اب تیسرے ذریعے کو لیجیے، یعنی وہ علم جو مشاہدات وتجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ میں اس علم کی قدر وقیمت کا اعتراف کرنے میں کسی طالب علم سے پیچھے نہیں ہوں اور نہ ذرّہ برابر اس کی تحقیر کرنا پسند کرتا ہوں لیکن اس کی محدودیتوں کو نظر انداز کرکے اسے وہ وسعت دینا جو فی الواقع اسے حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک بے علمی ہے۔ ’’علم انسانی‘‘ کی حقیقت پر جس شخص کی بھی نظر ہو گی وہ اس بات کو ماننے سے انکار نہ کرے گا کہ جہاں تک مسائلِ عالیہ کا تعلق ہے، ان کی کنہ تک اس کی رسائی محال ہے کیوں کہ انسان کو وہ ذرائع حاصل ہی نہیں ہیں جن سے وہ اس تک پہنچ سکے۔ نہ وہ اس کا براہِ راست مشاہدہ کر سکتا ہے اور نہ مشاہدہ وتجربہ کے تحت آنے والی اشیا سے استدلال کرکے اس کے متعلق ایسی رائے قائم کر سکتا ہے جس پر ’’علم‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہو۔ لہٰذا ’’الدین‘‘ وضع کرنے کے لیے جن مسائل کا حل معلوم کرنا سب سے پہلی ناگزیر ضرورت ہے وہ تو علم کی دست رس سے باہر ہی ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اَخلاقی قدریں، تمدّن کے اصول، اور بے راہ روی سے بچانے والے حدود معین کرنے کا کام آیا علم کے حوالے کیا جا سکتا ہے یا نہیں، تو اس بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ یہ کام کس شخص یا گروہ یا کس زمانے کا علم انجام دے گا، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ علمی طور پر یہ کام انجام دینے کے لیے ناگزیر شرائط کیا ہیں۔ اس کے لیے اوّلین شرط یہ ہے کہ اُن تمام قوانینِ فطرت کا علم ہو جن کے تحت انسان اس دُنیا میں جی رہا ہے۔ اس کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ خود انسان کی اپنی زندگی سے جو علوم تعلق رکھتے ہیں وہ مکمل ہوں۔ اس کے لیے تیسری شرط یہ ہے کہ ان دونوں قسم کے علوم یعنی کائناتی اور انسانیاتی علوم کی معلومات یک جا ہوں اور کوئی ذہنِ کامل انھیں صحیح ترتیب دے کر، اُن سے صحیح استدلال کرکے، انسان کے لیے اَخلاقی قدروں کا، تمدّن کے اصولوں کا اور بے راہ روی سے بچانے والی حدوں کا تعین کرے۔ یہ شرائط نہ اس وقت تک پوری ہوئی ہیں، نہ امید کی جا سکتی ہے کہ پانچ ہزار برس بعد پوری ہو جائیں گی۔ ممکن ہے کہ انسانیت کی وفات سے ایک دن پہلے یہ پوری ہو جائیں، مگر اس وقت اس کا فائدہ ہی کیا ہو گا۔