Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎

سوال: میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔ سال گذشتہ صوبے کی ہندو مہاسبھا کا پروپیگنڈا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں: مسلمان اور سیاسی کشمکش حصہ اول و سوم‘ اسلام کا نظریۂ سیاسی‘ اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے، سلامتی کا راستہ وغیرہ دیکھی ہیں‘ جن کے مطالعے سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بدل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔ جس حکومت الٰہیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں اس میں زندگی بسر کرنا قابلِ فخر ہوسکتا ہے، مگر چند امور دریافت طلب ہیں۔ خط و کتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔
سب سے پہلی چیز جودریافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوئوں کو حکومت الٰہیہ کے اندر کس درجے میں رکھا جائے گا؟ آیا ان کو اہل کتاب کے حقوق دیے جائیں گے یا ذمی کے؟ اہل کتاب اور ذمی لوگوں کے حقوق کی تفصیل ان رسائل میں بھی نہیں ملتی۔ مجھے جہاں تک سندھ پر عربی حملے کی تاریخ کا علم ہے‘ محمد بن قاسم اور اس کے جانشینوں نے سندھ کے ہندوئوں کو اہل کتاب کے حقوق دیے تھے۔ امید ہے کہ آپ اس معاملے میں تفصیلی طور پر اظہار خیال کریں گے۔
نیز یہ بھی فرمائیے کہ اہلِ کتاب اور ذمی کے حقوق میں کیا فرق ہے؟ کیا وہ ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں؟ کیا پولیس‘ فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کا حصہ ہوگا؟ اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن قبول کرنے کو تیار ہوں گے جو کہ آپ حکومت الٰہیہ میں ہندوئوں کو دیں گے؟
دوسری دریافت طلب چیز یہ ہے کہ کیا قرآن کے فوج داری اور دیوانی احکام مسلمانوں کی طرح ہندوئوں پر بھی حاوی ہوں گے؟ کیا ہندوئوں کا قومی قانون (personal law) ہندوئوں پر نافذ ہوگا، یا نہیں؟ میرا مدعا یہ ہے کہ ہندو اپنے قانون وراثت‘ مشترکہ فیملی سسٹم اور متبنّٰی وغیرہ بنانے کے قواعد (مطابق منوشاستر) کے مطابق زندگی بسر کریں گے یا نہیں؟
واضح رہے کہ یہ سوالات محض ایک متلاشیِ حق کی حیثیت سے پیش کیے جارہے ہیں۔
جواب: میں آپ کے ان خیالات کی دل سے قدر کرتا ہوں جو آپ نے اپنے عنایت نامے میں ظاہر کیے ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ ہندستان میں ہندو مسلم مسئلے کو پیچیدہ اور ناقابل حد تک پیچیدہ بنا دینے کی ذمے داری ان لوگوں پر ہے جنھوں نے اصول حق اور راستی کی بنیادوں پر مسائل زندگی حل کرنے کے بجائے شخصی، خاندانی‘ طبقاتی‘ نسلی اور قومی بنیادوں پر انھیں دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا انجام وہی کچھ ہونا چاہیے تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں اور اس بدقسمتی میں ہم آپ سب برابر کے شریک ہیں‘ کوئی بھی فائدے میں نہیں ہے۔
آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کے مختصر جوابات نمبروار درج ذیل ہیں:
۱۔ اگر حکومت الٰہیہ قائم ہو تو اس کی حیثیت یہ نہ ہوگی کہ ایک قوم دوسری قوم یا اقوام پر حکمران ہے‘ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہوگی کہ ملک پر ایک اصول کی حکومت قائم ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسی حکومت کو چلانے کی ذمے داری باشندگانِ ملک میں سے وہی لوگ اٹھا سکیں گے جو اس اصول کو مانتے ہوں۔ دوسرے لوگ جو اس اصول کو نہ مانتے ہوں یا کم از کم اس پر مطمئن نہ ہوں‘ ان کو اس حکومت میں قدرتی طور پر’اہل ذمہ‘ کی حیثیت حاصل ہوگی‘ یعنی جن کی حفاظت کی ذمے داری وہ لوگ لیتے ہیں جو اس اصولی حکومت کو چلانے والے ہیں۔
۲۔ ’اہل کتاب‘ اور’عام اہل ذمہ‘ کے درمیان اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کرسکتے ہیں اوردوسرے ذمیوں کی عورتوں سے نہیں کرسکتے۔ لیکن حقوق میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
۳۔ ذمیوں کے حقوق کے بارے میں تفصیلات تو میں اس خط میں نہیں دے سکتا‘ البتہ اصولی طور پر آپ کو بتائے دیتا ہوں کہ ذمی دو طرح کے ہوسکتے ہیں:
٭ ایک: وہ جو اسلامی حکومت کا ذمہ قبول کرتے وقت کوئی معاہدہ کریں۔
٭ دوسرے: وہ جو بغیر کسی معاہدے کے ذمہ میں داخل ہوں۔
پہلی قسم کے ذمیوں کے ساتھ تو وہی معاملہ کیا جائے گا جو معاہدے میں طے ہوا ہو۔ رہے دوسری قسم کے ذمی‘ تو ان کا ذمی ہونا ہی اس بات کو مستلزم ہے کہ ہم ان کی جان اور مال اور آبرو کی اسی طرح حفاظت کرنے کے ذمے دار ہیں جس طرح خود اپنی جان اور مال اور آبرو کی کریں گے۔ ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہوں گے۔ ان کے خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کے خون کی ہے۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو اپنی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا اور اسلامی تعلیم بہ جبراُن پر نہیں ٹھونسی جائے گی۔
ذمیوں کے متعلق اسلام کے دستوری قانون کی تفصیلات ان شاء اللہ ہم ایک کتاب کی شکل میں الگ شائع کریں گے۔۲۱۲؎
۴۔ جہاں تک ذمیوں کے پرسنل لا کا تعلق ہے وہ ان کی مذہبی آزادی کا ایک لازمی جز ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت ان کے قوانین نکاح و طلاق اور قوانین وراثت و تبنیت کو اور ایسے ہی دوسرے تمام قوانین کو جو ملکی قانون (law of the land) سے نہ ٹکراتے ہوں‘ ان پر جاری کرے گی اور صرف ان امور میں ان کے پرسنل لا کے نفاذ کو برداشت نہ کرے گی جن میں ان کا برا اثر دوسروں پر پڑتا ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ذمی قوم سود کو جائز رکھتی ہو تو ہم اس کو اسلامی حکومت میں سودی لین دین کی اجازت نہ دیں گے، کیونکہ اس سے پورے ملک کی معاشی زندگی متاثر ہوتی ہے، یا مثلاً اگر کوئی ذمی قوم زنا کو جائز رکھتی ہو تو ہم اسے اجازت نہ دیں گے کہ وہ اپنے طور پر بدکاری (prostitution) کاکاروبارجاری رکھ سکے‘ کیونکہ یہ اخلاق انسانی کے مُسَلَّمات کے خلاف ہے اور یہ چیز ہمارے قانون تعزیرات (criminal law) سے بھی ٹکراتی ہے‘ جو ظاہر ہے کہ ملکی قانون بھی ہوگا۔ اسی پر آپ دوسرے امور کو قیاس کرسکتے ہیں۔
۵۔ آپ کا یہ سوال کہ آیا ذمی ملک کے نظم و نسق میں برابر کے شریک ہوسکتے ہیں۔ مثلاً پولیس‘ فوج اور قانون نافذ کرنے والی جماعت میں ہندوئوں کا حصہ ہو گا، یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہندوئوں کی اکثریت والے صوبوں میں آپ مسلمانوں کے لیے وہ پوزیشن منظور کریں گے جو آپ ہندوئوں کو حکومت الٰہیہ میں دیں گے؟ یہ سوال میرے نزدیک دو غلط فہمیوں پر مبنی ہے۔ ایک یہ کہ اصولی غیر قومی حکومت (ideological non-national state)کی صحیح حیثیت آپ نے اس میں ملحوظ نہیں رکھی ہے۔دوسرے یہ کہ کاروباری لین دین کی ذہنیت اس میں جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
جیسا کہ میں نمبر اول میں تصریح کر چکا ہوں اصولی حکومت کو چلانے اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمے داری صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس اصول پر یقین رکھتے ہوں۔ وہی اس کی روح کو سمجھ سکتے ہیں‘ انھی سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پورے خلوص کے ساتھ اپنا دین و ایمان سمجھتے ہوئے اس ’ریاست‘ کے کام کو چلائیں گے اور انھی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس ریاست کی حمایت کے لیے اگر ضرورت پڑے تو میدانِ جنگ میں قربانی دے سکیں گے۔ دوسرے لوگ جو اس اصول پر ایمان نہیں رکھتے‘ اگر حکومت میں شریک کیے بھی جائیں گے تو نہ وہ اس کی اصولی اور اخلاقی روح کو سمجھ سکیں گے، نہ اس روح کے مطابق کام کرسکیں گے اور نہ ان کے اندر ان اصولوں کے لیے اخلاص ہوگا جن پر اس حکومت کی عمارت قائم ہوگی۔ سول محکموں میں اگر وہ کام کریں گے تو ان کے اندر ملازمانہ ذہنیت کار فرما ہوگی اور محض روزگار کی خاطر وہ اپنا وقت اور اپنی قابلیتیں بیچیں گے اور اگر وہ فوج میں جائیں گے تو ان کی حیثیت کرائے کے سپاہیوں (merecenaries)جیسی ہوگی اور وہ ان اخلاقی مطالبات کو پورا نہ کرسکیں گے جو اسلامی حکومت اپنے مجاہدوں سے کرتی ہے۔ اس لیے اصولاً اور اخلاقی اعتبار سے اسلامی حکومت کی پوزیشن اس معاملے میں یہ ہے کہ وہ فوج میں اہل ذمہ سے کوئی خدمت نہیں لیتی، بلکہ اس کے برعکس فوجی حفاظت کا پورا پورا بار مسلمانوں پر ڈال دیتی ہے اور اہلِ ذمہ سے صرف ایک دفاعی ٹیکس لینے پر اکتفا کرتی ہے، لیکن یہ ٹیکس اور فوجی خدمت دونوں بیک وقت اہلِ ذمہ سے نہیں لیے جاسکتے۔ اگر اہلِ ذمہ بطور فوجی خدمت کے اپنے آپ کو پیش کریں تو وہ ان سے قبول کرلی جائے گی اور اس صورت میں دفاعی ٹیکس ان سے نہ لیا جائے گا۔ رہے سول محکمے تو ان میں سے کلیدی مناصب (key positions)اور وہ عہدے جو پالیسی کے تعین و تحفظ سے تعلق رکھتے ہیں‘ بہرحال اہلِ ذمہ کو نہیں دیے جاسکتے، البتہ کارکنوں کی حیثیت سے ذمیوں کی خدمت حاصل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اسی طرح جو اسمبلی شوریٰ کے لیے منتخب کی جائے گی اس میں بھی اہل ذمہ کو رکنیت یا رائے دہندگی کا حق نہیں ملے گا، البتہ ذمیوں کی الگ کونسلیں بنا دی جائیں گی جو ان کی تہذیبی خود اختیاری کے انتظام کی دیکھ بھال بھی کریں گی اور اس کے علاوہ ملکی نظم و نسق کے متعلق اپنی خواہشات‘ اپنی ضروریات اور شکایات اور اپنی تجاویز کا اظہار بھی کرسکیں گی جن کا پورا پورا لحاظ اسلامی مجلس شوریٰ (assembly)کرے گی۔
صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ حکومتِ الٰہیہ کسی قوم کا اجارہ نہیں ہے‘ جو بھی اس کے اصول کو تسلیم کرے وہ اس حکومت کو چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے۔ خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ، لیکن جو اس کے اصول کو تسلیم نہ کرے وہ خواہ مسلم زادہ ہی کیوں نہ ہو‘ حکومت کی محافظت (protection) سے فائدہ تو اٹھا سکتا ہے لیکن اس کے چلانے میں حصے دار نہیں ہوسکتا۔
آپ کا یہ سوال کہ:’کیا ہندو اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کی وہی پوزیشن قبول کروگے جو حکومت الٰہیہ میں ہندوئوں کو دو گے؟‘
دراصل یہ سوال مسلم لیگ کے لیڈروں سے کیا جانا چاہیے تھا‘ کیونکہ لین دین کی باتیں وہی کرسکتے ہیں۔ ہم سے آپ پوچھیں گے تو ہم تو اس کا بے لاگ اصولی جواب دیں گے۔جہاں حکومت قائم کرنے کے اختیارات ہندوئوں کو حاصل ہوں، وہاں آپ اصولاً دو ہی طرح کی حکومتیں قائم کرسکتے ہیں:
۱۔ یا ایسی حکومت جو ہندو مذہب کی بنیاد پر قائم ہو۔
۲۔ یا پھر ایسی حکومت جو وطنی قومیت کی بنیاد پر ہو۔
پہلی صورت میں آپ کے لیے یہ کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے کہ جیسے حقوق حکومت الٰہیہ میں ہندوئوں کو ملیں گے ویسے ہی حقوق ہم ’’رام راج‘‘ میں مسلمانوں کودے دیں گے، بلکہ آپ کو اس معاملے میں اگر کوئی رہنمائی ہندو مذہب میں ملتی ہے تو بے کم و کاست اسی پر عمل کریں گے‘ قطع نظر اس سے کہ دوسرے کس طرح عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ کا معاملہ ہمارے معاملے سے بہتر ہوگا تو اخلاق کے میدان میں آپ ہم پر فتح پالیں گے‘ اور بعید نہیں کہ ایک روز ہماری حکومت الٰہیہ آپ کے رام راج میں تبدیل ہو جائے، اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو ظاہر ہے کہ دیریا سویر نتیجہ بھی برعکس نکل کر ہی رہے گا۔
رہی دوسری صورت کہ آپ کی حکومت وطنی قومیت کی بنیاد پر قائم ہو تو اس صورت میں بھی آپ کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ یا تو جمہوری (democratic)اصول اختیار کریں اور مسلمانوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے حصہ دیں‘ یا پھر صاف صاف کہہ دیں کہ یہ ہندو قوم کی حکومت ہے اور مسلمانوں کو اس میں ایک مغلوب قوم (subject nation)کی حیثیت سے رہنا ہوگا۔
ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت پر بھی آپ چاہیں مسلمانوں سے معاملہ کریں۔ بہرحال آپ کے برتائو کو دیکھ کر اسلامی ریاست ان اصولوں میں ذرہ برابر بھی کوئی تغیر نہ کرے گی جو ذمیوں سے معاملہ کرنے کے لیے قرآن و حدیث میں مقرر کر دیے گئے ہیں۔آپ چاہیں تو اپنی قومی ریاست میں مسلمانوں کا قتل ِ عام کردیں اور ایک مسلمان بچے تک کو زندہ نہ چھوڑیں۔ اسلامی ریاست میں اس کا انتقام لینے کے لیے کسی ذمی کا بال تک بیکا نہ کیا جائے گا۔ اس کے برعکس آپ کا جی چاہے تو ہندو ریاست میں صدر جمہوریہ اور وزیراعظم اور کمانڈر انچیف سب ہی کچھ مسلمان باشندوں کو بنا دیں۔ بہرحال اس کے جواب میں کوئی ایک ذمی بھی کسی ایسی پوزیشن پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو اسلامی ریاست کی پالیسی کی شکل اور سمت معیّن کرنے میں دخل رکھتی ہو۔
مزید تصریحات۲۱۳؎
سوال: آپ کی جملہ تصانیف اورسابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوئوں میں اچھوتوں کی۔
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ’ہندوئوں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی، انھیں ان کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا‘ مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوئوں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا، یا نہیں؟ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصے دار ہوسکتا ہے؟ خواہ وہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔‘براہ کرم اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لاکر اسے چلانے میںشریک ہوسکتا ہے؟
پھرآپ نے فرمایا ہے کہ اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان نکاح کر سکتے ہیں مگر آپ نے ساتھ ہی یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اہل کتاب بھی مسلم عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو کیا آپ اس احساس برتری (superiority complex)کے بارے میں مزید روشنی ڈالیں گے؟ اگر آپ اس کے اثبات (justification)کے لیے اسلام پر ایمان کی اوٹ لیں تو کیا آپ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ موجودہ نام نہاد مسلمان آپ کے قول……… کے مطابق ان اسلامی قواعد اور کریکٹر کے اصولوں پر پورے اتریں گے؟ آج کے مسلمان کی بات تو الگ رہی، کیا آپ یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ خلافت راشدہ کے عہد میں اکثر و بیش ترجو لوگ اسلام لائے وہ زیادہ تر سیاسی اقتدار کے خواہاں تھے؟ اگر آپ یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں تو فرمائیے کہ پھر وہ اسلامی حکومت کیوں صرف تیس پینتیس(۳۰،۳۵) سال چل کر رہ گئی ؟ پھر کیوں حضرت علیؓ جیسے مدبر اور مجاہد کی اس قدر مخالفت ہوئی اور مخالفین میں حضرت عائشہ صاحبہ تک تھیں؟
نیز یہ گرہ بھی کھولیے کہ آپ موجودہ ماحول میں اس طرز حکومت کو چلانے کے لیے ایسے بلند اخلاق اور بہترین کریکٹر کی شخصیتیں کہاں سے پیدا کریں گے؟ جب کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنی ؓ، اور حضرت علیؓ جیسے عدیم المثال بزرگ اسے چند سالوں سے زیادہ نہ چلا سکے۔ چودہ سو سال کے بعد ایسے کون سے موافق حالات آپ کے پیشِ نظر ہیں جن کی بنا پر آپ کی دُور رَس نگاہیں حکومتِ الٰہیہ کو عملی صورت میں دیکھ رہی ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ آپ کا پیغام ہر خیال کے مسلمانوں میں زورو شور سے پھیل رہا ہے اور مجھے جس قدر بھی مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے، وہ سب اس خیال کے حامی ہیں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ عین اسلام ہے،مگر ہرشخص کااعتراض یہی ہے جو میں نے گذشتہ سطور میں پیش کیا ہے‘ یعنی آپ کے پاس عہد خلافت راشدہ کی اصولی حکومت چلانے کے لیے فی زمانہ کریکٹر کے آدمی کہاں ہیں؟ پھر جب کہ وہ بہترین نمونے کی ہستیاں اس نظام کو نصف صدی تک بھی کامیابی سے نہ چلا سکیں تو اس دور میں اس طرز کی حکومت کا خیال خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟
جواب: آپ کے سوالات کا سرا حقیقت میں ابھی تک میں نہیں پاسکا ہوں۔ اس وجہ سے جو جوابات میں دیتا ہوں ان میں سے کچھ اور ایسے سوالات نکل آتے ہیں جن کے نکلنے کی مجھے توقع نہیں ہوتی۔ اگر آپ پہلے بنیادی امور سے بات شروع کریں اور پھر بتدریج فروعی معاملات اور وقتی سیاسیات (current politics)کی طرف آئیں تو چاہے آپ مجھ سے متفق نہ ہوں، لیکن کم از کم مجھے اچھی طرح سمجھ ضرور لیں گے۔ سردست تو میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میری پوزیشن آپ کے سامنے پوری طرح واضح نہیں ہے۔
آپ نے اپنے عنایت نامے میں تحریر فرمایا ہے کہ’جس اسلامی حکومت کا میں خواب دیکھ رہا ہوں اس میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت وہی ہوگی جو ہندوئوں میں اچھوتوں کی ہے۔‘‘ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا، یا تو آپ ذمیوں کی حیثیت میرے صاف صاف بیان کر دینے کے باوجود نہیں سمجھے ہیں یا ہندوئوں میں اچھوتوں کی حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔ اول تو اچھوتوں کی جو حیثیت منو کے دھرم شاستر سے معلوم ہوتی ہے اس کو ان حقوق و مراعات سے کوئی نسبت نہیں ہے جو اسلامی فقہ میں ذمیوں کو دیے گئے ہیں۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اچھوت پن کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہے، اور ذمیت کی بنیاد محض عقیدے پر۔ اگر ذمی اسلام قبول کرلے تو وہ ہمارا امیر و امام تک بن سکتا ہے،مگر کیا ایک شودر کسی عقیدے و مسلک کو قبول کر لینے کے بعد ورن آشرم کی پابندیوں سے بری ہوسکتا ہے؟
آپ کا یہ سوال ہی عجیب ہے کہ:کیا ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لاکر اسے چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟ شاید آپ نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اسلامی حکومت کے اصولوں پر ایمان لے آنے کے بعد ہندو ہندو کب رہے گا‘ وہ تو مسلم ہوجائے گا۔ آج جو کروڑوں’ہندو زادے‘ اس ملک میں مسلمان ہیں‘ وہ اسلام کے اصولوں پر ایمان لاکر ہی تو مسلمان ہوئے ہیں۔ اسی طرح آئندہ جو ہندو زادے اسے مان لیں گے وہ بھی مسلم ہو جائیں گے، اورجب وہ مسلم ہو جائیں گے تو یقیناً اسلامی حکومت کو چلانے میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہوں گے۔
آپ کا یہ سوال کہ آیا ہندوئوں کو اسلامی ریاست میں تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں۔ جتنا مختصر ہے اس کا جواب اتنا مختصر نہیں ہے۔ تبلیغ کی کئی شکلیں ہیں:
ایک شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ خود اپنی آئندہ نسلوں کو اور اپنے عوام کو اپنے مذہب کی تعلیم دے۔ اس کا حق تمام ذمی گروہوں کو حاصل ہوگا۔
دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ تحریر یا تقریر کے ذریعے سے اپنے مذہب کو دوسروں کے سامنے پیش کرے اور اسلام سمیت دوسرے مسلکوں سے اپنے وجوہ اختلاف کو علمی حیثیت سے بیان کرے۔ اس کی اجازت بھی ذمیوں کو ہوگی‘ مگر ہم کسی مسلمان کو اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنا دین تبدیل کرنے کی اجازت نہ دیں گے۔
تیسری شکل یہ ہے کہ کوئی گروہ اپنے مذہب کی بنیاد پر ایک منظم تحریک ایسی اٹھائے جس کی غرض یا جس کا مآل(انجام) یہ ہو کہ ملک کا نظام زندگی تبدیل ہو کر اسلامی اصولوں کے بجائے اس کے اصولوں پر قائم ہو جائے۔ ایسی تبلیغ کی اجازت ہم اپنے حدود اقتدار میں کسی کو نہیں دیں گے۔ اس مسئلے پر میرا مفصل مضمون:’’اسلام میں قتل مرتد کا حکم‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔۲۱۴؎
اہلِ کتاب کی عورتوں سے مسلمان کا نکاح جائز اور مسلمان عورتوں سے اہل کتاب کا نکاح ناجائز ہونے کی بنیاد کسی احساس برتری پر نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک نفسیاتی حقیقت پر مبنی ہے۔ مرد بالعموم متاثر کم ہوتا ہے اور اثر زیادہ ڈالتا ہے۔ عورت بالعموم متاثر زیادہ ہوتی ہے اوراثر کم ڈالتی ہے۔ ایک غیر مسلمہ اگر کسی مسلمان کے نکاح میں آئے تو اس کا امکان کم ہوتا ہے کہ وہ اس مسلمان کو غیرمسلم بنالے گی اور اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ وہ مسلمان ہو جائے گی۔ لیکن ایک مسلمان عورت اگر کسی غیر مسلم کے نکاح میں چلی جائے تو اس کے غیر مسلمہ ہو جانے کا بہت زیادہ اندیشہ ہے اور اس بات کی توقع بہت کم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اور اپنی اولاد کو مسلمان بنا سکے گی۔ اسی لیے مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی لڑکیوں کا نکاح غیر مسلم سے کریں، البتہ اگر اہل کتاب میں سے کوئی شخص خود اپنی بیٹی مسلمان کودینے پر راضی ہو تو مسلمان اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن قرآن میں جہاں اس چیز کی اجازت دی گئی ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم بیوی کی محبت میں مبتلا ہو کر تم نے ایمان کھو دیا تو تمھارا سب کیا کرایا برباد ہوجائے گا اور آخرت میں تم خسارے میں رہو گے۔ نیز یہ اجازت ایسی ہے جس سے خاص ضرورتوں کے مواقع پر ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے جسے قبول عام حاصل ہو‘ بلکہ بعض حالات میں تو اس سے منع بھی کیا گیا ہے، تاکہ مسلمانوں کی سوسائٹی میں غیرمسلم عناصر کے داخل ہونے سے کسی نامناسب اخلاقی اور اعتقادی حالت کا نشوونما نہ ہوسکے۔
آپ کا یہ سوال کہ اسلامی حکومت صرف تیس پینتیس (۳۰،۳۵)سال چل کر کیوں رہ گئی‘ ایک اہم تاریخی مسئلے سے متعلق ہے۔ اگر آپ اسلامی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو اس کے اسباب سمجھنا آپ کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ کسی خاص اصول کی عَلم بردار جماعت جو نظام زندگی قائم کرتی ہے اس کا اپنی پوری شان کے ساتھ چلنا اورقائم رہنا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ لیڈر شپ ایک ایسے چیدہ گروہ کے ہاتھ میں رہے جو اس اصول کا سچا اور سرگرم پیرو ہے، اور لیڈر شپ ایسے گروہ کے ہاتھ میں صرف اسی حالت میں رہ سکتی ہے جب کہ عام باشندوں پر اس گروہ کی گرفت قائم رہے اور ان کی عظیم اکثریت کم از کم اس حد تک تعلیم و تربیت پائے ہوئے ہو کہ اسے اس خاص اصول کے ساتھ گہری وابستگی بھی ہو، اور وہ ان لوگوں کی بات سننے کے لیے تیار بھی نہ ہو جو اس اصول سے ہٹ کر کسی دوسرے طریقے کی طرف بلانے والے ہوں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینے کے بعد اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو تمدنی انقلاب رونما ہوا، اور جو نیا نظام زندگی قائم ہوا اس کی بنیاد یہ تھی کہ عرب کی آبادی میں ایک طرح کا اخلاقی انقلاب (moral revolution) واقع ہو چکا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں صالح انسانوں کا جو مختصر گروہ تیار ہوا تھا اس کی قیادت تمام اہل عرب نے تسلیم کرلی تھی۔ لیکن آگے چل کرعہد خلافت راشدہ میں جب ملک پر ملک فتح ہونے شروع ہوئے تو اسلام کی مملکت میں توسیع بہت تیزی کے ساتھ ہونے لگی اور استحکام اتنی تیزی کے ساتھ نہ ہوسکا۔ چونکہ اس زمانے میں نشر و اشاعت اور تعلیم و تبلیغ کے ذرائع اتنے نہ تھے جتنے آج ہیں اور نہ وسائل حمل و نقل موجودہ زمانے کے مانند تھے‘ اس لیے جوفوج در فوج انسان اس نئی مسلم سوسائٹی میں داخل ہونے شروع ہوئے، ان کو اخلاقی‘ ذہنی اور عملی حیثیت سے اسلامی تحریک میں مکمل طور پر جذب کرنے کا انتظام نہ ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی عام آبادی میں صحیح قسم کے مسلمانوں کا تناسب بہت کم رہ گیا اور خام قسم کے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ لیکن اصولاً ان مسلمانوں کے حقوق اور اختیارات اور سوسائٹی میں ان کی حیثیت صحیح قسم کے مسلمانوں کی بہ نسبت کچھ بھی مختلف نہ ہوسکتی تھی۔ اسی وجہ سے جب حضرت علیؓ کے زمانے میں ارتجاعی تحریکیں۲۱۵؎ (reactionary movements) رونما ہوئیں تو مسلمان پبلک کا ایک بہت بڑا حصہ ان سے متاثر ہوگیا اور لیڈر شپ ان لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی جو ٹھیٹھ اسلامی طرز پر کام کرنے والے تھے۔ اس تاریخی حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ہمیں یہ واقعہ ذرہ برابر بھی دل شکستہ نہیں کرتا، کہ خالص اسلامی حکومت تیس پینتیس سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی۔
آج اگر ہم ایک صالح گروہ اس ذہنیت‘ اس اخلاق اور اس سیرت کے انسانوں کا منظم کرسکیں جو اسلام کے منشا کے مطابق ہو تو ہم امید رکھتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے ذرائع و وسائل سے فائدہ اٹھا کرنہ صرف اپنے ملک، بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہم ایک اخلاقی و تمدنی انقلاب برپا کرسکیں گے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسے گروہ کے منظم ہو جانے کے بعد عام انسانوں کی قیادت اس گروہ کے سوا کسی دوسری پارٹی کے ہاتھ میں نہیں جاسکتی۔ آپ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر جو رائے قائم کر رہے ہیں وہ اس حالت پر چسپاں نہیں ہو سکتی جو ہمارے پیش نظر ہے۔
اگر صحیح اخلاق کے حامل انسان میدان عمل میں آجائیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسلمان عوام ہی نہیں، بلکہ ہندو‘ عیسائی‘ پارسی اور سکھ سب ان کے گرویدہ ہو جائیں گے اور خود اپنے ہم مذہب لیڈروں کو چھوڑ کر ان پر اعتماد کرنے لگیں گے۔ ایسے ہی ایک گروہ کو تربیت اور تعلیم اور تنظیم کے ذریعے سے تیار کرنا اس وقت میرے پیش نظر ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اس کام میں وہ میری مدد کرے۔

شیئر کریں