے کہ نبوت سے سرفراز ہوتے، اپنے بھائیوں کی غداری اور ایک تجارتی قافلے کی خیانت کی بدولت عزیز مصر کے مملوک ہو چکے تھے۔ اس مملوکیت کے زمانے میں‘ یا اس کے بعد جب کہ آپ قید کیے جاچکے تھے‘ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا منصب عطا کیا گیا ____ اغلب یہی ہے کہ یہ سرفرازی قید ہی کے زمانے میں ہوئی ہوگی‘ کیونکہ قید ہونے سے پہلے آپ کے کلام کا انداز پیغمبرانہ شان کا نہیں‘ بلکہ صرف ایک مرد صالح کا سا نظر آتا ہے ____ اس حالت میں جب آپ نبوت سے سرفراز ہوئے تو آپ نے معاً اپنی پیغمبرانہ دعوت کی ابتدا کر دی اور ساتھ کے قیدیوں ہی کو اس چیز کی طرف بلانا شروع کر دیا جس کے لیے آپ مامور ہوئے تھے۔ اس دعوت کا خلاصہ سورۂ یوسف (رکوع ۵ آیات: ۳۶۔۴۲ ) میں بیان ہوا ہے جس کا مطالعہ کرکے آج بھی ہر شخص یہ دیکھ سکتا ہے کہ ان کا بلاوا ’ئَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ‘ کی بندگی کی طرف نہیں تھا‘ بلکہ ایک رب کی بندگی کی طرف تھا اور وہ بار بار اہل مصر پر یہ واضح کرتے رہے تھے کہ جس بادشاہ کو تم نے رب بنا رکھا ہے وہ میرا رب نہیں ہے‘ بلکہ میرا رب اللہ ہے اور جس ملت کی میں پیروی کرتا ہوں وہ اللہ ہی کی بندگی سے عبارت ہے۔ یہ تبلیغ جو وہ قید خانے میں کر رہے تھے‘ اس کے دوران میں یکایک یہ صورت حال پیش آئی کہ دیانت وتقویٰ اور حکمت و بصیرت کے جو غیر معمولی نشانات ان کی ذات سے ظاہر ہوئے تھے‘ فرماں روائے مصر اُن سے متاثر ہوگیا اور اس حد تک متاثر ہوا کہ انھیں یہ توقع ہوگئی کہ اگر وہ سلطنت کے پورے اختیارات اس سے مانگیں تو وہ انھیں دینے پر آمادہ ہوسکتا ہے۔ اب یوسف علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے:
٭ ایک راستہ یہ کہ وہ اسلامی انقلاب کے لیے دعوت عام‘ جدوجہد‘ کشمکش اور جنگ کے طویل عمل ہی کو اختیار کریں‘ جو عام حالات میں اختیار کرنا پڑتا ہے۔
٭ دوسرا راستہ یہ کہ وہ اس موقع کو جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ان کے ہاتھ آگیا تھا‘ استعمال کریں اور عقیدت مند بادشاہ سے جو اختیارات مل رہے تھے‘ انھیں لے کر ملک کے نظام فکر و اخلاق اور نظام تمدن و سیاست کو بدلنے کی کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ نے جو بصیرت اُن کو عطا کی تھی اس کی بنا پر انھوں نے پہلے راستے کی بہ نسبت دوسرے راستے کو اپنے مقصد کے لیے مفید تر اور اپنی منزل مقصود سے قریب تر سمجھا اور اسے اختیار کرلیا۔
یہ غیر اسلامی نظام کی نوکری نہیں تھی جو پیٹ پالنے کے لیے‘ یا ذاتی جاہ و منزلت کے لیے‘ یا نظامِ فاسد کے جزوی مصالح کے لیے کی گئی ہو‘ بلکہ یہ ایک تدبیر تھی جو اسی ایک مقصد کے لیے اختیار کی گئی تھی جس کے لیے تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح حضرت یوسف علیہ السلام بھی مبعوث ہوئے تھے۔ جن لوگوں نے اسے محض نوکری سمجھا ہے اور یہ خیال کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے نظام اسلامی کے قیام کے لیے اس کو ذریعہ ہونے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اس غرض کے لیے حاصل کیا تھا کہ کافرانہ نظام بدستور قائم رہے اور وہ اس کے تحت بس فائنانس منسٹر کی خدمت انجام دیتے رہیں‘ ان کے نزدیک حضرت یوسف علیہ السلام کا مرتبہ موجودہ حکومتوں اور ریاستوں کے تنخواہ دار ملازموں سے کچھ بھی بلند نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اتنا بلند بھی نہیں جتنا ہمارے اس ملک میں کانگریسی وزارتوں کا مقام ثابت ہوا ہے۔ جن کا طرز عمل تمام ملک دیکھ چکا ہے کہ جب تک انھیں اپنے مقصد (آزادی ملک) کے لیے وزارت کے مفید ہونے کا یقین نہ ہوگیا‘ انھوں نے اور ان کے کسی گرے پڑے شخص نے بھی وزارت قبول کرنے کا خیال تک نہ کیا اور پھر جب وزارتیں قبول کیں تو یہ دیکھ کر کہ فی الواقع جوہر اقتدار (substance of power)ان کی طرف منتقل نہیں کیا گیا ہے‘ انھوں نے تمام وزارتوں کو لات مار دی۔
یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ اختیارات بادشاہ سے مانگے گئے تھے، یا اس سے چھینے گئے تھے‘ اور نہ یہ بات کوئی اہمیت رکھتی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے برسراقتدار آتے ہی بادشاہ معزول کر دیا گیا، یا تخت ِ سلطنت پر قائم رہا۔ اصل اہمیت جو چیز رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جو منصب طلب کیا تھا وہ آیا کافرانہ نظام کو چلانے کے لیے اور اس کی ملازمت قبول کرنے کی خاطر کیا تھا، یا اپنے مقصد ِ بعثت یعنی نظام اسلامی کو قائم کرنے کی خاطر۔ دوسری چیز جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ کہ آیا فی الواقع ان کو ایسے اختیارات ملے تھے یا نہیں، جن سے وہ ملک کے نظام میں تبدیلی کرنے کے قابل ہوسکتے؟ ہمارے نزدیک دین اور نبوت کے پورے تصور کا تقاضا یہ ہے کہ ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے مطالبے ’اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ یوسف12:55 کا مقصد نظام اسلامی کا قیام سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ خزائن الارض کے مطالبے سے حضرت یوسف علیہ السلام کا مدعا یہ تھا کہ ملک کے تمام ذرائع و وسائل (resources)ان کے ہاتھ میں دیے جائیں۔
خان بہادر صاحب خواہ مخواہ خزائن کے لفظ کو مالیات کے معنی میں لے رہے ہیں۔ حالانکہ قرآن میں کہیں بھی یہ لفظ مالیات کے معنوں میں نہیں آیا ہے۔ قرآنی تعلیمات کا تَتَبُّعْ کرنے سے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ اس لفظ کا مفہوم وہی ہے جو ’ذرائع و وسائل‘ کا مفہوم۲۳؎ ہے‘ اور ظاہر بات یہ ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ میں کسی ملک کے تمام ذرائع و وسائل کا ہونا اور اس کا ملک کے تمام سپید و سیاہ پر متصرف ہو جانا‘ دونوں بالکل ہم معنی ہیں۔ اسی بات کی تصدیق بائبل سے بھی ہوتی ہے جس میں بصراحت یہ بیان ہوا ہے کہ فرعون مصر صرف برائے نام بادشاہ رہا ورنہ تمام ملک عملاً حضرت یوسف علیہ السلام کے زیر نگیں ہوگیا۔۲۴؎
اب رہا یہ دعویٰ کہ حضرت یوسف ؑ کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی ملک میں سکہ تو دین الملک ہی کا رواں رہا، جیسا کہ آیت ’ مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ‘ سے ظاہر ہوتا ہے‘ تو اس کے متعلق پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ عام طور پر اس آیت کا جو ترجمہ کیا جاتا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مترجمین اس کا مفہوم یہ لیتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام دین الملک کے تحت اپنے بھائی کو نہیں پکڑ سکتے تھے۔ حالانکہ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ یوسف ؑ کاکام یہ نہ تھا‘ یا یوسف ؑ کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ اپنے بھائی کو دین الملک کے تحت پکڑتا۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی اس محاورے کا مفہوم عدم قدرت نہیں‘ بلکہ عدم موزونیت و عدم مناسبت ہی ہے۔ مثلاً: مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ آل عمران3:179 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تم کو غیب پر مطلع نہیں کرسکتا‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ تمھیں غیب پر مطلع کرے۔ اسی طرح مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْالبقرہ 2:143 ، مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْالتوبۃ9:70 اور مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ آل عمران3:179 میں اللہ تعالیٰ کی عدمِ قدرت کا ذکر نہیں ہے‘بلکہ یہ ذکر ہے کہ ظلم اور اضاعتِ ایمان اور مومنین و منافقین کو خلط ملط چھوڑ دینا اللہ تعالیٰ کا طریقہ نہیں ہے اور خود سورۂ یوسف میں اس آیت سے پہلے ایک مقام پر جو ارشاد ہوا ہے‘ مَا کَانَ لَنَآ اَنْ نُّشْرِکَ بِاللّٰہِ مِنْ شَیْئٍیوسف12:38تو اس کے معنی بھی یہ نہیں ہیں کہ ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنے پر قادر نہیں ہیں‘ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ’’ہم لوگوں کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کریں‘‘ پس آیت زیر بحث کو بھی یہ معنی پہنانا صحیح نہیں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام دین الملک پر عمل کرنا چاہتے تھے مگر اس کے تحت اپنے بھائی کو گرفتار نہیں کرسکتے تھے‘ بلکہ قرآنی استعمالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ دین الملک کے تحت اپنے بھائی کو گرفتار کرنا یوسف علیہ السلام کے شایانِ شان نہیں تھا۔ البتہ اس آیت سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے صاحب اقتدار ہونے کے باوجود غیر اسلامی قانون تعزیرات کم از کم سات آٹھ برس بعد تک (جب کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی وہاں پہنچے تھے) ملک میں نافذ تھا، لیکن اس کے متعلق اس سے پہلے بھی ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ایک ملک کے نظامِ تمدن کو ایک رات کے اندر کلی طور پر تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور اسلامی انقلاب کا یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ اقتدار ہاتھ میں آتے ہی جاہلیت کے تمام قوانین و رسوم کو یک لخت بدل ڈالا جائے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ملک کے نظام تمدن کو کلی طور پر تبدیل کرنے میں پورے دس برس لگے تھے۔ لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام کے دور حکومت میں چند سال تک غیر اسلامی قانون تعزیرات، یا اس کے ساتھ کچھ دوسرے غیر اسلامی قوانین بھی جاری رہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پیش نظر خدائی قوانین کا اجرا سرے سے تھا ہی نہیں اور وہ کافرانہ قوانین ہی ملک میں برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
ہجرتِ حبشہ سے غلط استدلال
اب بحث ختم کرنے سے پہلے ذرا ایک نظر ہجرتِ حبشہ کے مسئلے پر بھی ڈال لیجیے۔
اس معاملے کو جس انداز سے پیش کیا جاتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ حبش میں ایک غیر مسلم حکومت قائم تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو وہاں بھیج دیا، تاکہ اس کی رعیت بن کر رہیں۔پھر صحابہ کرام وہاں غیر مسلم بادشاہ کے وفادار بن کر رہے کیونکہ انھیں اس کے ماتحت عقیدے اور پوجا کی آزادی حاصل تھی‘ اور جب ایک ہمسایہ بادشاہ نے اس کے ملک پر حملہ کیا تو انھوں نے اس کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگیں۔ لیکن یہ واقعات کی بالکل غلط نقشہ کشی ہے۔
٭ اول تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حبش بھیجا تھا اُسی وقت آپؐ کو اس امر کا اندازہ تھا کہ نجاشی صالحین نصاریٰ میں سے ہے۔ چنانچہ حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپؐ نے مہاجرین سے اُس کی مملکت کے متعلق فرمایا تھا: وَھِیَ اَرْضُ صِدْقٍ (سیرت ابن ہشام،ج۱،ص۳۲۱)۔ (وہ ایک اچھی سرزمین ہے)
٭ دوسرے‘ مہاجرین کو وہاں بھیجنے کی غرض یہ نہ تھی کہ وہاں کی رعایا بن کر رہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ہجرت کا مشورہ دیتے وقت یہ فرمایا تھا کہ :
لَوْخَرَجْتُمْ اِلٰی اَرْضِ الْحَبَشَۃِ … حَتّٰی یَجْعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ فَرْجًا وَمَخْرَجًا۔ (سیرت ابن ہشام، ج۱، ص ۳۲۱)
کاش تم لوگ حبش کی طرف چلے جاتے یہاں تک کہ اللہ تمھارے لیے کوئی صورت نکالے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پیشِ نظر صرف یہ چیز تھی کہ جو مسلمان کشمکش کے اس مرحلے میں اپنی قوت برداشت سے زیادہ مصائب کے شکار ہو رہے تھے ان کو آپ نے عارضی طور پر ایک ایسی جگہ بھیج دیا جہاں اس قسم کے مصائب کی توقع نہ تھی اور مقصود یہ تھا کہ بعد میں جب حالات سازگار ہو جائیں تو یہ لوگ وہاں سے واپس آجائیں۔ اس کو نظیر بنا کر یہ نتیجہ نکالنا آخر کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اگر کسی غیر مسلم حکومت میں عقیدے اور پوجا کی آزادی حاصل ہو تو یہ اس کے تحت ان کے وفادار رعیت بن کر رہ پڑنے کے لیے کافی ہے اور اس کے آگے کچھ اور مطلوب نہیں ہے۔
۳۔ پھر جب مہاجرین وہاں پہنچے اور کفار مکہ نے نجاشی سے ان کو واپس مانگنے کے لیے اپنا وفد روانہ کیا اور حضرت جعفرؓ اور نجاشی کے درمیان مکالمہ ہوا تو محدثین اور اہلِ سیرت کی متفقہ روایت کے مطابق نجاشی نے نہ صرف یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اس عقیدے کی تصدیق کی جو قرآن میں بیان ہوا ہے‘ بلکہ مزید برآں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار بھی کیا۔ اس کے بعد نجاشی کے مسلمان ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ امام احمد نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے (جو اس واقعے کے عینی شاہد ہیں) نجاشی کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ اس نے کہا:
مَرْحَبًا بِکُمْ وَلِمَنْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِہٖ اَشْھَدُ اَنَّہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَنَّہُ الَّذِیْ نَجِدُ فِی الْاِنْجِیْلِ وَاَنَّہُ الرَّسُوْلُ الَّذِیْ بَشَّرَ بِہٖ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ۔ (سیرت ابن ہشام، ج۳، ص۲۷۷)
خوش آمدید ہو تمھارے لیے اور ان کے لیے جن کے پاس سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ نے دی ہے۔
کیا یہ الفاظ کسی غیر مسلم کے ہوسکتے ہیں۔ بیہقی میں خود عمرو بن عاص سے (جو مہاجرین کو واپس لانے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے حبش بھیجے گئے تھے) یہ الفاظ مروی ہیں کہ انھوں نے آکر اہلِ مکہ کو جو رپورٹ دی وہ یہ تھی کہ : اِنَّ اَصْحَمَۃَ یَزْعُمُ اَنَّ صَاحِبَکُمْ نَبِیٌّ (ایضاً)۔ اصحمہ نجاشی بیان کرتا ہے کہ تمھارا ساتھی نبی ہے۔
کیا کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرکے بھی غیر مسلم قرار پاسکتا ہے۔
ابن ہشام نے اپنی سیرت نبوی میں حضرت عمرو بن عاص کے قبول اسلام کا جو قصہ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اوّل اوّل نجاشی ہی کی تبلیغ نے ان کے دل میں ایمان پیدا کیا تھا اور صلح حدیبیہ سے پہلے وہ نجاشی کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کر چکے تھے۔ اس موقع پر جو الفاظ اس نے حضرت عمرو بن عاص سے کہے تھے وہ یہ تھے کہ:
اَطِعْنِیْ وَاتَّبِعْہُ فَاِنَّہ‘ وَاللّٰہِ لَعَلَی الْحَقِّ وَلَیَظْھَرَنَّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہ‘ کَمَا ظَھَرَ مُوْسٰی عَلٰی فِرْعَوْنَ وَجُنُوْدِہٖ۔ (ایضاً)
میری بات مانو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی قبول کرلو‘ کیونکہ وہ حق پر ہیں اور وہ اسی طرح اپنے مخالفین پر غالب آکر رہیں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کے لشکروں پر غالب آئے تھے۔
علامہ ابن عبدالبر نے استیعاب میں وہ خطبہ نقل کیا ہے جو نجاشی نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غائبانہ نکاح پڑھاتے ہوئے دیا تھا۔ اس میں صاف طور پر یہ الفاظ موجود ہیں:
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاَنَّہُ الَّذِیْ بَشَّرَبِہٖ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ۔
میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں جن کی آمد کی خبر عیسیٰ ابن مریم نے دی تھی۔
ان سب سے بڑھ کر مستند و معتبر وہ روایت ہے جو بخاری و مسلم میں آئی ہے کہ نجاشی کی وفات کی خبر پاکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا:
مَاتَ الْیَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ فَقُوْ مُوْا فَصَلُّوْا عَلٰی اَخِیْکُمْ اَصْحَمَۃَ۔ (بخاری، باب موت النجاشی)
آج ایک مرد صالح نے وفات پائی ہے‘ اٹھو اور اپنے بھائی اصحمہ کی نماز جنازہ پڑھو۔
اس کے بعد تو سرے سے اس استدلال کی بنا ہی منہدم ہو جاتی ہے جو ہجرتِ حبشہ کے واقعے سے کیا جاتا ہے۔۲۵؎

شیئر کریں