جیسا کہ اوپر بیان ہوا، معاشیات میں اسلام جس مطمح نظر کو سامنے رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ دولت کسی جگہ جمع نہ ہونے پائے۔ وہ چاہتا ہے کہ جماعت کے جن افراد کو اپنی بہتر قابلیت یا خوش قسمتی کی بنا پر ان کی ضرورت سے زیادہ دولت میسر آگئی ہو وہ اس کو سمیٹ کر نہ رکھیں بلکہ خرچ کریں، اور ایسے مصارف میں خرچ کریں جن سے دولت کی گردش میں سوسائٹی کے کم نصیب افراد کو بھی کافی حصہ مل جائے۔ اس غرض کے لیے اسلام ایک طرف اپنی بلند اخلاقی تعلیم اور ترغیب و ترہیب کے نہایت موثر طریقوں سے فیاضی اور حقیقی امداد باہمی کی اسپرٹ پیدا کرتا ہے، تا کہ لوگ خود اپنے میلانِ طبع ہی سے دولت جمع کرنے کو برا سمجھیں اور اسے خرچ کر دینے کی طرف راغب ہوں۔ دوسری طرف وہ ایسا قانون بناتا ہے کہ جو لوگ فیاضی کی اس تعلیم کے باوجود اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے روپیہ جوڑنے اور مال سمیٹنے کے خوگر ہوں، یا جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر مال جمع ہو جائے، ان کے مال میں سے بھی کم از کم ایک حصہ سوسائٹی کی فلاح و بہبود کے لیے ضرور نکلوالیا جائے۔ اسی چیز کا نا م زکوٰۃ ہے، اور اسلام کے معاشی نظام میں اس کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اس کو ارکانِ اسلام میں شامل کر دیا گیا ہے۔ نماز کے بعد سب سے زیادہ اسی کی تاکید کی گئی ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے کہ جو شخص دولت جمع کرتا ہے اس کی دولت اس کے لیے حلال ہی نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَـۃً تُطَہِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْہِمْ بِہَا التوبہ103:9
اے نبی، ان کے اموال میں سے ایک صدقہ (یہ ’’ایک صدقہ‘‘ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس سے مراد ایک خاص مقدارِ صدقہ ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے وصول کرنے کا حکم دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ عام رضا کارانہ صدقات کے علاوہ یہ ایک واجب اور فرض صدقہ ہے جو لازماً مال دار لوگوں سے وصول کیا جائے گا۔ چنانچہ اس حکم کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اقسام کی دولتوں کے معاملے میں ایک مقدارِ نصاب مقرر کی جس سے کم دولت پر صدقہ واجبہ نہ لیا جائے گا۔ پھر بقدر نصاب یا اس سے زائد دولت پر مختلف چیزوں کے معاملے میں مختلف شرح سے زکوٰۃ عائد فرمائی۔ سونے اور چاندی اور زرِ نقد اور اموالِ تجارت پر یہ زکوٰۃ ½۲ فیصدی سالانہ ہے۔ زرعی پیداوار پر بارانی زمینوں کے معاملے میں ۱۰ فیصدی اور مصنوعی آب پاشی کی زمینوں میں ۵ فیصدی۔ معدنیات (جو نجی ملکیتوں میں ہوں) اور دفینوں پر ۲۰ فیصدی۔ اسی طرح مواشی پر بھی، جو افزائش نسل اور فروخت کے لیے ہوں، مختلف قسم کے جانوروں کے معاملہ میں مختلف شرحیں حضورؐ نے مقرر فرمائیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔)وصول کرو جو ان کو پاک کر دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
آیت کے آخری الفاظ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ مال دار آدمی کے پاس جو دولت جمع ہوتی ہے وہ اسلام کی نگاہ میں ایک ناپاکی ہے اور وہ پاک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کا مالک اس میں سے ہر سال کم از کم ایک مقرر مقدار راہِ خدا میں نہ خرچ کر دے۔ یہ راہِ خدا کیا ہے؟ خدا کی ذات تو بے نیاز ہے، اس کو نہ تمہارا مال پہنچتا ہے نہ وہ اس کا حاجت مند ہے۔ اس کی راہ بس یہی ہے کہ تم خود اپنی قوم کے تنگ حال لوگوں کو خوشحال بنانے کی کوشش کرو اور ایسے مفید کاموں کو ترقی دو جن کا فائدہ ساری قوم کو حاصل ہوتا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۭ التوبہ60:9
صدقات تو دراصل فقراء اور مساکین کے لیے ہیں(فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی ضرورت سے کم معاش پانے کے باعث مدد کا محتاج ہو (لسان العرب، لفظ ’’فقر‘‘) اور مسکین کی تعریف حضرت عمرؓ نے یہ بیان کی ہے کہ وہ ایسا شخص ہے جو کما نہ سکتا ہو، یا کمانے کا موقع نہ پاتا ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ غریب بچے جو ابھی کمانے کے قابل نہ ہوئے ہوں، اور وہ اپاہج اور بوڑھے جو کمانے کے قابل نہ رہے ہوں، اور وہ بیروزگار یا بیمار یا آفت رسیدہ لوگ جو عارضی طور پر کمانے کے مواقع سے محروم رہ گئے ہوں، سب مساکین ہیں۔
) اور ان کارکنوں کے لیے جو صدقات کی تحصیل پر مقرر ہوں۔ اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔(اس میں وہ نو مسلم آجاتے ہیں جو کفر سے اسلام میں داخل ہونے کے باعث مشکلات میں مبتلا ہوگئے ہوں۔
)اور لوگوں کی گردنیں بندِاسیری سے چھڑانے کے لیے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے کے لیے۔ اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لئے۔ اور مسافروں کے لیے۔(مسافر اگر اپنے گھر پر دولت مند بھی ہو تو حالتِ سفر میں تنگی پیش آجانے پر وہ زکوٰۃ کا مستحق ہوتا ہے۔)
یہ مسلمانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ہے۔ یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے۔ یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے۔ یہ ان کے لیے بے کاروں کا سرمایۂ اعانت ہے۔ یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں، بیوائوں اور بے روزگاروں کا ذریعہ پرورش ہے۔ یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ مسلم معاشرے میں کوئی شخص ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے گا۔ اور ان سب سے بڑھ کر یہ وہ چیز ہے جو مسلمان کو فکر فردا سے بالکل بے نیاز کر دیتی ہے۔ اس کا سیدھا سادھا اصول یہ ہے کہ آج تم مال دار ہو تو دوسروں کی مدد کرو۔ کل تم نادار ہو گئے تو دوسرے تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں یہ فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ مفلس ہو گئے تو کیا بنے گا؟ مر گئے تو بیوی بچوں کا کیا حشر ہوگا؟ کوئی آفت ناگہانی آپڑی، بیمار ہو گئے، گھر میں آگ لگ گئی، سیلاب آگیا، دیوالہ نکل گیا، تو ان مصیبتوں سے مخلصی کی کیا سبیل ہو گی؟ سفر میں پیسہ پاس نہ رہا تو کیوں کر گزر بسر ہوگی؟ ان سب فکروں سے صرف زکوٰۃ تم کو ہمیشہ کے لیے بے فکر کر دیتی ہے۔ تمہارا کام بس اتنا ہے کہ اپنی پس انداز کی ہوئی دولت میں سے ایک حصہ دے کر اللہ کی انشورنس کمپنی میں اپنا بیمہ کرالو۔ اس وقت تم کو اس دولت کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کے کام آئے گی جو اس کے ضرورت مند ہیں۔ کل جب تم ضرورت مند ہوگے یا تمہاری اولاد ضرورت مند ہوگی تو نہ صرف تمہارا اپنا دیا ہوا مال بلکہ ضرورت ہو تو اس سے بھی زیادہ تم کو واپس مل جائے گا۔
یہاں پھر سرمایہ داری اور اسلام کے اصول و مناہج میں کلی تضاد نظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کا اقتضاء یہ ہے کہ روپیہ جمع کیا جائے اور اس کو بڑھانے کے لیے سود لیا جائے تا کہ ان نالیوں کے ذریعہ سے آس پاس کے لوگوں کا روپیہ بھی سمٹ کر اس جھیل میں جمع ہو جائے۔ اسلام اس کے بالکل خلاف یہ حکم دیتا ہے کہ روپیہ اول تو روک کر نہ رکھا جائے، اور اگر رک گیا ہو تو اس تالاب میں سے زکوٰۃ کی نہریں نکال دی جائیں تا کہ جو کھیت سوکھے ہیں ان کو پانی پہنچے اور گرد و پیش کی ساری زمین شاداب ہو جائے۔ سرمایہ داری کے نظام میں دولت کا مبادلہ مقید ہے اور اسلام میں آزاد۔ سرمایہ داری کے تالاب سے پانی لینے کے لیے ناگزیر ہے کہ خاص آپ کا پانی پہلے سے زیادہ موجود ہو، ورنہ آپ ایک قطرۂ آب بھی وہاں سے نہیں لے سکتے… اس کے مقابلے میں اسلام کے خزانۂ آب کا قاعدہ یہ ہے کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو وہ اس میں لا کر ڈال دے اور جس کو پانی کی ضرورت ہو وہ اس میں سے لے لے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طریقے اپنی اصل اور طبیعت کے لحاظ سے ایک دوسرے کی پوری پوری ضد ہیں، اور ایک ہی نظم معیشت میں ان دونوں کو جمع کرنا درحقیقت اضداد کو جمع کرنا ہے جس کا تصور بھی کوئی عاقل نہیں کرسکتا۔