Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۳۔ اسلام اور اقتدار

اوپر کی بحث سے اسلامی ریاست کی ضرورت واضح ہو چکی ہے، لیکن چونکہ مختلف وجوہ سے دین و سیاست کی تفریق کے شیطانی فلسفے نے خود مسلمانوں کے ذہن و فکر کو بھی متاثر کیا ہے اور وہ طرح طرح کی تاویلیں کرکے اس تفریق کے لیے گنجایش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام کس قسم کا انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے اور اس بارے میں جو غلط تاویلات کی جارہی ہیں‘ ان کی حقیقت کیا ہے۔
تفہیم القرآن۶؎ میں آیت وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَھَوْا فَلَا عُدْوَانَ اِلَّا عَلَی الظّٰلِمِیْنَ۷ ؎ البقرہ2:193کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ:
باز آ جانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں بلکہ فتنے سے باز آجانا ہے۔ کافر‘ مشرک‘ دہریے‘ ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے‘ یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت تو کریں گے، مگر اس سے لڑیں گے نہیں، لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور اللہ کے بندوں کو غیر از اللہ کسی کا بندہ بنائے۔ یہ فتنہ بزور شمشیر مٹایا جائے گا اور مومن کی تلوار اس وقت تک نیام میں نہ جائے گی جب تک کفار اپنی روش سے باز نہ آجائیں۔
اس تفسیر کے خط کشیدہ فقرے پر ناظرین ترجمان القرآن میں سے ایک صاحب علم بزرگ نے حسب ذیل اعتراض کیا:
(الف) اس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام جو امن اور سلامتی کا حامی اور مؤید ہے‘ دوسروں کے مذہب میں مداخلت اور اس بنا پر لڑائی روا رکھتا ہے‘ حالانکہ یہ امرلَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ البقرہ2:256 کے مخالف ہے۔
(ب) مخالفین کو اپنے اپنے مذہب اور عقائد پر قائم رہنے کی آزادی لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ الکافرون109:6 سے بھی ظاہر ہے۔ جو کوئی اپنے عقائد میں آزاد ہو گا اُسے ان کی اشاعت اور تبلیغ میں بھی آزادی ہونی چاہیے، کیونکہ وہ انھی عقائد کو برحق سمجھتا ہے۔ قرآنی مفہوم سے اسی آزادی کا پتہ چلتا ہے اور باہمی مناظرات کا ثبوت بھی ملتا ہے‘ مثلاً: لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ العنکبوت29:46 غیر مذاہب کے عبادت خانے اور طریق عبادت اسلامی مداخلت سے محفوظ رہے ہیں۔ حتٰی کہ مسجد نبویؐ میں اہلِ کتاب کو اپنے طریق پر عبادت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی ملازمت اختیار کی جس کا عقیدہ اور عمل مشرکانہ تھا۔ ہاں اپنے طور پر امن کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے جیسا کہ یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ۔ یوسف12:39 سے ظاہر ہے۔ اسی طرح دوسروں کو بھی اپنے خیالات کی اشاعت کا حق پہنچتا ہے۔
(ج) زیر خط عبارت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان کہیں بھی مخلوط آبادی میں امن سے زندگی نہیں گزار سکتے۔ غیر مسلم تمدنی اور معاشرتی امور میں بھی، کیوں ان کے ساتھ تعاون باہمی اور رواداری سے کام لیں، جب کہ ان کا سیاسی اور اساسی عقیدہ ہی سدراہ ہو؟ ایسے مسلمان اگر ترکی اور ایران میں بھی آباد ہوں تو بقول آپ کے وہاں بھی انھیں عَلَمِ جہاد بلند کرنا ہوگا کیونکہ ان ممالک میں حدود اور قوانین ِ اسلامی نافذ نہیں۔ اس زمانے میں عالمگیر سیاست اس نہج پر مدون ہے کہ کوئی جماعت غیر معروف طریقوں سے غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل باہمی سے کام نہیں لے سکتی‘ کیونکہ آپ کا فرمودہ استدلال کسی اشتراکِ عمل کے لیے مانع ہوگا۔ اگر اسلامی جماعت اپنے عقائد کی اشاعت کا حق رکھتی ہے تو اسے غیر مسلموں کو بھی‘ خصوصاً جب کہ وہ حکمران ہوں‘ وہی حق دینا ہوگا۔ ہرچہ برخود نہ پسندی بردیگراں پسند۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے اہل کتاب کے ساتھ جو تعامل باہمی کے معاہدے کیے تھے، کیا وہ معاہدے ایسی ہی شرائط پر مبنی تھے؟ مکی زندگی کے ابتدائی مراحل آپ کے استدلال کے مؤید نہیں۔ بالفاظ دیگر ایسی جماعت کا وجود ہی کسی غیر مسلم حکومت کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ جونہی اسے قوت ملی وہ اس کے قوانین اور اس کے نظام حکومت کو مٹانے کے لیے تلوار ہاتھ میں لے لے گی۔ کون اس کو برداشت کرے گا؟
اس اعتراض کا مختصر جواب تو چند جملوں میں بھی دیا جاسکتا ہے‘ لیکن درحقیقت یہ اعتراض اپنی پُشت پر غلط فہمیوں کا ایک بڑا انبار رکھتا ہے‘ اور وہ غلط فہمیاں امت میں بڑی کثرت سے پھیلی ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی وجہ سے مسلمان بالعموم اپنے دین کے بنیادی تقاضوں تک کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں‘ اس لیے یہاں اس پرذرا تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔
اسلام کا مشن
یہ بحث تو بعد میں ہوتی رہے گی کہ اسلام امن اور سلامتی کا مؤید کس معنی میں ہے اور لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِالبقرہ2:256 اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ الکٰفرون109:6کا کیا مطلب ہے اور یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام نبوت کرنے آئے تھے یا تلاشِ روزگار میں نکلے تھے۔ ان سب باتوں سے پہلے اس سوال کا تصفیہ ہونا چاہیے کہ فی الواقع اسلام کا مشن اس دنیا میں ہے کیا؟ کیا وہ جباروں کی سواری کے لیے انسانوں کو سُدھانے آیا ہے، تاکہ جبار جب دنیا میں خدائی کرنے اٹھے تو اسلام کے پیروئوں کو اپنا اطاعت گزار خادم پائے؟ کیا اس نے دنیابھر کی حکومتوں اور سلطنتوں کے لیے پر امن رعیت فراہم کرنے کا اجارہ لیا ہے کہ ہر حکومت کو‘ خواہ اس کا نظام کسی نوعیت کا ہو‘ اپنی مشینری چلانے کے لیے اسلام کے کارخانے سے ہر قسم کے ڈھلے ڈھلائے پرزے حاصل ہو جایا کریں؟ کیا اس کاکام بس یہی ہے کہ چند عقائد اور چند اصولِ اخلاق کی تعلیم دے کر آدمیوں میں اتنی لچک اور اتنی نرمی پیدا کر دے کہ وہ ہر نظامِ تمدن میں‘ خواہ وہ کسی قسم کا تمدن ہو‘ باآسانی کھپ سکیں؟
اگر معاملہ حقیقت میں یہی ہے تو اسلام‘ بودھ مذہب اور سینٹ پال کی بنائی ہوئی مسیحیت سے کچھ بہت زیادہ مختلف چیز نہیں ہے اور اس کے بعد یہ سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے کہ ایسے مذہب کی کتاب میں قَاتِلُوْھُمْالانفال8:39 جیسا خوف ناک لفظ سرے سے آیا ہی کیوں؟ اسے تو اپنے پیرووں کو جنگ اور جہاد کا حکم دینے کے بجائے اپنے مخالفین سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ:
ہم غریبوں کو آخر کیوں مارتے ہو؟ ہم نہ نظامِ حکومت میں کوئی انقلاب کرنا چاہیں، نہ نظامِ تمدن میں کسی ترمیم و تنسیخ کی دعوت دیں۔ اقتدار کسی کا بھی ہو‘ اس کے ماتحت پر امن باشندوں کی حیثیت سے رہنا ہمارا مسلک اور حکومت وقت کی وفاداری ہمارا دین و ایمان‘ پھر ہم سے تمھیں پرخاش کی کیا وجہ؟ رہا ہمارا مذہبی عقیدہ اور ہمارا پوجا پاٹ کا نظام تو اس سے تمھارا کیا بگڑتا ہے؟ تمھارا کون سا تمدنی ادارہ اور کون سا مفاد ایسا ہے جس پر ہمارے عقیدے یا ہماری پوجا کی ضرب پڑتی ہو؟
یہ جواب اگر اچھے معقول پیرائے میں دیا جاتا اور عملاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے پیر و وفادارانہ خدمات بھی انجام دیتے رہتے تو مشرکینِ مکہ ہمارے انگریز آقائوں ۸؎ کے مقابلے میں کچھ ایسے زیادہ نامعقول نہ تھے کہ مسجدوں میں اذان و نماز کی آزادی اور تبلیغی انجمنوں کے قیام کی اجازت نہ دیتے،لیکن اگر حقیقت یہ نہیں ہے، بلکہ اسلام خود اپنا ایک نظام زندگی رکھتا ہے جس میں عقائد‘ اخلاق اور عبادات کے ساتھ انفرادی طرز عمل اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سے متعلق احکام و قوانین بھی ہیں‘ اور اگر اسلام کی دعوت اپنے اس پورے نظام کی طرف ہے‘ اور اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کا اپنا نظام ہی برحق ہے اور اسی میں انسان کی فلاح ہے اور اس کے سوا ہر دوسرا نظام باطل ہے‘ تو ان باتوں کے ساتھ یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اسلام زمین میں اپنے نظام کو غالب اور دوسرے نظامات کو مغلوب کرنے کا بھی تقاضا کرے۔ ایک نظام زندگی کو حق اور صدق ہونے کی حیثیت سے پیش کرنا اور پھر عملاً اس کی اقامت کی دعوت نہ دینا، سراسر ایک مہمل بات ہے، اور اس سے بھی زیادہ مہمل بات یہ ہے کہ دوسرے نظامات کو باطل بھی کہا جائے اور پھر ان کے غلبے کو برداشت بھی کیا جائے۔ مزید برآں یہ بات بداہتہً محال ہے کہ ایک نظام زندگی کی پیروی کسی دوسرے نظام زندگی کے ماتحت رہتے ہوئے کی جاسکے۔ اس لیے وہ صرف ایک فاتر العقل ہی ہو سکتا ہے جو ایک ہی وقت میں اپنے پیش کردہ نظام کی پیروی کا مطالبہ بھی کرے اور ساتھ ہی دوسرے نظامات کے اندر پر امن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔
پس اسلام کا اپنے مخصوص نظام زندگی کی طرف دعوت دینا، عین اپنی فطرت میں اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنے نظام کی اقامت کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے اپنے پیروئوں کو جدوجہد کی ان تمام صورتوں کے اختیار کرنے کا حکم دے جن سے یہ مقصد حاصل ہوا کرتا ہے اور مدعیان اتباع کے ایمان و عدم ایمان کا نشان امتیاز اسی سوال کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگاتے ہیں، یا باطل نظامات کے ماتحت جینے پر راضی ہوتے ہیں؟ قرآن اور حدیث دونوں کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو صاف نظر آ جائے گا____ بشرطیکہ دل میں کوئی چور نہ ہو ____ کہ اسلام کا اصل موقف یہی ہے نہ کہ وہ جو آپ بیان فرما رہے ہیں۔
پھر جب حقیقت یہ ہے اور ہم اسلام کی حقیقت کو جان کر اس پر ایمان لائے ہیں تو یقیناً ہمارے وجود کو ہر غیر اسلامی حکومت کے لیے کھلا چیلنج ہونا ہی چاہیے۔ کوئی اس کو برداشت کرے یا نہ کرے‘ غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ بہرحال اگر ہم اپنے ایمان میں صادق ہیں تو ہمارا کام یہی ہے کہ جہاں بھی اللہ کا قانون شرعی نافذ نہیں ہے‘ وہاں ہم اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں۔ ہمارا مسلمان ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ سے پھرے ہوئے ہیں وہ ہماری اس جدوجہد کو برداشت بھی کریں، اور غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل بھی ہمارے لیے کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس نظام زندگی پر ہم ایمان لائے ہیں اس کے قیام کی جدوجہد صرف اس لیے چھوڑ دیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل اس صورت میں نہ ہوسکے گا۔ اسلام بے شک امن اور سلامتی کا حامی اور مؤید ہے‘ مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن اور سلامتی وہی ہے جو حدود اللہ کی اقامت سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کسی نے امن اور سلامتی کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ شیطانی نظامات کے زیر سایہ اطمینان کے ساتھ سارے کاروبار چلتے رہیں اور مسلمان کی نکسیر تک نہ پھوٹے‘ اس نے اسلام کا نقطۂ نظر بالکل نہیں سمجھا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہوجانا چاہیے کہ اسلام ایسے امن اور ایسی سلامتی کا ہرگز حامی اور مؤید نہیں ہے۔ اسے دوسروں کا قائم کردہ امن نہیں، بلکہ اپنا قائم کردہ امن مطلوب ہے اور اسی میں وہ انسان کی سلامتی دیکھتا ہے۔
رہا لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ البقرہ2:256 تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام اپنے عقائد زبردستی کسی سے نہیں منواتا کیونکہ یہ بزور منوانے کی چیز نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اپنی عبادات بھی‘ جن کا لازمی تعلق اس کے عقائد سے ہے‘ زبردستی کسی پر مسلط نہیں کرتا‘ کیونکہ ایمانِ صحیح کے بغیر یہ عبادات محض بے معنی ہیں۔ ان دونوں امور میں وہ ہر ایک کو آزادی دینے کے لیے تیار ہے، لیکن وہ اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ قوانین تمدن‘ جن پر اسٹیٹ کا نظام قائم ہوتا ہے‘ خدا کے سوا کسی اور کے بنائے ہوئے ہوں‘ اور خدا کی زمین پر اس کے باغی اس کو نافذ کریں اور مسلمان ان کے تابع ہو کر رہیں۔ اس معاملے میں بہرحال ایک فریق کو دوسرے فریق کے’مذہب‘ میں مداخلت کرنی ہی پڑے گی۔ اگر مسلمان ’مذہب کفر‘ میں مداخلت نہ کریں گے تو کافر’مذہبِ اسلام‘ میں مداخلت کرکے رہیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی زندگی کے بہت بڑے حصے پر مذہب کفر جاری ہوگا۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ یہ مداخلت کفار کی طرف سے ہو‘ اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان آگے بڑھ کر نظام زندگی پر قبضہ کریں اور پھر جہاں تک مذہبی عقائد اور عبادات کا تعلق ہے‘ غیر مسلموں کے ساتھ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کے اصول پر عمل کریں۔
رواداری کا غلط تصور اور اس کا جائزہ
اب ہم ان دلائل پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں جن کا سہارا جناب معترض نے لیا ہے اور جن پر اس طرز خیال کے لوگ بالعموم اعتماد کیا کرتے ہیں۔
٭ ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جب تم ’فتنے‘ سے مراد کفر کا غلبہ اور کفار کی بالادستی لیتے ہو‘ اورجہاد و قتال کی غایت یہ قرار دیتے ہو کہ تمھاری اس تفسیر کے مطابق جس چیز کا نام ’’فتنہ‘‘ ہے وہ مٹ جائے اور اس کی جگہ ’اللہ کا دین‘ قائم ہو‘ تو اس سے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اسلام دو بالکل متضاد حیثیتیں اختیار کر رہا ہے۔ ایک طرف کہتا ہے لَآاِکْرَاہَ فِی الدِّیْنَ دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے۔ دوسری طرف غیر مسلموں کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے کہ وہ اپنے نظریے و مسلک کے مطابق حکومت کا نظام چلائیں‘ اور ان کے قوانین کا اجرا موقوف کر کے زبردستی ان پر ’اللہ کے دین‘ کو مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرف لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِکہہ کر غیر مذاہب کے پیرووں کو اپنے مذہب و عقائد پر قائم رہنے کی آزادی دیتا ہے۔ دوسری طرف ان سے ٹھیک اس بات پر لڑائی چھیڑتا ہے کہ وہ اپنے عقیدے اور اپنے اصولوں کے مطابق معاملاتِ دنیا کا انتظام کیوں کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام ہرگز اس تضاد کا حامل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا تمھاری تفسیر صحیح نہیں ہے۔
٭ دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر غیر اسلامی حکومت کا نفس وجود اسلام کی نگاہ میں فتنہ ہوتا اور اس کو مٹانے پر مسلمان مامور ہوتے تو کس طرح ممکن تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کی غیر اسلامی حکومت میں وزارت کا عہدہ طلب کرتے اور اپنی وزارت کے دور میں مصر کے شاہی قوانین کے پابند رہ کر کام کرتے جیسا کہ آیت مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ یوسف12:76 سے ظاہر ہے۔
٭ تیسری دلیل یہ ہے کہ اگر تمھاری اس تفسیر کو صحیح مان لیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اسلام دنیا میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ چھیڑتا ہے اور اپنے پیرووں پر جارحانہ جنگ کا ایک ایسا فرض عائد کرتا ہے جس کی وجہ سے مسلمان دنیا میں کہیں امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس تفسیر کی رُو سے تو ہم پر لازم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف تمام غیر مسلم حکومتوں کے خلاف، بلکہ ان مسلمان حکومتوں کے خلاف بھی علمِ جہاد بلند کریں جن میں اسلامی حدود و قوانین نافذ نہیں ہیں، اور جب یہ ہمارا نظریہ اور یہ ہمارا دینی فریضہ ہو تو کس طرح ممکن ہے کہ غیر مسلم ہم کو اپنا پُرامن ہمسایہ سمجھ کر بہ اطمینان ہمارے ساتھ معاملت کرسکیں اور غیر مسلم حکومتیں اپنے حدود عمل میں ہمارے وجود کو برداشت کرسکیں۔
دلائل کا تجزیہ
۱۔ ان دلائل میں سے پہلی دلیل ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ کسی شخص کا بجائے خود ایک عقیدے کو ماننا اور اپنی زندگی میں ایک خاص طریقے کی پیروی کرنا اور چیز ہے‘ اور اس کا اپنے نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کے لیے ایک نظام بنانا اور اس نظام کو بزور ایک ملک کے باشندوں پر جاری کر دینا ۹؎ بالکل ایک دوسری چیز۔ معترضین ان دونوں چیزوں کو ایک سمجھتے ہیں اور ان کے فرق کو نظر انداز کرکے لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن وغیرہ آیات کو ان کے مجموعے پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ان آیات کا تعلق صرف امر اوّل سے ہے۔ بلاشبہہ ہم کسی غیر مسلم کو مجبور نہ کریں گے کہ وہ اپنا عقیدہ چھوڑ کر اسلامی عقیدہ قبول کرے، یا اپنی مذہبی عبادات ترک کرکے نماز روزے کی پابندی اختیار کرلے، لیکن ہم اس کا یہ حق کسی طرح تسلیم نہیں کرسکتے کہ وہ اخلاق‘ تعلیم‘ تمدن‘ معاشرت‘ معیشت‘ قانون اور سیاست وغیرہ اجتماعی امور کے متعلق اپنے نظریات کو حاکمانہ قوت کے ساتھ بہ جبر ہم پر مسلط کردے۔ دوسروں کو ان کے مسلک پر چلنے دینا بے شک رواداری ہے، مگر یہ کوئی رواداری نہیں ہے کہ اپنے مسلک کے خلاف ہم اپنے اوپر دوسروں کے مسلک کا تسلط برداشت کرلیں۔ ملک کی حکومت جس فلسفۂ زندگی پر مبنی ہوگی‘ لامحالہ تمام قوانین اور پوری انتظامی پالیسی اور سارا کاروبار معیشت اسی فلسفے کے نظریات پر چلے گا اور ایسی حکومت کے تحت رہتے ہوئے یہ کسی طرح ممکن ہی نہ ہوگا کہ ہم اپنی زندگی کا نظام اپنے مذہب و مسلک کے اصولوں پر چلا سکیں۔ ہم خواہ راضی ہوں یا نہ ہوں‘ بہرحال مذہب مخالف کے پیرو اپنے سیاسی غلبے کی بدولت اپنے نظریات کو زبردستی ہماری پوری زندگی میں نافذ کرکے چھوڑیں گے۔ اس معاملے میں رواداری برتنے کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ زنا کو حلال سمجھتے ہوں اور لوگوں کو اس کی عام اجازت دیتے ہوں تو ان کی حکومت میں بے بس رعیت کی حیثیت سے رہتے ہوئے خود ہماری سوسائٹی میں زنا پھیلتی چلی جائے اور ہم اسے گوارا کریں۔ اگر وہ سود کو جائز سمجھتے ہوں اور خود ان کی حکومت سودی لین دین کرتی ہو تو ملک کا انتظام ان کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے ہمارا کوئی بڑے سے بڑا زاہد و متقی تک سود کے غبار سے نہ بچ سکے اور ہم ایک دیا سلائی اور روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ خرید سکیں جب تک کہ اس کی قیمت میں سے سود کا ایک حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں ہماری جیب سے نہ نکل جائے۔ اگر وہ دہریت و الحاد کے نظریات پر اعتقاد رکھتے ہوں تو ملک کی عمومی تعلیم کا پورا نظام انھی نظریات اور اسی ذہنیت اور اسی ملحدانہ اخلاق پر تعمیر ہو جائے اور باشندگانِ ملک کے لیے ترقی و خوش حالی کے تمام دروازے اس ایک جہنم کے دروازے کے سوا بند ہو جائیں اور ہمارا کوئی بڑے سے بڑا خدا پرست بھی اپنی نسل کو اس الحاد اور ملحدانہ اخلاق کے اثرات سے نہ بچاسکے۔ اگر وہ خدا کے قوانین کو منسوخ کرکے خود قوانین بنائیں اور ملک کا نظامِ تمدن اپنے خود ساختہ قوانین پر قائم کریں تو ہماری معاشی و معاشرتی اور تمدنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مجبوراً اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور اس قانون پر چلنے لگے جس پر ہمارا ایمان نہیں ہے۔ کوئی ہمیں بتائے کہ آخر یہ رواداری کی کون سی قسم ہے؟ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن کا یہ مطلب آخر کس عقل کی رُو سے صحیح ہوسکتا ہے کہ دوسروں کی طرف سے دین میں جو اِکْرَاہ ہو‘ اسے ہم برداشت کرلیں؟
ریاست کی ضرورت
یہ ظاہر ہے کہ اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کرنے کے لیے بہرحال ایک قوتِ قاہرہ (coercive power)کی ضرورت ہے جسے ’اسٹیٹ‘ یا ریاست کہتے ہیں ____ اس ضرورت کا انکار انار کی پر اعتقاد رکھنے والوں کے سوا آج تک کسی نے نہیں کیا، یا پھر اشتراکی تصوف میں ایک ایسے مقام کا تصور کیا گیا ہے جہاں پہنچ کر انسان کی حیاتِ اجتماعی ریاست کی ضرورت سے بے نیاز ہو جائے گی۱۰؎ لیکن یہ صرف عالمِ خیال کی باتیں ہیں جن کی تائید میں کوئی تجربہ یا مشاہدہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ عملی زندگی کا تجربہ اور انسانی فطرت کا علم یہی بتاتا ہے کہ تمدن کا قیام ایک قوتِ قاہرہ کا یقیناً محتاج ہے ____ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ قوت‘ جو اپنے قہر و غلبے سے نظامِ تمدن کو قائم رکھتی ہے‘ بجائے خود کسی نہ کسی نظریے اور کسی نہ کسی اجتماعی مسلک کی قائل ہوتی ہے۔ اسی نظریے و مسلک کے مطابق وہ اپنے لیے ایک لائحہ عمل بناتی ہے۔ اسی لائحہ عمل کو وہ قاہرانہ طاقت کے ساتھ اجتماعی زندگی میں نافذ کرتی ہے، اور تمدنی شکل کے بننے اور بگڑنے میں اس قہر کی نوعیت اور اس لائحہ عمل کی اصولی و تفصیلی صورت کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ صرف اجتماعی زندگی ہی نہیں‘ انفرادی زندگی بھی بڑی حد تک طوعاً و کرھاً اس سانچے میں ڈھل کر ہی رہتی ہے جسے اسٹیٹ اپنے قہر و تسلط سے بنا دیتا ہے۔ جو لوگ کسی ریاست کے دائرے میں رہتے ہوں وہ چاہے اس کے بنیادی نظریے اور اس کے تفصیلی لائحہ عمل پر ایمان نہ رکھتے ہوں اور کسی طرح اس پر راضی نہ ہوں‘ لیکن انھیں چار و ناچار اپنے عقیدے و مسلک کے ۹۰ فی صدی حصے سے دست بردار ہو کر ریاست کے عقیدے و مسلک پر چلنا پڑتا ہے اور باقی ۱۰ فی صدی میں بھی ان کے عقیدے و مسلک کی گرفت روز بروز ڈھیلی ہی ہوتی جاتی ہے۔
ریاست کی اس نوعیت کو ملحوظ رکھنے اور یہ سمجھ لینے کے بعد کہ اجتماعی زندگی کے لیے ریاست بہرحال ہے ناگریز۔ ایک صاحب فکر و نظر آدمی کے لیے اس حقیقت کا ادراک کچھ مشکل نہیں رہتا کہ جو گروہ آج کل کے محدود معنوں میں محض ایک ’مذہب‘ کا معتقد نہ ہو، بلکہ ایک ہمہ گیر نظام زندگی‘ یعنی ’دین‘ پر اعتقاد رکھتا ہو،وہ اگر اپنے اعتقاد میں سچا ہے اور اپنے اعتقاد کے خلاف زندگی گزارنا نہیں چاہتا تو اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ آگے بڑھ کر خود اس قوتِ قاہرہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے جو نظمِ اجتماعی کی صورت گری کرتی ہے اور اپنے زور سے اس کو قائم رکھتی ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو دوسرے اس قوت پر قبضہ کریں گے اور پھر یہ گروہ مجبور ہوگا کہ اجتماعی و انفرادی زندگی کے کم از کم ۹۰ فی صدی امور میں اپنے ’دین‘ کے بجائے ان کے ’دین‘پر چلے۔ متمدن زندگی میں یہ’اکراہ‘ لامحالہ ہم میں سے کسی ایک کو کرنا ہی پڑے گا۔ اگر ہم نہ کریں گے تو کفار کریں گے۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ کفار اس دائرے میں ہم پر اِکْرَاہ کریں اور ہمیں جہنم کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں‘ یہ زیادہ بہتر ہے کہ ہم ان پر اِکْرَاہ کریں اور انھیں اس مقام کے قریب لاکھڑا کریں جہاں اگر وہ چاہیں تو ان کو بَہ آسانی جنت کا راستہ مل سکتا ہے۔
یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زمین کا مالک اللہ ہے۔ اس کی زمین پر رہنے اور اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے اور اس کی ملکیت میں تصرف کرنے کا حق صرف اس کو پہنچتا ہے جو اس کا مطیعِ فرمان ہو، اور اس کے قانون فطری و شرعی کا اتباع کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا وہ ظالم ہے، غاصب ہے‘ باغی ہے۔ اس کی یہ نافرمانی صرف خلافِ حق ہی نہیں، بلکہ زمین کے انتظام میں فساد اور اہلِ زمین کے لیے فتنے کی موجب بھی ہے۔ لہٰذا حق تو یہ ہے کہ جو لوگ اللہ سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کے قانون فطری و شرعی کی پیروی سے منحرف ہیں‘ ان کو زمین میں جینے کا حق بھی نہ ہونا چاہیے، لیکن یہ اللہ کی بہت بڑی عنایت اور اس کا انتہائی حلم ہے کہ وہ ان کو نہ صرف جینے کی مہلت دیتا ہے‘ بلکہ ان کو ان کے کفر‘ شرک‘ دہریت اور الحاد پر اس حد تک قائم رہنے کا اختیار بھی دیتا ہے جہاں تک ان کی بغاوت اللہ کے دوسرے بندوں کے لیے فتنہ و فساد کی موجب نہ ہوسکے، البتہ وہ اس بات کو ہرگز جائز نہیں رکھتا کہ یہ لوگ اس کے قانون شرعی کو منسوخ کرکے اپنے خود ساختہ قوانین پر اس کی زمین کا نظم و نسق چلائیں اور اس کی زمین کو فساد سے بھر دیں۔ اس لیے وہ اپنے قانون شرعی پر ایمان لانے والوں کو حکم دیتا ہے کہ کفار کو دین حق پر ایمان لانے کے لیے تو مجبور نہ کرو‘ لیکن غلبۂ کفر و کفار کے فتنے کو پوری طاقت سے مٹانے کی کوشش کرو، یہاں تک کہ زمین کا انتظام عملاً میرے ’دین‘ پر قائم ہو جائے اور جو میرے دین کو نہیں مانتے وہ ’اکابر‘ نہیں بلکہ ’اصاغر‘ بن کر رہیں: حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ۔۱۱؎
حضرت یوسف علیہ السلام اور اقتدارِ حکومت
۲۔ان حقائق کو ذہن نشین کر لینے کے بعد دوسری دلیل کا زور آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اگر حضرت یوسف علیہ السلام فی الواقع اللہ کے فرستادہ پیغمبر تھے تو یقیناً ان کی زندگی کا مشن اس ایک مشن کے سوا کچھ اور نہ ہوسکتا تھا جو ہر رسولِ برحق کا مشن رہا ہے‘ یعنی اللہ کے دین کو ہر دوسرے دین پر غالب کر دیں۔ یہ ایک اصولی حقیقت ہے جسے تمام پیغمبروں کی سیرتوں کے مختلف واقعات کی تعبیر و تفسیر میں ہم کو ایک قاعدے کلیے کے طور پر ملحوظ رکھنا ہوگا، ورنہ اگر ہم یہ مان لیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی حکومت میں ملک مصر پر اللہ کے دین کی جگہ بادشاہ کا دین نافذ کرتے تھے تب تو پھر یوسف صدیق اور سرسکندر و فضل الحق۱۲؎ میں کوئی اصولی فرق باقی نہیں رہتا۔ افسوس ہے کہ اس معاملے میں لوگ حقیقت سے بہت دور چلے گئے۔ انھوں نے دراصل قصۂ یوسف علیہ السلام کو نہیں سمجھا ہے۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے وقت کے بادشاہ سے جو کہا تھا کہ اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَائِنِ الْاَرْضِ۱۳؎ تو یہ ان کی طرف سے محض ملازمت کی ایک درخواست تھی جو دربار شاہی میں قبول ہوگئی اور ان کو وہ منصب مل گیا جو اکبر کے ہاں ٹوڈرمل کا منصب تھا۔ حالانکہ وہاں صورت حال کچھ اور ہی تھی۔
سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام نے ابتداء ً دین حق کی اقامت کے لیے وہی راستہ اختیار فرمایا تھا جو انبیاء علیہم السلام اختیار فرماتے رہے ہیں‘ یعنی پہلے دعوت عام‘ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں ان کی تربیت و تنظیم‘ پھر انھیں ساتھ لے کر اقامت دین کے لیے مجاہدہ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی اس دعوت کا سلسلہ جیل ہی میں شروع کر دیا تھا جس کے مواعظ میں سے ایک بے نظیر وعظ سورۂ یوسف کے پانچویں رکوع میں نقل کیا گیا ہے، لیکن آگے چل کر ان کے سامنے یکایک ایک ایسا موقع آگیا جس سے وہ اپنے مقصود تک مختصر راستے سے پہنچ سکتے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ عزیز مصر کی بیوی اور اس کی سہیلیوں کے معاملے میں جس پاکیزہ اور مضبوط سیرت کا اظہار ان سے ہوا تھا‘ اور پھر تعبیر خواب کے معاملے میں جس بصیرت کا ثبوت انھوں نے دیا تھا اس کی وجہ سے بادشاہِ مصر ان کا اس حدتک معتقد ہو چکا تھا کہ اگر وہ اس وقت حکمرانی کے کامل اختیارات اس سے طلب کریں تو وہ بلاتامل پیش کر دے گا۔ اس لیے انھوں نے تحریک عمومی کی راہ سے اپنا مشن پورا کرنے کے بجائے اقتدار حکومت پر فوراً قبضہ کرکے دین حق قائم کر دینے کو زیادہ قریب کا راستہ پایا اور بادشاہ سے مطالبہ کر دیا کہ اِجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِ یوسف12:55
زمین مصر کے تمام وسائل و ذرائع میرے اختیار میں دے۔
یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا‘ جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں‘ بلکہ یہ اختیار کلی کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۱۴؎ اس فرق کے ساتھ کہ اٹلی کا بادشاہ مسولینی کا معتقد نہیں‘ بلکہ محض اس کی پارٹی کے اثر سے مجبور ہے‘ اور مصر میں بادشاہ خود حضرت یوسف ؑ کا مرید ہو چکا تھا۔۱۵؎
حضرت یوسف علیہ السلام کے اقتدار کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دیتا ہے :
کَذٰلِکَ مَکَّنَّالِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ یَتَبَوَّاُ مِنْھَا حَیْثُ یَشَآئُ یوسف12:56
اس طرح ہم نے یوسفؐ کو اس سرزمین میں اقتدار بخشا۔ وہ اس کے جس حصے کو چاہتا‘ اپنی جگہ بنا سکتا تھا‘‘۔ یعنی پورا ملک اس کے قابو میں تھا۔
پھر اس کی مزید شہادت ہمیں سورۂ مائدہ میں ملتی ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں:
یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ المائدہ5:20
اے میری قوم کے لوگو! یاد کرو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا کہ تم میں انبیاء پیدا کیے تھے‘ تم کو حکمران قوم بنایا تھا اور تمھیں وہ کچھ دیا تھا جو دنیا میں کسی کو نہیں دیا گیا۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں جو اقتدار حاصل ہوا تھا‘ اس کی وجہ سے وہاں آخر کار مکمل انقلاب رونما ہوا‘ فراعنہ کے بجائے بنی اسرائیل حکمران ہوئے اور ان کو وہ عروج نصیب ہوا جو ان کی ہمسرقوموں میں کسی کو حاصل نہ تھا۔
پھر جو مذہبی اثر حضرت یوسف علیہ اسلام نے مصر میں چھوڑا اس کی شہادت ہم کو سورۂ مومن میں ملتی ہے۔ وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہم عصر فرعون کو خطاب کر کے قبطی قوم کا ایک صاحب ایمان شخص کہتا ہے:
وَلَقَدْ جَآئَکُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَآئَکُمْ بِہٖ حَتّٰی اذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًا المؤمن40:34
تمھارے پاس یوسف (علیہ السلام) روشن نشانیاں لے کر آئے تھے‘ مگر پہلے تو تم اس چیز کی طرف سے شک میں رہے جسے وہ لائے تھے اور جب وہ انتقال فرما گئے تو تم نے کہا کہ اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ (یعنی تم نے کہا کہ اس پائے کا شخص اب نہیں آسکتا۔)
حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں یہ حقیقت جاننے کے بعد کون اس سے یہ استدلال کرنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ غیر اسلامی نظام حکومت کا پُرزہ بننا برحق ہے کیونکہ ایک نبی ِ برحق ایسا کر چکا ہے۔ رہی آیت مَاکَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ ۱۶؎ جس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام فرعونی قوانین کی پابندی کرتے تھے‘ تو اگرچہ اس آیت کے مفہوم و معنی میں بہت کچھ کلام کی گنجائش ہے‘ لیکن اس کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے، اگر اسی کو تسلیم کرلیا جائے‘ تب بھی زیادہ سے زیادہ جو کچھ اس سے ثابت ہوتا ہے‘ وہ صرف اس قدر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور حکومت میں جس موقع پر یہ معاملہ پیش آیا (اور قرائن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور ہی کا واقعہ تھا کیونکہ آنجناب کے عزیز مصر ہونے کے چند ہی سال بعد وہ مشہور ہفت سالہ قحط شروع ہوا جس میں آپ کے بھائیوں کو غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر آنا پڑا تھا) اس وقت تک مصر میں فوجداری قانون وہی رائج تھا جو پہلے سے چلا آرہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک ملک کے نظام تمدن کو آنِ واحد میں نہیں بدلا جاسکتا۔ یہ کام بہرحال تدریج ہی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی عرب کے نظام تمدن کو بدلتے بدلتے دس سال لگ گئے تھے۔ وراثت کا قانون ۳ھ یا ۴ھ میں بدلا گیا۔ نکاح و طلاق کے قوانین ہجرت کے بعد پانچ چھ سال میں مکمل طور پر نافذ کیے گئے۔ فوج داری قوانین کی تکمیل میں پورے آٹھ سال لگ گئے۔ ملک کا معاشی نظم بتدریج ۹ سال میں بدلا گیا۔ شراب کا قطعی انسداد ۸ھ میں ہوا اور سود کی کلی ممانعت ۹ھ میں کی گئی۔ اسی طرح اگر حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی ملک کے قوانین بدلنے میں تدریج سے کام لیا ہو، اور ایک خاص وقت تک ان کے زمانۂ حکومت میں سابق قوانین جاری رہے ہوں تو کیا اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ایک پیغمبر خدا کے سوا دوسروں کے جاہلی قوانین کو جائز سمجھ کر ان کی پابندی کرتا تھا۔
۳۔ رہی تیسری دلیل تو اسے دراصل دلیل کے بجائے عذر کہنا چاہیے۔ اس عذر کا جواب ہم پہلے دے چکے ہیں۔ لہٰذا یہاں صرف ایک حدیث سنانے پر اکتفا کرتے ہیں جسے ابودائود نے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَالْجِھَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِی اللّٰہُ اَنْ یُّقَاتِلَ اٰخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ الدَّجَّالَ لَایُبْطِلُہ‘ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ (ابودائود‘ باب فی الغزو مع ائمۃ الجور ،مشکوۃ کتاب الکبائر و علامات النفاق)
اور جہاد میری بعثت کے وقت سے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب کہ اس امت کا آخری گروہ دجال سے جنگ کرے گا۔ نہ کسی ظالم کا ظلم اسے باطل کرسکتا ہے اور نہ کسی عادل کا عدل۔
یعنی جہاد کو نہ اس عذر کی بنا پر بند کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت بڑے جبابرہ ہم پر مسلط ہیں، نہ اس بات کو جہاد نہ کرنے کے لیے بہانہ بنایا جاسکتا ہے کہ حکومت اگرچہ کفار کی ہے مگر ہم کو امن نصیب ہے اور ہمارے ساتھ انصاف ہو رہا ہے، اور نہ مسلمانوں کے لیے یہ جائز ہے کہ اگر ان کے اپنے ملک میں عدل کا دور دورہ ہو تو وہ مطمئن ہو کر بیٹھ رہیں اور باہر کی دنیا میں جو ظلم و فساد برپا ہو‘ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔

شیئر کریں