(الف) ایجابی اور ہمہ گیر ریاست
ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس ریاست کا تخیل پیش کررہا ہے‘ اس کا مقصد سلبی (negative)نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایجابی (positive)مقصد اپنے سامنے رکھتی ہے۔ اس کا مدعا صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے روکے‘ ان کی آزادی کی حفاظت کرے اور مملکت کو بیرونی حملوں سے بچائے‘ بلکہ اس کا مدعا اجتماعی عدل کے اس متوازن نظام کو رائج کرنا ہے جو اللہ کی کتاب پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد بدی کی ان تمام صورتوں کو مٹانا اور نیکی کی ان تمام شکلوں کو قائم کرنا ہے جن کو اللہ نے اپنی واضح ہدایت میں بیان کیا ہے۔ اس کام میں حسب موقع و محل سیاسی طاقت بھی استعمال کی جائے گی‘ تبلیغ و تلقین سے بھی کام لیا جائے گا‘ تعلیم و تربیت کے ذرائع بھی کام میں لائے جائیں گے اور جماعتی اثر اور رائے عام کے دبائو کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
اس نوعیت کی ریاست ظاہر ہے کہ اپنے عمل کے دائرے کو محدود نہیں کرسکتی۔ یہ ہمہ گیر ریاست ہے۔ اس کا دائرۂ عمل پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ تمدن کے ہر شعبے کو اپنے مخصوص اخلاقی نظریے اور اصلاحی پروگرام کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی شخص اپنے کسی معاملے کو پرائیویٹ اور شخصی نہیں کہہ سکتا۔ اس لحاظ سے یہ ریاست فاشستی اور اشتراکی حکومتوں سے یک گونہ مماثلت رکھتی ہے، مگر آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اس ہمہ گیریت کے باوجود اس میں موجودہ زمانے کی کلی (totalitarion)اور استبدادی (authoritarion) ریاستوں کا سا رنگ نہیں ہے۔ اس میں شخصی آزادی سلب نہیں کی جاتی اور نہ اس میں آمریت (dictatorship)پائی جاتی ہے۔ اس معاملے میں جو کمال درجے کا اعتدال اسلامی نظام حکومت میں قائم کیا گیا ہے‘ اور حق و باطل کے درمیان جیسی نازک اور باریک سرحدیں قائم کی گئی ہیں‘ انھیں دیکھ کر ایک صاحب بصیرت آدمی کا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ ایسا متوازن نظام حقیقت میں خدائے حکیم و خبیر ہی وضع کرسکتا ہے۔
(ب)جماعتی اور اصولی ریاست
دوسری بات جو اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مقصد اور اس کی اصلاحی نوعیت پر غور کرنے سے خود بخود واضح ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کو صرف وہ لوگ چلا سکتے ہیں، جو اس کے دستور پر ایمان رکھتے ہوں‘ جنھوں نے اس کے مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہو‘ جو اس کے اصلاحی پروگرام سے نہ صرف پوری طرح متفق ہوں‘ نہ صرف اس میں کامل عقیدہ رکھتے ہوں، بلکہ اس کی اسپرٹ کو اچھی طرح سمجھتے بھی ہوں اور اس کی تفصیلات سے بھی واقف ہوں۔ اسلام نے اس بات میں کوئی جغرافی‘ لونی یا لسانی قید نہیں رکھی ہے۔ وہ تمام انسانوں کے سامنے اپنے دستور‘ اپنے مقصد اور اپنے اصلاحی پروگرام کو پیش کرتا ہے۔ جو شخص بھی اسے قبول کرلے‘ خواہ وہ کسی نسل‘ کسی ملک‘ کسی قوم سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ اس جماعت میں شریک ہوسکتا ہے جو اس ریاست کو چلانے کے لیے بنائی گئی ہے، اور جو اسے قبول نہ کرے اسے ریاست کے کام میں دخیل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ریاست کے حدود میں ذمی (protected citizen)کی حیثیت سے رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے اسلام کے قانون میں معین حقوق اور مراعات موجود ہیں۔ اس کی جان و مال اور عزت کی پوری حفاظت کی جائے گی۔ لیکن بہرحال اس کو حکومت میں شریک کی حیثیت نہ دی جائے گی‘ کیونکہ یہ ایک اصولی ریاست ہے جس کے نظم و نسق کو وہی لوگ چلا سکتے ہیں جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں۔۳۴؎
یہاں بھی اسلامی ریاست اور کمیونسٹ اسٹیٹ میں یک گونہ مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن دوسرے مسلکوں پر اعتقاد رکھنے والوں کے ساتھ جو برتائو اشتراکی جماعت کا اسٹیٹ کرتا ہے اس کو اس برتائو سے کوئی نسبت نہیں جو اسلامی ریاست کرتی ہے۔ اسلام میں وہ صورت نہیں جو کمیونسٹ حکومت میں ہے کہ غلبہ و اقتدار حاصل کرتے ہی اپنے تمدنی اصولوں کو دوسروں پر بہ جبر مسلط کر دیا جائے‘ جایدادیں ضبط کی جائیں‘ قتل و خون کا بازار گرم ہو اور ہزاروں لاکھوں آدمیوں کو پکڑ کر زمین کے جہنم‘ سائبیریا کی طرف پیک کر دیا جائے۔ اسلام نے غیر مسلموں کے لیے جو فیاضانہ برتائو اپنی ریاست میں اختیار کیا ہے اور اس بارے میں عدل و ظلم اور راستی و ناراستی کے درمیان جو ایک خط امتیاز کھینچا ہے اسے دیکھ کر ہر انصاف پسند آدمی بیک نظر معلوم کرسکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو مصلح آتے ہیں وہ کس طرح کام کرتے ہیں اور زمین میں جو مصنوعی اور جعلی مصلحین اٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘ ان کا طریق کار کیا ہوتا ہے۔