Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟

ان بنیادی امور کی توضیح کے بعد ہمارے سامنے پانچواں سوال آتا ہے، یہ کہ جو ریاست ان بنیادوں پر تعمیر ہو اس کا نظام چلانے کے لیے حکومت کی تشکیل کیسے کی جائے؟
اس معاملے میں سب سے اہم مسئلہ رئیس مملکت (head of the state)کے تقرر کا ہے جس کو اسلام میں امام‘ امیر اور خلیفہ کی مختلف اصطلاحوں سے یاد کیا جاتا ہے اور اس باب میں اسلام کے مسلک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی ابتدائی تاریخ کی طرف رجوع کریں۔
صدرِ ریاست کا انتخاب
جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں‘ ہمارے موجودہ اسلامی معاشرے کا آغاز مکے میں کفر کے ماحول میں ہوا تھا اور اس ماحول سے لڑ کر اسلامی معاشرے کی ابتدا کرنے والے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ یہ اسلامی معاشرہ جب اپنے نظم اور سیاسی خود مختاری میں ترقی کرکے ایک اسٹیٹ بننے کی منزل پر پہنچا تو اس کے اولین رئیس بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ کسی کے منتخب کردہ نہ تھے، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے ہوئے تھے۔
دس سال تک آپؐ اس ریاست کی امارت کا فریضہ انجام دینے کے بعد رفیق اعلیٰ سے جاملے بغیر اس کے کہ اپنی جانشینی کے متعلق کوئی صریح اورقطعی ہدایت دے کر تشریف لے جاتے۔ آپؐ کے اس سکوت سے اور قرآن مجید کے اس ارشاد سے کہ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ (الشوری۴۲:۳۸) (مسلمانوں کے معاملات آپس کے مشورے سے انجام پاتے ہیں)، صحابہ کرامؓ نے یہ سمجھا کہ نبی کے بعد رئیس مملکت کا تقرر مسلمانوں کے اپنے انتخاب پر چھوڑا گیا ہے‘ اور یہ انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔۱۰۲؎ چنانچہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓکا انتخاب مجمع عام میں ہوا۔
پھر جب ان کا آخری وقت آیا تو اگرچہ ان کی رائے میں خلافت کے لیے موزوں ترین شخص حضرت عمرؓ تھے‘ لیکن انھوں نے اپنے جانشین کو نامزد نہ کیا، بلکہ اکابر صحابہ کو الگ الگ بلا کر ان کی رائے معلوم کی‘ پھر حضرت عمرؓ کے حق میں اپنی وصیت املا کرائی‘ پھر حالت مرض ہی میں اپنے حجرے کے دروازے سے مسلمانوں کے مجمع عام کو خطاب کرکے فرمایا:
اَتَرْضَوْنَ بِمَنْ اَسْتَخْلِفُ عَلَیْکُمْ فَاِنِّیْ وَاللّٰہِ مَااَلَوْتُ مِنْ جُھْدِی الرَّاْیِ وَلَا وَلَّیْتُ ذَا قَرَابَۃٍ وَاِنِّیْ اَسْتَخْلِفُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فَاسْمَعُوْا لَہ‘ وَاَطِیْعُوْا۔
کیا تم راضی ہو اس شخص سے جس کو میں تم پر اپنا جانشین بنائوں؟ خدا کی قسم میں نے غور و فکر کرکے رائے قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی‘ اور اپنے کسی رشتے دار کو مقرر نہیں کیا ہے۔ میں نے عمرؓ بن الخطاب کو جانشین بنایا ہے۔ پس تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔
مجمعے سے آوازیں آئیں: سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۔ ہم نے سنا اور مانا۔
(طبری۔ ج۲،ص۶۱۸۔مطبع الاستقامہ، مصر)
اس طرح مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کا تقرر بھی نامزدگی سے نہیں ہوا بلکہ خلیفۂ وقت نے مشورے سے ایک شخص کو تجویز کیا اور پھر مجمعِ عام میں اس کو پیش کرکے منظور کرایا۔
اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دنیا سے رخصت ہونے کی باری آئی۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد ترین رفیقوں میں سے چھ اصحاب ایسے موجود تھے جن پر خلافت کے لیے مسلمانوں کی نگاہ پڑ سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے انھی چھ اصحاب کی ایک مجلس شوریٰ بنا دی اور ان کے سپرد یہ کام کیا کہ باہمی مشورے سے ایک شخص کو خلیفہ تجویز کریں اور اعلان کر دیا کہ:
مَنْ تَاَمَّرَ مِنْکُمْ عَلٰی غَیْرِ مَشْوَرَۃٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَاضْرِبُوْا عُنُقَہ‘
(الفاروق عمر‘ از محمد حسین ہیکل۔ ج ۲، ص ۳۱۳)
تم میں سے جو کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بنے اس کی گردن مار دو۔
اس مجلس نے بالآخر انتخاب کاکام حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کے سپرد کیا اور انھوں نے مدینے میں چل پھر کر عام لوگوں کی رائے معلوم کی۔ گھر گھر جاکر عورتوں تک سے پوچھا۔ مدرسوں میں جاکر طلبہ تک سے دریافت کیا۔ مملکت کے مختلف حصوں کے جو لوگ حج سے اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپس جاتے ہوئے مدینے ٹھیرے تھے ان سے استصواب کیا، اور اس تحقیقات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امت میں سب سے زیادہ معتمد دو شخص ہیں: عثمانؓ اور علیؓ اور ان دونوں میں سے عثمانؓ کی طرف زیادہ لوگوں کا میلان تھا۔ اسی رائے پر آخر کار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ ہوا اور مجمع عام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔
پھر حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور امت میں سخت افراتفری برپا ہوگئی۔ اس موقع پر صحابہ حضرت علیؓ کے مکان پر جمع ہوئے اور ان سے عرض کیا کہ آج آپ سے زیادہ امارت کا حق دار کوئی نہیں‘ آپ اس بار کو سنبھالیں۔ حضرت علیؓ نے انکار کیا‘ مگر وہ اصرار کرتے رہے۔ آخر کار حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ یہی چاہتے ہیں تو مسجد میں چلیے۔
فَاِنَّ بَیْعَتِیْ لَا تَکُوْنُ خُفْیًا وَلَا تَکُوْنَ اِلاَّ عَنْ رِّضًا مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (طبری، ج۳،ص ۲۵)
کیونکہ میری بیعت خفیہ طور پر نہیں ہوسکتی اور مسلمانوں کی عام رضامندی کے بغیر اس کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
چنانچہ آپ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تشریف لے گئے اور مہاجرین و انصار جمع ہوئے اور سب کی نہیں تو کم از کم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اکثریت کی مرضی سے آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔
پھر جب حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا اور ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد کیا ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ سے بیعت کرلیں؟ اس پر انھوں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ:
مَا اٰمُرُ کُمْ وَلاَ اَنْھَاکُمْ اَنْتُمْ اَبْصَرُ۔ (طبری، ج۲،ص۱۱۲)
میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ اس سے منع کرتا ہوں۔ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔
یہ ہے رئیس مملکت کے تقرر کے معاملے میں خلافتِ راشدہ کا تعامل اور صحابہ کرامؓ کا اجماعی طرز عمل، جس کی بنیاد خلافت کے باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکوت اور تمام اجتماعی معاملات کے باب میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَاَمْرُھُمْ شٔوْرٰی بَیْنَھُمْ پر رکھی گئی تھی۔ اس مستند دستوری رواج سے جو بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی مملکت میں صدر کا انتخاب عام لوگوں کی رضامندی پر منحصر ہے۔ کوئی شخص خود زبردستی امیر بن جانے کا حق نہیں رکھتا۔۱۰۳؎ کسی خاندان یا طبقے کا اس منصب پر اجارہ نہیں ہے۔۱۰۴؎ اور انتخاب کسی جبر کے بغیر مسلمانوں کی آزادانہ رضامندی سے ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کی پسند کیسے معلوم کی جائے‘ تو اس کے لیے اسلام میں کوئی خاص طریق کار مقرر نہیں کر دیا گیا ہے۔ حالات اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں‘ بشرطیکہ ان سے معقول طور پر یہ معلوم کیا جاسکتا ہو کہ جمہور قوم کا اعتماد کس شخص کو حاصل ہے۔
مجلسِ شوریٰ کی تشکیل
انتخاب امیر کے بعد دوسرا اہم مسئلہ اہل الحل و العقد (یعنی مجلس شوریٰ کے ارکان) کا ہے کہ وہ کیسے چنے جائیں گے اور کون ان کو چنے گا۔ سرسری مطالعے کی بنا پر لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ خلافتِ راشدہ میں چونکہ عام انتخابات (general elections)کے ذریعے سے ارکانِ شوریٰ منتخب نہیں ہوتے تھے اس لیے اسلام میں سرے سے مشورے کا کوئی قاعدہ ہی نہیں ہے‘ بلکہ یہ بات بالکل خلیفۂ وقت کی صواب دید پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ جس سے چاہے مشورہ لے، لیکن یہ گمان دراصل اس زمانے کی باتوں کو اس زمانے کے ماحول میں رکھ کر دیکھنے سے پیدا ہوا ہے‘ حالانکہ ان کو اسی وقت کے ماحول میں رکھ کر دیکھنا چاہیے اور عملی تفصیلات کے اندر وہ اصول سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان میں ملحوظ رکھے گئے تھے۔
اسلام مکہ معظمہ میں ایک تحریک کی حیثیت سے اٹھا تھا۔ تحریکوں کے مزاج کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ جو لوگ سب سے پہلے آگے بڑھ کر ان کو لبیک کہتے ہیں وہ لیڈر کے رفیق‘ دست و بازو اور مشیر ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ اسلام میں بھی جو سابقین اولین تھے وہ بالکل ایک فطری طریقے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق اور مشیر قرار پائے، جن سے آپؐ ہر ایسے معاملے میں مشورہ کرتے تھے جس میں خدا کی طرف سے کوئی صریح حکم آیا ہوا نہ ہوتا تھا۔ پھر جب اس تحریک میں نئے نئے آدمیوں کا اضافہ ہونے لگا اور مخالف طاقتوں سے اس کی کشمکش بڑھتی گئی تو ایسے لوگ خود بخود نمایاں ہوتے چلے گئے جو اپنی خدمات‘ قربانیوں اور بصیرت و فراست کی بنا پر جماعت میں ممتاز تھے۔ ان کا انتخاب ووٹوں سے نہیں، بلکہ تجربات اور آزمائشوں سے ہوا تھا جو الیکشن کی بہ نسبت زیادہ صحیح اور فطری طریق انتخاب ہے۔ اس طرح مکہ چھوڑنے سے پہلے دو قسم کے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن بن چکے تھے۔ ایک: سابقین اولین، دوسرے: وہ آزمودہ کار اصحاب، جو بعد میں جماعت کے اندر نمایاں ہوئے۔ یہ دونوں گروہ ایسے تھے جن کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تمام مسلمانوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔
اس کے بعد ہجرت کا اہم واقعہ پیش آیا اور اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ڈیڑھ دو سال پہلے مدینے کے چند بااثر لوگ اسلام قبول کرچکے تھے اور ان کے اثر سے اوس اور خزرج کے قبیلوں میں گھر گھر اسلام پہنچ گیا تھا۔ انھی لوگوں کی دعوت پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مہاجرین اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے منتقل ہوئے اور وہاں اسلام کی ایک تحریک نے ایک سیاسی نظام اور ایک ریاست کی شکل اختیار کی۔ اب یہ بالکل ایک قدرتی بات تھی کہ مدینے میں جن لوگوں کے اثر سے اسلام پھیلا اور پھیلتا گیا وہی جدید معاشرے اور سیاسی نظام میں مقامی لیڈروں کی پوزیشن پر فائز ہوئے اور انھی کا یہ مرتبہ و مقام تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ میں سابقین اولین اور آزمودہ کار مہاجرین کے ساتھ ایک تیسرے عنصر (انصار) کی حیثیت سے شامل ہوں۔ یہ لوگ بھی فطری طریق انتخاب سے منتخب ہوئے تھے اور مسلمان قبیلوں کے ایسے معتمد علیہ تھے کہ اگر موجودہ زمانے کے طریقے پر انتخابات منعقد ہوتے تب بھی یہی لوگ منتخب ہو کر آتے۔
پھر مدنی معاشرے میں دو قسم کے لوگ اورابھرنے شروع ہوئے۔ ایک وہ جنھوں نے آٹھ دس برس کی سیاسی‘ فوجی اور تبلیغی مہمات میں کارہائے نمایاں انجام دیے حتیٰ کہ ہر اہم معاملے میں انھی کی طرف لوگوں کی نگاہیں اٹھنے لگیں۔ دوسرے وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے علم و فہم اور دین میں فقاہت کے اعتبار سے نام وَری حاصل کی، حتیٰ کہ عوام الناس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علمِ دین میں انھی کو سب سے زیادہ معتبر سمجھنے لگے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ فرما کر ان کو سند اعتبار عطا کی کہ قرآن فلاں شخص سے سیکھو‘ اور فلاں نوعیت کے مسائل میں فلاں شخص کی طرف رجوع کرو۔ یہ دونوں عناصر بھی مجلسِ شوریٰ میں بالکل ایک فطری انتخاب سے شامل ہوتے چلے گئے اور ان میں بھی کسی کے لیے ووٹ لینے کی حاجت پیش نہ آئی۔ ووٹ اگر لیے بھی جاتے تو اس معاشرے میں ان کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس پر مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑتی۔
اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں وہ مجلس شوریٰ بن چکی تھی جو بعد کو خلفائے راشدین کی مشیر قرار پائی اور وہ دستوری روایات بھی مستحکم ہو چکی تھیں جن کے مطابق آگے چل کر ایسے نئے لوگ اس مجلس میں شامل ہوتے گئے جنھوں نے اپنی خدمات اور اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے سے قبول عام حاصل کرکے اس مجلس میں اپنی جگہ پیدا کی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کو اہل الحل و العقد (باندھنے اور کھولنے والے) کہا جاتا تھا اور جن کے مشورے کے بغیر خلفائے راشدین کسی اہم معاملے کا فیصلہ نہ کرتے تھے۔ ان کی آئینی حیثیت کا صحیح اندازہ اس واقعے سے ہوسکتا ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد چند اصحاب نے حضرت علیؓ کے پاس حاضر ہو کر خلافت قبول کرنے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا:
لَیْسَ ذٰلِکَ اِلَیْکُمْ اِنَّمَا ھُوَ لِاَھْلِ الشُّوْرٰی وَاَھْلِ بَدْرٍ فَمَنْ رَضِیَ بِہٖ اَھْلُ الشُّوْرٰی وَاَھْلُ بَدْرٍ فَھُوَ الْخَلِیْفَۃُ فَنَجْتَمِعُ وَنَنْظُرُ فِیْ ھٰذَا الْاَمْرِ۔ (الامامہ و السیاسہ لابن قتیبہ،مطبعتہ الفتوح‘ مصر، ص ۴۱)
یہ معاملہ تمھارے فیصلہ کرنے کا نہیں ہے یہ تو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر کا کام ہے۔ جس کو اہلِ شوریٰ اور اہلِ بدر پسند کریں گے وہی خلیفہ ہو گا، پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اہل الحل و العقد اس وقت کچھ متعین لوگ تھے‘ جوپہلے سے اس پوزیشن پر فائز چلے آرہے تھے اور وہی ملت کے اہم معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز تھے۔ لہٰذا یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ خلیفۂ وقت من مانے طریقے پر جس وقت جس کو چاہتا تھا مشورے کے لیے بلا لیتا تھا اور کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ مستقل اہل شوریٰ یا اہل الحل و العقد کون ہیں جو قوم کے مسائل مہمہ کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔۱۰۵؎
خلافت راشدہ کے اس تعامل‘ بلکہ خود اسوۂ نبویؐ سے جو قاعدہ کلیہ مستنبط ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ امیر کو مشورہ ہر کس و ناکس سے‘ یا اپنی مرضی کے چنے ہوئے لوگوں سے نہیں، بلکہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو عامہ مسلمین کے معتمد ہوں‘ جن کے اخلاص و خیر خواہی اور اہلیت پر لوگ مطمئن ہوں اور حکومت کے فیصلوں میں جن کی شرکت اس امر کی ضامن ہو کہ ان فیصلوں کے نفاذ میں جمہور قوم کا دلی تعاون شریک ہوگا۔ رہا یہ سوال کہ عوام کے معتمد لوگ کیسے معلوم کیے جائیں‘ تو ظاہر ہے کہ اس چیز کے معلوم ہونے کی جو صورت آغاز اسلام کے مخصوص حالات میں تھی آج وہ صورت نہیں ہے اور اس زمانے کے تمدنی حالات میں جو موانع موجود تھے وہ بھی آج موجود نہیں ہیں۔ اس لیے ہم آج کے حالات اور ضروریات کے لحاظ سے وہ تمام ممکن اور مباح طریقے اختیار کرسکتے ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ جمہور قوم کا اعتماد کن لوگوں کو حاصل ہے۔ آج کل کے انتخابات بھی اس کے جائز طریقوں میں سے ایک ہیں‘ بشرطیکہ ان میں وہ ذلیل ہتھکنڈے استعمال نہ ہوں جنھوں نے جمہوریت کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
حکومت کی شکل اور نوعیت
اس کے بعد تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ اسلام میں حکومت کی شکل اور نوعیت کیا ہے؟
اس باب میں جب ہم خلافت راشدہ کے دور پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں امیرالمومنین اصل وہ شخص تھا جس سے سمع و طاعت کی بیعت کی جاتی تھی، اور جسے بھروسے کا آدمی سمجھ کر لوگ اپنی اجتماعی زندگی کے اہم ترین معاملے‘ یعنی حکومت کی باگ ڈور سپرد کرتے تھے۔ اس کی حیثیت انگلستان کے بادشاہ‘ فرانس کے صدر‘ برطانیہ کے وزیراعظم‘ امریکہ کے صدر‘ اور روس کے اسٹالن‘ سب سے مختلف تھی۔ وہ محض صدر ریاست ہی نہ تھا، بلکہ اپنا رئیس الوزرا بھی آپ ہی تھا۔ وہ پارلیمنٹ میں براہِ راست خود شریک ہوتا تھا اور آپ ہی پارلیمنٹ کی صدارت بھی کرتا تھا۔ پھر وہ مباحثوں میں بھی پورا حصہ لیتا تھا اور اپنی حکومت کے سارے کاموں کی جواب دہی کرتا اور اپنا حساب آپ دیتا تھا۔ اس کی پارلیمنٹ میں نہ کوئی گورنمنٹ پارٹی تھی، نہ اپوزیشن پارٹی۔ ساری پارلیمنٹ اس کی پارٹی تھی اگر وہ حق کے مطابق چلے، اور ساری پارلیمنٹ اپوزیشن تھی اگر وہ باطل کی طرف جاتا نظرآئے۔ ہر ممبر آزاد تھا کہ جس معاملے میں اس سے اتفاق رکھتا ہو، اتفاق کرے اور جس میں اس سے اختلاف رکھتا ہو اختلاف کرے۔ خلیفہ کے اپنے وزرا تک پارلیمنٹ میں اس کے خلاف اظہار رائے کر جاتے تھے اور پھر بھی وزارت اورصدارت میں خوب نبھتی تھی۔ کسی کے مستعفی ہونے کا سوال نہ پیدا ہوتا تھا۔ خلیفہ صرف پارلیمنٹ ہی کے سامنے جواب دہ نہ تھا، بلکہ پوری قوم کے سامنے اپنے ہر کام‘ حتیٰ کہ اپنی شخصی زندگی کے معاملات تک میں جواب دہ تھا۔ وہ پانچوں وقت مسجد میں پبلک کا سامنا کرتا‘ ہر جمعے کو پبلک سے خطاب کرتا اور پبلک اپنے شہر کے گلی کوچوں میں ہر روز چلتے پھرتے اس کو پاسکتی تھی اور ٹوک سکتی تھی۔ ہر شخص ہر وقت اس کا دامن پکڑ کر اپنا حق مانگ سکتا تھا اور ہر شخص مجمع عام میں اس سے باز پُرس بھی کرسکتا تھا۔ اس کے ہاں یہ قاعدہ نہ تھا کہ حکومت سے کوئی سوال کرنا ہو تو پارلیمنٹ کا کوئی ممبر ہی نوٹس دے کر لگے بندھے قواعد کے مطابق پوچھ سکتا ہے۔ اس کا اعلان عام تھا کہ:
اِنْ اَحْسَنْتُ فَاَعِیْنُوْنِیْ وَاِنْ اَسَاْتُ فَقُوْمُوْنِیْ… اَطِیْعُوْنِیْ مَا اَطَعْتُ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ فَاِنْ عَصَیْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَلاَ طَاعَۃَ لِیْ عَلَیْکُمْ۔ (الصدیق از محمد حسین ہیکل‘ ص ۶۷)
اگر میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کرو اور اگر برا رویہ اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو…… جب تک میں اللہ اور رسولؐ کا مطیع رہوں میری اطاعت کرو اور اگر میں اللہ اور رسولؐ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تمھارے ذمے نہیں ہے۔
یہ طرز حکومت‘ جس پر موجودہ زمانے کی اصطلاحوں میں سے کسی اصطلاح کا بھی اطلاق نہیں ہوسکتا‘ اسلام کے مزاج سے پوری مناسبت رکھتا ہے اور ہمارا آئیڈیل یہی ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں نبھ سکتا ہے جبکہ سوسائٹی اسلام کے انقلابی نظریات کے مطابق پوری طرح تیار ہو چکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی سوسائٹی میں انحطاط رونما ہوا‘ اس کا نبھنا مشکل ہوگیا۔ اب اگر ہم اس آئیڈیل کی طرف پھر پلٹنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ابتدائے کار کے لیے اس سے چار بنیادی اصول لے لیں اور پھر انھیں اپنے حالات و ضروریات کے مطابق عملی جامہ پہنائیں۔
۱۔ ایک یہ کہ حکومت کی اصل ذمے داری جس کے بھی سپرد کی جائے، وہ نہ صرف پبلک کے نمائندوں کا، بلکہ خود پبلک کا بھی سامنا کرے اور اپنا کام نہ صرف مشورے سے انجام دے، بلکہ اپنے اعمال کے لیے جواب دہ بھی ہو۔
۲۔ دوسرے یہ کہ پارٹی سسٹم سے نجات حاصل کی جائے، جو نظام حکومت کو بیجا عصبیتوں سے آلودہ کرتا ہے اور جس میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک جاہ پسند ٹولا برسر اقتدار آکر پبلک کے خرچ پر اپنے مستقل حمایتی پیدا کرلے اور پھر لوگ خواہ کتنا ہی شور مچائیں وہ ان حمایتیوں کے بل پر اپنی من مانی کرتا رہے۔
۳۔ تیسرے یہ کہ نظام حکومت ایسے پیچ دار ضابطوں پر قائم نہ کیا جائے جس سے کام کرنے والے کے لیے کام کرنا اور حساب لینے والوں کے لیے حساب لینا اور خرابی کے اصل ذمے دار کو مُشخّص کرنا مشکل ہو جائے۔
۴۔ اور سب سے آخری، مگر سب سے اہم اصول یہ ہے کہ صاحبِ امر اور اہلِ شوریٰ ایسے لوگوں کو بنایا جائے جن کے اندر اسلام کی بتائی ہوئی صفات زیادہ سے زیادہ پائی جاتی ہوں۔

شیئر کریں