تیسری مشکل یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کافی مدت سے بڑی ناقص ہو رہی ہے۔ جو لوگ ہمارے ہاں علوم دینی پڑھتے ہیں وہ موجودہ زمانے کے علم السیاست اور اس کے مسائل اور دستوری قانون اور اس سے تعلق رکھنے والے معاملات سے بے گانہ ہیں، اس لیے وہ قرآن و حدیث اور فقہ کے پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے سمجھانے میں تو عمریں گزار دیتے ہیں، مگر ان کے لیے اب وقت کے سیاسی ودستوری مسائل کو آج کل کی زبان اور اصطلاحوں میں سمجھنا اور پھر ان کے بارے میں اسلام کے اصول واحکام کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کے سامنے یہ مسائل اس زبان اور ان اصطلاحوں میں پیش کیے جائیں جنھیں وہ سمجھتے ہیں۔ پھر وہ آسانی کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ ان کے بارے میں اسلام کے کیا احکام اور اصول ہیں اور کہاں کہاں بیان ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو عملاً ہمارے تمدّن وسیاست اور قانون وعدالت کا نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ زندگی کے جدید مسائل سے تو واقف ہیں‘ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا دین ان مسائل کے بارے میں کیا رہنمائی دیتا ہے۔ وہ دستور اور سیاست اور قانون کے متعلق جو کچھ جانتے ہیں مغربی تعلیمات اور مغرب کے عملی نمونوں ہی کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ قرآن اور سنت اور اسلامی روایات کے بارے میں ان کی معلومات بہت محدود ہیں۔ اس لیے ان میں سے جو لوگ واقعی نیک نیتی کے ساتھ اسلامی نظامِ زندگی کا از سر نو احیاء چاہتے ہیں وہ بھی اس کے محتاج ہیں کہ کوئی ان مسائل کے بارے میں اسلام کی ہدایات ان کے سامنے اس زبان میں پیش کرے، جسے وہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی پیچیدگی ہے جو ایک صحیح اسلامی دستور کی تدوین میں حارج ہو رہی ہے۔