ایمان باللّٰہ کی اہمیت
اسلام کے پورے اعتقادی اور عملی نظام میں پہلی اور بنیادی چیز ایمان باللّٰہ ہے۔ باقی جتنے اعتقادات و ایمانیات ہیں سب اسی ایک اصل کی فرع ہیں، اور جتنے اخلاقی احکام اور تمدنی قوانین ہیں سب اسی مرکز سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے اس کا مصدر اور مرجع خدا کی ذات ہے۔ ملائکہ پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے ملائکہ ہیں۔ کتابوں پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کی نازل کی ہوئی ہیں۔ رسولوں پر ایمان اس لیے ہے کہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ یومِ آخر پر اس لیے ایمان ہے کہ وہ خدا کے انصاف کا دن ہے۔ فرائض اس لیے فرائض ہیں کہ خدا نے انھیں مقرر کیا ہے۔ حقوق اس لیے حقوق ہیں کہ وہ خدا کے حکم پر مبنی ہیں۔ اوامر کا امتثال اور نواہی سے اجتناب اس لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کی جانب سے ہیں۔ غرض ہر چیز جو اسلام میں ہے، خواہ وہ عقیدہ ہو یا عمل، اس کی بِنا صرف ایمان باللّٰہ پر قائم ہے۔ اس ایک چیز کو الگ کر دیجیے، پھرنہ ملائکہ کوئی چیز ہیں نہ یومِ آخر، نہ رسول اتباع کے مستحق ٹھیرتے ہیں نہ ان کی لائی ہوئی کتابیں، نہ فرائض و طاعات میں کوئی معنویت باقی رہ جاتی ہے نہ حقوق و واجبات میں، نہ اوامر و نواہی کسی قوتِ نفاذ کے حامل رہتے ہیں اور نہ ضوابط و قوانین۔ اس ایک مرکز کے ہٹتے ہی یہ سارا کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، بلکہ سرے سے اسلام ہی کسی چیز کا نام نہیں رہتا۔
ایمان باللّٰہ کا تفصیلی عقیدہ
یہ عقیدہ جو اس عظیم الشان فکری و عملی نظام میں مرکز اور منبعِ قوت کا کام دے رہا ہے، محض اسی قدر نہیں ہے کہ ’’اللّٰہ تعالیٰ موجود ہے‘‘ بلکہ وہ اپنے اندر اللّٰہ تعالیٰ کی صفات کا ایک مکمل اور صحیح تصور (جس حد تک انسان کے لیے ان کا تصور ممکن ہے) رکھتا ہے، اور اسی تصورِ صفات سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو انسان کی تمام فکری اور عملی قوتوں پر محیط اور حکمران ہو جاتی ہے۔ محض ہستیِ باری کا اثبات وہ چیز نہیں ہے جسے اسلام کی امتیازی خصوصیت کہا جا سکتا ہو۔ دوسری ملتوں نے بھی کسی نہ کسی طور سے باری تعالیٰ کے وجود کا اثبات کیا ہے۔ البتہ جس چیز نے اسلام کو تمام مذاہب و ادیان سے ممتاز کر دیا ہے، وہ یہی ہے کہ اس نے صفات باری کا صحیح، مکمل اور مفصل علم بخشا ہے، اور پھر اسی علم کو ایمان بلکہ اصلِ ایمان بنا کر اس سے تزکیۂ نفس، اصلاحِ اخلاق، تنظیمِ اعمال، نشرِ خیر و منعِ شر، اور بِنائے تمدن کا اتنا بڑا کام لیا ہے جو دنیا کے کسی مذہب و ملت نے نہیں کیا۔
ایمان باللّٰہ کی مجمل صورت جس کے اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب کو دخولِ اسلام کی پہلی اور لازمی شرط قرار دیا گیا ہے، کلمہ لَآاِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ یعنی دل سے اس امر کی تصدیق اور زبان سے اس امر کا اعتراف کہ ’’الٰہ‘‘ بجز اس ایک ہستی کے اور کوئی نہیں ہے جس کا نام اللّٰہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’الوہیت‘‘ کو کائنات کی جملہ اشیا سے سلب کرکے صرف ایک ذات کے لیے ثابت کیا جائے، اوران تمام جذبات، تخیلات، اعتقادات اور عبادات و طاعات کو جو ’’الوہیت‘‘ کے لیے مخصوص ہیں، اسی ایک ذات سے متعلق کردیا جائے۔ اس مجمل کلمہ کے اجزائے ترکیبی تین ہیں:
ایک، الوہیت کا تصور۔
دوسرے، تمام اشیا سے اس کی نفی۔
تیسرے، صرف اللّٰہ کے لیے اس کا اثبات۔
قرآن مجید میں خدا کی ذات و صفات کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ سب انھی تینوں امور کی تفصیل ہے۔
اوّلاً اس نے ’’الوہیت‘‘ کا ایک ایسا مکمل اور صحیح تصور پیش کیا ہے جو دنیا کی کسی کتاب اورکسی مذہب میں ہمیں نہیں ملتا۔ اس میں شک نہیں کہ تمام قوموں اور ملتوں میں یہ تصور کسی نہ کسی طور پر موجود ہے، لیکن ہر جگہ غلط یا نامکمل ہے۔ کہیں ’’الوہیت‘‘ نام ہے محض اولیت اور واجبیت کا، کہیں اس سے محض مبدائیت مراد لی گئی ہے، کہیں اسے قوت اور طاقت کا ہم معنی سمجھا گیا ہے، کہیں وہ محض خوف اور ہیبت کی چیز ہے، کہیں وہ صرف محبت کا مرجع ہے، کہیں اس کا مفہوم محض رفعِ حاجات اور اجابتِ دعوات ہے، پھر کہیں وہ قابلِ تجزیہ و تقسیم ہے، کہیں اسے تجسیم اور تشبیہ اور تناسل سے آلودہ کیا گیا ہے، کہیں وہ آسمانوں پر متمکن ہے اور کہیں وہ انسانی بھیس بدل کر زمین پر اتر آیا ہے۔ ان تمام غلط یا ناقص تصورات کی تصحیح اور تکمیل جس کتاب نے کی ہے وہ صرف قرآن ہے۔ اسی کتاب نے الوہیت کی تقدیس و تمجید کی ہے۔ اسی نے بتایا ہے کہ الٰہ صرف وہی ہو سکتا ہے جو بے نیاز، صمد اور قیوم ہو۔ جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے۔ جو قادر مطلق اور حاکم علی الاطلاق ہو۔ جس کا علم سب پر محیط، جس کی رحمت سب پر وسیع، جس کی طاقت سب پرغالب ہو۔ جس کی حکمت میں کوئی نقص نہ ہو۔ جس کے عدل میں ظلم کا شائبہ تک نہ ہو۔ جو زندگی بخشنے اور وسائلِ حیات مہیا کرنے والا ہو۔ جو نفع و ضرر کی ساری قوتوں کا مالک ہو۔ اس کی بخشش اور نگہبانی کے سب محتاج ہوں۔ اسی کی طرف تمام مخلوقات کی بازگشت ہو۔ وہی سب کا حساب لینے والا ہو اور اسی کو جزا و سزا کا اختیار ہو۔ پھر یہ الوہیت کی صفات نہ تجزیہ و تقسیم کے قابل ہیں کہ ایک وقت میں بہت سے ’’آلہہ‘‘ ہوں اوروہ ان صفات یا ان کے ایک ایک حصے سے متصف ہوں۔ نہ یہ وقتی اور زمانی ہیں کہ ایک ’’الٰہ‘‘ کبھی تو ان سے متصف ہو اور کبھی نہ ہو۔ نہ یہ قابل انتقال ہیں کہ آج ایک ’’الٰہ‘‘ میں پائی جائیں اور کل دوسرے میں۔
الوہیت کا یہ کامل اور صحیح تصور پیش کرنے کے بعد قرآن اپنے انتہائی زورِ بیان کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ کائنات کی جتنی اشیا اور جتنی قوتیں ہیں، ان میں سے کسی پربھی یہ مفہوم راست نہیں آتا۔ تمام موجوداتِ عالم محتاج ہیں، مسخر ہیں، کائن و فاسد ہیں۔ نافع و ضار ہونا تو درکنار، خود اپنی ذات سے ضرر کو دفع کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ان کے افعال اور ان کی تاثیرات کا سرچشمہ ان کی اپنی ذات میں نہیں ہے، بلکہ وہ سب کی سب کہیں اور سے قوتِ وجود، قوتِ فعل اور قوتِ تاثیر حاصل کرتی ہیں۔ لہٰذا کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جو ’’الوہیت‘‘ کا شائبہ بھی اپنے اندر رکھتی ہو اور جسے ہماری نیاز مندیوں میں سے کسی ایک حصے کا بھی حق پہنچتا ہو۔
اس نفی کے بعد وہ ایک ذات کے لیے ’’الوہیت‘‘ ثابت کرتا ہے جس کا نام ’’اللہ‘‘ ہے، اور انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ سب کو چھوڑ کر اسی پر ایمان لائو، اسی کے آگے جھکو، اسی کی تعظیم کرو، اسی سے محبت کرو، اسی سے خوف کرو، اسی سے امید رکھو، جو کچھ مانگو اسی سے مانگو، ہر حال میں تو کّل اسی پر کرو، اور ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک دن اس کے پاس واپس جانا ہے، اسے حساب دینا ہے، اور تمھارا اچھا یا برا انجام اسی کے فیصلے پر منحصر ہے۔
ایمان باللّٰہ کے اخلاقی فوائد
صفاتِ الٰہی کے اس تفصیلی تصور کے ساتھ جو ایمان باللّٰہ انسان کے دل میں راسخ ہو جائے وہ اپنے اندر ایسے غیر معمولی فوائد رکھتا ہے جو کسی دوسرے اعتقاد سے حاصل نہیں ہو سکتے۔
وسعتِ نظر
ایمان باللّٰہ کا پہلا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کے زاویۂ نظر کو اتنا وسیع کر دیتا ہے جتنی خدا کی غیر محدود سلطنت وسیع ہے۔ انسان جب تک دنیا کو اپنے نفس کے تعلق کا اعتبار کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اس کی نگاہ اسی تنگ دائرے میں محدود رہتی ہے جس کے اندر اس کی اپنی قدرت، اس کا اپنا علم، اور اس کے اپنے مطلوبات محدود ہیں۔ اسی دائرے میں وہ اپنے لیے حاجت روا تلاش کرتا ہے۔ اسی دائرے میں جو قوت والے ہیں ان سے ڈرتا اور دبتا ہے اور جو کم زور ہیں ان پر فوقیت جتاتا ہے۔ اسی دائرے میں اس کی دوستی و دشمنی، محبت اور نفرت، تعظیم اور تحقیر محدود رہتی ہے، جس کے لیے بغیر اس کے اپنے نفس کے اور کوئی معیارنہیں ہوتا۔ لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کی نظر اپنے ماحول سے نکل کر تمام کائنات پر پھیل جاتی ہے۔ اب وہ کائنات پر اپنے نفس کے تعلق سے نہیں بلکہ خدا کے تعلق سے نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اس وسیع جہان کی ہر چیز سے اس کا ایک اور ہی رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ اب اسے ان میں کوئی حاجت روا، کوئی قوت والا، کوئی ضار یا کوئی نافع نظر نہیں آتا۔ اب وہ کسی کو تعظیم یا تحقیر، خوف یا امید کے قابل نہیں پاتا۔ اب اس کی دوستی یا دشمنی، محبت یا نفرت اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہ صرف میرا یا میرے خاندان یا میری قوم ہی کا خالق اور پروردگار نہیں ہے بلکہ خالق السماوات والارض اور رب العالمین ہے۔ اس کی حکومت صرف میرے ملک تک محدود نہیں بلکہ وہ مالک ارض و سما اور رب المشرق والمغرب ہے۔ یعنی کہ اس کی عبادت صرف میں ہی نہیں کر رہا ہوں بلکہ زمین و آسمان کی ساری چیزیں اس کے آگے جھکی ہوئی ہیں:
وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا آل عمران 83:3
حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابعِ فرمان (مسلم) ہیں۔
اور ہر چیز اس کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے:
تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہِنَّ۰ۭ بنی اسرائیل 44:17
اُس کی پاکی توساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں بیان کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں۔
اس لحاظ سے جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو کوئی اسے غیر نظر نہیں آتا، سب اپنے ہی اپنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ہم دردی، اس کی محبت، اس کی خدمت کسی ایسے دائرے کی پابند نہیں رہتی جس کی حد بندی اس کے اپنے نفس کے تعلقات کے لحاظ سے کی گئی ہو۔
پس جو اللّٰہ پرایمان رکھتا ہے وہ کبھی تنگ نظر نہیں ہو سکتا۔ اس کی وسیع المشربی کے لیے ’’بین الاقوامیت‘‘ کی اصطلاح بھی تنگ ہے۔ اسے تو حقیقت میں ’’آفاقی‘‘ اور ’’کائناتی‘‘ کہنا چاہیے۔
عزتِ نفس
پھر یہی ایمان باللّٰہ انسان کو پستی و ذلت سے اٹھا کر خود داری و عزتِ نفس کے بلند ترین مدارج پر پہنچا دیتا ہے۔ جب تک اس نے خدا کو نہ پہچانا تھا، دنیا کی ہر طاقت ور چیز، ہر نفع یا ضرر پہنچانے والی چیز، ہر شان دار اور بزرگ چیز کے سامنے جھکتا تھا، اس سے خوف کھاتا تھا، اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا تھا، اس سے امیدیں وابستہ کرتا تھا۔ مگر جب اس نے خدا کو پہچانا تو معلوم ہوا کہ جن کے آگے وہ ہاتھ پھیلا رہا تھا وہ خود محتاج ہیں۔
يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّہِمُ الْوَسِـيْلَۃَ بنی اسرائیل 57:17
وہ تو خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کر رہے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ الاعراف 194:7
تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنھیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔
لَا يَسْتَطِيْعُوْنَ نَصْرَكُمْ وَلَآ اَنْفُسَہُمْ يَنْصُرُوْنَo الاعراف 197:7
جن سے وہ مدد کی امیدیں رکھتا تھا، وہ اس کی مدد تو درکنار، آپ اپنی ہی مدد نہیں کر سکتے۔
اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلہِ جَمِيْعًا۰ۙ البقرہ 165:2
حقیقی طاقت کا مالک تو خدا ہے۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ۰ۭ الانعام 57:6
وہی حکمران اور صاحبِ امر ہے۔
وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍo البقرہ 107:2
اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے؟
وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِo آل عمران 126:3
فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے، جو بڑی قوت والا اور دانا و بینا ہے۔
اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُo الذٰریٰت 58:51
اللّٰہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست۔
لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۚ الشوریٰ 12:42
زمین و آسمان کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
مارنے اور جلانے والا وہی ہے۔ یعنی کہ اس کے اذن کے بغیر نہ کوئی کسی کو مار سکتا ہے نہ بچا سکتا ہے۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ آل عمران 145:3
اور زندہ کرنے اور مارنے والا اللّٰہ تعالیٰ ہے۔
وَاللہُ يُحْيٖ وَيُمِيْتُ۰ۭ آل عمران 156;3
ورنہ دراصل مارنے اور جِلانے والا تو اللہ ہی ہے۔
نفع و ضرر پہنچانے کی اصلی طاقت اسی کے ہاتھ میں ہے۔
وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللہُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ۰ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِہٖ۰ۭ
یونس 107:10
اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا کوئی نہیں ہے۔
یہ علم حاصل ہونے کے بعد وہ تمام دنیا کی قوتوں سے بے نیاز اور بے خوف ہو جاتا ہے۔ خدا کے سوا اس کی گردن کسی کے آگے نہیں جھکتی۔ خدا کے سوا اس کا ہاتھ کسی کے آگے نہیں پھیلتا۔ خدا کے سوا کسی کی عظمت اس کے دل میں نہیں رہتی۔ خدا کو چھوڑ کر وہ کسی دوسرے سے امیدیں وابستہ نہیں کرتا۔
انکسار و تخشع
لیکن یہ خود داری وہ جھوٹی خود داری نہیں ہے جو اپنی قوت، دولت یا قابلیت کے گھمنڈ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ عزتِ نفس وہ عزتِ نفس نہیں ہے جو ایک برخود غلط انسان میں نخوت و غرور اور تکبر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یہ نتیجہ ہے خدا کے ساتھ اپنے اور تمام موجوداتِ عالم کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے کا۔ اس لیے خدا پر ایمان رکھنے والے میں خود داری انکسار کے ساتھ، اور عزتِ نفس خشوع و خضوع کے ساتھ ہم رشتہ ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ خدا کی طاقت کے سامنے میں بالکل بے بس ہوں۔ ارشاد ہے:
وَہُوَالْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ۰ۭ الانعام 18:6
وہ اپنے بندوں پر کامل اختیارات رکھتا ہے۔
خدا کی فرماں روائی سے نکلنا میرے اور کسی ہستی کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا۰ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍo الرحمن 33:55
اے گروۂ جن و اِنس اگر تم زمین اور آسمان کی سرحدوں سے نکل کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ دیکھو۔ نہیں بھاگ سکتے۔ اس کے لیے بڑا زور چاہیے۔
میں کیا، تمام عالم خدا کا محتاج ہے اوروہ بے نیاز ہے۔
وَاللہُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ۰ۚ محمد38:47
اللہ تو غنی ہے، تم ہی اس کے محتاج ہو۔
لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۰ۭ البقرہ 284:2
زمین و آسمان میں جو کچھ ہے خدا کا ہے۔
اور مجھے بھی جو نعمت ملی ہے خدا سے ملی ہے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ النحل 53:16
تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس عقیدے کے بعد غرورو تکبر کہاں رہ سکتا ہے۔ ایمان باللّٰہ کا تو خاصہ لازم یہ ہے کہ وہ انسان کو سراپا انکسار بنادیتا ہے۔
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo الفرقان 63:25
خدائے رحمان کے خاص بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جہلا ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو وہ سلام کرکے الگ ہو جاتے ہیں۔
غلط توقعات کا ابطال
خالق اور مخلوق کے تعلق کی صحیح معرفت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان تمام غلط توقعات اور جھوٹے بھروسوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو عدمِ معرفت کا نتیجہ ہیں، اورانسان خوب سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لیے اعتقادِ صحیح اور عملِ صالح کے سوا فلاح و نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جو لوگ اس معرفت سے محروم ہیں، ان میں سے کوئی سمجھتا ہے کہ خدا کے کاموں میں بہت سے اور چھوٹے چھوٹے خدا بھی شریک ہیں۔
ہم ان کی خوشامد کرکے سفارش کرا لیں گے۔
وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۰ۭ یونس 18:10
اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
کوئی سمجھتا ہے کہ خدا بیٹا رکھتا ہے اور اس بیٹے نے ہمارے لیے کفارہ بن کر نجات کا حق محفوظ کر دیا ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ:
ہم خود اللّٰہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔
وَقَالَتِ الْيَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ۰ۭ المائدہ 18:5
یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔
ہم خواہ کچھ کریں، ہمیں سزا نہیں مل سکتی۔ ایسی ہی اور بہت سی غلط توقعات ہیں جو لوگوں کو ہمیشہ گناہ کے چکر میں پھنسائے رکھتی ہیں، کیوں کہ وہ ان کے بھروسے پر اپنے نفس کی پاکیزگی اور عمل کی اصلاح سے غافل ہو جاتے ہیں۔ لیکن قرآن جس ایمان باللّٰہ کی تعلیم دیتا ہے، اس میں غلط توقعات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی قوم خدا کے ساتھ اختصاص نہیں رکھتی۔
سب اس کے مخلوق ہیں اور وہ سب کا خالق۔
بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ۰ۭ المائدہ 18:5
درحقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے اور انسان خدا نے پیدا کیے ہیں۔
بزرگی اور اختصاص جو کچھ ہے تقوٰی کی بِنا پر ہے۔
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ الحجرات 13:49
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔
خدا نہ اولاد رکھتا ہے نہ کوئی اس کا شریک و مددگار ہے۔
لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَكُنْ لَّہٗ شَرِيْكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُنْ لَّہٗ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ
بنی اسرائیل 111:17
جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا، نہ کوئی بادشاہی میں اس کا شریک ہے، اور نہ عاجز ہے کہ کوئی اس کا پشتیبان ہو۔
جنھیں تم اس کی اولاد یا اس کا شریک سمجھتے ہو وہ سب اس کے بندے اور غلام ہیں۔
بَلْ لَّہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۰ۭ كُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَo البقرہ 116:2
اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب اس کے مطیعِ فرمان ہیں۔
کسی میں جرأت نہیں کہ اس کے اذن کے بغیر سفارش کر سکے۔
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭ البقرہ 255:2
کون ہے جو اُس کی جناب میں اس کی اجاز کے بغیر شفارش کرسکے؟
اگر تم نافرمانی کرو گے تو کوئی سفارشی اورمددگار تمھیں اس کی پاداش سے بچا نہ سکے گا۔
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہٗ۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍo الرعد 11:13
اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہوسکتا ہے۔
رجائیت اور اطمینانِ قلب
اسی کے ساتھ ایمان باللّٰہ انسان میں ایک ایسی رجائی کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو کسی حال میں مایوسی اور شکستہ دلی سے مغلوب نہیں ہوتی۔ مومن کے لیے ایمان امیدوں کا ایک لازوال خزانہ ہے جس سے قوتِ قلب و تسکینِ رُوح کی دائمی اور غیر منقطع رسد اُسے پہنچتی رہتی ہے۔ چاہے وہ دنیا کے تمام دروازوں سے ٹھکرایا جائے، سارے اسباب کا رشتہ ٹوٹ جائے، وسائل و ذرائع ایک ایک کرکے اس کا ساتھ چھوڑ دیں، مگر ایک خدا کا سہارا اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا اور اس کے بل پر وہ ہمیشہ امیدوں سے لبریز رہتا ہے، اس لیے کہ جس خدا پر وہ ایمان لایا ہے، وہ کہتا ہے کہ:
وَاِذَا سَاَ لَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۰ۙ
البقرہ 186:2
اور اے نبی، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔
مجھ سے ظلم کا خوف نہ کرو کہ میں ظالم نہیں ہوں۔
وَاَنَّ اللہَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِo آل عمران 182:3
اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے۔
وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ۰ۭ الاعراف 156:7
میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے۔
میری رحمت سے مایوس تو وہ ہوتے ہیں جو مجھ پر ایمان نہیں رکھتے۔
وَلَا تَايْــــَٔــسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللہِ۰ۭ اِنَّہٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَo
یوسف 87:12
اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔
رہا مومن، تو اس کے لیے مایوسی کا کوئی مقام نہیں۔ اگر اس نے کوئی قصور کیا ہو تو مجھ سے معافی مانگے، میں اسے معاف کر دوں گا۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْۗءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللہَ يَجِدِ اللہَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo
النسائ 110:4
اگر کوئی شخص بُرا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا۔
اور
قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا۰ۭ الزمر 53:39
(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
اگر دنیا کے اسباب اس کا ساتھ نہیں دیتے تو وہ ان پر بھروسا چھوڑ کر میرا دامن تھام لے۔ پھر خوف و حزن اس کے پاس بھی نہ پھٹکے گا۔
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ حمٓ السجدہ 30:41
جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو۔
میری یاد وہ چیز ہے جس سے دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُo الرعد 28:13
خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔
صبر و توکل
پھر یہی رجائیت ترقی کرکے صبر و استقامت اور توکل علی اللّٰہ کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ جاتی ہے۔ جہاں مومن کا دل ایک سنگین چٹان کی طرح مضبوط ومستحکم ہوجاتا ہے، اور ساری دنیا کی مشکلیں، دشمنیاں، تکلیفیں، مضرتیں اور مخالف طاقتیں مل کر بھی اسے اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتیں۔ یہ قوت انسان کو بجز ایمان باللّٰہ کے اور کسی ذریعے سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیوں کہ جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا، اس کا بھروسا ان مادی یا وہمی اسباب و وسائل پر ہوتا ہے جو خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں۔ ان کے بل پر جینے والا گویا تارِ عنکبوت کا سہارا لیتا ہے۔
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۖۚ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا۰ۭ وَاِنَّ اَوْہَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ۰ۘ العنکبوت 41:29
جن لوگوں نے اللّٰہ کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے، اور سب گھروں سے زیادہ کم زور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے۔
ایسے کم زور سہاروں پر جس کی زندگی کا مدار ہو اس کا کم زور ہو جانا تو یقینی ہے:
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُo الحج 73:22
مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔
مگر جس کا بھروسا خدا پر ہے، جس نے خدا کا دامن تھام لیا ہے، اس کا سہارا ایسا مضبوط ہے کہ وہ کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتا:
فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۰ۭ البقرہ 256:2
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
اس کے ساتھ تو رب السماوات والارض کی طاقت ہے، اس پر کون سی طاقت غالب آسکتی ہے۔
اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۰ۚ آل عمران 160:3
اللہ تمہاری مدد پر ہو تو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں۔
اسے تو تمام جہان کی مصیبتیں مل کر بھی صبر و ثبات اور پامردی و استقامت کے مقام سے نہیں ہٹا سکتیں، کیوں کہ
قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللہِ۰ۭ النسائ 78:4
کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس کے نزدیک سب بُرا اور بھلا اللّٰہ کی طرف سے ہے۔جو مصیبت بھی آتی ہے تقدیرِ الٰہی کے تحت آتی ہے اور اس کا ٹالنے والا بھی بجز اللّٰہ کے کوئی نہیں ہے۔
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَآ اِلَّا مَا كَتَبَ اللہُ لَنَا۰ۚ ہُوَمَوْلٰىنَا۰ۚ وَعَلَي اللہِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo التوبہ51:9
ان سے کہو ’’ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘
انبیا علیہم السلام نے جس فوق البشری قوت سے دنیا کی ہول ناک مصیبتوں کا مقابلہ کیا، تن تنہا بڑی بڑی سلطنتوں اور طاقت ور قوموں سے نبرد آزما ہوئے، اسبابِ دنیوی کے بغیر دنیا کو مسخر کرنے کا عزم لے کر اٹھے، اور مشکلات کے طوفانوں میں بھی اپنے مشن سے نہ ہٹے، وہ یہی صبر و توکل کی قوت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑکو دیکھیے، اپنے ملک کے جبار فرماں روا سے مناظرہ کرتے ہیں، بے خوف آگ میں کُود پڑتے ہیں اور آخر اِنِّىْ ذَاہِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِo الصافات 99:37 کہہ کر کسی سروسامان کے بغیر وطن سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ حضرت ہودؑ کو دیکھیے کس طرح عاد کی زبردست قوت کو چیلنج دیتے ہیں:
فَكِيْدُوْنِيْ جَمِيْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنِo اِنِّىْ تَوَكَّلْتُ عَلَي اللہِ رَبِّيْ وَرَبِّكُمْ۰ۭ مَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ اِلَّا ہُوَاٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِہَا۰ۭ ھود 55:11
تم سب مل کر اپنی چالیں چل دیکھو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو۔ میں تو اس خدا پر بھروسا کر چکا ہوں جو میرا اور تمھارا رب ہے۔ کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کی چوٹی اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھیے، خدا کے بھروسے پر فرعون کی زبردست طاقت سے مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ قتل کی دھمکی دیتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ میں ہر متکبر کے مقابلے میں اس کی پناہ لے چکا ہوں جو میرا اور تم سب کا رب ہے،اِنِّىْ عُذْتُ بِرَبِّيْ وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ غافر27:40 مصر سے نکلتے وقت فرعون اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہے، ان کی بزدل قوم گھبرا کر کہتی ہے کہ دشمنوں نے ہمیں آ لیا: ’’اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ‘‘ مگر وہ انتہائی سکونِ قلب کے ساتھ کہتے ہیں: ہرگز نہیں، اللّٰہ میرے ساتھ ہے، وہی مجھے سلامتی کی راہ پر لگا دے گا، كَلَّا۰ۚ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَہْدِيْنِo الشعرائ 62:26 سب سے آخر میں نبی عربی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھیے۔ ہجرت کے موقع پر ایک غار میں تشریف رکھتے ہیں۔ صرف ایک رفیق ساتھی ہے۔ خون کے پیاسے کفار سر پر پہنچتے ہیں۔ مگر آپؐ اس وقت بھی مضطرب نہیں ہوتے۔ اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں:لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا۰ۚ التوبہ 40:9 ہرگز نہ گھبرائو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ یہ ناقابلِ تسخیر قوت، یہ آہنی عزم، یہ پہاڑ کی سی استقامت، بجز ایمان باللّٰہ کے اور کس چیز سے حاصل ہو سکتی ہے؟
شجاعت
اسی سے ملتی جلتی ایک اور صفت بھی ہے جو ایمان باللّٰہ سے غیر معمولی طور پر پیدا ہوتی ہے، یعنی جرأت وبسالت اور شجاعت و شہامت۔ انسان کو دو چیزیں بزدل بناتی ہیں: ایک محبت، جو وہ اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور اپنے مال سے رکھتا ہے۔ دوسرے خوف، جو نتیجہ ہے اس غلط اعتقاد کا کہ نقصان پہنچانے اور ہلاک کر دینے کی قوت دراصل ان اشیا میں ہے جو محض آلے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ ایمان باللّٰہ ان دونوں چیزوں کو دل سے نکال دیتا ہے۔ مومن کے رگ و پے میں یہ اعتقاد سرایت کر جاتا ہے کہ خدا سب سے زیادہ محبت کا حق رکھتا ہے :
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ البقرہ 165:2
ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔
اس کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ مال اور اولاد سب دنیا کی زینتیں ہیں، جن کا کبھی نہ کبھی ضائع ہونا یقینی ہے۔ کبھی نہ ضائع ہونے والی چیز وہ ہے جو خدا کے ہاں ملے گی۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۰ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًاo الکہف 46:18
یہ مال اور یہ اولاد محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
دُنیا کی زندگی محض چند روزہ ہے، اسے ہم بچانے کی لاکھ کوشش کریں، موت بہرحال ایک دن آ کر رہے گی:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِيْكُمْ الجمعہ 8:62
ان سے کہو ’’جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمھیں آکر رہے گی۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَۃٍ۰ۭ النسائ 78:4
رہی موت، تو جہاں بھی تم ہو وہ بہرحال تمھیں آکر رہے گی، خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔
پھر کیوں نہ اس جان کو دائمی مسرت کی زندگی کے لیے قربان کردیں جو اللّٰہ کے ہاں ملے گی:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ اَمْوَاتًا۰ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَo فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۙ آل عمران 169-170:3
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں اُنہیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے اُنھیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں اور مطمئن ہیں۔
کیوں نہ دنیا کے چند روزہ لطف اور عارضی فائدوں کو اس خدا کی خوشی پر فدا کر دیں جو دراصل ہماری جان اور مال کا مالک ہے، اور جو ان کے بدلے میں اس سے بہتر زندگی اور ان سے زیادہ حقیقی فائدے بخشنے والا ہے؟
اِنَّ اللہَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ۰ۭ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ التوبہ 111:9
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اِن کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔
رہا خوف، تو مومن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ نقصان پہنچانے اور ہلاک کرنے کی حقیقی قوت انسان یا حیوان، توپ یا تلوار، لکڑی یا پتھر میں نہیں ہے، بلکہ خدا کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ تمام دنیا کی قوتیں مل کر بھی اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہیں اور خدا کا اذن نہ ہو تو اس کا بال تک بیکا نہیں ہو سکتا:
وَمَا ھُمْ بِضَاۗرِّيْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ البقرہ 102:2
ظاہر تھا کہ اذنِ الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے،
موت کا جو وقت خدا نے لکھ دیا ہے اس سے پہلے کسی کے لائے موت نہیں آ سکتی۔
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُـوْتَ اِلَّا بِـاِذْنِ اللہِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًا۰ۭ آل عمران 145:3
کوئی ذی رُوح اللہ کے اِذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے۔
اور اگر موت کا لکھا ہوا وقت آن پہنچے تو پھر وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی:
قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ۰ۚ
آل عمران 154:3
ان سے کہہ دو کہ: ’’اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن لوگوں کی موت لکھی ہوئی تھی وہ خود اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل آتے‘‘
پس جب معاملہ یہ ہے تو لوگوں سے ڈرنے کے بجائے خدا سے ڈرنا چاہیے:
فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo آل عمران 175:3
لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔
وہی حقیقت میں ایسی ہستی ہے جس سے ڈرا جائے:
وَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰـىہُ۰ۭ الاحزاب 37:33
حالانکہ اللہ اس کا حق دار ہے کہ تم اُس سے ڈرو۔
راہِ خدا میں لڑنے سے جی چرانا تو ان کا کام ہے جن کے دل میں ایمان نہیں، اس لیے کہ وہ خدا سے زیادہ بندوں سے ڈرتے ہیں:
يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْـيَۃِ اللہِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَۃً۰ۚ النسائ 77:4
لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں۔ جیسا خدا سے ڈرنا چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔
ورنہ جو سچے مومن ہیں وہ تو دشمنوں کے دل بادل دیکھ کر بجائے ڈرنے کے اور زیادہ شیر ہو جاتے ہیں، کیوں کہ ان کا بھروسا دنیوی طاقت پر نہیں، خدا پر ہے:
اَلَّذِيْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيْمَانًا۰ۤۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُo آل عمران 173:3
جن سے لوگوں نے کہا کہ: ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر اُن کا ایمان بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ: ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔‘‘
قناعت و استغنا
پھر یہی ایمان باللّٰہ انسان کے دل سے حرص و ہوس اور رشک و حسد کے وہ رکیک جذبات بھی دور کر دیتا ہے جو اسے جلبِ منفعت کے لیے ذلیل و ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر ابھارتے اور بنی نوعِ انسان کے درمیان فساد برپا کراتے ہیں۔ ایمان کے ساتھ انسان میں قناعت اور استغنا پیدا ہوتا ہے۔ وہ دوسروں سے مقابلہ یا منافست نہیں کرتا۔ ظلم و عدوان کی وادیوں میں دوڑ دھوپ نہیں کرتا۔ ہمیشہ باعزت طریقے سے اپنے رب کا فضل تلاش کرتا ہے اور جو تھوڑا بہت مل جاتا ہے اسے خدا کی دین سمجھ کر قناعت کر لیتا ہے۔ مومن کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ فضیلت اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہتا ہے بخشتا ہے:
قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللہِ۰ۚ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۭ آل عمران 73-74:3
اے نبیؐ، ان سے کہو: فضل و شرف اللہ کے اختیار میں ہے، جسے چاہے عطا فرمائے۔ وہ وسیع النظر ہے۔ اور سب کچھ جانتا ہے، اپنی رحمت کے لیے جس کو چاہتا ہے مخصوص کرلیتا ہے۔
رزق اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، جسے جتنا چاہتا ہے عطا کرتا ہے:
اَللہُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَــقْدِرُ۰ۭ الرعد 26:13
اللہ جس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔
بے شک زمین اللّٰہ کی ہے ، جسے چاہے حکمران بنا دے:
اِنَّ الْاَرْضَ لِلہِ۰ۣۙ يُوْرِثُہَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ۰ۭ الاعراف 128:7
زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔
عزت و دولت اس کے ہاتھ میں ہے، جسے چاہے عزیز بنا دے اور جسے چاہے ذلیل کر دے:
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ۰ۭ بِيَدِكَ الْخَيْرُ۰ۭ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo
آل عمران 26:3
جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
پھر دنیا کا یہ نظام کہ عزت ودولت، قوت، حسن، ناموری اور دوسرے مواہب کے اعتبار سے کوئی گھٹا ہوا ہے اور کوئی بڑھا ہوا، دراصل خدا ہی کا قائم کردہ ہے، خدا اپنی مصلحتوں کو خود بہتر جانتا ہے۔ اس کے بنائے ہوئے نظام کو بدلنے کی کوشش کرنا نہ تو انسان کے لیے مناسب ہے اور نہ اس میں کام یابی ممکن ہے:
وَاللہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ۰ۚ النحل 71:16
اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے۔
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ۰ۭ النسائ 32:4
اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔
اصلاحِ اخلاق و تنظیمِ اعمال
ان سب سے زیادہ اہم فائدہ وہ ہے جو ایمان باللّٰہ سے تمدن کو پہنچتا ہے۔ اس سے انسانی جماعت کے افراد میں ذمے داری کا احساس پیدا ہوتا ہے، نفوس میں پاکیزگی اور اعمال میں پرہیز گاری پیدا ہوتی ہے، لوگوں کے باہمی معاملات درست ہوتے ہیں، پابندیِ قانون کی حس پیدا ہوتی ہے، اطاعتِ اَمر اور ضبط و نظم کا مادہ پیدا ہوتا ہے، اور افراد ایک زبردست باطنی قوت سے اندر ہی اندر سُدھر کر ایک صالح اور منظم سوسائٹی بنانے کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں۔ یہ دراصل ایمان باللّٰہ کا معجزہ ہے اور اسی کے لیے مخصوص ہے۔ دنیا کی کسی حاکمانہ قوت، یا تعلیم و تربیت، یا وعظ و تلقین سے اصلاحِ اخلاق اور تنظیمِ اعمال کا کام اتنے وسیع پیمانے اور اتنی گہری بنیادوں پر انجام نہیں پا سکتا۔ دنیوی قوتوں کی رسائی روح تک نہیں صرف جسم تک ہے، اور جسم پر بھی ان کی گرفت ہر جگہ اور ہر وقت نہیں ہے۔ تعلیم و تربیت اور وعظ و تلقین کا اثر بھی صرف عقل و فکر تک محدود رہتا ہے، اور وہ بھی ایک حد تک۔ رہا نفسِ امارہ، تو وہ نہ صرف خود اس سے غیر متاثر رہتا ہے بلکہ عقل کو بھی مغلوب کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا۔ لیکن ایمان وہ شے ہے جواپنی اصلاح اور تنظیمی قوتوں کو لیے ہوئے انسان کے قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے اور وہاں ایک ایسے طاقت ور اور بیدار ضمیر کو نشوو نما دیتا ہے جو ہر وقت ہر جگہ انسان کو تقوٰی اور طاعت کی سیدھی راہ دکھاتا رہتا ہے اور شریر سے شریر نفوس میں بھی اپنی ملامتوں اور سرزنشوں کا کچھ نہ کچھ اثر پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔
یہ عظیم الشان فائدہ علمِ الٰہی اور قدرتِ خداوندی کے اس اعتقاد سے حاصل ہوتا ہے جو ایمان کا ایک ضروری جز ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ خدا کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اور کوئی بات اس سے چُھپ نہیں سکتی۔
وَلِلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ۰ۤ فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo
البقرہ 115:2
مشرق اور مغرب سب اللّٰہ ہی کا ہے، تم جدھر رُخ کرو گے ادھر اللّٰہ موجود ہے، یقینا اللّٰہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللہُ جَمِيْعًا۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌo البقرہ 148:2
تم جہاں کہیں بھی ہو اللّٰہ تم سب کو پکڑ بلائے گا، یقیناً اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اِنَّ اللہَ لَا يَخْفٰى عَلَيْہِ شَيْءٌ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاۗءِo آل عمران 5:3
یقیناً اللّٰہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔
وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ۰ۭ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا يَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍo الانعام 59:6
اور اس کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں۔ برّ و بحر میں جو کچھ ہے سب کو وہ جانتا ہے۔ ایک پَتّا بھی اگر زمین پر گرتا ہے تو اللّٰہ کو اس کا علم ہو جاتا ہے۔ اور زمین کی تاریک تہوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں اور کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں جو ایک کتاب مبین میں لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِo قٓ 16:50
ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے، اور ہم وہ باتیں تک جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کے نفس میں آتا ہے۔ ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۰ۚ المجادلہ 7:58
کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں ایسی نہیں ہوتی جس میں چوتھا خدا نہ ہو، اور کوئی سرگوشی پانچ آدمیوں میں ایسی نہیں ہوتی جس میں چھٹا خدا نہ ہو، اور نہ اس سے کم یا زیادہ آدمیوں کا کوئی اجتماع ایسا ہے جس میں وہ ان کے ساتھ نہ ہو، خواہ وہ کہیں ہو۔
يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللہِ وَھُوَمَعَھُمْ اِذْ يُبَيِّتُوْنَ مَا لَا يَرْضٰى مِنَ الْقَوْلِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطًاo النسائ 108:4
وہ لوگوں سے چھپ سکتے ہیں، مگر خدا سے نہیں چھپ سکتے۔ خدا اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب و ہ اس کی رضا کے خلاف راتوں کو چھپ کر باتیں کرتے ہیں، اور وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس پر خدا محیط ہے۔
اَوَلَا يَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللہَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَo البقرہ 77:2
کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ خفیہ اور علانیہ جو کچھ بھی کرتے ہیں خدا کو اس کا علم ہے۔
اِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيٰنِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيْدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْہِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌo قٓ 17-18:50
دو ضبط کرنے والے فرشتے ہر شخص کے دائیں اور بائیں بیٹھے ضبط کر رہے ہیں، کوئی بات زبان سے ایسی نہیں نکلتی کہ کوئی نگرانی کرنے والا اس کو لکھنے کے لیے تیار نہ ہو۔
سَوَاۗءٌ مِّنْكُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَمُسْتَخْفٍؚ بِالَّيْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِo لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ يَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللہِ۰ۭ
الرعد 10-11:13
خواہ تم میں سے کوئی چھپا کر بات کرے یا ببانگِ دُہل، اور خواہ کوئی رات کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو، بہرحال اس کے آگے اور پیچھے خدا کے جاسوس لگے ہوئے ہیں جو خدا کے حکم سے اس کی نگہبانی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی خوب اچھی طرح انسان کے ذہن نشین کر دی گئی ہے کہ ایک دن ضرور خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ مُّلٰقُوْہُ۰ۭ البقرہ 223:2
اور خوب جان لو کہ تمھیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْہِ تُحْشَرُوْنَo البقرہ 203:2
اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور تمھاری پیشی ہونے والی ہے۔
اور اسے ہر چیز کا حساب دینا ہے:
اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًاo النسائ 86:4
یا کم از کم اُسی طرح، اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اور اللّٰہ کی پکڑ بڑی سخت ہے:
اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌo البروج 12:85
درحقیقت تمھارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
یہ عقیدہ جس کو طرح طرح سے دل میں بٹھانے کی کوشش کی گئی ہے، دراصل اسلام کے پورے قانون کی قوتِ نافذہ ہے۔ اسلام نے حرام و حلال کے جو حدود بھی مقررکیے ہیں، اخلاق، معاشرت اور معاملات کے متعلق جو احکام بھی دیے ہیں، ان کے نفاذ کا اصلی انحصار نہ فوج اور پولیس پر ہے، اور نہ تعلیم و تلقین پر۔ بلکہ وہ نفاذ کی قوت اس عقیدے سے حاصل کرتے ہیں کہ ان کا مقرر کرنے والا وہ زبردست فرماں روا ہے جس کی قدرت اور جس کا علم ہر شے پر حاوی ہے۔ اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا نہ اپنے جرم کوچھپانے کی قدرت رکھتا ہے اور نہ اس کے محاسبے سے کسی طرح بچ سکتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ احکام دینے کے بعد یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ اللّٰہ کے مقرر کیے ہوئے حدود ہیں، خبردار ان سے تجاوز نہ کرنا:
تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۰ۚ البقرہ 229:2
یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔
یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اُسے خدا دیکھ رہا ہے:
وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo البقرہ 233:2
اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جوکچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے۔