عربی زبان میں عبودۃ، عبودیہ اور عبدیۃ کے اصل معنی خضوع اور تذلّل کے ہیں۔ یعنی تابع ہو جانا، رام ہو جانا، کسی کے سامنے اس طرح سپر ڈال دینا کہ اس کے مقابلہ میں کوئی مزاحمت یا انحراف وسرتابی نہ ہو، اور وہ اپنے منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے۔ اسی اعتبار سے اہلِ عرب اُس اونٹ کو بعیر مُعبّد کہتے ہیں جو سواری کے لیے پوری طرح رام ہو چکا ہو، اور اس راستے کو طریقِ معبّد جو کثرت سے پامال ہو کر ہموار ہو گیا ہو۔ پھر اسی اصل سے اس مادّہ میں غلامی، اطاعت، پوجا، ملازمت اور قید یا رُکاوٹ کے مفہومات پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ عربی لغت کی سب سے بڑی کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں اس کی جو تشریح کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ اَلْعَبْدُ، اَلْممُلُوْکُ، خِلَافُ الْحُرِّ۔عبد وہ ہے جو کسی کی ملک ہو اور یہ لفظ حرّ (آزاد) کی ضد ہے۔ تعبَّدَالرّجلَ ’’آدمی کو غلام بنا لیا اس کے ساتھ غلام جیسا معاملہ کیا۔ یہی معنی عَبَّدَہٗ، اَعْبَدَ اور اعتَبَدَہٗ کے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے۔ ثَلٰثَۃٌ اَنَا خَصْمُھُمْ، رَجُلٌ اِعْتَبَدَ مُحرّرًا، (وفی روایۃ اعبد محررًا){ FR 7441 }تین آدمی ہیں جن کے خلاف قیامت کے دن میں مستغیث بنوں گا۔ من جملہ ان کے ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد کو غلام بنانے یا غلام کو آزاد کرنے کے بعد پھر اس سے غلام کا سا معاملہ کرے۔‘‘ حضرت موسیٰ نے فرعون سے کہا تھا:وَتِلْكَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَيَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَo (الشعرائ۲۶: ۲۲) اور تیرا وہ احسان جس کا طعنہ تو مجھے دے رہا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔
۲۔ اَلْعِبَادَۃُ اَلطَّاعَۃُ مَعَ الْخُضُوْعِعبادت اس طاعت کو کہتے ہیں، جو پوری فرماں برداری کے ساتھ ہو۔ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ اَیْ اَطَاعَہٗ،طاغوت کی عبادت کی، یعنی اس کا فرماں بردار ہو گیا۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، اَیْ نُطِیْعُ الطَّاعَۃَ اَلَّتِیْ یَخْضَعُ مَعَھَا ہم تیری عبادت کرتے ہیں یعنی ہم تیری اطاعت پوری فرماں برداری کے ساتھ کرتے ہیں۔ اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ اَیْ اَطِیْعُوْا رَبَّکُمْ اپنے رب کی عبادت کرو، یعنی اس کی اطاعت کرو۔ قَوْمُھُمَا لَنَا عَابِدُوْنَ اَیْ دَائِنُوْنَ وکل من دان لملک فھو عابد لہ وقال ابن الانباری فلان عابد وھو الخاضع لربّہ المستسلم المنقاد لامرہ۔یعنی فرعون نے جو یہ کہا تھا کہ موسیٰ ؑ اور ہارونؑ کی قوم ہماری عابد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری تابع فرمان ہے۔ جو شخص کسی بادشاہ کا مطیع ہے وہ اس کا عابد ہے۔ اور ابن الانباری کہتا ہے فلان عابد کے معنی ہیں ۔وہ اپنے مالک کا فرماں بردار اور اس کے حکم کا مطیع ہے۔
۳۔ عبدہ عبادۃ ومعبدًا ومعبدۃ تَألَّہ لہ،اس کی عبادت کی، یعنی اس کی پوجا کی۔ التعبد التنسک،تعبّد سے مراد ہے کسی کا پرستار اور پجاری بن جانا۔ شاعر کہتا ہے اری المال عند الباخلین معبّدًا۔میں دیکھتا ہوں کہ بخیلوں کے ہاں روپیہ پُجتا ہے۔
۴۔ عبدہ وعبدبہ لزمہٗ فلم یفارقہ، عَبَدَہُ اور عَبَدَبِہٖ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ وابستہ ہو گیا اور جدا نہ ہوا، اس کا دامن تھام لیا اورچھوڑا نہیں۔
۵۔ ماعبدک عنی ای ماحبسک۔ جب کوئی شخص کسی کے پاس آنے سے رک جائے، تو وہ یوں کہے گا کہ ماعبدک عنّی، یعنی کس چیز نے تجھے میرے پاس آنے سے روک دیا۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مادۂ عَبَدَ کا اساسی مفہوم کسی کی بالادستی وبرتری تسلیم کرکے اس کے مقابلہ میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہو جانا، سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہو جانا ہے یہی حقیقت بندگی وغلامی کی ہے۔ لہٰذا اس لفظ سے اوّلین تصوّر جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ بندگی وغلامی (۱) ہی کا تصور ہے۔ پھر چوں کہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت وفرماں برداری ہے، اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت(۲) کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور جب کہ ایک غلام اپنے آقا کی بندگی واطاعت میں محض اپنے آپ کو سپرد ہی نہ کر چکا ہو بلکہ اعتقادًا اس کی برتری کا قائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو، اور اس کی مہربانیوں پر شکر واحسان مندی کے جذبہ سے بھی سرشار ہو، تو وہ اس کی تعظیم وتکریم میں مبالغہ کرتا ہے، مختلف طریقوں سے اعترافِ نعمت کا اظہار کرتا ہے اور طرح طرح سے مراسمِ بندگی بجا لاتا ہے۔ اسی کا نام پرستش(۳) ہے اور یہ تصور عبدیّت کے مفہوم میں صرف اس وقت شامل ہوتا ہے جب کہ غلام کا محض سر ہی آقا کے سامنے جھکا ہوا نہ ہو بلکہ اس کا دل بھی جھکا ہوا ہو۔ رہے باقی دو تصورات تو وہ دراصل عبدیّت کے ضمنی تصورات ہیں، اصلی اور بنیادی نہیں ہیں۔