تیسرا نکتہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ سُنّتِ رسولﷺ کا اتباع یہ ہے کہ جو کام حضورﷺ نے کیا، وہی ہم کریں، نہ یہ کہ جس طرح حضورؐ نے کیا اسی طرح ہم بھی کریں۔ اگر حضورﷺ نے مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کو دوسروں تک پہنچایا تو امت کا بھی فریضہ ہے کہ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کو دوسروں تک پہنچائے…‘‘({ FR 6806 })
سُنّت اور اس کے اتباع کا یہ مفہوم جو آپ نے متعین کیا ہے، اس کے متعلق میں صرف اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ یہ خود اس مَااَنْزَلَ اللّٰہ ُکے مطابق نہیں ہے جس کے اتباع کو آپ واجب مانتے ہیں۔ مَااَنْزَلَ اللّٰہ ُکی رُو سے تو سُنّت کا اتباع یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اللّٰہ کے مقرر کیے ہوئے معلم، مربی، شارع، قاضی، حاکم وفرماں روا اور شارحِ قرآن ہونے کی حیثیت سے جو کچھ فرمایا اور عمل کرکے دکھایا ہے، اسے آپ سُنّتِ رسولﷺ مانیں اور اس کا اتباع کریں۔ اس کے دلائل میں اوپر بیان کر چکا ہوں، اس لیے انھیں دہرانے کی حاجت نہیں ہے۔
اس سلسلے میں آپ نے مسواک والی بات جو لکھی ہے اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ سنجیدہ علمی مباحث میں اس قسم کی مہمل باتوں کو بطور نظیر لا کر کسی مسئلے کا تصفیہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر نقطۂ نظر کے حامیوں میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنی غیر معقول باتوں سے اپنے نقطۂ نظر کو مضحکہ انگیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کی باتوں سے استدلال کرکے، بجائے خود اس نقطۂ نظر کی تردید کرنے کی کوشش اگر آپ کریں گے تو اس کے معنی اس کے سوا کچھ نہ ہوں گے کہ وزنی دلائل کا مقابلہ کرنے سے پہلو تہی کرکے آپ صرف کم زور باتیں زور آزمائی کے لیے تلاش کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ کی یہ دلیل بھی بہت کم زور ہے کہ اتباع سُنّت کے معنی آج کے ایٹمی دور میں تیروں سے لڑنے کے ہیں کیوں کہ حضور ﷺکے زمانے میں تیروں ہی سے جنگ کی جاتی تھی۔ آخر آپ سے کس نے کہا ہے کہ اتباع سُنّت کے معنی یہ ہیں؟ اتباعِ سُنّت کے یہ معنی اہل علم نے کبھی نہیں لیے ہیں کہ ہم جہاد میں وہی اسلحہ استعمال کریں جو حضورﷺ کے زمانے میں استعمال ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ اس کے معنی یہی سمجھے گئے ہیں کہ ہم جنگ میں ان مقاصد، ان اخلاقی اصولوں اور ان شرعی ضابطوں کو ملحوظ رکھیں جن کی ہدایت نبی ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے دی ہے اور ان اغراض کے لیے لڑنے اور وہ کارروائیاں کرنے سے باز رہیں جن سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔