وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۥۙ لِنَفْتِنَہُمْ فِيْہِ۰ۭ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَّاَبْقٰيo طٰہٰ131:20
اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے۔ وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے، اور تیرے رب کا دیا ہوا رزقِ حلال ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔
رزق کا ترجمہ ہم نے ’’رزقِ حلال‘‘ کیا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی حرام مال کو’’رزقِ رب‘‘ سے تعبیر نہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہار ااور تمہارے ساتھی اہل ایمان کا یہ کام نہیں ہے کہ یہ فساق و فجار ناجائز طریقوں سے دولت سمیٹ سمیٹ کر اپنی زندگی میں جو ظاہری چمک دمک پیدا کر لیتے ہیں، اس کو تم لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھو۔ یہ دولت اور یہ شان و شوکت تمہارے لیے ہر گز قابلِ رشک نہیں ہے۔ جو پاک رزق تم جائز ذرائع سے کماتے ہو وہ خواہ کتنا ہی تھوڑا ہو، راست باز اور ایمان دار آدمیوں کے لیے وہی بہتر ہے اور اس میں وہ بھلائی ہے جو دنیا سے آخرت تک برقرار رہنے والی ہے۔( تفہیم القرآن ، جلد سوم، ص ۱۳۹۔)
وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍo النور38:24
اللہ جسے چاہتا ہے بے حسا ب دیتا ہے۔
وَيْكَاَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ۰ۚ القصص82:28
’’افسوس ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ کی طرف سے رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آخرکار یہی دولت اس کے اوپر اللہ کا سخت عذاب لے آتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے۔ اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے باوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔بلکہ بارہا یہی تنگی ان کے لیے خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو نہ سمجھنے ہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان لوگوں کی خوش حالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل خدا کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں۔( تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحات ۴۱۰، ۶۶۴۔)
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَآ اَصَابَہُمْ وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوۃِ۰ۙ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَo الحج 35:22
جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں ، جو مصیبت بھی ان پر آتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کر چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخشا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتے داروں اور ہمسایوں اور حاجت مندوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ اور عیش و عشرت کے خرچ اور ریاکارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’انفاق‘‘ قرار دیتا ہے۔ بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چرائے، تو اس صورت میں آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام بھی انفاق نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’بخل‘‘ اور ’’شح نفس‘‘ کہتا ہے۔(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ ۲۲۶ )