ایمان بالملائکہ کا مقصد
فرشتوں پر ایمان دراصل ایمان باللّٰہ کا تتمہ اور اس کا ضمیمۂ لازمہ ہے۔ اس کا مقصد محض یہی نہیں ہے کہ ملائکہ کے وجود کا اثبات و اقرار کیا جائے، بلکہ مقصد اصلی یہ ہے کہ نظامِ وجود میں ان کی صحیح حیثیت کو سمجھ لیا جائے، تاکہ ایمان باللّٰہ خالص تو حید پر قائم ہو، اور شرک و عبادت ماسویٰ اللّٰہ کے تمام شائبوں سے پاک ہو جائے۔
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، ملائکہ کا ایک اجمالی تصور تمام ملتوں اور مذہبوں میں کسی نہ کسی طرح موجود رہا ہے۔ اسی تصور پر مختلف مذاہب نے مختلف اعتقادات کی عمارتیں قائم کر لی ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ نوامیسِ فطرت اور قدرت کی وہ طاقتیں ہیں جو نظامِ کائنات کے مختلف شعبوں کو چلا رہی ہیں۔ کسی کے خیال میں وہ دیوتا ہیں جن میں سے ہر ایک کار گاہِ عالم کے ایک ایک محکمے کا صدر ہے، مثلاً کوئی ہوا کا مالک، کوئی بارش کا، کوئی روشنی کا اور کوئی حرارت یا آگ کا۔ کسی کے اعتقاد میں وہ خدا کے نائب اور مددگار ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ اربابُ الانواع ہیں۔ کسی کے خیال میں وہ عقول ہیں۔ کسی کی رائے میں وہ خدا کے تصورات ہیں۔ اور کوئی انھیں خدا کی اولاد سمجھتا ہے۔ پھر کسی نے ان کا مادی، جسمانی وجود مانا ہے۔ کسی نے انھیں مجردات و مفارقات میں سے شمار کیا ہے۔ کسی نے انھیں سیارات و نیرات کے ساتھ متحد الوجود کر دیا ہے۔ اور کسی نے ان کے متعلق دوسرے عجیب و غریب تصورات قائم کیے ہیں۔ فی الجملہ اربابِ مذاہب میں فرشتوں کے متعلق یہ اعتقاد عام رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طور پر خدا کی خدائی میں شریک ہیں اور اس لیے ان کے ہیکل یا بت بنا کر، یا ان کی تصویریں نقش کرکے ان کی عبادت کی گئی ہے، ان سے دعائیں مانگی گئی ہیں، انھیں حاجت روا، فریاد رس اور شفیع قرار دیا گیا ہے، اور اسی کی بدولت دنیا میں شرک کا ہنگامہ گرم رہا ہے۔
نظامِ وجود میں فرشتوں کی حیثیت
قرآن مجید نے ایک طرف خدا کے وجود، صفات اور افعال میں خالص اور کامل توحید قائم کی، اور دوسری طرف ملائکہ کا ایک صحیح تصور پیش کیا، تاکہ وہ دروازہ ہی بند ہو جائے جس سے شرک داخل ہوتا ہے۔ اس نے فرشتوں کی حقیقت سے کوئی بحث نہ کی کہ یہ بحث دُور اَزکار ہے، اپنے اندر کوئی جوہریت نہیں رکھتی۔ انسان کے لیے نہ اس میں کوئی فائدہ ہے اور نہ اسے انسان سمجھ سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جو تصفیہ طلب تھا، وہ صرف یہ تھا کہ نظامِ وجود میں فرشتوں کی حیثیت کیا ہے، اور اسے قرآن مجید نے خوب واضح کر دیا۔ اس نے بتایا کہ فرشتے خدا کی اولاد نہیں، نہ اس کے شریک کار ہیں، بلکہ محض اس کے بندے اور غلام ہیں:
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَـدًا سُبْحٰنَہٗ۰ۭ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَo لَا يَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ يَعْمَلُوْنَo يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ۰ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَہُمْ مِّنْ خَشْيَتِہٖ مُشْفِقُوْنَo الانبیائ 26-28
کافروں نے کہا کہ رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ پاک ہے اس کی ذات۔ وہ (فرشتے) تو اس کے معزز بندے ہیں، اس کے آگے بڑھ کر بات تک نہیں کر سکتے، اور بس وہی کرتے ہیں جس کا وہ حکم دیتا ہے۔ جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، سب کو خدا جانتا ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کر سکتے سوائے اس کے جسے خدا پسند فرماتا ہو، اور وہ جلالِ خداوندی سے ڈرتے رہتے ہیں۔
ان کی حیثیت مدبّراتِ امر کی ہے (النازعات۷۹:۵)۔ یعنی وہ صرف ان امور کی تدبیر کرتے ہیں جو اللّٰہ نے ان کے سپرد کر دیے ہیں۔ خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، ان میں اتنی مجال بھی نہیں کہ اس کے حکم سے یَک سَرِ مُو تجاوز کر سکیں۔ ان کا کام تو محض اطاعت اور عبادت ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی وہ اپنے وظیفے سے غافل نہیں ہوتے اور ہر دم اپنے رب کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔
وَيُسَبِّــحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ مِنْ خِيْفَتِہٖ۰ۚ الرعد 13:13
بجلی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کرتی ہے اور فرشتے خوف کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں۔
وَلِلہِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـۃٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَہُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَo يَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo النحل:16 49-50
اللّٰہ کے آگے سربہ سجود ہیں وہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں چلتے پھرتے ہیں، اور ملائکہ، وہ سرتابی نہیں کرتے اپنے رب سے جو ان سے بالاتر ہے، ڈرتے ہیں، اور وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیا جاتا ہے۔
وَلَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَo يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ لَا يَفْتُرُوْنَo الانبیاء 19-20:21
اسی کے مملوک ہیں جو آسمانوں میں ہیں اورجو زمین میں ہیں اورجو اس کے پاس (مقرب) ہیں۔ وہ اس کی بندگی سے سرتابی نہیں کرتے، تھکتے نہیں، شب و روز اس کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں اور سستی نہیں کرتے۔
لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَo التحریم 6:66
وہ کبھی اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتے جو خدا نے انھیں دیا ہے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔
اس تصور نے شرک کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رکھی، کیوں کہ جن پر خدائی کا گمان کیا جا سکتا تھا وہ سب ہماری طرح عاجز و درماندہ بندے ثابت ہو گئے۔ اس کے بعد ہماری عبادتوں، ہماری نیاز مندیوں، ہماری استعانتوں اور ہمارے اعتماد و توکل کا مرجع بجز خدا کی ذات کے اور کون ہو سکتا ہے؟
انسان اور فرشتوں کی اضافی حیثیت
پھر یہی نہیں، اس سے آگے بڑھ کر قرآنِ مجید نے انسان اور ملائکہ کی اضافی حیثیت بھی بتا دی ہے، تاکہ انسان ان کے مقابلے میں اپنے مرتبے کو اچھی طرح سمجھ لے۔ کلامِ الٰہی میں جہاں تخلیق ِ آدم کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمایا تو ملائکہ کو ان کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور بجز ابلیس کے اور سب نے انھیں سجدہ کیا(بقرہ۲:۳۴)، اعراف(۱۱)، بنی اسرائیل(۶۱)، کہف(۵۰)، طٰہٰ(۱۱۶)، صٓ(۷۵)۔ ملائکہ نے اپنی تسبیح و تقدیس کی بِنا پر آدم علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی فضیلت کا دعویٰ کیا تو حق تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کو رد فرما دیا اور امتحان لے کر ثابت کر دیا کہ ہم نے آدمؑ کو تم سے زیادہ علم بخشا ہے۔ ابلیس نے اپنے مادۂ تخلیق کو بنائے فضیلت قرار دے کر آدمؑ کی بزرگی تسلیم کرنے اور ان کے آگے سربہ سجود ہونے سے انکار کیا تو اسے ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ کر دیا گیا۔ یہ چیز ایک طرف انسان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا کرتی ہے، اوردوسری طرف اس کے تمام جذباتِ عبودیت کو خدا پرستی کے مرکز پر سمیٹ لاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ وجود میں کوئی شے بجز حق تعالیٰ کے انسان سے افضل نہیں ہے۔ ملائکہ اگرچہ ’’عبادٌ مُّکْرَمُوْنَ‘‘ ہیں اورتمام دوسری اشیا پر فضیلت رکھتے ہیں، مگر انسان کے آگے وہ بھی سربہ سجود ہو چکے ہیں۔ پھر انسان کا مسجود، اس کا معبود، اس کا مستعان و مجیب الدعوات، حضرت حق کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔
اس طرح ایمان بالملائکہ کے صحیح علم و معرفت پر قائم ہو جانے سے ایمان باللّٰہ بالکل خالص اور منزّہ ہو جاتا ہے۔
ایمان بالملائکہ کا دوسرا مقصد
ملائکہ کی دوسری حیثیت جو قرآنِ مجید میں بتائی گئی ہے، یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ انھی کے ذریعے سے اپنے پیغمبروں کے پاس اپنا کلام اور اپنے احکام بھیجتا ہے، اور انھی کے ذریعے سے اس امر کا اہتمام فرماتا ہے کہ انبیا علیہم السلام کو یہ پیغام ہر آمیزش، ہر التباس، ہر اشتباہ اور ہر خارجی دخل اندازی سے پاک رہ کر پہنچ جائے۔ یہ فرشتے اول تو بجائے خود فرماں بردار اور نیک فطرت ہیں۔ ہر قسم کے بُرے رجحانات اور نفسانی اغراض سے منزہ ہیں۔ اللّٰہ سے ڈرنے والے اور اس کے حکم کی بے چون و چرا اطاعت کرنے والے ہیں۔ اسی لیے جو پیغام ان کے ذریعے سے بھیجا جاتا ہے اس میں کسی قسم کی کمی و بیشی وہ اپنی طرف سے نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے۔ دوسرے، وہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ ان کی پیغام رسانی اور نگرانی میں کوئی شیطانی قوت ذرہ برابر بھی خلل نہیں ڈال سکتی۔ یہ مضمون قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے:
فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَۃٍo مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍؚo بِاَيْدِيْ سَفَرَۃٍo كِرَامٍؚبَرَرَۃٍo
عبس 13-16:80
وہ ایسے معزز اور بلند پایہ اور پاک صحیفوں میں مندرج ہے جو بڑے ذی عزت اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں لکھے گئے ہیں۔
اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍo ذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍo مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍo التکویر 19-21:81
بے شک وہ ایک بزرگ فرشتے کا بیان ہے جو بڑی قوت والا ہے، صاحبِ عرش کے ہاں بڑی منزلت رکھتا ہے، مطاع ہے اور وہاں کا معتبر ہے۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْہِرُ عَلٰي غَيْبِہٖٓ اَحَدًاo اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًاo لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْہِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًاo الجن 26-28:72
وہ (اللہ) غیب کا جاننے والا ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا بجز اس رسول کے جسے اس نے پسند کیا ہو، پھر وہ اس کے گرد و پیش نگران فرشتے لگا دیتا ہے، تاکہ وہ اطمینان کرے کہ پیغام پہنچانے والوں نے اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے، اور اللّٰہ تعالیٰ ان کے اوپر محیط ہے اور ہر چیز کا شمار کرتا ہے۔
نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ النحل 102:16
اسے روح القدس (پاکیزگی کی روح) نے تیرے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک نازل کیا ہے۔
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo الشعرائ 193:26
بے شک یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے جسے لے کر روح الامین(امانت دار روح) اترا ہے۔
اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌo فِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍo لَّا يَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَo تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَo الواقعہ 77-80:56
بالیقین یہ معزز قرآن ہے، ایک پوشیدہ نوشتے میں لکھا ہوا، اسے پاک (فرشتوں) کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا، نازل کیا ہوا رب العالمین کی طرف سے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایمان بالملائکہ صرف ایمان باللّٰہ ہی کے لیے نہیں بلکہ ایمان بالکتب اور ایمان بالرسل کے لیے بھی ضروری ہے۔ ملائکہ پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اس ذریعے کو قابلِ اعتماد تسلیم کریں جس سے خدا کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا ہے۔ اس پیغام پر اور اس کے پیش کرنے والے رسولوں پر ہمارا اعتماد مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس درمیانی واسطے پر بھی ہم پوری طرح اعتماد نہ کریں جو خدا اور اس کے رسولوں کے مابین کام کرتا ہے۔
تیسرا مقصد
اس کے علاوہ ملائکہ کی ایک اور حیثیت بھی قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی سلطنت کے کارندے ہیں۔ ساری کائنات کا انتظام اپنے جن ملازموں سے اللّٰہ تعالیٰ کرا رہا ہے وہ ملائکہ ہی ہیں۔ اللّٰہ کی سلطنت میں ان کا مقام گویا وہی ہے جو دنیا کی حکومتوں میں ان کی ملازمتوں (services) کا ہوتا ہے۔ انھی کے ذریعے سے وہ کسی پر عذاب نازل کرتا ہے اور کسی پر رحمت۔ کسی کی روح قبض کرتا ہے اور کسی کو زندگی بخشتا ہے۔ کسی جگہ بارش برسواتا ہے اور کہیں قحط ڈلوا دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کے اعمال، اقوال اور خیالات تک کا پورا ریکارڈ رکھ رہے ہیں اور ایک ایک جنبش کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آدمی جب تک خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر کام کر رہا ہے، یہ تمام کارکن اس کی ساری بُری بھلی باتوں سے واقف ہونے کے باوجود، امرِ الٰہی کے تحت اس کے ساتھ تعاون کرتے رہتے ہیں اور اس کے سارے کام بنائے چلے جاتے ہیں۔ مگر جوں ہی کہ اس کی مہلتِ عمل ختم ہوتی ہے، پھر وہی خادم اسے گرفتار کر لیتے ہیں جو ایک لمحہ پہلے تک اس کی خلافت کا کارخانہ چلا رہے تھے۔ وہی ہوا جس کے بل پر آدمی جی رہا تھا، یکایک اس کی بستیوں کو الٹ دیتی ہے۔ وہی پانی جس کا سینہ آدمی چیرتا پھر رہا تھا، اچانک اسے غرق کر دیتا ہے۔ وہی زمین جس پر آدمی ماں کی گود جیسے اطمینان کے ساتھ بس رہا تھا، یک لخت ایک جھٹکے میں اسے پیوندِ خاک کر دیتی ہے۔ ایک حکم کی دیر ہے، اور اس کے آتے ہی خلیفہ صاحب کا قریب ترین اردلی ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈال دیتا ہے۔ یہ نقشہ قرآن مجید میں جگہ جگہ بڑی تفصیل کے ساتھ کھینچا گیا ہے۔
اس لحاظ سے ایمان بالملائکہ، ایمان باللّٰہ کا ایک لازمی جز ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی سلطانِ کائنات کے ساتھ ساتھ اس کی ملازمتوں کو بھی تسلیم کرے۔ اس کے بغیر اس سلطنت میں آدمی نہ اپنی پوزیشن صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے اور نہ اس پوزیشن کا پور اشعور رکھتے ہوئے کام کر سکتا ہے۔