وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۰۠ النور55:24
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ وہ ضرور ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں (مومنین صالحین) کو خلیفہ بنایا تھا۔
یہ آیت دوا ہم دستوری نکات کی تصریح کرتی ہے:
٭ اول: یہ کہ ایک اسلامی ریاست کا صحیح مقام ’خلافت‘ ہے نہ کہ’حاکمیت‘۔
٭ دوم: یہ کہ ایک اسلامی ریاست میں خلافت کا حامل کوئی ایک شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ پوری امت مسلمہ اس کی حامل ہوتی ہے جسے اللہ نے آزاد ریاست عطا کی ہو۔
پہلے نکتے کی تشریح یہ ہے کہ حاکمیت اپنی عین حقیقت ہی کے اعتبار سے اس امر کی متقاضی ہے کہ صاحب حاکمیت کی اپنی ذات سے خارج کوئی ایسی طاقت نہ ہو جو اس کے اختیارات کو محدود کرتی ہو، اور اس کو خود اس کے اپنے بنائے ہوئے قوانین و ضوابط کے سوا کچھ اوپر سے مسلط کیے ہوئے قوانین و ضوابط کا پابند بناتی ہو۔۱۱۰؎ اب اگر ایک ریاست پہلے ہی قدم پر یہ مان لے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اس کے لیے بالاتر قانون کی حیثیت رکھتا ہے جس کے خلاف نہ اس کی منتظمہ کام کرسکتی ہے‘ نہ اس کی مقننہ کوئی قانون بنا سکتی ہے اور نہ اس کی عدلیہ کوئی فیصلہ کرسکتی ہے‘ تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں حاکمیت کے دعوے سے دست بردار ہوگئی ہے اور اس نے حکمرانی میں دراصل خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایجنٹ (خلیفہ) کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے صحیح اصطلاح ’حاکمیت‘ نہیں بلکہ ’خلافت‘ ہی ہوسکتی ہے‘ ورنہ اس حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے لیے حاکمیت کا لفظ استعمال کرنا محض ایک تناقض فی الاصطلاح ہوگا، البتہ اگر وہ اپنی خود مختاری کو خدا کے حکم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اتباع سے مقید نہ کرے تو بلاشبہہ اس کی صحیح پوزیشن ’حاکمیت‘ ہی کی ہوگی‘ مگر اس صورت میں اس کے لیے’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح استعمال کرنا تناقض فی الاصطلاح ہوگا۔
دوسرے نکتے کی تشریح یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں اس کے تمام مسلم باشندوں کا بحیثیت مجموعی حاملِ خلافت ہونا وہ اہم اصولی حقیقت ہے جس پر اسلام میں جمہوریت کی بنا رکھی گئی ہے۔ جس طرح غیر اسلامی جمہوریت کی بنیاد اجتماعی حاکمیت (popular sovereignty) کے اصول پر قائم ہوتی ہے‘ ٹھیک اسی طرح اسلامی جمہوریت کی بنیاد اجتماعی خلافت (popular vicegerency) کے اصول پر قائم ہوتی ہے۔ اس نظام میں حاکمیت کے بجائے خلافت کی اصطلاح اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ یہاں اقتدار خدا کا عطیہ ہے اور اس عطیے کو خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن خلافت کا یہ محدود اقتدار‘ قرآن کی مذکورہ بالا تصریح کی رو سے‘ کسی ایک شخص یا طبقے کو نہیں، بلکہ ریاست کے تمام مسلمانوں کو من حیث الجماعت سونپا گیا ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کی مرضی سے بنے‘ ان کے مشورے سے کام کرے اور اسی وقت تک حکمران رہے جب تک مسلمان اس سے راضی رہیں۔ اسی بنا پر حضرت ابوبکرؓ نے ’خلیفۃ اللہ‘ کہلانے سے انکار کیا تھا کیونکہ خلافت دراصل امت مسلمہ کو سونپی گئی تھی نہ کہ براہ راست ان کو۔ ان کی خلافت کی اصل حیثیت یہ تھی کہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے اپنے اختیاراتِ خلافت ان کے سپرد کردیے تھے۔
ان دونوں نکات کو ملحوظ رکھ کر اسلامی ریاست کا دستور ایسا بنایا جانا چاہیے کہ جو حاکمیت کے دعوے سے خالی ہو جس میں صریح طور پر ریاست کی حیثیت ِ خلافت نمایاں نظر آتی ہو۔