Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق

یہیں سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ ریاست کے مختلف اعضا (organs of the state)کے اختیارات اور حدود عمل کیا ہیں۔
مجالسِ قانون ساز کے حدود
مقننہ (lagislature)ہی وہ چیز ہے جسے ہمارے ہاں کی قدیم اصطلاح میں اہل الحل و العقد کہا جاتا ہے۔ اس کے معاملے میں یہ بات بالکل صاف ہے کہ جو ریاست اللہ اور رسول کی قانونی حاکمیت مان کر بنائی گئی ہو‘ اس کی مقننہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے خلاف اپنے اجماع سے بھی کوئی قانون سازی کرنے کی مجاز نہیں ہوسکتی۔ ابھی میں آپ کو قرآن کا یہ فیصلہ سنا چکا ہوں کہ:
۱۔کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ اور رسولؐ جس معاملے کا فیصلہ کرچکے ہوں اس میں ان کو پھر کوئی فیصلہ نہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ (الاحزاب۳۳:۳۶)
۲۔جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔(المائدہ۵:۴۴)
ان احکام کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور رسولؐ کے احکام کے خلاف کوئی قانون سازی کرنا مجلسِ قانون ساز کے حدود اختیار سے باہر ہو‘ اور ہر ایسا قانون‘ اگر وہ لیجسلیچر ] [lagislature پاس بھی کر دے‘ لازماً حدود دستور سے متجاوز (ultravires of the constitution) قرارپائے۔
اس سلسلے میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر اسلامی ریاست میں مقننہ کا کام ہی کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں مقننہ کے کئی کام ہیں:
۱۔ جن معاملات میں اللہ اور رسولؐ کے واضح اور قطعی احکام موجود ہیں‘ ان میں اگرچہ مقننہ کوئی ردّوبدل نہیں کرسکتی‘ مگر یہ کام مقننہ ہی کا ہے کہ ان کے نفاذ کے لیے ضروری قواعد و ضوابط (rules and regulations)مقرر کر دے۔
۲۔ جن معاملات میں کتاب و سنت کے احکام ایک سے زیادہ تعبیرات کے محتمل ہوں‘ ان میں مقننہ ہی یہ طے کرے گی کہ کون سی تعبیر کو قانونی شکل دی جائے۔ اس غرض کے لیے ناگزیر ہے کہ مقننہ ایسے اہل علم پر مشتمل ہو جو تعبیرِ احکام کی اہلیت رکھتے ہوں‘ ورنہ ان کے غلط فیصلے شریعت کو مسخ کر ڈالیں گے، لیکن یہ سوال رائے دہندوں کی صلاحیت انتخاب سے تعلق رکھتا ہے۔ اصولاً یہ ماننا پڑے گا کہ قانون سازی کی اغراض کے لیے مقننہ ہی مختلف تعبیرات میں سے ایک کو ترجیح دینے کی مجاز ہے اور اسی کی تعبیر قانون بنے گی‘ بشرطیکہ وہ تعبیر کی حد سے گزر کر تحریف کی حد تک نہ پہنچ جائے۔
۳۔ جن معاملات میں احکام موجود نہ ہوں، ان میں مقننہ کاکام یہ ہے کہ اسلام کے اصول عامہ کو پیشِ نظر رکھ کر نئے قوانین وضع کرے، یا اگر ان کے بارے میں پہلے سے مدوّن کیے ہوئے قوانین کتبِ فقہ میں موجود ہوں تو ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔
۴۔ جن معاملات میں کوئی اصولی رہنمائی بھی نہ ملتی ہو ان میں یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قانون سازی میں آزاد چھوڑ دیا ہے‘ اس لیے ایسے معاملات میں مقننہ ہر طرح کے مناسب قوانین بنا سکتی ہے‘ بشرطیکہ وہ کسی شرعی حکم یا اصول سے متصادم نہ ہوتے ہوں۔ اس معاملے میں اصول یہ ہے کہ جو کچھ ممنوع نہیں ہے، وہ مباح ہے۔
یہ چاروں قاعدے ہم کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تعامل خلفائے راشدین اور مجتہدین امت کی آرا سے معلوم ہوتے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ہم ان میں سے ہر ایک کا ماخذ بتا سکتے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ جو شخص اسلامی ریاست کے بنیادی اصول سمجھ لے اسے خود عقل عام (common sense)بھی یہ بتا سکتی ہے کہ اس طرز کی ریاست میں مقننہ کے یہی حدودِ عمل ہونے چاہییں۔
انتظامیہ کے حدود عمل
اب انتظامیہ کو لیجیے۔ ایک اسلامی ریاست میں انتظامیہ (executive)کا اصل کام احکام الٰہی کو نافذ کرنا اور ان کے نفاذ کے لیے ملک اور معاشرے میں مناسب حالات پیدا کرنا ہے۔ یہی امتیازی خصوصیت اس کو ایک غیر مسلم ریاست کی انتظامیہ سے ممیز کرتی ہے‘ ورنہ ایک کافر حکومت اور مسلم حکومت میں کوئی فرق باقی ہی نہیں رہتا۔ انتظامیہ وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں ’اولی الامر‘ اور حدیث میں ’امراء‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن و حدیث‘ دونوں میں ان کے سمع و طاعت (obedience)کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ اللہ کے احکام اور رسول کے تابع رہیں‘ ان سے آزاد ہو کر معصیت اور بدعت اور احداث فی الدین کی راہ پر نہ چل پڑیں۔ قرآن اس باب میں صاف کہتا ہے کہ:
۱۔ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo الکہف 28:18
اور کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہو، جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہو اور جس کا امر حدود آشنا نہ ہو۔
۲۔ وَلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَo الَّذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَo الشعراء151-152:26
اور ان حد سے گزر جانے والوں کے امر کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ اس معاملے کو یوں بیان فرماتے ہیں:
۱۔ اِنْ اُمِّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا۔ (مسلم، مشکوۃ۳۴۹۲)
اگر تم پر کوئی نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمھاری قیادت کرے تو اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
۲۔ اَلسَّمْعُ وَ الطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِیْ مَا اَحَبَّ وَکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَبِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَۃَ۔ (متفق علیہ)
ایک مرد مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ برضا و رغبت‘ خواہ بکراہت‘ تاوقتیکہ اس کو معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سمع ہے نہ طاعت۔
۳۔ لَا طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔ (متفق علیہ)
معصیت میں کوئی طاعت نہیں ہے۔ طاعت صرف معروف میں ہے۔
۴۔ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَالَیْسَ مِنْہُ فَھُوَرَدٌّ۔ (متفق علیہ)
جس نے ہمارے اس کام (یعنی اسلامی نظام زندگی) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس کے مزاج سے بیگانہ ہو تو وہ مردود ہے۔
۵۔ مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ۔ (البیہقی فی شعب الایمان)
جس نے کسی صاحب بدعت (یعنی اسلامی زندگی میں غیر اسلامی طریقے رائج کرنے والے) کی توقیر کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔
ان توضیحات کے بعد اس معاملے میں کوئی اشتبا ہ باقی نہیں رہ جاتا کہ اسلام میں انتظامی حکومت اور اس کے نظم و نسق کے لیے کیا حدودعمل مقرر کیے گئے ہیں۔
عدلیہ کے حدودِ عمل
رہی عدلیہ (judiciary)جو ہماری قدیم اصطلاح ’’قضاء‘‘ کی ہم معنی ہے‘ تو اس کا دائرۂ عمل بھی خدا کی قانونی حاکمیت کا اصول آپ سے آپ معین کر دیتا ہے۔ اسلام جب کبھی اپنے اصولوں پر ریاست قائم کرتا ہے‘ اس کے اولین جج خود انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں‘ اور ان کاکام یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ قانونِ الٰہی کے مطابق کریں۔ پھر جو لوگ انبیاء ؑ کے بعد اس کرسی پر بیٹھیں ان کے لیے بھی اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ اپنے فیصلوں کی بنیاد اس قانون پر رکھیں جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے ان کو ملا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کے دو رکوع خاص اسی موضوع پر ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی‘ اور بنی اسرائیل کے سارے نبی ؑ اور پھر ربانی اور احبار اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ پھر ہم نے ان کے بعد عیسیٰ ابن مریم ؑ کو بھیجا اور ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ اہلِ انجیل کو چاہیے کہ وہ بھی اس ہدایت پر فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کی ہے۔ اس تاریخ کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کتاب (قرآن) تمھاری طرف ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ نازل کی ہے:
فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۝۰ۭ المائدۃ 48:5
پس تم لوگوں کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرو اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمہارے پاس آیا ہے‘ لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔
آگے چل کر اللہ تعالیٰ اس تقریر کو اس فقرے پر ختم فرماتا ہے:
اَفَحُكْمَ الْجَاہِلِيَّۃِ يَبْغُوْنَ۝۰ۭ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَo المائدہ50:5
پھر کیا لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والوں کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟
اس تقریر کے دوران میں اللہ تعالیٰ تین مرتبہ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون پر فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘ وہی ظالم ہیں‘ وہی فاسق ہیں۔ (المائدہ:۵:۴۴،۴۵،۴۷)۔ اس کے بعد شاید یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ ایک اسلامی ریاست کی عدالتیں قانون الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے بنتی ہیں نہ کہ اس کے خلاف فیصلے کرنے کے لیے۔
مختلف اعضائے ریاست کا باہمی تعلق
اس سلسلے میں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اسلام میں ریاست کے ان تینوں اعضا کا باہمی تعلق کیا ہے؟ اس باب میں احکام تو موجود نہیں ہیں‘ مگر عہدِ نبویؐ اور عہد خلافت راشدہ کے تعامل (convention)سے ہم کو پوری روشنی ملتی ہے۔ اس تعامل سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک صدر ریاست کا تعلق ہے‘ وہ صدر ہونے کی حیثیت سے ریاست کے ان تینوں شعبوں کا صدر ہے۔ یہی حیثیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھی اور یہی خلفائے راشدین کو حاصل رہی، مگر صدر سے نیچے اتر کر ہم تینوں شعبوں کو اس دور میں ایک دوسرے سے الگ پاتے ہیں۔ اس زمانے میں اہل الحل و العقد الگ تھے‘ جن کے مشورے سے خلافتِ راشدہ کے دور میں انتظامی معاملات بھی چلائے جاتے تھے اور قانونی مسائل کے فیصلے بھی کیے جاتے تھے۔ نظم و نسق کے ذمے دارامراء الگ تھے جن کا قضاء(عدالت) میں کوئی دخل نہ تھا اور قاضی (جج اور مجسٹریٹ) الگ تھے جن پر انتظامی ذمے داریوں کا کوئی بار نہ تھا۔
ملک کے اہم معاملات میں پالیسی بنانے، یا انتظامی اور قانونی مسائل کو حل کرنے کی جب کبھی ضرورت پیش آتی‘ خلفائے راشدین ہمیشہ اہل الحل و العقد کو بلا کر مشورہ کرتے تھے اور مشورے سے جب کوئی فیصلہ ہو جاتا تو اہل الحل و العقد کا کام ختم ہو جاتا۔
انتظامی عہدے دار خلیفہ کے ماتحت تھے‘ وہی ان کو مقرر کرتا تھا اور اسی کے احکام کے مطابق وہ نظم و نسق چلاتے تھے۔
قاضیوں کا تقرر بھی اگرچہ خلیفہ کرتا تھا‘ مگر ایک مرتبہ قاضی مقرر ہو جانے کے بعد پھر خلیفہ کو بھی یہ حق نہ تھا کہ ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہو، بلکہ اپنی ذاتی حیثیت میں‘ یا منتظمہ کے صدر ہونے کی حیثیت میں‘ اگر کسی شخص کا ان کے خلاف کوئی دعویٰ ہوتا تھا‘ تو ان کو بھی قاضیوں کے سامنے ٹھیک اسی طرح جواب دہی کرنی ہوتی تھی جس طرح رعیت کے کسی معمولی فرد کو کرنی ہوتی تھی۔
اس زمانے میں ہم کو ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی ایک شخص بیک وقت کسی علاقے کا عامل بھی ہو اور قاضی بھی، یا کوئی عامل یا گورنر‘ یا خود صدر ریاست کسی قاضی کے عدالتی فیصلوں میں دخل دینے کا مجاز ہو، یا کوئی بڑے سے بڑا آدمی بھی دیوانی و فوج داری دعووں کی جواب دہی سے یا عدالتوں کی حاضری سے مستثنیٰ ہو۔
اس نقشے کی تفصیلات میں ہم اپنی موجودہ ضرورتوں کے مطابق ردوبدل کرسکتے ہیں‘ مگر اس کے اصول جوں کے توں قائم رہنے چاہییں۔ جس قسم کے جزوی ردّ و بدل اس میں کیے جاسکتے ہیں وہ اس طرح کے ہیں کہ مثلاً ہم صدر ریاست کے انتظامی و عدالتی اختیارات خلفائے راشدین کی بہ نسبت محدود کرسکتے ہیں‘ کیونکہ اب اس درجے کے قابلِ اعتماد صدر ریاست ہمیں نہیں مل سکتے جیسے خلفائے راشدین تھے۔ اس لیے ہم اپنے صدر کے انتظامی اختیارات پر بھی پابندیاں عائد کرسکتے ہیں تاکہ وہ ڈکٹیٹر نہ بن جائے اور اس کو مقدمات کی براہ راست خود سماعت کرنے اور ان کے فیصلے کرنے سے بھی روک سکتے ہیں، تاکہ وہ بے انصافی نہ کرنے لگے۔
(اس موقع پر ایک صاحب نے اٹھ کر سوال کیا کہ آپ کی اس رائے کا مآخذ کیا ہے؟)
مقرر نے اس کے جواب میں کہا کہ اس قول کے لیے میری دلیل یہ ہے کہ خلافت ِ راشدہ میںانتظامیہ اور عدلیہ کے شعبے بالکل الگ الگ تھے۔ رہا صدر ریاست تو اس کی ذات میں ان دونوں اختیارات کو کسی حکم شرعی کی بنا پر جمع نہیں رکھا گیا تھا، بلکہ اس اعتماد پر جمع کیا گیا تھا کہ وہ جج کی حیثیت سے انصاف کی مسند پر بیٹھ کر اپنی انتظامی مصلحتوں کو دخیل نہ ہونے دیں گے، بلکہ خلفائے راشدین کی ذات پر تو لوگوں کو اس درجے اعتماد تھا کہ وہ خود یہ چاہتے تھے کہ آخری عدالتِ انصاف وہی ہوں، تاکہ اگر کہیں انصاف نہ ملے تو ان کے پاس ضرور مل جائے۔ اس اعتماد کی مستحق اگر کوئی شخصیت ہم نہ پاسکیں تو اسلامی دستور کے کسی قاعدے نے ہمیں اس بات پر مجبور نہیں کر دیا ہے کہ ہم صدر کی ذات میں چیف جسٹس اور انتظامیہ کے رئیس اعلیٰ کی حیثیتیں لازماً جمع رکھیں۔)
اسی طرح اس نقشے میں جوتبدیلیاں ہم کرسکتے ہیں‘ وہ یہ ہیں کہ مثلاً: ہم اہل الحل و العقد کے انتخاب کے طریقے اور ان کی مجلس کے ضابطے حسب ضرورت بنا سکتے ہیں۔ ہم عدالتوں کے مختلف درجے، مخصوص اختیارات‘ حدود سماعت اور حدود عمل کے ساتھ مقرر کرسکتے ہیں وغیر ذالک۔
یہاں دو سوالات اور پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے:
٭ اول یہ کہ آیا اسلام میں اس امر کی گنجایش ہے کہ قضاء (عدلیہ) اہل الحل والعقد کے طے کیے ہوئے کسی قانونی مسئلے کو خلافِ کتاب و سنت ہونے کی بنا پر رد کر دے؟
اس باب میں کوئی حکم میرے علم میں نہیں ہے۔ خلافت راشدہ کا تعامل بے شک یہی تھا کہ قضاء کو یہ اختیارات حاصل نہیں تھے۔ کم از کم اس کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی قاضی نے ایسا کیا ہو، مگر اس کی وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ اس وقت اہل الحل و العقد خود کتاب و سنت میں گہری بصیرت رکھنے والے لوگ تھے اور سب سے بڑھ کر خود خلفائے راشدین اس معاملے میں پوری طرح قابلِ اعتماد تھے کہ ان کی صدارت میں کوئی مسئلہ خلاف کتاب و سنت طے نہ ہوسکتا تھا۔ آج اگر ہم اپنے دستور میں اس امر کا کوئی قابلِ اطمینان انتظام نہ کرسکیں کہ کسی مجلس قانون ساز سے کوئی قانون خلاف کتاب و سنت پاس نہ ہوسکے تو عدلیہ کو مقننہ کے فیصلوں کا پابند کیا جاسکتا ہے، لیکن اگر اس کا کوئی قابلِ اطمینان انتظام نہ کیا جاسکے تو پھرآخری چارۂ کار یہی ہے کہ عدلیہ کو خلافِ کتاب و سنت قوانین کے رد کرنے کا اختیار دیا جائے۔
٭ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں مقننہ (اہل الحل و العقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ محض صدر ریاست کی مشیر ہے جس کے مشوروں کو ردّ یا قبول کرنے کا صدر ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدر ریاست اس کی اکثریت، یا اس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟
اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہئیں: (وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ الشوریٰ38:42 ) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت صدر ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۝۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ آل عمران159:3
اور ان سے معاملات میں مشورہ کرو‘ پھر (مشورے کے بعد) جب تم عزم کرلو تو اللہ کے بھروسے پر عمل کرو۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں اور صدر ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللہ کے بھروسے پر اسے نافذ کردے، لیکن یہ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیتیں جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے، البتہ خلافت راشدہ کے تعامل سے علمائے اسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظم ریاست کا اصل ذمے دار صدر ریاست ہے اور وہ اہل الحل و العقد سے مشورہ کرنے کا پابند ہے، مگر اس بات کا پابند نہیں کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے پر ہی عمل کرے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو’ویٹو‘ کے اختیارات حاصل ہیں،لیکن یہ رائے اس مجمل صورت میں بڑی غلط فہمیوں کی موجب ہے‘ کیونکہ اسے لوگ موجودہ ماحول میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ماحول ان کے سامنے نہیں ہوتا جس کے تعامل سے یہ رائے اخذ کی گئی ہے۔
خلافتِ راشدہ کے ماحول میں جن لوگوں کو اہل الحل و العقد قرار دیا گیا تھا وہ جدا جدا پارٹیوں کی شکل میں منظم نہ تھے۔ وہ ان پارلیمنٹری ضابطوں سے بھی کسے ہوئے نہ تھے جن سے موجودہ زمانے کی مجالسِ قانون ساز کسی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ مجلس شوریٰ میں پہلے سے الگ الگ اپنی کچھ پالیسیاں وضع کرکے‘ پروگرام بنا کر اور پارٹی میٹنگز میں فیصلے کرکے بھی نہیں آتے تھے۔ انھیں جب مشورے کے لیے بلایا جاتا تو وہ کھلے دل کے ساتھ آکر بیٹھتے‘ خلیفہ خود ان کی مجلس میں موجود ہوتا‘ مسئلہ پیش کیا جاتا‘ مخالف اور موافق ہر پہلو پر آزادانہ بحث ہوتی۔ پھر دونوں کے دلائل کا موازنہ کرکے خلیفہ اپنے دلائل کے ساتھ اپنی رائے بیان کرتا۔ یہ رائے بالعموم ایسی ہوتی تھی کہ پوری مجلس اسے تسلیم کرلیتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ چند لوگ اس سے متفق نہ ہوتے تھے، مگر اسے بالکل غلط اور ناقابل تسلیم نہیں، بلکہ صرف مرجوح سمجھتے تھے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد کم از کم عمل کے لیے اسی کو مان لیتے تھے۔ پوری خلافت راشدہ کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اہل الحل و العقد کی مجلس میں ایسی تفریق رونما ہوئی ہو کہ رائے شماری کی نوبت آئے، اور پوری خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں صرف دو مثالیں اس امر کی ملتی ہیں کہ خلیفۂ وقت نے اہل الحل و العقد کی قریب قریب متفقہ رائے کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک: جیشِ اسامہؓ کا معاملہ، دوسرے: مرتدین کے خلاف جہاد کا معاملہ، لیکن ان دونوں معاملات میں صحابہؓ نے جس بنا پر خلیفہ کے فیصلے کو مانا، وہ یہ نہیں تھی کہ دستور اسلامی نے خلیفہ کو ویٹو کے اختیارات دے رکھے ہیں اوردستوری طور پر وہ بادلِ نخواستہ اس کا فیصلہ ماننے کے لیے مجبور ہیں‘ بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فہم و فراست اور دینی بصیرت پر پورا اعتماد تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ ابوبکرؓ اس رائے کی صحت پر اتنا یقین رکھتے ہیں اور دینی مصالح کے لیے اس کو اتنی زیادہ اہمیت دے رہے ہیں‘ تو انھوں نے کھلے دل سے ان کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس لے لی، بلکہ بعد میں ان کی اصابت رائے کو کھلم کھلا سراہا اور اعتراف کیا کہ اگر ان مواقع پر ابوبکرؓ استقامت نہ دکھاتے تو اسلام ہی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ چنانچہ مرتدین کے معاملے میں حضرت عمرؓ نے‘ جو سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کرچکے تھے‘ علی الاعلان کہا کہ اللہ نے ابوبکرؓ کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا اور مجھے معلوم ہوگیا کہ حق وہی ہے جس کا فیصلہ انھوں نے کیا ہے۔
اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلام میں ویٹو کا یہ تصور دراصل کس ماحول کی نظیروں سے پیدا ہوا ہے۔ اگر شوریٰ کا طرز اوراس کی روح اور اہلِ شوریٰ کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو جو خلافت راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں تو پھر اس سے بہتر کوئی طریقِ کار نہیں ہے جو وہاں اختیار کیا گیا۔ اس طریقِ کار کو اگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلس شوریٰ میں، اگر صدر ریاست اور ارکان مجلس اپنی اپنی رائے پر اڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصواب عام (referendum)کرا لیا جائے‘ پھر جس کی رائے کو بھی رائے عام رد کر دے وہ مستعفی ہوجائے۔ لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلسِ شوریٰ بنانا ممکن نہیں ہے‘ اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقننہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کریں۔

شیئر کریں