چوتھی مشکل ایک اور ہے وہ اب بڑھتے بڑھتے ایک لطیفے اور مذاق کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ حال ہی میں یہ ایک نرالا انداز فکر پیدا ہوا ہے کہ اسلام میں ’’پریسٹ ہڈ‘‘ (Priesthood) نہیں ہے، قرآن اور سنت اور شریعت پر کوئی ’’مُلَّا‘‘ کا اجارہ نہیں ہے کہ بس وہی ان کی تعبیر کرنے کا مجاز ہو، جس طرح وہ تعبیر احکام اور اجتہاد و استنباط کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح ہم بھی یہی حق رکھتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ دین کے معاملے میں مُلَّاکی بات ہماری بات سے زیادہ وزنی ہو۔ یہ باتیں وہ لوگ کہتے ہیں جو نہ قرآن وسنت کی زبان سے واقف ہیں، نہ اسلامی روایات پر اُن کی نگاہ ہے، نہ اپنی زندگی کے چند روز بھی جنھوں نے اسلام کے تحقیقی مطالعے میں صرف کیے ہیں۔ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے علم کا نقص محسوس کرنے اور اسے دور کرنے کے بجائے سرے سے علم کی ضرورت ہی کا انکار کرنے پر تل گئے ہیں اور اس بات پر مُصر ہیں کہ انھیں علم کے بغیر اپنی تعبیروں سے اسلام کی صورت بگاڑ دینے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اگر جہالت کی اس طغیانی کو یونہی بڑھنے دیا گیا تو بعید نہیں کہ کل کوئی اٹھ کر کہے کہ اسلام میں ’’وکیل ہڈ‘‘ نہیں ہے اس لیے ہر شخص قانون پر بولے گا، چاہے اس نے قانون کا لفظ نہ پڑھا ہو اور پرسوں کوئی دوسرے صاحب اٹھیں اور فرمائیں کہ اسلام میں انجینئر ہڈ نہیں ہے اس لیے ہم بھی انجینئرنگ پر کلام کریں گے۔ چاہے ہم اس فن کی الف بے سے بھی واقف نہ ہوں اور پھر کوئی تیسرے صاحب اسلام میں ڈاکٹر ہڈ کا انکار کرکے مریضوں کا علاج کرنے کھڑے ہو جائیں بغیر اس کے کہ ان کو علمِ طب کی ہوا بھی لگی ہو۔ میں سخت حیران ہوں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور ذی عزت لوگ یہ کیسی اوچھی اور طفلانہ باتیں کرنے پر اتر آئے ہیں اور کیوں انھوں نے اپنی ساری قوم کو ایسا نادان فرض کر لیا ہے کہ وہ ان کی یہ باتیں سن کر آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ دے گی۔بیشک اسلام میں پریسٹ ہڈ نہیں ہے، مگر انھیں معلوم بھی ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام میں نہ تو بنی اسرائیل کی طرح دین کا علم اور دینی خدمات کسی نسل اور قبیلے کی میراث ہیں‘ اور نہ عیسائیوں کی طرح دین و دنیا کے درمیان تفریق کی گئی ہے کہ دنیا قیصروں کے حوالے اوردین پادریوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ بلاشبہ یہاں قرآن اور سنت اور شریعت پر کسی کا اجارہ نہیں ہے اور مُلّا ، کسی نسل یا خاندان کا نام نہیں ہے جس کو دین کی تعبیر کرنے کا آبائی حق ملا ہوا ہو۔ اس طرح ہر شخص قانون پڑھ کر وکیل بن سکتا ہے، اور ہر شخص انجینئرنگ پڑھ کر انجینئر اور طب پڑھ کر ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص قرآن اور سنت کے علم پر وقت اور محنت صرف کرکے مسائل شریعت میں کلام کرنے کا مجاز ہو سکتا ہے۔ اسلام میں پریسٹ ہڈ نہ ہونے کا اگر کوئی معقول مطلب ہے تو وہ یہی ہے۔ نہ یہ کہ اسلام کوئی بازیچۂ اطفال بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہے اٹھ کر اس کے احکام اور تعلیمات کے بارے میں ماہرانہ فیصلے صادر کرنے شروع کردے، خواہ اس نے قرآن اور سنت میں بصیرت پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی ہو۔ علم کے بغیر اتھارٹی بننے کا دعویٰ اگر دنیا کے کسی دوسرے معاملے میں قابل قبول نہیں ہے تو آخر دین ہی کے معاملے میں کیوں قابل قبول ہو؟
یہ چوتھی پیچیدگی ہے جو اسلامی دستور کی تدوین کے معاملے میں اب ڈال دی گئی ہے، اور اس وقت درحقیقت یہی سب سے بڑی پیچیدگی ہے۔ پہلی تین مشکلات کو تو محنت اور کوشش سے رفع کیا جا سکتا تھا اور خدا کے فضل سے ایک حد تک رفع کر بھی دیا گیا ہے، لیکن اس نئی الجھن کا علاج سخت مشکل ہے خصوصاً جب کہ وہ اُن لوگوں کی طرف سے ہو جو بالفعل اقتدار کی کنجیوں پر قابض ہوں۔