Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

پیش لفظ: جدید اڈیشن
عرضِ ناشر
دیباچہ: طبع ہفتم
دیباچہ: طبع اول
مقدمہ
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
تحریک کی اِبتدا
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
جدید تحریک
ترقی کے اسباب
1۔ صنعتی انقلاب
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
3۔ جدید تہذیب وتمدن
نتائج
(1) طبقات کا عدم توازن
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
(3) طلاق کی کثرت
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
ردِّ عمل
اُصولِ اسلام
نقصانات
1۔ جسم ونفس کا نقصان
2۔ معاشرتی نقصان
3۔ اخلاقی نقصان
4۔ نسلی وقومی نقصانات
5۔ معاشی نقصان
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
موت کا بدل
معاشی حیلہ
چند اور دلیلیں
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
احادیث سے غلط استدلال
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

اسلام اور ضبطِ ولادت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

(۴) شرحِ پیدائش کی کمی

سب سے زیادہ اہم نتیجہ یہ ہے کہ جتنی قومیں اس وقت ضبط ولادت پر عمل کر رہی ہیں ان سب کی شرح پیدائش خوفناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اس تحریک کی اشاعت ۱۸۷۶ء سے شروع ہوئی ہے۔ آگے صفحہ ۴۰ پر جو نقشہ دیا جا رہا ہے اس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ اس وقت مختلف ممالک کی فی ہزار شرح پیدائش کیا تھی اور اس کے بعد سے کس طرح گھٹتی چلی گئی ہے۔

یہ نقشہ ضبط ِولادت کے نتائج صاف ظاہر کر رہاہے۔ اس تحریک کے آغاز کی تاریخ سے تمام ممالک میں بلا استثناء شرحِ پیدائش کا کم ہونا اور برابر کم ہوتے چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ضبط ِ ولادت اس کی تنہا وجہ نہیں تو ایک بڑی وجہ تو ضرور ہے۔ خود انگلستان کے رجسٹرار جنرل نے تسلیم کیا ہے کہ شرح پیدائش کے کم ہونے کی 70 فیصدی ذمہ داری برتھ کنٹرول کے رواج پر ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ مغربی ممالک کی شرح پیدائش کو گھٹانے میں ضبط ِ ولادت کے مصنوعی ذرائع کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔
رائل کمیشن آف پاپولیشن (1949ء) کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی شادیاں 1910ء سے پہلے ہوئی تھیں ان میں سے صرف 16 فیصدی ضبط ولادت پر عامل تھے لیکن 1940ء۔ 1942ء کے بعد 74 فیصدی شادی شدہ جوڑے اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔اسی سلسلے میں رائل کمیشن یہ صراحت کرتا ہے:
’’اس ملک میں اور دوسرے ممالک میں بڑی قوی شہادت ایسی موجود ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ شرح پیدائش میں کمی ضبط ِ ولادت اور خاندان کی بالارادہ تحدید کا نتیجہ ہے۔ یہ انھی کا اثر ہے کہ شرح پیدائش اس سے کم تر ہے جتنی ان طریقوں کے استعمال نہ کرنے کی صورت میں ہوتی۔‘‘{ FR 7129 }
امریکہ میں وہلپٹن اور کیسر(Whelpton & Kiser ) کے تحقیقی جائزے کے مطابق 91.5فیصد جوڑے کسی نہ کسی صورت میں ضبط ِولادت کے طریقوں پر عامل ہیں۔{ FR 7651 }فریڈمین (Freedman) اور ان کے رفقاء کی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی امریکہ میں 70 فیصدی سے زیادہ جوڑے اس طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ مصنّفین برطانیہ اور امریکہ کے حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں بتاتے ہیں:
’’اس امر میں ذرہ برابر شبہ نہیں کہ خاندانوں کے مختصر ہونے کا بنیادی سبب حمل روکنے کی اختیاری کوششیں ہیں۔‘‘{ FR 7131 }
اس سے زیادہ واضح طور پر ضبط ولادت کے نتائج معلوم کرنے کے لیے ان ممالک کی شرح مناکحت اور شرح پیدائش کا مقابلہ کیجیے۔ انگلستان میں1876ء سے 1901ء تک شرحِ مناکحت میں 6.3 فیصدی کی کمی واقع ہوئی لیکن شرح پیدائش 21.5 فی صدی کم ہو گئی۔ 1901ء سے 1913ء تک شرح مناکحت بدستور قائم رہی مگر شرح پیدائش میں 16.5فیصد کمی واقع ہوئی۔1913ئ سے 1926ئ تک شرح مناکحت 10فی صدی اور شرح پیدائش 25 فی صدی کم ہوئی۔ یہی حال تمام یورپ کا رہا ہے۔ 1876ئ اور 1926ئ کے درمیان مختلف ممالک میں شرح مناکحت اور شرح پیدائش کا جو تناسب پایا گیا ہے اس کا حال ذیل کے نقشے سے معلوم ہو گا:

شرح مناکحت
شرح پیدائش
فرانس 7.6 فیصدی اضافہ
جرمنی 9.4 کمی
اٹلی 9.8 ” ”
ہالینڈ 10.3 ” ”
سویڈن 11.3 ” ”
ڈنمارک 12.3 ” ”
سوئٹزرلینڈ 9.12 ” ”
انگلستان اور ویلز 13.3 ” ”
ناروے 26.00 ” ”
28.2 کمی
49.4 ”
1.29 ”
35.6 ”
1.45 ”
6.35 ”
8.44 ”
0.51 ”
0.38 ”
اسی روش پر امریکہ بھی جا رہا ہے۔ وہاں انیسویں صدی کے اواخر میں شرح پیدائش 40 فی ہزار تھی۔ 1935ء میں گھٹ کر صرف 18.7 فی ہزار رہ گئی اور اس وقت23.6 فی ہزار ہے۔{ FR 7132 } اس کے مقابلہ میں شرح مناکحت1901ء میں9. 3 فی ہزار تھی۔ 1935ء میں10.4 فی ہزار ہوئی اور 1956ء میں 9.4 فی ہزار۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ضبط ولادت پر عمل کرنے والے ممالک میں عورت اور مرد کے زوجی تعلقات روز بروز کس قدر بے نتیجہ ہوتے جا رہے ہیں۔ شادیوں میں جتنی کمی ہو رہی ہے اس سے زیادہ کمی پیدائش میں ہو رہی ہے اور کچھ حالات میں تو شادیوں میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پیدائش میں برابر کمی ہوتی رہتی ہے۔ برطانیہ کی ایک حالیہ سرکاری دستاویز میں بھی اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ:
’’بیسویں صدی میں شرح مناکحت میں اضافہ کے باوجود پیدائش میں کمی ہی واقع ہوئی ہے پھر اس زمانہ میں صرف شرح مناکحت ہی نہیں بڑھی ہے بلکہ شادی کی عمر میں بھی کمی ہوئی ہے۔‘‘{ FR 7133 }
شرح پیدائش ہی میں کمی کا ایک مظہر خاندانوں کے اوسط افراد کی کمی ہے۔ مغربی ممالک میں خاندان کا سائز برابر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور اب بڑی تعداد ان خاندانوں کی ہے جن میں کوئی اولاد نہیں یا زیادہ سے زیادہ ایک دو بچے ہیں۔ تحریک ضبط ولادت سے قبل اور بعد کے اعداد وشمار میں بڑا نمایاں فرق نظر آتا ہے۔
انگلستان میں 1860ء اور 1925ء کے زمانے میں واقع ہونے والی شادیوں کے درمیان اولاد کے اعتبار سے فرق کا حال یہ تھا:{ FR 7134 }
بچوں کی تعداد
مناکحت

1860ء
1925ء
کوئی بچہ نہیں
1 یا2 بچے
3 یا4 بچے
5 سے9 بچے
10 یا اس سے زائد
9 فیصد
11 فیصد
17 فیصد
47 فیصد
16 فیصد
17 فیصد
50 فیصد
22 فیصد
11 فیصد
۔ ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اوسط خاندان مختصر ہو رہا ہے۔ 79-1870ء میں شادی شدہ عورتوں کے ہاں اوسط فی کس8.5 بچے تھی۔ 1925ء میں یہ اوسط صرف 2.2 رہ گیا۔{ FR 8513 } اور تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اوسط 2.2 سے کچھ ہی زیادہ ہے۔{ FR 8514 }
امریکہ میں اوسط اولاد فی کس 1910ء میں 4.7 بچے تھی، جو1955ء میں صرف 4.2 بچے رہ گئی۔ 1910ء میں بے اولاد عورتیں اور ایک یا دو بچوں والیاں کل شادی شدہ عورتوں کا 10 اور 22 فیصد تھیں، مگر 1955ء میں یہ تناسب علی الترتیب 16 فیصد اور 47 فیصد ہو گیا۔ اس کے برعکس 1910ء میں وہ عورتیں جن کے سات یا اس سے زیادہ بچے تھے کل شادی شدہ عورتوں کا39 فیصد تھیں مگر 1955ء میں یہ تناسب صرف چھے فیصد رہ گیا۔ { FR 7137 }
شرح پیدائش کی اس روز افزوں کمی کے باوجود ان ممالک کی آبادی میں جو تھوڑا بہت اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ فنِ طب کی ترقی اور حفظانِ صحت کی وسیع تدابیر نے شرح اموات کو بھی بڑی حد تک گھٹا دیا ہے۔ لیکن اب شرح اموات اور شرح پیدائش میں تھوڑا ہی فرق رہ گیا ہے اور عام طور پرخوف کیا جا رہا ہے کہ عنقریب شرح پیدائش، شرح اموات سے کم ہو جائے گی، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان قوموں میں جتنے آدمی پیدا ہوں گے ان سے زیادہ مر جائیں گے۔ فرانس ،بیلجئم اور آسٹریا ان ممالک میں سے ہیں جن میں آبادی تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد بڑھنے کے بجائے الٹی گھٹتی رہی ہے۔ یہ ممالک اپنے سابقہ معیار تک کو برقرار نہیں رکھ سکے ہیں۔ انگلستان کی آبادی بھی کم وبیش ٹھیری ہوئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے امریکہ بھی اس مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ آسٹریا میں 1935ء اور 1938ء کے درمیان اموات کی تعداد پیدائش سے زیادہ رہی۔ فرانس میں بھی 1935ء اور 1939ء کے درمیان اموات پیدائش سے زیادہ تھیں۔ اگر اس زمانے میں کثرت سے بیرونی ممالک کے لوگ ہجرت کرکے فرانس میں آباد نہ ہوئے ہوتے تو اس ملک کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہو جاتی۔ چنانچہ 36-1934ء اور 39-1938ء میں فی الواقع آبادی کم ہو گئی تھی۔{ FR 8135 }
امریکہ کی شہری آبادی کے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1950ء تک موجودہ نسل خود اپنی تعداد کے برابر نسل پیدا کرنے میں بھی ناکام رہی۔ اس وقت تک شرح پیدائش کا جو حال تھا اسے دیکھتے ہوئے اندازہ تھا کہ اگر یہ شرح نہ بڑھی تو ایک پشت کے بعد آبادی میں 25 فیصد کمی واقع ہو جائے گی۔
انگلستان میں آبادی کمیشن کی رپورٹ (1949ء) کے بقول 1945ء کے آخر میں یہ نوبت پہنچ گئی تھی کہ غیر جسمانی محنت کرنے والے اعلیٰ طبقات میں، جن کی شادی کو سولہ سے بیس سال تک ہو چکے تھے، فی خاندان بچوں کا اوسط 68.1 تھا۔ یہ صورتحال صاف خبر دے رہی تھی کہ یہ طبقات آہستہ آہستہ ختم ہو جانے والے ہیں۔ اس سلسلہ میں ماہرین کا اندازہ یہ ہے:
’’ایسی آبادی کے لیے جس میں دو بچوں کا رواج ہو یا جس میں بالآخر ہر شادی پر دو بچے زندہ رہیں، نیست ونابود ہو جانا مقدر ہے۔ ایسی آبادی نسلاً بعد نسلٍ کم ہوتی چلی جائے گی اور ہر تیس سال کے بعد وہ پہلے سے کم ہو جائے گی۔‘‘
’’مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ ایسے ہزار افراد جن میں دو بچوں کا رواج ہو، پہلے تیس سال کے بعد صرف 631رہ جائیں گے۔ 60 سال بعد 386 اور ڈیڑھ سو برس بعد صرف 92۔‘‘{ FR 7138 }
ماہرین معاشیات وشماریات آبادی کے صحیح رجحانات کا اندازہ کرنے کے لیے صرف شرح پیدائش ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ ان تمام عوامل کا مطالعہ کرکے جو آبادی میں اضافے یا کمی کے موجب ہوتے ہیں، خالص شرحِ افزائش آبادی (Net Reproduction Rate) نکال لیتے ہیں۔ ] ذیل کے جدول میں[ اگریہ شرح (1) ہے تو آبادی ٹھیری ہوئی ہے۔ اگر (1) سے زیادہ ہے تو آبادی بڑھ رہی ہے اور اگر (1) سے کم ہے تو گھٹ رہی ہے۔ ذیل میں ہم چند اہم مغربی ممالک کی خالص شرح افزائش دے رہے ہیں{ FR 8136 } جس سے ان کی صحیح حالت کا اندازہ ہو گا:
ملک
سال
آبادی
ملک
سال
آبادی
انگلستان
1933ء
0.747

1935ء
0.870

1937ء
0.775

1940ء
0.820

1940ء
0.782

1954ء
0.940

1949ء
0.909
ناروے
1935ء
0.746
بیلجیئم
1939ء
0.859

1940ء
0.858

1947ء
1.002

1945ء
1.075
فرانس
1930ء
0.930

یہ حالات اہل فکر ونظر کے لیے بڑے پریشان کن ثابت ہو رہے ہیں اور ان کے خطرناک اثرات دیکھ دیکھ کر بہت سے وہ مفکر بھی بوکھلا اٹھے ہیں جو بظاہر ضبط ولادت کے حامی ہیں۔ جب اپنے ہی لگائے ہوئے درختوں کے پھل ان کے سامنے آئے تو یہ حیران وششدر رہ گئے اوراب کم از کم اپنے ملکوں کی حد تک یہ حضرات پالیسی کو تبدیل کرنے کے داعی ہیں۔ مثلاً ایک ماہر عمرانیات ان حالات کی بنا پر یہ رائے ظاہر کرتا ہے:
’’اگر مالتھس آج زندہ ہوتا تو وہ غالباً اس بات کو اچھی طرح محسوس کر لیتا کہ مغربی انسان نے پیدائش کو روکنے میں کچھ ضرورت سے زیادہ ہی دُور اندیشی سے کام لیا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے مستقبل کی فکر کرنے میں وہ بہت ہی کوتاہ نظر ثابت ہوا ہے۔‘‘{ FR 7672 }
’’فرانس اور بیلجیئم میں تو فی الواقع وقتاً فوقتاً آبادی کم ہو گئی ہے، کیونکہ اموات، پیدائش سے زیادہ تھیں لیکن مغربی، صنعتی، شہری، تہذیب کی باقی تمام ہی اقوام آبادی کم ہونے کے خطرہ سے دو چار ہیں۔ خود امریکہ میں ماہرین آبادی نے 40-1930ئ کے پیدائش واموات کے رجحانات کا مطالعہ کرکے یہ کہہ دیا تھا کہ ایک ہی نسل میں آبادی گھٹنے کا خطرہ حقیقت بن جائے گا۔‘‘{ FR 7147 }
معاشی نقطۂ نظر کو ایک مشہور ماہرمعاشیات کی زبان سے سنیے:
’’اگر ہم آبادی کی کمی کو قائم رکھنے کی حماقت کرتے ہیں تو ہم کو جان رکھنا چاہیے کہ تقلیل آبادی، جس سے ہم دو چار ہیں، بے روزگاری کے مسئلہ کا حل نہیں ہے اور نہ اس کی وجہ سے باقی ماندہ لوگوں کا معیارِ زندگی ہی بلند ہوتا ہے۔ اس کے معاشی اثرات لازماً ناخوشگوار ہوں گے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے آبادی میں بوڑھے لوگوں کا تناسب بڑھ جائے گا اور پیدا کار (producers) ریٹائرڈ لوگوں کو برسرکار رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ اور اگر خود پیداکاروں میں بھی ایک بڑا طبقہ بڑی عمرکے لوگوں پر مشتمل ہو تو نظامِ پیداوار میں وہ لچک باقی نہیں رہ سکتی جو بدلتے ہوئے حالات اور نت نئے تکنیک کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ہمیں آبادی کی کمی کو روکنے کے لیے ہر وہ طریقہ اختیارکرنا چاہیے جو ممکن ہو۔‘‘{ FR 7148 }
اور ایک مؤرخ کے افکار بھی اپنے اندر عبرت وموعظت کا بڑا سامان رکھتے ہیں:
’’ایک اور طریقہ جس سے ایک مُسرِف اور اوباش قوم کی زندگی کو کم کر دیا جاتا ہے، وہ شرحِ پیدائش کی کمی ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے کہ جو اقوام لذت پرستی اور جنسی آلودگی میں مبتلا ہوتی ہیں وہ افزائشِ اطفال سے غافل رہتی ہیں اور بچوں کو اپنی آبادی اور خوش فعلی کی راہ میں مانع تصور کرتی ہے۔ یہ رویہ پرستارانِ جنس کو مانعِ حمل ذرائع کے استعمال، اسقاطِ حمل اور اسی نوع کی دوسری تدابیر کے اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کی آبادی پہلے تو ساکن اور متغیر ہو جاتی ہے اور پھر کم ہونے لگتی ہے حتیٰ کہ وہ اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں وہ اپنی بنیادی ضرورتیں تک پوری کرنے کے اہل نہیں رہتی۔ یعنی نہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کو قائم رکھ سکتی ہے اور نہ اپنے فطری (natural) اور انسانی دشمنوں سے اپنے آپ کو بچا سکتی ہے۔ یہ خود کشی ہے اور اسے اس بانجھ پن سے مزید مدد ملتی ہے جو آوارہ گردی اور بدفعلی کا فطری نتیجہ ہے۔ پھر ان دونوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسی قوم کا عرصہ حیات مختصر ہو جاتا ہے۔ خود کُشی کے اس طریقہ نے تاریخ انسانی میں بہت سے شاہی خاندانوں، دولت مند اوراونچے طبقوں اور اجتماعی گروہوں کو حیاتیاتی اور سماجی حیثیت سے نیست ونابود کر دیا ہے اور اسی کے ذریعہ سے بہت سی قومیں زوال وانحطاط کی شکار ہوئی ہیں۔‘‘{ FR 7149 }
کولن کلارک (Colin Clark) اس کے سیاسی اور تمدنی پہلوئوں کی طرف ہماری توجہ منعطف کراتا ہے:
’’مستقبل کا مؤرخ، گزری ہوئی صدیوں کے جھروکے سے دیکھ کر، اہل فرانس کے انیسویں صدی کے اوائل اور اہل برطانیہ کے انیسویں صدی کے اواخر کے اس فیصلے کو کہ وہ اپنی آبادی کے اضافہ کی رفتار کو روک لیں گے اور اس کے اس نتیجے کو کہ بحیثیت ایک عالمی طاقت کے ان ممالک کے سیاسی اثر ونفوذ میں انحطاط رونما ہو گا، ہمارے دور کے اہم ترین واقعات میں شمار کرے گا۔‘‘{ FR 7151 }
یہ ایک مختصر سا جائزہ ہے ان نتائج کا جو ضبطِ ولادت کو ایک قومی پالیسی اور ایک اجتماعی تحریک کی حیثیت سے اختیار کرنے کی بدولت دنیا کے مختلف ملکوں میں رونما ہو چکے ہیں۔ یہ نتائج آج ایک کھلی کتاب کی طرح ہر صاحب نظر کے سامنے ہیں۔ جن قوموں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، وہ تواپنی بہار دیکھ چکی ہیں۔ اپنے پورے عروج کو پہنچ جانے کے بعد اب وہ سُنت اللہ کے مطابق تنزل کی طرف جا رہی ہیں، اور ان کے تنزل کا انتظام خود ان کے اپنے ہاتھوں کرایا جا رہا ہے۔ مگر کوئی قوم جو ابھی ابھی نکبت کی حالت سے نکل کر ترقی کرنے کی خواہشمند ہو، کیا اس کے لیے یہ کوئی دانش مندانہ طرز عمل ہو گا کہ ترقی کیلئے اپنی سعی وجہد کا آغاز ہی وہ ان حماقتوں سے کرے جو دوسری قوموں نے بامِ عروج پر پہنچ کر کی ہیں؟

شیئر کریں