حقیقتِ رسالت
توحید کے بعد اسلام کا دوسرا بنیادی عقیدہ ’’رسالت‘‘ ہے۔ جس طرح اعتقاد کی جہت میں توحید اصل دین ہے، اسی طرح اتباع کی جہت میں رسالت اصل دین ہے۔ رسالت کے لغوی معنی پیامبری کے ہیں۔ جو شخص کسی کا پیغام کسی دوسرے شخص کے پاس لے جائے وہ ’’رسول‘‘ ہے۔ مگر اسلام کی اصطلاح میں رسول اسے کہتے ہیں جو خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے، اور خدا کے حکم سے راہِ راست کی طرف ان کی راہ نُمائی کرے۔ اسی لیے قرآن میں رسول کے لیے ’’ہادی‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے، یعنی وہ جو سیدھا راستہ دکھائے۔
خدا نے ایک رہبر تو انسان کے اپنے نفس میں مقرر کر رکھا ہے، جو الہام الٰہی کی بنا پر اچھے اور برے خیالات، غلط اور صحیح اعمال کے درمیان تمیز کرکے انسان کو فکر و عمل کا سیدھا راستہ دکھاتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَاo فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَاo الشمس 7-10:91
اور نفسِ انسانی اور اُس ذات کی قسم جس نے اسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔
لیکن چوں کہ اس راہ نُما کی ہدایت واضح نہیں ہے، اور اس کے ساتھ بہت سی ذہنی اور خارجی قوتیں ایسی بھی لگی ہوئی ہیں جو انسان کو برے اعمال کی طرف کھینچتی رہتی ہیں، اور ان وجوہ سے تنہا اس جبلی راہ نُما کی ہدایت بے شمار ٹیڑھے راستوں میں سے حق کی سیدھی راہ نکال لینے اور اس پر بے خطر چلنے میں انسان کے لیے کافی نہیں ہوسکتی، اس لیے اللّٰہ تعالیٰ نے خارج سے اس کمی کو پورا کیا اور انسان کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے، تاکہ وہ علم و معرفت کی روشنی سے اس باطنی راہ نُما کی امداد کریں، اور اس مبہم فطری الہام کو آیات بینات کے ذریعے سے واضح کر دیں جس کی روشنی جہالتوں اور گمراہ کن قوتوں کے ہجوم میں مدھم پڑ جاتی ہے۔
یہی منصبِ رسالت کی اصل ہے۔ جو لوگ اس منصب پر سرفراز کیے گئے ہیں، انھیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیر معمولی علم اور نورِ بصیرت عطا کیا گیا ہے، جس سے وہ ظن و تخمین کی بِنا پر نہیں بلکہ علمِ یقین کی بِنا پر ان امور کی حقیقت جان گئے ہیں جن میں عامۃ الناس اختلاف کرتے ہیں، اور اس نورِ بصیرت سے انھوں نے ٹیڑھے راستوں میں سے حق کا سیدھا اور صاف راستہ دیکھ لیا ہے۔
رسول اورعام راہ نُمائوں کا فرق
خارجی راہ نُما کی ضرورت ہر زمانے میں انسان نے تسلیم کی ہے، کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ انسان کے لیے محض اس کے اپنے باطنی راہ نُما کی ہدایت کافی ہے۔ آبائواجداد، خاندان اور قبیلے اور قوم کے بزرگ، اساتذہ، اہلِ علم، مذہبی پیشوا، سیاسی لیڈر، اجتماعی مصلحین اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کو جن کی دانش مندی پر بھروسا کیا جا سکتا تھا، ہمیشہ راہ نُمائی کا منصب دیا گیا ہے اور ان کی تقلید کی گئی ہے۔ لیکن جو چیز ایک رسول کو ان دوسری قسم کے راہ نُمائوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ’’علم‘‘ ہے۔ دوسرے راہ نُمائوں کے پاس علم نہیں ہے۔ وہ محض ظن و تخمین کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں اور اس رائے میں ہوائے نفس کے عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جو عقائد و قوانین وہ وضع کرتے ہیں، ان کے اندر حق اور باطل دونوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ پورا پورا حق ان کے قائم کیے ہوئے طریقوں میں نہیں ہوتا۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید بار بار متنبہ کرتا ہے:
اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْاَنْفُسُ۰ۚ النجم 23:53
وہ جس چیز کی پیروی کرتے ہیں، وہ بجز گمان اور خواہشاتِ نفس کے اور کچھ نہیں ہے۔
وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ۰ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ۰ۚ وَاِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَـيْــــًٔاo النجم 28:53
اور ان کے پاس حقیقت کا کوئی علم نہیں ہے۔ وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور گمان کا حال یہ ہے کہ وہ حق کی ضرورت کو کچھ بھی پورا نہیں کرتا۔
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ۰ۚ الروم 29:30
مگر ظالموں نے اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کی، بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍo ثَانِيَ عِطْفِہٖ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ الحج 8-9:22
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تکبر کے ساتھ منہ موڑے ہوئے اللّٰہ کے بارے میں بغیر کسی علم و ہدایت اور کتاب منیر کے جھگڑتا ہے، تاکہ اللّٰہ کے راستے سے بھٹکا دے۔
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ القصص 50:28
اور اس سے بڑھ کر گم راہ کون ہو گا جس نے اللّٰہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے بجائے اپنی خواہش کا اتباع کیا۔
بخلاف اس کے رسول کو اللّٰہ کی طرف سے ’’علم‘‘ عطا کیا جاتا ہے۔ اس کی راہ نُمائی گمان اور ہوائے نفس کی بِنا پر نہیں ہوتی، بلکہ وہ خدا کے بخشے ہوئے نورِ علم سے جس سیدھے رستے کو صاف اور واضح دیکھتا ہے اسی کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں جہاں کہیں انبیاؑ کو ’’رسالت‘‘ کے منصب پر سرفراز کرنے کا ذکر آتا ہے، وہاں یہی کہا جاتا ہے کہ انھیں ’’علم‘‘ بخشا گیا۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نبوت کا اعلان اس طرح کرایا جاتا ہے:
يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ قَدْ جَاۗءَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَہْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّاo
مریم 43:19
اے پدرِ عزیز! یقین جان کہ میرے پاس وہ علم آیا ہے جو تیرے پاس نہیں آتا، لہٰذا تو میری پیروی کر، میں تجھے سیدھے راستے پرچلائوں گا۔
لوط ؑ کو نبوت بخشنے کا ذکر اس طرح کیا جاتا:
وَلُوْطًا اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا الانبیائ 74:21
اور لوط کو ہم نے قوتِ فیصلہ اور علم بخشا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۰ۭ القصص 14:28
اور جب وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچا اور پورا آدمی بن گیا تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا۔
دائود و سلیمان علیہما السلام کے نبوت پر سرفراز ہونے کا ذکر بھی اسی طرح کیا جاتا ہے:
وَكُلًّا اٰتَيْنَا حُكْمًا وَّعِلْمًا۰ۡ الانبیائ 79:21
ان میں سے ہر ایک کو ہم نے حکم اور علم عطا کیا۔
نبی عربی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے:
وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ مَا لَكَ مِنَ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍo البقرہ 120:2
اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمھارے پاس آیا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللّٰہ سے تم کوبچانے والا کوئی حامی و مددگار نہ ہو گا۔
منصبِ رسالت، اور عام راہ نُمائوں کے مقابلے میں رسول کے امتیازی مقام کی توضیح کے بعد اب ہمیں ان اصولی امور کی طرف توجہ کرنی چاہیے، جو رسالت کے بارے میں قرآن مجید نے پیش کیے ہیں۔
ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرسل کا تعلق
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب رسول کے پاس علم کا ایسا ذریعہ ہے جو دیگر لوگوں کو حاصل نہیں ہے، اور خدا کی طرف سے اسے بصیرت کا وہ نور عطا کیا گیا ہے جس سے عام انسان محروم ہیں، تو خدا کے بارے میں صرف وہی اعتقاد صحیح ہو سکتا ہے جو رسول نے پیش کیا ہے۔ اگر کوئی شخص خود اپنے غور و فکر یا دوسرے عقلا و حکما کی تعلیمات پر کوئی اعتقاد قائم کرے تو نہ صرف خدا کے بارے میں اس کا عقیدہ درست نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ان دوسرے امور ماورائے طبیعت کے بارے میں بھی کوئی سچی واقفیت بہم نہیں پہنچا سکتا جو دین کے بنیادی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں اور عام انسانی عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔ پس جملہ ایمانیات اور معتقدات کی صحت کا کلی انحصار ایمان بالرسل پر ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ہم اس واسطے سے قطع تعلق کرکے علم صحیح سے دامنِ فکر کو وابستہ کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں جگہ جگہ ایمان بالرسل پر زور دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ فَحَاسَبْنٰہَا حِسَابًا شَدِيْدًا۰ۙ وَّعَذَّبْنٰہَا عَذَابًا نُّكْرًاo فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِہَا وَكَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِہَا خُسْرًاo
الطلاق65:9- 8
اور کتنی ہی بستیاں ہیں جنھوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرتابی کی تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور انھیں بڑی بُری سزا دی، جس سے انھوں نے اپنے کیے کا مزا چکھ لیا، اور آخر کار اُن کا انجام نامرادی رہا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللہِ وَرُسُلِہٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ۰ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًاo اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ حَقًّا۰ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابًا مُّہِيْنًاo وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ يُفَرِّقُوْا بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰۗىِٕكَ سَوْفَ يُؤْتِيْہِمْ اُجُوْرَہُمْ۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo النسائ 150-152:4
جو لوگ اللّٰہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں، اور اللّٰہ اور اس کے رسولوں میں تفریق کرنا چاہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض سے انکار کریں گے، اور چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کی کوئی راہ نکال لیں، وہ یقیناً کافر ہیں۔ اور کافروں کے لیے ہم نے ایک رُسوا کُن عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللّٰہ پر اور اس کے رسولوں پراور ان میں سے کسی کے درمیان انھوں نے تفریق نہ کی، انھیں عن قریب اللّٰہ تعالیٰ ان کے اجر عطا فرمائے گا، اور اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُ الْہُدٰى وَيَتَّبِـعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ۰ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًاo النسائ115:4
اور جو شخص ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول سے جھگڑا کرے اور ایمان لانے والوں کے راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے پرچلے، اسے ہم اسی راستے پر پھیر دیں گے جس پر وہ خود پھر گیا ہے، اور آخر کار اسے جہنم میں جھونک دیں گے، اور یہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے۔
یہ اور ایسی ہی سیکڑوں آیات ہیں جن میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ایمان باللّٰہ اور ایمان بالرُسُل کا تعلق ناقابلِ انقطاع ہے۔ جو شخص خدا کے رسولوں کا انکار کرتا ہے اور ان کی تعلیم کو قبول نہیں کرتا، وہ چاہے خدا کو مانے یا نہ مانے، دونوں حالتوں میں اس کی گم راہی یکساں ہے، کیوں کہ خدا کے بارے میں جو اعتقاد علم کے بغیر قائم کیا جائے گا، وہ ہرگز صحیح نہ ہو گا، خواہ وہ عقیدۂ توحید ہی کیوں نہ ہو۔
وحدتِ کلمہ
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صرف ایمان بالرُسُل ہی وہ چیز ہے جو بنی نوعِ انسان کو ایک عقیدے پر جمع کر سکتی ہے۔ اختلاف کی بِنا دراصل جہالت ہے۔ لوگ جس چیز کی حقیقت سے واقف نہ ہوں گے، اس کے متعلق گمان کی بنا پر قیاس آرائیاں کریں گے اور لامحالہ ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گا، کیوں کہ گمان اور قیاس کی مدد سے رائے قائم کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں ٹٹولنا۔
جہاں روشنی نہ ہو گی، وہاں پچاس آدمی ایک چیز کو ٹٹول کر پچاس مختلف رائیں ظاہر کریں گے۔ مگر روشنی آنے کے بعد کوئی اختلاف باقی نہ رہے گا اور سب آنکھوں والے ایک ہی نتیجے پر متفق ہو جائیں گے۔ پس جب انبیا علیہم السلام کو ’’علم‘‘ کی نعمت اور بصیرت کے نور سے بہرہ ور کیا گیا ہے تو ممکن نہیں ہے کہ ان کی آرا میں اختلاف ہو، ان کی تعلیمات میں اختلاف ہو، یا ان کے طریقوں میں اختلاف ہو۔ اس لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ تمام انبیا ایک ہی گروہ ہیں، سب کی تعلیم ایک ہے، سب کا دین ایک ہے، سب ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف بلانے والے ہیں اور مومن کے لیے سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ جو شخص انبیا میں سے کسی ایک نبی ؑ کی تکذیب کرے گا وہ گویا تمام انبیا کی تکذیب کا مجرم ہو گا اور اس کے دل میں ایمان باقی نہ رہے گا۔ کیوں کہ جس تعلیم کو وہ جھٹلا رہا ہے، وہ محض اس ایک نبی کی تعلیم نہیں ہے بلکہ بجنسہٖ وہی تعلیم تمام انبیا کی ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌo وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِo فَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَہُمْ بَيْنَہُمْ زُبُرًا۰ۭ كُلُّ حِزْبٍؚبِمَا لَدَيْہِمْ فَرِحُوْنَo المومنون 51-53:23
(خدا نے پیغمبروں سے فرمایا کہ) اے پیغمبرو! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اسے میں جانتا ہوں، اور یقیناً تمھارا گروہ دراصل ایک ہی گروہ ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو۔ مگر بعد میں لوگوں نے آپس میں اختلاف کرکے اپنے مذہب الگ الگ بنا لیے، اور اب حال یہ ہے کہ جس گروہ کے پاس جو چیز ہے اسی پر وہ خوش ہے۔
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَـمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِہٖ۰ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْـبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ۰ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاo وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَيْكَ۰ۭ وَكَلَّمَ اللہُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًاo النسائ 163-164:4
اے محمدؐ! ہم نے اسی طرح تمھاری طرف وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نوحؑ اور اس کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیج چکے ہیں، اور اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ اور آلِ یعقوبؑ اور عیسیٰ ؑاور ایوبؑ اور یونس ؑ اورہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی اوردائود کو زبور عطا کی، اور ہم ہی نے وہ رسول بھی بھیجے جن کا حال ہم اس سے پہلے تمھیں بتا چکے ہیں اور وہ رسول بھی جن کا حال تم سے بیان نہیں کیا، اور تم سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ موسٰیسے بھی کلام کر چکا ہے۔
یہ اور ایسی ہی بہت سی آیات ظاہر کرتی ہیں کہ تمام انبیا ایک ہی دینِ حق کی طرف بلاتے آئے ہیں اور وہ ہر قوم کی طرف بھیجے جا چکے ہیں: وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ۰ۚ یونس 47:10، وَّلِكُلِّ قَوْمٍ ہَادٍٍo الرعد13:7 ان میں سے جن نبیوں کا ذکر قرآن مجید میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہے ان پر تو تصریح کے ساتھ ایمان لانا ضروری ہے۔ رہے وہ انبیا و ہادیانِ امم جن کے نام ہمیں نہیں بتائے گئے ہیں، تو ان کے متعلق صحیح اعتقاد یہ ہے کہ وہ سب اسلام ہی کے داعی تھے مگر قوموں نے ان کی تعلیمات کو بدل دیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنے الگ الگ مذہب بنا لیے۔ ہم بدھ اور کرشن اور زردشت اور کنفیوشس وغیرہم کو نبی اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے متعلق قرآن میں تصریح نہیں ہے، لیکن ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول ہندوستان، چین، جاپان، ایران، افریقہ، یورپ اور تمام ممالک میں آئے ہیں، اور سب نے اسی اسلام کی طرف دعوت دی ہے جس کی طرف محمدؐ بلاتے ہیں۔ پس ہم کسی قوم کے پیشوایانِ مذہب کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ ان غلط طریقوں کی تکذیب کرتے ہیں جو اب اسلام کی صراطِ مستقیم سے ہٹے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ انبیا کے متعلق قرآن کی یہ تعلیم بے نظیر ہے، کسی مذہب میں ایسی تعلیم موجود نہیں ہے، یہ صداقت قرآنی کی روشن دلیل ہے اور بنی نوعِ انسان کے لیے اس میں عالم گیر اتفاق اور وحدتِ کلمہ کا ایک سکون بخش پیغام مضمر ہے۔
اتباع و اطاعتِ رسولؐ
رسالت کے اعتقاد کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف عقائد اور عبادات میں بلکہ زندگی کے تمام عملی مسائل میں بھی اس طریقے کی پیروی کی جائے جس پر خدا کے رسولؐ چلے ہیں۔ کیوں کہ خدا نے جس ’’علم‘‘ اور نورِ بصیرت سے انھیں بہرہ ور فرمایا تھا، اس سے غلط اور صحیح طریقوں کا فرق یقینی طور پر انھیں معلوم ہو جاتا تھا، اس لیے وہ جو کچھ ترک یا اختیار کرتے تھے اور جو کچھ حکم دیتے تھے وہ سب خدا کی طرف سے تھا۔ عام انسان سال ہا سال بلکہ قرن ہا قرن کے تجربات کے بعد بھی غلط اور صحیح کے امتیاز میں پوری طرح کام یاب نہیں ہوتے، اور جو تھوڑی بہت کام یابی نصیب ہو بھی جاتی ہے تو وہ یقینِ کامل کی ٹھوس بنیادوں پر قائم نہیں ہوتی، بلکہ اس کی بنا محض قیاس و استقرا پر ہوتی ہے جس میں بہرحال غلطی کا اندیشہ باقی رہتا ہے۔ بخلاف اس کے انبیا علیہم السلام نے زندگی کے معاملات میں جو طریقے اختیار کیے اور جن پر چلنے کی تعلیم دی، وہ ’’علم‘‘ کی بِنا پر اختیار کیے گئے تھے، اس لیے ان میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید بار بار انبیا کی اطاعت اور ان کے اتباع کا حکم دیتا ہے، ان کے قائم کیے ہوئے طریقے کو شریعت اور منہاج اور صراطِ مستقیم کہتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ تمام دوسرے لوگوں کا اتباع ترک کرکے صرف انبیا کا اتباع کرو اور انھی کے طریقے پر چلو، کیوں کہ ان کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہے، اور ان کا اتباع عین مرضاتِ الٰہی کا اتباع۔
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ النسائ 64:4
اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ بحکم خدا اس کی اطاعت کی جائے۔
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النسائ 80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَo آل عمران 31-32:3
اے محمدؐ! کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللّٰہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا، اللّٰہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ کہو کہ اللّٰہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر وہ روگردانی کریں تو یقین رکھو کہ اللّٰہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَo وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَہُمْ لَا يَسْمَعُوْنَo اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَo الانفال 20-22:8
اے ایمان لانے والو! اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اس سے ہرگز روگردانی نہ کرو جب کہ تم اس کا حکم سن چکے ہو، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا حالاں کہ وہ کچھ نہیں سنتے۔ اللّٰہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب 36:33
کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لیے درست نہیں ہے کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ اللّٰہ اور اس کا رسولؐ کر دے تو ان کے لیے اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے، اور جس نے اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ صریح گم راہی میں پڑگیا۔
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ القصص 50:28
پھر اگر وہ تیری بات نہ مانیں تو جان لے کہ وہ محض اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گم راہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایت کوچھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کی۔
ایسی اور بیسیوں آیات ہیں جن میں اتباع و اطاعتِ رسولؐ پر زور دیا گیا ہے۔ پھر سورۂ احزاب میں اس امر کی تصریح کر دی گئی ہے کہ رسولؐ اللّٰہ کی زندگی ان لوگوں کے لیے ایک قابل تقلید نمونہ ہے جو اللّٰہ سے بخشش کی اور یومِ آخر میں کام یابی کی امید رکھتے ہیں۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللہَ كَثِيْرًاo الاحزاب 21:33
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
عقیدہ ٔرسالت کی اہمیت
اطاعت واتباع کے ان احکام کے ساتھ رسالت کا عقیدہ درحقیقت اس تہذیب کی جان، اس کی روحِ حیات اور قوتِ بقا، اور اس کے امتیازی خصائص کی بِنائے اصلی ہے جسے اسلام نے قائم کیا ہے۔
ہر تہذیب اور نظامِ تمدن میں تین چیزیں اساس کا حکم رکھتی ہیں: ایک طریق ِ فکر، دوسرے اصولِ اخلاق اور تیسرے قوانینِ مدنی۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں یہ تینوں چیزیں تین مختلف ذرائع سے آتی ہیں۔ طریقِ فکر ان مفکرین اور اہلِ حکمت کی تعلیمات سے ماخوذ ہوتا ہے جنھوں نے کسی نہ کسی وجہ سے بڑے بڑے انسانی گروہوں کی ذہنیت پر قابو پا لیا ہے۔ اصولِ اخلاق ان راہ نُمائوں، مصلحوں اور پیشوائوں سے لیے جاتے ہیں جنھیں مختلف زمانوں میں خاص خاص قوموں پر اقتدار حاصل ہوا ہے۔ اور قوانین ِ مدنی کے وضع کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی مہارت پر زندگی کے مختلف شعبوں میں اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے جو نظامِ تمدن قائم ہوتا ہے، اس میں لازمی طور پر تین بنیادی خامیاں پائی جاتی ہیں:
۱۔ ان تین مختلف ذرائع سے جو عناصر فراہم ہوتے ہیں ان سے ایک ایسی معجونِ مرکب تیار ہوتی ہے جس کا مزاج کہیں صدیوں میں جا کر قائم ہوتا ہے، اور پھر بہت سی بے ربطیاں، بے اعتدالیاں اور نامناسبتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ مفکرین اور اہلِ حکمت بہت سے ہیں۔ سب کے طریقِ فکر جدا جدا اور ایک دوسرے سے اصلاً مختلف ہیں۔ عموماً وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کوکبھی انسانی زندگی کے عملی مسائل سے کسی قسم کا مَس نہیں رہا ہے، بلکہ ان میں سے اکثر اپنی مردم بیزاری کے لیے مشہور رہے ہیں۔ اس ماخذ سے اہلِ دنیا اپنا طریق فکر حاصل کرتے ہیں۔ دوسرا عنصر جس گروہ سے لیا جاتا ہے اس میں بھی انفرادی تخیلات و افکار اور ذہنیتوں کے اعتبار سے کافی اختلاف پایا جاتا ہے اور اگر اس گروہ میں کوئی شے مشترک ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس کے تمام افراد تخیل کی دنیا میں رہنے والے اور پُر جوش جذباتی لوگ ہوتے ہیں جو ٹھوس عملی مسائل سے بہت ہی کم تعلق رکھتے ہیں۔ رہا تیسرا عنصر تو اس کے مآخذ بھی باہم مختلف ہیں اور ان میں یہ چیز مشترک ہے کہ جذبات لطیف کی ان کے اندر بہت کمی ہے، ضرورت سے زیادہ عملیت نے انھیں قسی القلب اور خشک بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے متضاد عناصر میں صحیح اور معتدل امتزاج قائم ہونا بہت مشکل ہے اور ان کا تضاد اپنا رنگ نمایاں کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
۲۔ ان ذرائع سے جو عناصرِ ثلاثہ حاصل ہوتے ہیں، ان میں نہ طولِ حیات کی قوت ہوتی ہے، نہ توسُع کی استعداد۔ مختلف قوموں پر مختلف مفکروں، راہ نُمائوں اور مقننّوں کے اثرات پڑتے ہیں، اور ان کی وجہ سے ان کے طریق ہائے فکر، اصولِ اخلاق اور قوانینِ مدنی میں اصولی اختلافات واقع ہو جاتے ہیں۔ پھرایک قوم پر بھی تمام زمانوں میں انھی مخصوص مفکروں، راہ نُمائوں اور مقننوں کا اثر قائم نہیں رہتا جنھوں نے ابتدا میں اس پر اثر ڈالا تھا، بلکہ اختلافِ زمانہ کے ساتھ یہ مؤثر اور ان کے اثرات بدلتے رہتے ہیں۔ اس طرح تہذیبیں ایک طرف تو قومی بن جاتی ہیں، اوران کے اختلاف سے قومیّتوں کا وہ اختلاف برانگیختہ ہوتا ہے جو دراصل خرمنِ اَمن کو پھونک دینے والی بجلی کا ہیولیٰ ہے۔ دوسری طرف ہر قوم میں بھی بجائے خود تہذیب و تمدن کا نظام دائماً ایک سیمابی کیفیت میں رہتا ہے اوراس میں ایک خطِ مستقیم پر نشوونما ہونے کے بجائے ہمیشہ اساسی تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں، جن کا میلان کبھی ارتقا کی جانب ہوتا ہے اور کبھی انقلاب کی جانب۔
۳۔ عناصرِ ثلاثہ کے ان مبادی میں سے کسی میں بھی تقدس کا شائبہ نہیں ہوتا۔ قوم اپنے مفکرین سے جو طریقِ فکر، راہ نُمائوں سے جو اصولِ اخلاق اور واضعینِ قانون سے جو قوانینِ مدنی لیتی ہے وہ سب انسانی اجتہاد کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور ان کے نتیجہ ٔ اجتہادِ انسانی ہونے کا خود ان کے متبعین کو بھی احساس رہتا ہے۔ اس کا لازمی اثر یہ ہے کہ اتباع کبھی کامل نہیں ہوتا۔ متبعین اپنے انتہائی اتباع کی حالت میں بھی ایمانی کیفیت سے متفق نہیں ہونے پاتے۔ وہ خود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تہذیب کے عناصرِ اصلیہ میں غلطی کا امکان اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ پھر تجربات بھی رفتہ رفتہ ان کی غلطیاں ثابت کرتے رہتے ہیں، جن سے شک اور تذبذب کی حالت رونما ہو جاتی ہے۔ اس طرح کبھی کسی طریقِ فکر یا اصولِ قانون کو قوم پر اپنی پوری گرفت قائم کرنے اور نظامِ تمدن کومستحکم کردینے کا موقع نہیں ملتا۔
ایمان بالرسول کی بنیاد پر جو تہذیب قائم ہوتی ہے، وہ ان تینوں خرابیوں سے پاک ہوا کرتی ہے۔
اوّلاً ،اس میں تہذیب کے تینوں عنصر ایک ہی مبتدا سے آتے ہیں۔ ایک ہی شخص طریقِ فکر بھی مقرر کرتا ہے، اصولِ اخلاق بھی متعین کرتاہے اور قوانینِ مدنی کے اصول بھی وضع کرتا ہے۔ وہ بیک وقت دنیائے فکر، عالمِ اخلاق اور جہانِ عمل تینوں کا صدر انجمن ہوتا ہے۔ تینوں کے مسائل پر اس کی نظر یکساں رہتی ہے۔ اس میں تفکر، جذباتِ لطیف اورحکمتِ عملی تینوں کی ایک معتدل آمیزش ہوتی ہے، اور ان تینوں عنصروں میں سے ہر ایک کی مناسب مقدار لے کر وہ تہذیب کے مرکب میں اس طرح شامل کر دیتا ہے کہ کسی جز میں کمی بیشی نہیں ہوتی، اجزا میں کوئی باہم بے ربطی اور نامناسبت نہیں پائی جاتی، اور مرکب کا مزاج غایت درجہ معتدل ہوتا ہے۔ یہ امر درحقیقت انسان کی استطاعت سے بالاتر ہے۔ فاطر کائنات کی ہدایت کے بغیر اس کا انجام پانا کسی طرح ممکن نہیں۔
ثانیاً ،اس میں کوئی عنصر قومی یا زمانی نہیں ہوتا۔ خدا کا رسولؐ جو طریقِ فکر، جو اصولِ اخلاق اور اصولِ قانون مقرر کرتا ہے، وہ قومی رجحانات یا زمانی خصوصیات پر نہیں بلکہ صداقت اور حق پر مبنی ہوتے ہیں، اور حق و صداقت وہ شے ہے جو مشرق اور مغرب، سیاہ اور سپید، سامی اور آرین، قدیم اور جدید کے جملہ قیود سے بالاتر ہے۔ جوچیز سچی اور برحق ہے، وہ دنیا کے ہر گوشے، دنیا کی ہر قوم اور وقت و زمانہ کی ہر گردش میں یکساں سچی اور برحق ہے۔ آفتاب جاپان میں بھی آفتاب ہے اور جبل الطارق میں بھی۔ ہزار برس پہلے بھی آفتاب تھا اور ہزار برس بعد بھی آفتاب ہی رہے گا۔ پس اگر کوئی تہذیب عالم گیر، بشری اور دائمی تہذیب بن سکتی ہے تو وہ رسولِ خدا کی قائم کی ہوئی تہذیب ہی ہے، اور اسی میں یہ قابلیت موجود ہے کہ اپنے اصول و اساس کو بدلے بغیر ہر ملک، ہر قوم اور ہر زمانے کے مناسب ِ حال ہو سکتی ہے۔
ثالثاً، یہ تہذیب پوری تقدس کی شان لیے ہوئے ہے۔ اس کا متبع یہ اعتقاد بلکہ ایمان رکھتا ہے کہ جس نے اس تہذیب کو قائم کیا ہے، وہ خدا کا رسولؐ ہے۔ اس کے پاس خدا کا بخشا ہوا علم ہے، اس کے علم میں شک کا شائبہ تک نہیں {لَا رَیْبَ فِیْہِ}،اس کی باتوں میں نہ ظن و تخمین کو دخل ہے اور نہ ہوائے نفس کو، وہ جو کچھ پیش کرتا ہے خدا کی طرف سے پیش کرتا ہے، اس کے بھٹک جانے اور غلط راستوں پر چل نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo عَلَّمَہٗ شَدِيْدُ الْقُوٰىo النجم 2-5:53
وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وَحی ہے جو اُس پر نازل کی جاتی ہے۔ اُسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔
یہ یقین و ایمان جب متبع رسول کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے تو وہ پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ رسول کا اتباع کرتا ہے۔ اس کے دل میں کوئی شک اور تذبذب نہیں ہوتا۔ اس کے دل میں یہ اندیشہ کبھی خلجان پیدا نہیں کرتا کہ شاید یہ طریقہ صحیح نہ ہو، کوئی اور راستہ برحق یا کم از کم اس سے زیادہ بہتر ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی تہذیب غایت درجے پائدار ہو گی۔ اس کا اتباع نہایت مضبوط ہوگا۔ اس میں دنیوی تہذیبوں سے زیادہ ڈسپلن پایا جائے گا۔ اس کے طریقِ فکر، اصولِ اخلاق اور قوانینِ مدنی میں زیادہ استحکام ہو گا۔
انبیا علیہم السلام اسی تہذیب کے معمار تھے۔ صدیوں تک وہ دنیا کے ہر خطے میں اس کے لیے زمین تیار کرتے رہے، اور جب زمین پوری طرح تیار ہو گئی تو محمد عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر اس کی عمارت مکمل کردی۔
رسالت محمدؐی کے امتیازی خصائص
یہاں تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ رسالت کے عام احکام سے متعلق تھا، مگر ان کے علاوہ چند امور ایسے بھی ہیں جو خاص طور پر رسالت محمدؐی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ بلاشبہ نفسِ منصبِ رسالت کے لحاظ سے حضرت محمدؐ اور دوسرے انبیا میں کوئی فرق نہیں ہے، اور قرآنِ مجید کا صریح فیصلہ ہے کہ رسولوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق جائز نہیں۔
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ۰ۣ البقرہ 285:2
ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے۔
پس جہاں تک اصول کا تعلق ہے، تمام انبیا اس میں مشترک ہیں کہ سب کے سب اللّٰہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں، سب کو ’’حکم‘‘ اور ’’علم‘‘ عطا کیا گیا ہے، سب ایک ہی صراطِ مستقیم کی طرف بلانے والے ہیں، سب بنی نوعِ انسان کے ہادی و راہ نُما ہیں، سب کی اطاعت فرض اور سب کی سیرت بنی آدم کے لیے نمونۂ تقلید ہے۔ لیکن عملاً اللّٰہ تعالیٰ نے چند امور میں نبی عربی محمدﷺ کو دوسرے انبیا کے مقابلے میں ایک خاص امتیاز عطا فرمایا ہے، اور یہ امتیاز محض سطحی نہیں ہے کہ اسے ملحوظ رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی اثر نہ ہو، بلکہ درحقیقت اسلام کے نظام دینی میں اسے ایک اساسی حیثیت حاصل ہے، اور عملاً اسلام کے تمام معتقدات اور قوانین کی بنیاد رسالتِ محمدیؐ کی اسی امتیازی حیثیت پر قائم ہے۔ اس لیے رسالت کے متعلق کسی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس مخصوص امتیازی حیثیت کو ملحوظ رکھ کر محمدؐ پر ایمان نہ لائے۔
پچھلی نبوتوں اوررسالتِ محمدؐی کا فرق
اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے چند امور ذہن نشین کر لینے ضروری ہیں:
۱۔ اشاراتِ قرآنی، روایاتِ ماثورہ، اور قیاسِ عقلی، تینوں سے یہی مستنبط ہوتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہونی چاہیے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ:
وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِيْہَا نَذِيْرٌo فاطر 24:35
کوئی امت ایسی نہیں ہوئی ہے جس میں کوئی متنبہ کرنے والا نہ گزرا ہو۔
اور یہ ظاہر ہے کہ نوعِ بشری کی اتنی امتیں دنیا میں گزر چکی ہیں کہ تاریخ کا علم ان کا احاطہ نہ کر سکا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ لہٰذا ہر امت کے لیے ایک رسولؐ بھی آیا ہو تو رسولوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہونی چاہیے۔ اسی کی تائید بعض احادیث بھی کرتی ہیں، جن میں انبیا کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک بتائی گئی ہے۔ لیکن اس جمِ غفیر میں سے قرآن مجید میں جن انبیا کے نام بتائے گئے ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان کے ساتھ اگر ہم ان پیشوایانِ اقوام کو بھی شامل کر لیں، جن کی نبوت کے متعلق کوئی اشارہ قرآن میں نہیں ہے، تب بھی یہ تعداد دہائیوں سے متجاوز نہیں ہوتی۔ اس طرح بے شمار انبیا کا نام و نشان تک مٹ جانا، اور ان کی تعلیمات کے آثار کا محو ہو جانا، اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کی بعثت خاص زمانوں اور خاص خاص قوموں کے لیے ہوئی تھی، اور ان کے پاس کوئی ایسی شے نہ تھی جو ثبات اور دوام بخشنے اور عالم گیر وُسعت عطا کرنے کے قابل ہوتی۔
۲۔ پھر جن انبیا اور پیشوایانِ اقوام کے نام ہمیں معلوم بھی ہیں ان کے حالات اور تعلیمات پر افسانوں اور تحریفات کے اتنے پردے پڑے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق ہمارے علم کو ہمارے جہل سے کوئی نسبت نہیں۔ ان کے جس قدر آثار اس وقت دنیا میں موجود ہیں، انھیں ظنی اعتقاد سے قطع نظر کرکے خالص تاریخی نقد کے معیار پر جانچیے تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہو۔ ہم ان کا صحیح زمانہ تک متعین نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے صحیح ناموں تک سے ناواقف ہیں۔ ہم قطعی طور سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ فی الواقع دنیا میں موجود بھی تھے یا نہیں۔ بودھ، زردشت، اور مسیح جیسی مشہور ہستیوں کے متعلق بھی مؤرخین نے شک کیا ہے کہ آیا وہ تاریخی ہستیاں ہیں یا محض تخیلی۔ پھر ان کی سیرتوں کے متعلق جو کچھ معلومات ہمارے پاس ہیں، اتنی مجمل اور مبہم ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی انھیں نمونۂ تقلید نہیں بنایا جا سکتا۔ اور یہی حال ان کی تعلیمات کا ہے۔ جو کتابیں یا جو تعلیمات ان کی طرف منسوب ہیں ان میں سے کسی کی سند ان تک نہیں پہنچتی، اور نہایت قوی شہادتیں اندرونی اور بیرونی، دونوں قسم کی ایسی موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان میں بکثرت تحریفات ہوئی ہیں۔ یہ امور اس امر کا یقین کرنے کے لیے کافی ہیں کہ محمدؐ سے پہلے جتنے انبیا اور پیشوا گزرے ہیں ان کی رسالت اور پیشوائی ختم ہو چکی ہے۔
۳۔ قریب قریب تمام انبیا اور پیشوائوں کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ ان کی تعلیم ان مخصوص اقوام کے لیے تھی جن میں وہ آئے تھے۔ بعض نے خود اس کی تصریح کی، اور بعض کے متعلق واقعات نے اسے ثابت کر دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ، حضرت موسیٰ ؑ، کنفیوشس، زردشت، اور کرشن کی تعلیم کبھی ان کی قوم کے باہر نہیں گئی۔ یہی حال سامی اور آرین اقوام کے دوسرے رسولوں اور پیشوائوں کا ہے۔ البتہ بودھ اور مسیح کی تعلیم کو ان کے پیرووں نے دوسری اقوام تک پہنچایا، مگر خود انھوں نے کبھی نہ اس کی کوشش کی، اور نہ یہ کہا کہ ان کا پیغام تمام عالم کے لیے ہے۔ بلکہ مسیح علیہ السلام سے تو خود انجیل میں یہ قول منقول ہے کہ وہ صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔
۴۔ تمام انبیا اور پیشوایانِ امم میں تنہا محمدؐ ہیں جن کی سیرت اور تعلیم کے متعلق ہمارے پاس اس قدر صحیح، مستند اور یقینی معلومات موجود ہیں کہ ان کی صحت میں شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کسی تاریخی شخصیت کے متعلق آج معلومات کا اتنا صحیح اور قابلِ اعتماد ذخیرہ موجود نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر کوئی مشکّک اس کی صحت میں شک کرے تو اسے تمام دنیا کا تاریخی ذخیرہ نذرِ آتش کرنا پڑے گا، کیوں کہ اتنے مستند ذخیرے کی صحت میں شک کرنے کے بعد تو یہ ماننا لازم آتا ہے کہ تاریخ کا پورا علم جھوٹ کا ایک انبار اور اس کے ایک لفظ پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
۵۔ اسی طرح تمام انبیا اور پیشوائوں میں صرف محمدؐ ہیں جن کی سیرت اور زندگی کے حالات پوری تفصیل کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں۔ نہ صرف پیشوایانِ امم بلکہ دنیا کی تمام تاریخی شخصیتوں میں محمدؐ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جس کی سیرت اتنی جزوی تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو۔ آنحضرت ﷺ کے عہد اور ہمارے موجودہ عہد میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ صرف اتنا ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت ﷺ اپنی حیاتِ جسمانی کے ساتھ موجود تھے، اور اب نہیں ہیں۔ لیکن اگر زندگی کے ساتھ جسمانی زندگی کی قید نہ لگائی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ آج بھی زندہ ہیں، اور جب تک دنیا میں آپؐ کی سیرت موجود رہے گی اس وقت تک آپؐ زندہ رہیں گے۔ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں دنیا آج بھی آنحضرت ﷺ کی زندگی کو اتنے ہی قریب سے دیکھ سکتی ہے جتنے قریب سے آپؐ کے عہد کے لوگ دیکھ سکتے تھے۔ پس یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ انبیا اور پیشوایانِ ادیان میں سے اگر کسی کا صحیح اور مکمل طور پر اتباع کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمدؐ ہیں۔
۶۔ یہی حال آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا ہے۔ جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے انبیا اور پیشوائوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی لائی ہوئی کتاب اور جس کی پیش کی ہوئی تعلیم آج اپنی صحیح شکل میں موجود ہو، اور قابلِ یقین و اعتماد طریقے سے اپنے لانے والے اور پیش کرنے والے کی طرف منسوب کی جا سکتی ہو۔ یہ شرف تنہا محمدؐ کو حاصل ہے کہ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب، قرآن، بعینہٖ انھی الفاظ کے ساتھ موجود ہے جن الفاظ میںآنحضرتؐ نے اسے پیش کیا تھا۔ اور قرآن کے علاوہ جو ہدایات آپؐ نے زبانِ وحی ترجمان سے دی تھیں وہ بھی قریب قریب اپنی صحیح صورت میں آج تک محفوظ ہیں اور ان شاء اللّٰہ محفوظ رہیں گی۔ پس رسولوں اور پیشوائوں میں سے اگر کسی کی تعلیم کا اتباع یقینی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں۔
۷۔پچھلے زمانے کے انبیا اور پیشوائوں کی تعلیم اور سیرت کے متعلق جو ذخیرہ اس وقت دنیا میں موجود ہے، اس سب پر نظر ڈالی جائے۔ اس میں حق اور صداقت، خیر اور صلاح، حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملات کے جتنے پاکیزہ نمونے آپ کو ملیں گے، وہ سب کے سب آپ محمدؐ کی تعلیم اور آپؐ کی سیرت میں پا سکتے ہیں۔ اسی طرح آپؐ کے بعد نوعِ بشری کے جتنے راہ نُما پیدا ہوئے ہیں ان کی تعلیم اور سیرت میں بھی آپ کو ایسی کوئی چیز نہ ملے گی جو حق اور صدق، نیکی اور بہتری ہو اور محمدؐ کی تعلیم اور سیرت میں موجود نہ ہو۔ پھر آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور سیرت میں آپ کو علمِ حق، عملِ صالح اور اصولِ خیر کا ایک وافر ذخیرہ ایسا بھی ملے گا جو دنیا کے کسی اگلے اور پچھلے پیشوا کی تعلیم اور سیرت میں نہیں پایا جاتا۔ان سب پر مزید یہ کہ علمِ الٰہی اور اخلاق و معاملات دنیوی کے متعلق کوئی ایسی صحیح بات انسان سوچ نہیں سکتا جو اسلام سے باہر ہو۔ پس یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سیرت تمام خیرات کی جامع ہے۔ حق جو کچھ تھا وہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ظاہر کر دیا۔ صراطِ مستقیم جس چیز کا نام تھا وہ آپؐ نے روشن کرکے دکھا دی۔ جملہ انفرادی اور اجتماعی حیثیات سے انسان کے اخلاق اور معاملات کو دُرُست رکھنے اور دنیا میں صحیح طور پر زندگی بسر کرنے کے لیے جتنے اصولِ حقہ ہو سکتے تھے وہ سب آپؐ نے واضح طور پر پیش کر دیے۔ اب ان پر کسی اضافے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
۸۔ انبیا اور پیشوایانِ ادیان کے پورے گروہ میں تنہا محمدؐ ہیں جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی دعوت تمام نوعِ انسانی کے لیے ہے، اور عملاً بھی یہی ہوا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں شاہانِ اقوام کو دعوت نامے بھیجے اورآپؐ کی دعوت رُوئے زمین کے ہر گوشے اور بنی آدم کی ہر قوم میں پہنچی۔ یہ خصوصیت آنحضرت ﷺ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ بعض نے تو نہ عالم گیری کا دعویٰ کیا اور نہ انھیں عالم گیری نصیب ہوئی۔ اور بعض کے مذاہب کو عالم گیری تو نصیب ہوئی، مگر خود انھوں نے نہ اس کا کبھی دعویٰ کیا نہ اس کی کوشش کی۔ آنحضرت ﷺ کے سوا ایسا اورکوئی نہیں ہے جس نے عالم گیری کا دعویٰ بھی کیا ہو، اس کے لیے کوشش بھی کی ہو، اور جسے بالفعل عالم گیری نصیب بھی ہوئی ہو۔
۹۔ دنیا میں انبیا ؑ کی آمد کے تین ہی سبب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ کسی قوم کی ہدایت کے لیے پہلے کوئی نبی نہ آیا ہو اور لِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ کی بِنا پر اس کے لیے ایک نبی یا ایک سے زیادہ انبیا کی ضرورت ہو۔ دوسرے یہ کہ پہلے کوئی نبی آیاتھا، مگر اس کی رسالت کے آثار محو ہو گئے، اس کی تعلیم اور اس کی لائی ہوئی کتاب میں تحریف ہو گئی، اس کی سیرت کے نشانات اس طرح مٹ گئے کہ لوگوں کے لیے اس کی پیروی کرنا اور اس کے اسوۂ حسنہ کی تقلید کرنا ممکن نہ رہا۔ تیسرے یہ کہ پہلے نبی یا انبیا کی تعلیم اور ہدایت مکمل نہ ہو اور اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہو۔ ان تین اسباب کے سوا انبیا کی بعثت کا کوئی چوتھا سبب نہ ہے اور نہ عقلاً ہو سکتا ہے۱؎۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی قوم کے لیے نبی آ چکا ہو، اس کی تعلیم اور اس کی سیرت اپنی صحیح شکل میں محفوظ ہو،اس میں کسی اضافے کی ضرورت بھی نہ ہو، اور پھر اس کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیج دیا جائے۔ نبوت کا منصب محض ایک فضیلت نہیں ہے کہ وہ کسی حسن عمل کے صلے میں بطور انعام دیا جاتا ہو، بلکہ وہ ایک خاص خدمت ہے جس پر ایک مخصوص کام کے لیے بضرورت کسی کو مامور کیا جاتا ہے۔ علاوہ بریں یہ منصب اتنا چھوٹا اور ادنیٰ درجے کا بھی نہیں ہے کہ کسی گزرے ہوئے نبی کی تعلیم کی طرف محض توجہ دلانے کے لیے اسے قائم کیا جائے۔ اس کام کے لیے علمائے حق اور مجددین کی جماعت بالکل کافی ہے۔ بس عقل قطعیت کے ساتھ یہ حکم لگاتی ہے کہ جب تک مندرجہ بالا اسبابِ ثلاثہ میں سے کوئی سبب داعی نہ ہو، کوئی نبی نہیں آ سکتا، اور ہمارے پچھلے بیان سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ رسالت محمدیؐ کے ساتھ یہ تینوں دواعی مرتفع ہو چکے ہیں۔ آپؐ کی دعوت تمام نوعِ بشری کے لیے ہے، لہٰذا اب جدا جدا قوموں کے لیے نبی آنے کی ضرورت نہیں۔ آپؐ کی لائی ہوئی کتاب اور آپؐ کے جملہ آثارِ رسالت اپنی صحیح شکل میں محفوظ ہیں، لہٰذا کسی نئی کتاب یا نئی ہدایت کے آنے کی بھی ضرورت نہیں۔ آپؐ کی تعلیم اور ہدایت مکمل اور جامع ہے، نہ علمِ حق میں سے کوئی چیز پوشیدہ رہ گئی ہے اور نہ عمل ِ صالح کے لیے ہدایت اور نمونۂ تقلید پیش کرنے میں کوئی کسر باقی ہے، لہٰذا اس پر کسی اضافہ کرنے والے کی بھی ضرورت نہیں۔ جب یہ تینوں دواعی موجود نہیں ہیں، اور بعثت انبیا کے دواعی انھی تین میں منحصر ہیں، تو لامحالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسالتِ محمدیؐ کے بعد نبوت کا دروازہ قطعاً بند ہو چکا ہے۔ اگر اب یہ دروازہ کھلا رہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا فعلِ عبث بھی کرتا ہے، حالاں کہ خدا اس سے پاک اور منزہ ہے کہ اس سے کوئی بے کار فعل صادر ہو۱؎۔
رسالتِ محمدیؐ کی یہی وہ امتیازی حیثیات ہیں جنھیں قرآنِ مجید نے پوری تفصیل و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔
دعوتِ عام
قرآن کہتا ہے کہ:
قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo الاعراف 158:7
اے محمدؐ! کہو کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا بھیجا ہوا پیغام بر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ کرنے اور مارنے والا ہے۔ پس ایمان لائو اللّٰہ پر اور اس کے اَن پڑھ رسول و نبی پر جو اللّٰہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم سیدھا راستہ پائو۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَo
سبا 28:347
اور اے محمدؐ! ہم نے تمھیں تمام ہی انسانوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ اس سے ناواقف ہیں۔
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَيْرًا لَّكُمْ۰ۭ وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ النسائ 170:4
اے لوگو! تمھارے رب کی طرف سے یہ رسول تمھارے پاس حق کے ساتھ آیا ہے، پس ایمان لائو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ اور اگر کفر کرتے ہو تو خوب جان لو کہ اللّٰہ ہی آسمانوں اور زمین کا مالک ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَo الانبیائ 107:21
اے محمدؐ! ہم نے تمھیں تمام اہل عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِہٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨاo الفرقان 1:25
پاک ہے وہ جس نے حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب اپنے بندے پر اتاری، تاکہ تمام اہلِ عالم کے لیے متنبہ کرنے والا بنے۔
اس سے چند امور مستنبط ہوتے ہیں:
ایک یہ کہ محمدؐ کی دعوت کسی زمانے یا کسی قوم یا ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ آپؐ ہمیشہ کے لیے تمام نوعِ بشری کے ہادی و راہ نُما ہیں۔
دوسرے یہ کہ تمام نوعِ انسانی آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کا اتباع کرنے کے لیے مکلف ہے۔
تیسرے یہ کہ آپؐ پرایمان لائے بغیر اور آپؐ کا اتباع کیے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔
یہ تینوں امور ایمانیات میں داخل ہیں، کیوں کہ اسلام جس عالم گیر بشری تہذیب کا نام ہے اس کی عالم گیری اور آفاقیت اسی اعتقاد پر مبنی ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ نبی اکرمؐ کے دین سے باہر بھی ہدایت میسر آ سکتی ہے تو دعوتِ اسلام سے اس کی عمومیت سلب ہو جاتی ہے اور اسلام کی عالم گیری ختم۔
تکمیلِ دین
رسالتِ محمدی کا دوسرا امتیاز جو قرآنِ مجید نے پیش کیا ہے، یہ ہے:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۙ التوبہ 33:9
وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۰ۭ المائدہ 3:5
آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت جس چیز کا نام ہے، اور دینِ حق کا اطلاق جس چیز پر ہوتا ہے، وہ بتمام و کمال رسول عربیؐ کے ذریعے سے بھیج دی گئی ہے۔ الدین (یعنی جنس دین) پر آپؐ کی رسالت کلیتاً حاوی ہو چکی ہے، آپؐ کے ذریعے سے دین کو مکمل کر دیا گیا ہے، اور ہدایت کی وہ نعمت جو پہلے انبیا کے توسط سے تھوڑی تھوڑی کرکے عطا کی جا رہی تھی، اب اتمام کو پہنچا دی گئی ہے۔ اس کے بعد ہدایت، اور دین، اور علم حق میں سے کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہی ہے جسے ظاہر کرنے کے لیے کسی اور نبی یا رسول کے آنے کی حاجت ہو۔ ان واضح الفاظ کے ساتھ جس تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت کا اعلان کیا گیا ہے، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ پچھلی نبوتوں کے ساتھ اطاعت اور اتباع کا تعلق منقطع ہو اور آیندہ کے لیے نبوت کا دروازہ بند ہو جائے۔ یہ دونوں اُمور یعنی نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختمِ نبوت، رسالتِ محمدیؐ کے امتیازی خصائص ہیں اور قرآن مجید میں ان دونوں کو صاف طور پر پیش کر دیا گیا ہے۔
نسخِ ادیانِ سابقہ
نسخِ ادیانِ سابقہ سے مراد یہ ہے کہ پچھلے انبیا نے جو کچھ پیش کیا تھا وہ اب منسوخ ہو گیا۔ ان کی نبوت و صداقت پر اجمالی اعتقاد رکھنا تو ضروری ہے کیوں کہ وہ سب اسلام ہی کے داعی تھے، اور ان کی تصدیق دراصل اسلام ہی کی تصدیق ہے، لیکن عملاً اطاعت اور اتباع کا تعلق اب ان سے منقطع ہو کر صرف محمدؐ کی تعلیم اور اسوۂ حسنہ کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ اوّل تو اصولاً کامل کے بعد ناقص کی ضرورت نہیں رہی، دوسرے انبیائے سابقین کی تعلیم اور سیرت کے آثار تحریف و نسیان کی نذر ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے عملاً ان کا صحیح اتباع ممکن نہیں رہا۔ اسی بِنا پر قرآنِ مجید میں جہاں کہیں رسول کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا، ’’الرّسول‘‘یا ’’النّبی‘‘کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے خاص محمدؐ کی ذات مراد ہے مثلاً :
وَاَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَo آل عمران 132:3
اور اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔
اور
اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ النسائ 59:4
اطاعت کرو رسولؐ کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔
اور
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النساء80:4
جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔
پھر یہی وجہ ہے کہ ان قوموں کو بھی محمدؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو انبیائے سابقین میں سے کسی کو ماننے والی ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُـبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۰ۥۭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ وَيُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِـاِذْنِہٖ وَيَہْدِيْہِمْ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍo المائدہ 15-16:5
اے اہلِ کتاب! تمھارے پاس ہمارا رسولؐ آ گیا ہے، جو تم سے بہت سی ایسی باتیں بیان کرے گا جنھیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے، نیز وہ بہت سی باتوں سے معاف بھی کر دے گا۔ تمھارے پاس اللّٰہ کی طرف سے روشنی اور کھول کر بیان کرنے والی کتاب آ گئی ہے، جس کے ذریعے سے اللّٰہ ان لوگوں کو جو اس کی خوش نودی کا اتباع کریں گے، سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت بخشے گا اور انھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے گا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی راہ نُمائی کرے گا۔
اور
اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَہٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ وَالْاِنْجِيْلِ۰ۡيَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَہٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَيُـحْيٖ وَيُمِيْتُ۰۠ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللہِ وَكَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo
الاعراف 157-158:7
اہلِ کتاب میں سے ایمان دار وہ ہیں جو اس اَن پڑھ رسول نبیؐ کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتا ہے، ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، اور ان پر سے اس بوجھ اور ان بندشوں کو اتار دیتا ہے جو ان پر مسلط تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور امداد کی، اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں، اے محمدؐ کہہ دیجیے کہ لوگو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ کرنے اور مارنے والا ہے۔ پس ایمان لائو اللّٰہ اور اس کے اَن پڑھ رسول و نبیؐ پر جو اللّٰہ اور اس کے کلمات پر ایمان لایا ہے اور اس کی پیروی کرو، تاکہ تم سیدھا راستہ پائو۔
ان آیاتِ بینات میں نسخ ِادیانِ سابقہ کی تصریح بھی ہے، اس کے معنی بھی بتا دیے گئے ہیں، اس کی وجہ بھی ظاہر کر دی گئی ہے، اس کے منطقی نتائج سے بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اب ہدایت اور فلاح کا دامن نبی ِامیؐ ہی کے اتباع سے وابستہ ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا ہے کہ نبی ِ امیؐ کا دین دراصل اسی دین کی اصلاح اور تکمیل ہے جو تورات اور انجیل کے ماننے والوں اور دُنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھیجا گیا تھا۔
ختمِ نبوت
اسی طرح تکمیل ِ دین کے دوسرے نتیجے، یعنی ختم نبوت کو بھی قرآنِ مجید میں بالفاظِ صریح بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًاo الاحزاب 40:33
محمدؐ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللّٰہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں، اور اللّٰہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
نبوت کے سدِّباب کا یہ اتنا واضح اور کھلا ہوا اعلان ہے کہ اگر کسی کے دل میں زیغ اور کجی نہ ہو تو اس اعلان کے بعد، وہ اسلام میں نبوت کے فتح باب کی گنجائش کسی طرح نہیں نکال سکتا۔ خاتم کو خواہ بَہ تائے مفتوح پڑھیے یا بہَ تائے مکسور، دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے، اور وہ یہ ہے کہ نبوت کا دروازہ اس خدا کے علم میں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے جس کے علم کے خلاف کوئی امر واقع نہیں ہو سکتا۔
عقیدۂ رسالتِ محمدیؐ کے لازمی اجزا
تکمیلِ دین، نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختم نبوت، یہ تینوں عقیدے دراصل اسلام کے ایمانیات میں داخل، اور عقیدۂ رسالتِ محمدیؐ کے لازمی اجزا ہیں۔ اسلام کی دعوتِ اسلام اس بنیاد پر قائم ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے دعوتِ محمدؐی کی صورت میں ایک ایسا مکمل مذہب پیش کر دیا گیا ہے جس میں پچھلی تمام دعوتوں کی کمی پوری کر دی گئی ہے، اور آیندہ کے لیے کوئی کمی ایسی نہیں چھوڑی گئی جسے پورا کرنے کی کبھی ضرورت پیش آئے۔ اس مکمل دین نے ہمیشہ کے لیے اسلام اور کفر، حق اور باطل کے درمیان ایسا متعین اور مستقل امتیاز قائم کر دیا ہے کہ اب قیامت تک اس میں کسی قسم کا گھٹائو اور بڑھائو نہیں ہو گا۔ جو کچھ اسلام اور حق ہے، اسے محمدؐ نے پیش کر دیا۔ اب اس جنس کی کوئی مزید چیز آنے والی نہیں ہے کہ آیندہ کسی زمانے میں انسان کا مسلم اور حق پرست ہونا اس نئی چیز کو تسلیم کرنے پر موقوف ہو۔ اور جس چیز کو محمدؐ نے کفر اور باطل قرار دے دیا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے کفر اور باطل ہے، اس میں سے کوئی چیز نہ اب حق اور اسلام ہو سکتی ہے اور نہ اس کے سوا کسی دوسری چیز پر کفر اور اسلام کی نئی تفریق قائم ہو سکتی ہے۔ یہی ٹھوس اور غیر تغیر پذیر بنیاد ہے جس پر عالم گیر اور دائمی ملت و تہذیب اسلامی کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، اور اس بنیاد پر اس کی تعمیر اسی لیے کی گئی ہے کہ تمام دنیا کے انسان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی ملت، ایک ہی دین اور ایک ہی تہذیب کے اتباع پر متفق ہو سکیں۔ ایسی ملت جس کے کامل اور مستقل ہونے کا انھیں پورا یقین ہو، ایسا دین جو حق اور ہدایت پر پوری طرح حاوی ہو، حتیٰ کہ اس جنس کی کسی شے کے اس سے باہر رہ جانے کا اندیشہ نہ رہے۔ ایسی تہذیب جس کی عمارت میں کفر اور اسلام کی کسی نئی تفریق سے رخنہ پڑ جانے کا خطرہ نہ ہو۔ اسی اعتماد پر اسلام کی دعوتِ عام مبنی ہے، اور اسی پر اسلام کے دوام و استحکام کا انحصار ہے۔ جو شخص کہتا ہے کہ اسلام آ جانے کے بعد بھی اَدیانِ سابقہ کا اتباع درست ہے، وہ دراصل اسلام سے دعوتِ عام کا حق چھینتا ہے، کیوں کہ جب اسلام کے سوا دوسرے طریقوں سے بھی ہدایت ممکن ہو تو تمام اقوام و ملل کو اسلام کی طرف دعوت دینا ایک فضول حرکت ہو گی۔ اور جو شخص کہتا ہے کہ محمدؐ کی تعلیمات میں ہر زمانے کی ضروریات اور حالات کے لحاظ سے حذف و ترمیم اور اصلاح و اضافہ ہو سکتا ہے، وہ دراصل اسلام سے دوام کا حق سلب کرتا ہے، کیوں کہ جو دین ناقص ہو اور حذف و اضافے کا محتاج ہو، وہ اگر ہمیشہ کے لیے ذریعۂ ہدایت ہونے کا دعویٰ کرے تو اس کا دعویٰ جھوٹا ہو گا۔ پھر جو شخص کہتا ہے کہ اسلام میں محمدؐ کے بعد بھی انبیا کے آنے کی گنجائش ہے، وہ درحقیقت اسلام کے استحکام پر ضرب لگاتا ہے۔ نبوت کا دروازہ کھلا رہنے کے معنی یہ ہیں کہ اسلام کی جمعیت ہمیشہ پراگندگی اور تفریق کے خطرے میں مبتلا رہے۔ ہرنئے نبی کے آنے پر کفر اور اسلام کی ایک نئی تفریق ہو، اورہر ایسے موقع پر بہت سے وہ لوگ اسلام سے خارج ہوتے چلے جائیں جو خدا پر، محمدؐ پر اور قرآن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ پس اسلام میں نبوت کا فتحِ باب درحقیقت فتنے کا فتحِ باب ہے۔ اسلام کی بیخ کنی کے جتنے اسباب ممکن ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک سبب یہ ہے کہ کوئی شخص اسلام میں نبوت کا دعویٰ کرے۔ امت ِ مسلمہ کا نظامِ جمعیت اسی بنیاد پر تو قائم کیا گیا تھا کہ جو لوگ محمدؐ اور قرآن پر ایمان لائیں وہ سب مسلم اور مومن ہیں، ایک ملت ہیں، ایک قوم ہیں، آپس میں بھائی بھائی ہیں، رنج و راحت میں ایک دوسرے کے شریک ہیں۔ اب اگر کوئی شخص آئے اور کہے کہ محمدؐ اور قرآن پر ایمان لانا کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ مجھ پر بھی ایمان لانا ضروری ہے اور جو مجھ پر ایمان نہ لائے وہ کافر ہے اگرچہ وہ محمدؐ اورقرآن پر ایمان رکھتا ہو، پھر اسی بِنا پر وہ مسلمانوں میں کفر اور اسلام کی تفریق کرے اور قوم اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے جسے محمدؐ نے ایک قوم بنایا تھا، ان لوگوں کے درمیان برادری کے رشتے کو کاٹ کر جنھیں قرآن نے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ الحجرات 10:49 کہہ کر بھائی بھائی بنایا تھا، ان کی نمازیں الگ کر دے، ان کے درمیان مناکحت کے تعلقات توڑ دے، حتیٰ کہ ان میں عیادت اور تعزیت اور شرکتِ جنازات کا تعلق بھی باقی نہ رکھے، تو اس سے بڑھ کر اِسلام، اِسلامی قومیت، اسلامی تہذیب، اور اِسلام کے نظامِ جماعت کا دشمن اور کون ہو سکتا ہے؟
اس بحث سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ رسالتِ محمدیؐ کے ساتھ تکمیلِ دین، نسخِ ادیانِ سابقہ اور ختم ِ نبوت کا اعتقاد کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اور اسلام کے بقا و استحکام اور اس کے شیوعِ عام کے لیے اس کا داخلِ ایمان ہونا کیوں ضروری ہے۔