ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب لکھتے ۱۷؎ ہیں سورۂ یوسف سے متعلق آپ کے فہم قرآنی سے مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔ قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو تَمَکُّنْ فِی الْاَرْضَ عطا فرمایا گیا اور وہ دائرۂ حکومت میں ایک ممتاز حیثیت سے شریک ہوگئے، لیکن ظاہر ہے کہ آپ رسولؑ تھے‘ اس لیے فریضۂ رسالت کی سرانجام دہی بھی آپ کے لیے ضروری تھی۔ دربار فرعون کے مرد مومن نے اپنی تقریر میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی نبوت پر قوم فرعون ایمان نہیں لائی تھی اور یہ بھی کہ آپ اپنی وفات تک ڈھیل دیتے رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی نبوت کو پیش کیا لیکن فرعون اور اس کی قوم اس پر ایمان نہ لائی۔ اس کے باوجود حضرت یوسف ؑ ان کی حکومت میں شریک کار رہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کا ایک برگزیدہ رسول ایک غیر خدائی نظام حکومت کا شریک کار کس طرح رہا‘ درآں حالیکہ وہ اس قوم کے سامنے اپنی نبوت بھی پیش کر چکے تھے اور اس قوم نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ ایسے منکرین دعوت اسلامی کے خلاف یا تو حضرت یوسف علیہ السلام کو جہاد کرنا چاہیے تھا، یا برسبیل تنزل وہاں سے ہجرت لازم تھی، لیکن آپؑ نے نہ تو ہجرت ہی فرمائی اور نہ ان کے خلاف جہاد ہی کیا‘ بلکہ ان کے خلاف تبریٰ و بیزاری کا اعلان بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کیا آپ اس گتھی کو سلجھائیں گے؟
بنی اسرائیل کی تاریخ کا وہ دور جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے گزرا ہے‘ قریب قریب بالکل تاریکی میں ہے۔ ۱۸؎ اس لیے قرآن کے اشارات کی تفصیل معلوم کرنا مشکل ہے۔ تاہم قرآن مجید نے اپنے مجمل اشارات سے اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہنے دیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی حیثیت مصر میں غیر خدائی نظام حکومت کے شریک کار کی نہ تھی‘ بلکہ مختار کل کی تھی‘ اور انھوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی ہی اس شرط کے ساتھ تھی کہ کل اختیارات ان کے ہاتھ میں ہوں۔ اس آیت کو بغور پڑھیے:
قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ وَ کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ یوسف12:55-56
یوسف علیہ السلام نے کہا: مجھے ملک کے خزانوں پر حاکم بنا دے‘ یقیناً میں حفاظت کرنے والا ہوں اور علم رکھتا ہوں اور اس طرح ہم نے یوسف ؑ کو اس سرزمین میں اقتدار عطا کیا۔ وہ وہاں جس جگہ بھی چاہتا‘ اپنی جگہ بنا سکتا تھا۔
خط کشیدہ الفاظ صاف ظاہر کر رہے ہیں کہ مطالبہ کلی اختیارات کا تھا اور ملے بھی کلی اختیارات ہی۔ خَزَائِنِ الْاَرْضْ کا لفظ دیکھ کر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ یہ جگہ شاید فنانس منسٹریا ریونیو ممبر کی تھی‘ حالانکہ دراصل اس سے مراد ملک کے جملہ وسائل (resources) ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا مطالبہ یہ تھا کہ سلطنت ِ مصر کے تمام وسائل میرے ہاتھ میں دیے جائیں اور اس کے نتیجے میں جو اختیارات انھیں ملے وہ ایسے تھے کہ پھر ساری سرزمین مصر ان کی تھی۔ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ کو بھی لوگوں نے بہت ہی محدود معنوں میں لے لیا ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مفہوم بس اتنا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ہر جگہ مکان بنا لینے یا قیام کرنے کے مجاز تھے۔ حالانکہ درحقیقت اس فقرے سے یہ تصور دلانا مقصود ہے کہ اس سرزمین پر حضرت یوسف علیہ السلام کا اقتدار ویسا ہی تھا جیسا ایک زمین کے مالک کو اپنی زمین پر حاصل ہوتا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو جو اقتدار حاصل ہوا‘ اس کے ذریعے سے انھوں نے ملک کے نظام تہذیب و تمدن و اخلاق و سیاست کو اصول اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی کیا کوشش کی اور اس میں کس قدر کامیابی ہوئی‘ تو اس کے متعلق کوئی تفصیل ہمیں تاریخ سے نہیں ملتی، البتہ سورۂ مائدہ کے ایک اشارے سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کا اقتدار محض ایک فرد واحد کا عارضی اقتدار نہ تھا ،بلکہ آپ کے بعد ایک مدت دراز تک آپ ہی کے جانشین‘ جو یقیناً مسلمان ہی تھے‘ مصر پر حکمران رہے۔ انھیں وہ عظمت و شوکت حاصل ہوئی جو اس دور میں دنیا کی کسی قوم کو حاصل نہ تھی۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں:
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۔ المائدہ5:20
یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں انبیاء پیدا کیے اور تم کو فرماں روا بنایا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔
اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس اسلامی غلبے و تسلط کا لازمی اثر ملک کی پوری زندگی پر مرتب ہوا ہوگا۔
سورۂ مومن کی جس آیت سے آپ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قبطی قوم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ماننے سے انکار کر دیا تھا‘ دراصل اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ میں ایسا سمجھا ہوں کہ وہاں ہندستان کی سی صورت پیش آئی تھی کہ ملک کی آبادی کے معتدبہ حصے نے اسلام قبول کیا اور بڑی اکثریت اپنے شرک پر قائم رہی۔ ۱۹؎ پھر جس حصے نے اسلام قبول کیا وہی ایک مدت تک برسر اقتدار رہا‘ مگر رفتہ رفتہ اخلاقی و اعتقادی انحطاط نے اس کو غلامی اور گمراہی کی پستیوں میں گرا دیا۔ حتٰی کہ غلو اور اشخاص پرستی کے فتنے میں پڑ کر عملاً اس میں اور دوسرے مشرکین میں کوئی خاص فرق باقی نہ رہا۔ اسی چیز کی طرف مومن آل فرعون نے اشارہ کیا ہے:
وَلَقَدْ جَآئَکُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآئَکُمْ بِہٖ o حَتّٰی اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا۔ المومن40:34
اس سے پہلے یوسف ؑ تم لوگوں کے پاس صریح نشانیاں لے کر آئے تھے‘ مگر تم اس چیز میں برابر شک کرتے رہے جسے وہ لائے تھے‘ پھر جب ان کا انتقال ہوگیا تو تم نے کہا کہ اب ان کے بعد اللہ کسی رسول کو ہرگز نہ بھیجے گا۔
خط کشیدہ دو فقروں میں سے پہلا فقرہ بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ملک کی بیش تر آبادی آپ کی نبوت کے متعلق شک میں رہی‘ جیسا کہ اکثر انبیاء کے ساتھ ہوا ہے، اور دوسرے فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب کے بعد جو لوگ آپ کے معتقد ہوئے وہ آپ کی شخصیت کے گرویدہ ہو کر غلو میں مبتلا ہوگئے اور کہنے لگے کہ اب کوئی رسول نہیں آسکتا اور اسی بنا پر انھوں نے بعد کے آنے والے کو ماننے سے انکار کر دیا، جیسا کہ آگے چل کر یہودیوں اور عیسائیوں نے کیا۔ درآں حالیکہ حضرت یوسف ؑ یا حضرت موسیٰ ؑ یا حضرت عیسیٰ ؑ میں سے کسی کے بعد بھی اللہ کی طرف سے ختم نبوت کا اعلان نہ ہوا تھا۔
بہرحال اس آیت کے یہ معنی نہیں نکالے جاسکتے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر ملک میں کوئی بھی ایمان نہیں لایا تھا بلکہ دوسرے اشارات کی مدد سے قیاس یہی ہوتا ہے کہ ملک میں اہل ایمان کا ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جس نے بنی اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک مدت تک اسلامی نظام حکومت کو قائم رکھا اور بعد میں بتدریج مائل بَہ انحطاط (degenerate)ہوتا چلا گیا۔