اعتراض: آپ نے میری اس بات کا بھی مذاق اڑایا ہے کہ قرآن کے جو احکام بعض شرائط سے مشروط ہوں جب وہ شرائط باقی نہ رہیں تو وہ احکام اس وقت تک ملتوی ہو جاتے ہیں جب تک ویسے ہی حالات پیدا نہ ہو جائیں۔ انھیں ’’عبوری دور‘‘ کے احکام سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
صدقات کی مد سے مولفۃ القلوب کو امداد دینے کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت عمرؓ اس مد کو یہ کہہ کر ختم کر دیتے ہیں کہ یہ حکم اس عبوری دور تک تھا، جب تک نظام کو اس قسم کی تالیف قلوب کی ضرورت تھی۔ اب وہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اس حکم پر عمل کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ یہی منشا ہوتا ہے ان لوگوں کا جو قرآن کے اس قسم کے احکام کو ’’عبوری دور کے احکام‘‘ کہتے ہیں۔
جواب: اس سخن سازی سے درحقیقت بات نہیں بنتی۔ منکرین حدیث شخصی ملکیت کے بارے میں پورا پورا کمیونسٹ نقطۂ نظر اختیار کرتے ہیں اور اس کا نام انھوں نے ’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘ رکھا ہے۔ اس کے متعلق جب ان سے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں معاشی نظام کے متعلق جتنے بھی احکام صراحتاً یا اشارۃً وکنایۃً آئے ہیں وہ سب شخصی ملکیت کا اثبات کرتے ہیں اور کوئی ایک حکم بھی ہمیں ایسا نہیں ملتا جو شخصی ملکیت کی نفی پر مبنی ہو، یا اسے ختم کرنے کا منشا ظاہر کرتا ہو، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ سب احکام عبوری دور کے لیے ہیں۔ بالفاظ دیگر جب یہ عبوری دور ختم ہو جائے گا اور ان حضرات کا تصنیف کردہ نظام ربوبیت قائم ہو جائے گا تو یہ سب احکام منسوخ ہو جائیں گے۔ جناب پرویز صاحب صاف الفاظ میں فرماتے ہیں:
(سوال کیا جاتا ہے) کہ اگر قرآن کا نظام معاشی اسی قسم کا ہے تو پھر اس نے صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ سے متعلق احکام کیوں دئیے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اس نظام کو یک لخت نہیں لے آنا چاہتا۔ بتدریج قائم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا صدقہ، خیرات، وراثت وغیرہ کے احکام اس عبوری دور سے متعلق ہیں جس میں ہنوز نظام اپنی آخری شکل میں قائم نہ ہوا۔ (ملاحظہ ہو: بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں پیش کردہ مقالہ: اِسلامی نظام میں معاشیات)، لیکن یہ حضرات قرآن میں کہیں یہ نہیں دکھا سکتے کہ ان کے بیان کردہ نظام ربوبیت کا کوئی نقشہ اللّٰہ تعالیٰ نے پیش کیا ہو اور اس کے متعلق احکام دئیے ہوں اور یہ ارشاد فرمایا ہو کہ ہمارا اصل مقصد تو یہی نظام ربوبیت قائم کرنا ہے، البتہ صدقہ وخیرات اور وراثت وغیرہ کے احکام ہم اس وقت تک کے لیے دے رہے ہیں، جب تک یہ نظام قائم نہ ہو جائے۔ یہ سب کچھ ان حضرات نے خود گھڑ لیا ہے اور اس کے مقابلے میں قرآن کے واضح اور قطعی احکام کو یہ عبوری دور کے احکام قرار دے کر صاف اڑا دینا چاہتے ہیں۔ اس معاملے کو آخر کیا نسبت ہے اس بات سے جو حضرت عمرؓ نے مولفتہ القلوب کے بارے میں فرمائی تھی۔ اس کا منشا تو صرف یہ تھا کہ جب تک ہمیں تالیف قلب کے لیے ان لوگوں کو روپیہ دینے کی ضرورت تھی، ہم دیتے تھے۔ اب اس کی حاجت نہیں ہے، اس لیے اب ہم انھیں نہیں دیں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے قرآن میں فقرا ومساکین کو صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کے مطابق ہم ایک شخص کو اسی وقت تک زکوٰۃ دیں گے جب تک وہ فقیر ومسکین رہے۔ جب اس کی یہ حالت نہ رہے گی تو ہم اسے دینا بند کر دیں گے۔ اس بات میں اور پرویز صاحب کے نظریہ ’’عبوری دور‘‘ میں کوئی دور کی مناسبت بھی نہیں ہے۔