Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ

مجالسِ قانون ساز میں عورتوں کی شرکت کا مسئلہ۲۰۷؎
ہم سے پوچھا گیا ہے کہ آخر وہ کون سے اسلامی اصول یا احکام ہیں جو عورتوں کی رکنیت مجالسِ قانون ساز میں مانع ہیں؟ اور قرآن و حدیث کے وہ کون سے ارشادات ہیں جو ان مجالس کو صرف مردوں کے لیے مخصوص قرار دیتے ہیں؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم ان مجالس کی صحیح نوعیت اچھی طرح واضح کر دیں جن کی رکنیت کے لیے عورتوں کے استحقاق پر گفتگو کی جارہی ہے۔ ان مجالس کا نام مجالس قانون ساز رکھنے سے یہ غلط فہمی واقع ہوتی ہے کہ ان کاکام صرف قانون بنانا ہے اور پھر یہ غلط فہمی ذہن میں رکھ کر جب آدمی دیکھتا ہے کہ عہد صحابہ میں خواتین بھی قانونی مسائل پر بحث‘ گفتگو‘ اظہار رائے‘ سب کچھ کرتی تھیں اور بسا اوقات خود خلفا اُن سے رائے لیتے اور اس رائے کا لحاظ کرتے تھے‘ تو اسے حیرت ہوتی ہے کہ آج اسلامی اصولوں کا نام لے کر اس قسم کی مجالس میں عورتوں کی شرکت کو غلط کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مجالس اس نام سے موسوم کی جاتی ہیں ان کاکام محض قانون سازی کرنا نہیں ہے، بلکہ عملاً وہی پوری ملکی سیاست کو کنٹرول کرتی ہیں‘ وہی وزارتیں بناتی اور توڑتی ہیں‘ وہی نظم و نسق کی پالیسی طے کرتی ہیں‘ وہی مالیات اور معاشیات کے مسائل طے کرتی ہیں اور انھی کے ہاتھ میںصلح و جنگ کی زمامِ کار ہوتی ہے۔ اس حیثیت سے ان مجالس کا مقام محض ایک فقیہہ اور مفتی کا مقام نہیں ہے، بلکہ پوری مملکت کے قَوَّام کا مقام ہے۔
اب ذرا دیکھیے‘ قرآن اجتماعی زندگی میں یہ مقام کس کو دیتا ہے اورکسے نہیں دیتا۔ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۝۰ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۝۰ۭ النساء 34:4
مرد عورتوں پر قَوّام ہیں‘ بوجہ اس فضیلت کے جو اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس صالح عورتیں اطاعت شعار اور غیب کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں اللہ کی حفاظت کے تحت۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں قوّامیت کا مقام مردوں کو دے رہا ہے اور صالح عورتوں کی دو خصوصیات بیان کرتا ہے۔ ایک یہ کہ: وہ اطاعت شعار ہوں‘ دوسرے یہ کہ: وہ مردوں کی غیر موجودگی میں ان چیزوں کی حفاظت کریں جن کی حفاظت اللہ کرانا چاہتا ہے۔
آپ کہیں گے یہ حکم تو خانگی معاشرت کے لیے ہے نہ کہ ملکی سیاست کے لیے‘ مگر یہاں اول تو مطلقاً اَلرِّجَالُ قوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ کہا گیا ہے‘ فِی الْبُیُوْتِ کے الفاظ ارشاد نہیں ہوئے ہیں جن کو بڑھائے بغیر اس حکم کو خانگی معاشرت تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اگر آپ کی یہ بات مان بھی لی جائے تو ہم پوچھتے ہیں کہ جسے اللہ نے گھر میں قوّام نہ بنایا، بلکہ قنوت (اطاعت شعاری) کے مقام پر رکھا‘ آپ اسے تمام گھروں کے مجموعے‘ یعنی پوری مملکت میں قنوت کے مقام سے اٹھا کر قوامیت کے مقام پر لانا چاہتے ہیں؟ گھر کی قوامیت سے مملکت کی قوامیت تو زیادہ بڑی اور اونچے درجے کی ذمے داری ہے۔ اب کیا اللہ کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ ایک گھر میں تو عورت کو قوام نہ بنائے گا مگر کئی لاکھ گھروں کے مجموعے پر اسے قوام بنا دے گا؟
اور دیکھیے، قرآن صاف الفاظ میں عورت کا دائرۂ عمل یہ کہہ کر معین کر دیتا ہے کہ:
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاہِلِيَّۃِ الْاُوْلٰى الاحزاب33:33
اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ ٹھیری رہو اور پچھلی جاہلیت کے سے تَبَرُّج۲۰۸؎ کا ارتکاب نہ کرو۔
آپ پھر فرمائیں گے کہ یہ حکم تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین کو دیا گیا تھا، مگر ہم پوچھتے ہیں کہ آپ کے خیال مبارک میں کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی خواتین کے اندر کوئی خاص نقص تھا جس کی وجہ سے وہ بیرون خانہ کی ذمہ داریوں کے لیے نا اہل تھیں؟ اور کیا دوسری خواتین کو اس لحاظ سے ان پرکوئی فوقیت حاصل ہے؟ پھر اگر اس سلسلے کی ساری آیات صرف اہل بیت نبوت کے لیے مخصوص ہیں تو کیا دوسری مسلمان عورتوں کو تبرج جاہلیت کی اجازت ہے؟ اور کیا انھیں غیر مردوں سے اس طرح کی باتیں کرنے کی بھی اجازت ہے کہ ان کے دل میں طمع پیدا ہو؟ اور کیا اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے سوا ہر مسلمان گھر کو رجس میں آلودہ دیکھنا چاہتا ہے۔
اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے۔ یہاں ہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ واضح ارشادات ملتے ہیں:
۱۔ اِذَا کَانَ اُمَرَائُکُمْ شِرَارَکُمْ وَاَغْنِیَائُ کُمْ بُخَلَائَکُمْ وَاُمُوْرُ کُمْ اِلٰی نِسَائِ کُمْ فَبَطْنُ الْاَرْضِ خَیْرٌ مِّنْ ظَھْرِھَا۔ (ترمذی)
جب تمھارے امرا تمھارے بدترین لوگ ہوں اور جب تمھارے دولت مند بخیل ہوں اور جب تمھارے معاملات تمھاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو زمین کا پیٹ تمھارے لیے اس کی پیٹھ سے بہتر ہے۔
۲۔ عَنْ اَبِیْ بَکْرَۃَ لَمَّا بَلَغَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اَھْلَ فَارَسَ مَلَّکُوْا عَلَیْھِمْ بِنْتَ کِسْرٰی قَالَ لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً۔(بخاری‘ احمد‘ نسائی‘ ترمذی)
ابوبکرہؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنالیا ہے تو آپؐ نے فرمایا: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کیے ہوں۔
یہ دونوں حدیثیں اللہ تعالیٰ کے ارشاد اَلرِّجَالُ قَوَّا مُوْنَ عَلَی النِّسَائِ کی ٹھیک ٹھیک تفسیر بیان کرتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیاست و ملک داری عورت کے دائرۂ عمل سے خارج ہے۔ رہا یہ سوال کہ عورت کا دائرہ عمل ہے کیا‘ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
۱۔ وَالْمَرْئَ ۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ بَعْلِھَا وَوَلِدِہٖ وَھِیَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ۔ (ابودائود)
اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی راعیہ ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔
یہ ہے آیت وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ کی صحیح تفسیر‘ اور اس کی مزید تفسیر وہ احادیث ہیں جن میں عورت کو سیاست و ملک داری سے کم تر درجے کے خارج ازبیت فرائض و واجبات سے بھی مستثنیٰ کیا گیا ہے۔
۲۔ اَلْجُمُعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ اِلاَّ اَرْبَعَۃٍ عَبْدٌ مَمْلُوْکٌ اَوْاِمْرَاَۃٌ اَوْصَبِیٌّ اَوْمَرِیْضٌ۔ (ابودائود)
جمعہ ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ ادا کرنا حق اور واجب ہے۔ بجز چار قسم کے لوگوں کے: ایک غلام‘ دوسرے عورت‘ تیسرے بچہ‘ چوتھے مریض۔
۳۔ عَنْ اُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ نُھِیْنَا عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔ (بخاری)
ام عطیہ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ ہم کو جنازوں کے ساتھ جانے سے روک دیا گیا تھا۔
اگرچہ ہمارے پاس اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں مضبوط عقلی دلائل بھی ہیں اور کوئی چیلنج کرے تو ہم انھیں پیش کرسکتے ہیں‘ مگر اوّل تو ان کے بارے میں سوال نہیں کیا گیا ہے‘ دوسرے ہم کسی مسلمان کا یہ حق ماننے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں کہ وہ خدا اور رسولؐ کے واضح احکام سننے کے بعد ان کی تعمیل کرنے سے پہلے اور تعمیل کے لیے شرط کے طور پر‘ عقلی دلائل کا مطالبہ کرے۔ مسلمان کو اگر وہ واقعی مسلمان ہے‘ پہلے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے‘ پھر وہ اپنے دماغی اطمینان کے لیے عقلی دلائل مانگ سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ مجھے پہلے عقلی حیثیت سے مطمئن کرو، ورنہ میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہ مانوں گا، تو ہم اسے سرے سے مسلمان ہی نہیں مانتے‘ کجا کہ اس کو ایک اسلامی ریاست کے لیے دستور بنانے کا مجاز تسلیم کریں۔ تعمیل حکم کے لیے عقلی دلیل مانگنے والے کا مقام اسلام کی سرحد سے باہر ہے‘ نہ کہ اس کے اندر۔
سیاست و ملک داری میں عورت کے دخل کو جائز ٹھیرانے والے اگر کوئی دلیل رکھتے ہیں تو وہ بس یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمانؓ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھیں اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگِ جمل میں نبرد آزما ہوئیں، مگر اول تو یہ دلیل اصولاً ہی غلط ہے، اس لیے کہ جس مسئلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت موجود ہو‘ اس میں کسی صحابی کا کوئی ایسا انفرادی فعل جو اس ہدایت کے خلاف نظر آتا ہو‘ ہرگز حجت نہیں بن سکتا۔ صحابہ کی پاکیزہ زندگیاں بلاشبہ ہمارے لیے مشعلِ ہدایت ہیں، مگر اس غرض کے لیے کہ ہم ان کی روشنی میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں‘ نہ اس غرض کے لیے کہ ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو چھوڑ کر ان میں سے کسی کی انفرادی لغزشوں کا اتباع کریں۔ پھر جس فعل کو اسی زمانے میں جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے غلط قرار دیا تھا اور جس پر بعد میں خود ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نادم ہوئیں اسے آخر کس طرح اسلام میں ایک نئی بدعت کا آغاز کرنے کے لیے دلیل قرار دیا جاسکتا ہے؟
حضرت عائشہؓ کے اس اقدام کی اطلاع پاتے ہی ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نے ان کو جو خط لکھا تھا وہ پورے کا پورا ابن قتیبہ نے ’’الامامۃ والسیاسۃ‘‘ میں اور اِبن عَبْدُ رَبِّہٖ نے ’’عقد الفرید‘‘ میں نقل کیا ہے۔ اسے ملاحظہ فرمائیے، کتنے پر زور الفاظ میں وہ فرماتی ہیں کہ آپ کے دامن کو قرآن نے سمیٹ دیا ہے‘ آپ اسے پھیلائیے نہیں۔ اور کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دین میں افراط برتنے سے روکا ہے؟ اور یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دیتیں، اگر وہ آپ کو اس طرح کسی صحرا میں ایک گھاٹ سے دوسرے گھاٹ کی طرف اونٹ دوڑاتے ہوئے دیکھ لیتے؟
پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اس قول کو یاد کیجیے کہ عائشہؓ کے لیے اُن کا گھر اُن کے ہودے سے بہتر ہے۔
اور حضرت ابوبکرہؓ کا یہ قول بخاری میں ملاحظہ فرمالیجیے کہ میں جنگِ جمل کے فتنے میں مبتلا ہونے سے صرف اس لیے بچ گیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آگیا کہ:وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کر دیے ہوں۔
حضرت علیؓ سے بڑھ کر اس زمانے میں کون شریعت کا جاننے والا تھا؟ انھوں نے صاف الفاظ میں حضرت عائشہؓکو لکھا کہ آپ کا یہ اقدام حدود شریعت سے متجاوز ہے اور حضرت عائشہؓ اپنی کمال درجے کی ذہانت و فقاہت کے باوجود اس کے جواب میں کوئی دلیل نہ پیش کرسکیں۔ حضرت علیؓ کے الفاظ یہ تھے کہ:
بلاشبہ آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خاطر غضب ناک ہو کر نکلی ہیں‘ مگر آپ ایک ایسے کام کے پیچھے پڑی ہیں جس کی ذمے داری آپ پر نہیں ڈالی گئی۔ عورتوں کو آخر جنگ اور اصلاح بین الناس سے کیا تعلق؟ آپ عثمانؓ کے خون کا دعویٰ لے کر اٹھی ہیں‘ مگر میں سچ کہتا ہوں کہ جس شخص نے آپ کو اس بلا میں ڈالا اور اس معصیت پر آمادہ کیا وہ آپ کے حق میں عثمانؓ کے قاتلوں سے زیادہ گناہ گار ہے۔
دیکھیے‘ اس خط میں سیدنا علیؓ حضرت عائشہؓ کے فعل کو صریحًا خلافِ شرع قرار دے رہے ہیں، مگر حضرت عائشہؓ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہ دے سکیں کہ:
جَلَّ الْاَمْرُ عَنِ الْعِتَابِ
معاملہ اب اس حد سے گزر چکا ہے کہ عتاب و ملامت سے کام چل سکے۔
پھر جنگ جمل کے خاتمے پر جب حضرت علیؓ ام المومنینؓ سے ملنے تشریف لے گئے تو انھوں نے کہا: یَاصَاحِبَۃَ الْھَوْدَجِ قَدْ اَمَرَکِ اللہُ اَنْ تَقْعُدِیْ فِیْ بَیْتِکِ ثُمَّ خَرَجْتِ تُقَاتِلِیْنَ؟
اے ہودے والی! اللہ نے آپ کو گھر بیٹھنے کا حکم دیا تھا اور آپ لڑنے کے لیے نکل پڑیں۔
مگر اس وقت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہ نہ کہہ سکیں کہ اللہ نے ہم عورتوں کو گھر بیٹھنے کا حکم نہیں دیا ہے اور ہمیں سیاست اور جنگ میں حصہ لینے کا حق ہے۔
پھر یہ بھی ثابت ہے کہ آخر کار حضرت عائشہ ؓ خود اپنے اس فعل پر پچھتاتی رہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عبدالبر استیعاب میں یہ روایت لائے ہیں کہ ام المومنینؓ نے عبداللہ بن عمرؓ سے شکایتاً فرمایا:اے ابوعبدالرحمن! تم نے کیوں نہ مجھے اس کام پر جانے سے منع کیا؟
انھوں نے جواب دیا: میں نے دیکھا کہ ایک شخص (یعنی عبداللہ بن زبیرؓ) آپ کی رائے پر حاوی ہوگیا ہے اور مجھے امید نہ تھی کہ آپ اس کے خلاف چل سکیں گی۔ اس پر ام المومنینؓ نے فرمایا: کاش! تم مجھے منع کر دیتے تو میں نہ نکلتی۔
اس کے بعد جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا کے عمل میں آخر کیا دلیل باقی رہ جاتی ہے جس کے بل بوتے پر کوئی صاحب علم یہ دعویٰ کرسکتا ہو کہ اسلام میں عورتیں بھی سیاست اور نظمِ مملکت کی ذمے داری میں شریک قرار دی گئی ہیں؟ رہے وہ لوگ جن کے لیے اصل معیار حق صرف دنیا کی غالب قوموں کا طرز عمل ہے اور جنھیں بہرحال چلنا اسی طرف ہے جس طرف انبوہ جارہا ہو‘ تو انھیں کس نے کہا ہے کہ اسلام کو اپنے ساتھ ضرور لے چلیں؟ ان کا جدھر جی چاہے شوق سے جائیں‘ مگر کم از کم اتنی راست بازی تو ان میں ہونی چاہیے کہ جس مقتدا کے دراصل وہ پیرو ہیں اسی کا نام لیں‘ بلادلیل اسلام کی طرف وہ باتیں منسوب نہ کریں جن سے خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور قرونِ مَشْہُوْدٌ لَھَا بِالْخَیر کی تاریخ صاف صاف انکار کر رہی ہے۔
اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرۂ عمل۲۰۹؎
سوال: کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر سیاسی‘ معاشی و معاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام (status)عطا کیا؟ کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر اپنے ورثے کا حصہ لینے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کو اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مردوں کے شانہ بشانہ کام کرکے، ملک و قوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہوگی؟ فرض کیجیے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق رائے دہندگی دے اور وہ کثرت آرا سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑ کر کامیاب ہو جائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جب کہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں‘ مثلاً: سیلون میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے، یا نیدر لینڈ میں ایک خاتون حکمران اعلیٰ ہے۔ برطانیہ پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے۔ سفارتی حد تک جیسے عابدہ سلطانہ دختر نواب آف بھوپال رہ چکی ہیں اور اب بیگم رعنا لیاقت علی خان نیدر لینڈ میں سفیر ہیں، یا دیگر جس طرح مسز و جے لکشمی پنڈت برطانیہ میں ہائی کمشنر ہیں اور اقوام متحدہ کی صدر رہ چکی ہیں اور بھی مثالیں جیسے نور جہاں‘ جھانسی کی رانی‘ رضیہ سلطانہ ‘ حضرت محل زوجہ واجد علی شاہ جو کہpride of womenکہلاتی ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنؤ میں جنگ کی کمانڈ کی۔ اس طرح خواتین نے خود کو پورا اہل ثابت کردیا ہے، تو کیا اگر آج محترمہ فاطمہ جناح صدارت کا عہدہ سنبھال لیں تو اسلامی اصول پاکستان کے اسلامی نظام میں اس کی اجازت نہ دیں گے؟ کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر‘ وکلا‘ مجسٹریٹ‘ جج‘ فوجی افسر یا پائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہوگی ؟…… خواتین کا یہ کارنامہ بھی کہ وہ نرسوں کی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں قابل ذکر ہے۔ خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مجاہدین کی مرہم پٹی کی‘ پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟
جواب: اسلامی حکومت دنیا کے کسی معاملے میں بھی اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی نہ مجاز ہے اور نہ وہ اس کا ارادہ ہی کرسکتی ہے‘ اگر فی الواقع اس کو چلانے والے ایسے لوگ ہوں جو اسلام کے اصولوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں____ عورتوں کے معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ عورت اور مرد عزت و احترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔ اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔ سیاست اور ملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرۂ عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہو جائے گی جس کی بیش تر ذمے داریاں عورتوں سے تعلق رکھتی ہیں، یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعاً شریک نہیں ہو سکتا اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اپنے اوپر اٹھائیں۔ عملاً یہ دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ لازماً پہلی صورت ہی رونما ہوگی اور مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ رونما ہو چکی ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اتارنا عقل مندی نہیں ہے۔
اسلام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ اس باب میں قرآن کا صریح حکم مانع ہے۔ نیز یہ انصاف کے بھی خلاف ہے کہ عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو، کیونکہ اسلامی احکام کی رُو سے خاندان کی پرورش کا سارا مالی بار مرد پر ڈالا گیا ہے۔ بیوی کا مہر اور نفقہ بھی اس پر واجب ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ اس صورت میں آخر عورت کو مرد کے برابر حصہ کیسے دلایا جاسکتا ہے۔
اسلام اصولاً مخلوط سوسائٹی کا مخالف ہے اور کوئی ایسا نظام جو خاندان کے استحکام کو اہمیت دیتا ہو، اِس کو پسند نہیں کرتاکہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط سوسائٹی ہو۔ مغربی ممالک میں اس کے بدترین نتائج ظاہر ہو چکے ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ ان نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہوں تو شوق سے بھگتتے رہیں، لیکن آخر یہ کیا ضروری ہے کہ اسلام میں ان افعال کی گنجایش زبردستی نکالی جائے جن سے وہ شدت کے ساتھ روکتا ہے۔
اسلام میں اگر جنگ کے موقع پر عورتوں سے مرہم پٹی کاکام لیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امن کی حالت میں عورتوں کو دفتروں اور کارخانوں اور کلبوں اور پارلیمنٹوں میں لاکھڑا کیا جائے۔ مرد کے دائرۂ عمل میں آکر عورتیں کبھی مردوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں‘ اس لیے کہ وہ ان کاموں کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہیں۔ ان کاموں کے لیے جن اخلاقی اور ذہنی اوصاف کی ضرورت ہے وہ دراصل مرد میں پیدا کیے گئے ہیں۔ عورت مصنوعی طور پر مرد بن کر کچھ تھوڑا بہت ان اوصاف کو اپنے اندر ابھارنے کی کوشش کرے بھی، تو اس کا دہرا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے اور معاشرے کو بھی۔ اس کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ نہ پوری عورت رہتی ہے‘ نہ پوری مرد بن سکتی ہے اور اپنے اصل دائرۂ عمل میں‘ جس کے لیے وہ فطرتاً پیدا کی گئی ہے‘ ناکام رہ جاتی ہے۔ معاشرے اور ریاست کا نقصان یہ ہے کہ وہ اہل کارکنوں کے بجائے نااہل کارکنوں سے کام لیتا ہے اور عورت کی آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ خصوصیات سیاست اور معیشت کو خراب کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں گنتی کی چند سابقہ معروف خواتین کے نام گنانے سے کیا فائدہ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جہاں لاکھوں کارکنوں کی ضرورت ہو، کیا وہاں تمام خواتین موزوں ہوسکیں گی؟ ابھی حال ہی میں مصر کے سرکاری محکموں اور تجارتی اداروں نے یہ شکایت کی ہے کہ وہاں بحیثیت مجموعی ایک لاکھ دس ہزار خواتین جو مختلف مناصب پر کام کر رہی ہیں، بالعموم ناموزوں ثابت ہو رہی ہیں اور ان کی کارکردگی مردوں کی بہ نسبت ۵۵ فی صدی سے زیادہ نہیں۔ پھر مصر کے تجارتی اداروں نے یہ عام شکایت کی ہے کہ عورتوں کے پاس پہنچ کر کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ مغربی ممالک میں جاسوسی کے جتنے واقعات پیش آتے ہیں ان میں بھی عموماً کسی نہ کسی طرح عورت کا دخل ہوتا ہے۔
عورتوں کی تعلیم سے اسلام ہرگز نہیں روکتا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ان کو دلوائی جانی چاہیے‘ لیکن چند شرطوں کے ساتھ:
٭ اول یہ کہ ان کو وہ تعلیم خاص طور پر دی جائے جس سے وہ اپنے دائرۂ عمل میں کام کرنے کے لیے ٹھیک ٹھیک تیار ہو سکیں اور ان کی تعلیم بعینہٖ وہ نہ ہو جو مردوں کی ہو۔
٭ دوسرے یہ کہ تعلیم مخلوط نہ ہو اور عورتوں کو زنانہ تعلیم گاہوں میں عورتوں ہی سے تعلیم دلوائی جائے۔ مخلوط تعلیم کے مہلک نتائج مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس حد تک سامنے آچکے ہیں کہ اب صرف عقل کے اندھے ہی ان کا انکار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے: امریکہ میں ۱۷ سال تک عمر کی لڑکیاں جو ہائی سکولوں میں پڑھتی ہیں‘ مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہر سال اُن میں سے اوسطاً ایک ہزار حاملہ نکلتی ہیں۔ گو ابھی یہ شکل ہمارے ہاں رونما نہیں ہوئی ہے، لیکن اس مخلوط تعلیم کے نتائج کچھ ہمارے سامنے بھی آنے شروع ہو گئے ہیں۔
٭ تیسرے یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے ایسے اداروں میں کام لیا جائے جو صرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوں مثلاً: زنانہ تعلیم گاہیں اور زنانہ ہسپتال وغیرہ۔
معاشرے کی اصلاح و تربیت۲۱۰؎
سوال: کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟ جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کارجحان، اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ و دل فریب سنٹ سے معطر لباس اور غازہ و سرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسرعام کرتی ہیں اورآج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ فلموں سے متاثر ہو کر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں، تو کیا حکومت قانون (legislation)کے ذریعے سے ہر مسلم وغیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی؟ والدین اور سرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟ کیا گرلز گائیڈ، اپوا (APWA) یا دیگر وائی‘ ایم‘ سی‘ اے (YMCA) اور وائی‘ ڈبلیو‘ سی‘ اے (YWCA) جیسے ادارے اسلامی نظام میں گوارا کیے جاسکتے ہیں؟ کیا خواتین ____ اسلامی عدلیہ سے ____ خود طلاق لینے کی مجاز ہو سکیں گی اور مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کی پابندی آج جائز ہوگی؟ یا خود اسلامی عدالت کے روبرو ہی ان کو اپنی پسند سے (civil marriage) کرنے کا حق حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا خواتین کو یوتھ فیسٹیول ‘ کھیلوں‘ نمائش‘ ڈراموں‘ ناچ‘ فلموں یا مقابلۂ حسن میں شرکت یا air hostess وغیرہ بننے کی آج بھی اسلامی حکومت مخالفت کرے گی؟ ساتھ ہی قومی کردار تباہ کرنے والے ادارے مثلاً: سینما‘ فلمیں‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو پر فحش گانے و عریاں رسائل و لٹریچر‘ موسیقی‘ ناچ و رنگ کی ثقافتی محفلیں وغیرہ کو بند کر دیا جائے گا، یا فائدہ اٹھانا ممکن ہوگا؟
جواب: اسلام معاشرے کی اصلاح و تربیت کا سارا کام محض قانون کے ڈنڈے سے نہیں لیتا۔ تعلیم‘ نشر و اشاعت اور رائے عام کا دبائو اس کے ذرائع اصلاح میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام ذرائع کے استعمال کے بعد اگر کوئی خرابی باقی رہ جائے تو اسلام قانونی وسائل اور انتظامی تدابیر استعمال کرنے میں بھی تامل نہیں کرتا۔ عورتوں کی عریانی اور بے حیائی فی الواقع ایک بہت بڑی بیماری ہے جسے کوئی سچی اسلامی حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔ یہ بیماری اگر دوسری تدابیر اصلاح سے درست نہ ہو، یا اس کا وجود باقی رہ جائے تو یقیناً اس کو ازرُوئے قانون روکنا پڑے گا۔ اس کا نام اگر شہری آزادی پر ضرب لگانا ہے تو جواریوں کو پکڑنا اور جیب کتروں کو سزائیں دینا بھی شہری آزادی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ اجتماعی زندگی لازمًاافراد پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔ افراد کو اس کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات اوردوسروں سے سیکھی ہوئی برائیوں سے اپنے معاشرے کو خراب کریں۔
گرلز گائیڈ (girls guides)کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ اپوا (APWA) قائم رہ سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے دائرۂ عمل میں رہ کر کام کرے اور قرآن کا نام لے کر قرآن کے خلاف طریقے استعمال کرنا چھوڑ دے۔ YWCAعیسائی عورتوں کے لیے رہ سکتا ہے مگر کسی مسلمان عورت کو اس میں گھسنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مسلمان عورتیں چاہیں تو YWMA بنا سکتی ہیں‘ بشرطیکہ وہ اسلامی حدود میں رہیں۔
مسلمان عورت اسلامی عدلیہ کے ذریعے سے خلع حاصل کرسکتی ہے۔ فسخ نکاح اور تفریق (judicial separation)کی ڈگری بھی عدالت سے حاصل کرسکتی ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ان میں سے کوئی ڈگری عدالت سے حاصل کرنے کی مجاز ہو، لیکن طلاق (divorce) کے اختیارات قرآن نے صریح الفاظ میں صرف مرد کو دیے ہیں اور کوئی قانون مردوں کے اس اختیار میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہ اور بات ہے کہ قرآن کانام لے کر قرآن کے خلاف قوانین بنائے جانے لگیں۔ پوری اسلامی تاریخ عہد رسالت سے لے کر اس صدی تک اس تصور سے ناآشنا ہے کہ طلاق دینے کا اختیارمرد سے سلب کرلیا جائے اور کوئی عدالت یا پنچایت اس میں دخل دے۔ یہ تخیل سیدھا یورپ سے چل کر ہمارے ہاں درآمد ہوا ہے اور اس کے درآمد کرنے والوں نے کبھی آنکھیں کھول کر یہ نہیں دیکھا ہے کہ یورپ میں اس قانون طلاق کا پسِ منظر (back ground)کیا ہے اور وہاں اس کے کتنے برے نتائج رونما ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں جب گھروں کے سکینڈل نکل کر بازاروں میں پہنچیں گے تو لوگوں کو پتہ چلے گا کہ خدا کے قوانین میں ترمیم کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔
مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے معاملے میں ازرُوئے قانون پابندی عاید کرنے کا، یا اس میں رکاوٹ ڈالنے کا تخیل بھی ایک بیرونی مال ہے جسے قرآن کے جعلی پر مٹ پر درآمد کیا گیا ہے۔ یہ اس سوسائٹی میں سے آیا ہے جس میں ایک ہی عورت اگر منکوحہ بیوی کی موجودگی میں داشتہ کے طور پر رکھی جائے تو نہ صرف یہ کہ وہ قابلِ برداشت ہے، بلکہ اس کے حرامی بچوں کے حقوق محفوظ کرنے کی بھی فکر کی جاتی ہے۔ (فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے)، لیکن اگر اسی عورت سے نکاح کر لیا جائے تو یہ جرم ہے۔ گویا ساری پابندیاں حلال کے لیے ہیں‘ حرام کے لیے نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی ابجد سے بھی واقف ہو تو کیا وہ یہ اقدار (values)اختیار کرسکتا ہے؟ کیا اس کے نزدیک زنا قانوناً جائز اور نکاح قانوناً حرام ہونے کا عجیب و غریب فلسفہ برحق ہوسکتا ہے؟ اس طرح کے قوانین بنانے کا حاصل اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ مسلمانوں میں زنا کا رواج بڑھے گا۔ گرل فرینڈز اور داشتائیں (mistresses)فروغ پائیں گی اور دوسری بیوی ناپید ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی سوسائٹی ہوگی جو اپنے خدو خال میں اسلام کی اصل سوسائٹی سے بہت دور اور مغربی سوسائٹی سے بہت قریب ہوگی۔ اس صورت حال کے تصور سے جس کا جی چاہے مطمئن ہو۔ مسلمان کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا۔
سول میرج کا سوال ظاہر ہے کہ مسلمان عورت کے ساتھ تو پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال اگر پیدا ہوتا ہے تو کسی مشرک عورت سے شادی کرنے کے معاملے میں، یا کسی ایسی عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کے معاملے میں جو اسلامی قانون کے تحت کسی مسلمان سے نکاح کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اور مسلمان مرد اس کے عشق میں مبتلا ہو کر اس اقرارکے ساتھ شادی کرے کہ وہ کسی مذہب کا پابند نہ ہوگا۔ یہ کام اگر کسی کو کرنا ہی ہو تو اسے اسلام سے فتویٰ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسلام کیوں اپنے ایک پیرو کو اس کی اجازت دے؟ اور ایک اسلامی عدالت کا یہ کام کب ہے کہ مسلمانوں کی اس طریقے پر شادیاں کروائے؟
اگر ایک اسلامی حکومت بھی یوتھ فیسٹیول (youth festival)اور کھیلوں کی نمائشوں اور ڈراموں اور رقص و سرود اور مقابلۂ حسن میں مسلمان عورتوں کو لائے یا ائیر ہوسٹس بناکر مسافروں کے دل موہنے کی خدمت ان سے لے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی حکومت کی آخر ضرورت کیا ہے؟ یہ سارے کام تو کفر اور کفار کی حکومت میں بَہآسانی ہوسکتے ہیں، بلکہ زیادہ آزادی کے ساتھ ہوسکتے ہیں۔
سینما‘ فلم‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ تو خدا کی پیدا کردہ طاقتیں ہیں جن میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں۔ خرابی ان کے اُس استعمال میں ہے جو انسانی اخلاق کو تباہ کرنے والا ہے۔ اسلامی حکومت کاکام ہی یہ ہے کہ وہ ان ذرائع کو انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرے اور اخلاقی فساد کے لیے استعمال ہونے کا دروازہ بند کردے۔

شیئر کریں