سوال: قرآن مجید میں ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo
النساء 59:4
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو‘ اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک اچھا طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں فرمایا ہے:
وہ بات جو آیت زیر بحث میں مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسولؐ کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے پر بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِ تسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظام زندگی سے ممیز کرتی ہے۔
آپ کی اس تشریح سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ سارے نزاعی امور میں آخری اور فیصلہ کن چیز اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام ہیں۔ اس ضمن میں ایک الجھن یہ پیش آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں تو یہ بالکل ممکن تھا کہ جس وقت کوئی اختلاف رائے ہوا ،اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کر لیا‘ لیکن اب جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود نہیں، بلکہ صرف ان کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں‘ اس وقت اگر اسلام کے کسی حکم کی تعبیر کا مسئلہ درپیش ہو تو ایک اسلامی نظام میں کس شخص یا ادارے کو اس امر کا فیصلہ کرنے کا آخری اختیار حاصل ہوگا کہ اس باب میں منشائے شریعت کیا ہے۔ امید ہے آپ اس معاملے میں رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں گے۔
جواب:
قرآن کی اصولی ہدایات
اس سوال میں جس الجھن کا ذکر کیا گیا ہے اس کو رفع کرنے میں قرآن‘ سنت‘ دور صحابہ کا تعامل‘ عقل عام اور دنیا کا معروف طریق کار‘ سب مل جل کر ہماری مدد کرتے ہیں۔ سب سے پہلے قرآن کو دیکھیے۔ وہ اس معاملے میں تین اصولی ہدایات دیتا ہے:
اول یہ کہ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo النحل 43:16
اگر تم علم نہیں رکھتے تو اہل الذکر سے پوچھ لو۔
اس آیت میں ’اہل الذکر‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔ ذکر کا لفظ قرآن کی اصطلاح میں مخصوص طور پر اس سبق کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے کسی امت کو دیا ہو اور اہل الذکر صرف وہ لوگ ہیں جنھیں یہ سبق یاد ہو۔ اس لحاظ سے محض علم (knowledge)مراد نہیں لیا جاسکتا‘ بلکہ اس کا اطلاق لازماً علم کتاب و سنت ہی پر ہوسکتا ہے۔ لہٰذا یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرے میں مرجعیت کا مقام ان لوگوں کو حاصل ہونا چاہیے جو کتابِ الٰہی کا علم رکھتے ہوں اور اس طریقے سے باخبر ہوں جس پر چلنے کی تعلیم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
دوم یہ کہ:
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖۭ وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ النساء 83:4
اور جب کبھی امن یا خوف سے تعلق رکھنے والا کوئی اہم معاملہ ان کو پیش آتا ہے تو وہ اس کو پھیلا دیتے ہیں‘ حالانکہ اگر وہ اس کو رسولؐ تک اور اپنے اولی الامر تک پہنچاتے تو اس کی کنہ جان لیتے وہ لوگ جو ان کے درمیان اس کی کنہ نکال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ معاشرے کو پیش آنے والے اہم معاملات میں‘ خواہ وہ امن کی حالت سے تعلق رکھتے ہوں یا جنگ کی حالت سے‘ غیر اندیش ناک نوعیت کے ہوں‘ یا اندیش ناک نوعیت کے‘ ان میں صرف وہی لوگ مرجع ہوسکتے ہیں جو مسلمانوں کے درمیان اولی الامر ہوں‘ یعنی جن پر اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمے داری عائد ہوتی ہو‘ اور جواستنباط کی صلاحیت رکھتے ہوں‘ یعنی پیش آمدہ معاملے کی حقیقت بھی معلوم کرسکتے ہوں اورکتاب اللہ و طریق رسول اللہ سے بھی دریافت کرسکتے ہوں کہ اس طرح کی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے۔ یہ آیت اجتماعی مہمات اور معاشرے کے لیے اہمیت رکھنے والے معاملات میں عام اہل الذکر کے بجائے ان لوگوں کو مرجع قرار دیتی ہے جو اولی الامر ہوں۔ لیکن بہرحال ان کو بھی ہونا چاہیے اہل الذکر ہی میں سے‘ کیونکہ وہی اس قابل ہوسکتے ہیں کہ جس قضیے سے ان کو سابقہ پڑا ہے اس میں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی قولی و عملی ہدایات کو نگاہ میں رکھ کر صحیح رائے قائم کرسکیں۔
سوم یہ کہ: اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ۔ الشورٰی 38:42
ان کاکام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا آخری فیصلہ کس طرح ہونا چاہیے۔
ان تین اصولوں کو جمع کرکے دیکھا جائے تو تمام نزاعات میں فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پورا کرنے کی عملی صورت یہ سامنے آتی ہے کہ لوگوں کو اپنی زندگی میں عموماً جو مسائل پیش آئیں ان میں وہ اہل الذکر سے رجوع کریں اور وہ انھیں بتائیں کہ ان معاملات میں خدا اور رسولؐ کا حکم کیا ہے۔ رہے مملکت اور معاشرے کے لیے اہمیت رکھنے والے مسائل‘ تو وہ اولی الامر کے سامنے لائے جائیں اور وہ باہمی مشاورت سے یہ تحقیق کرنے کی کوشش کریں کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے کیا چیز زیادہ سے زیادہ قرین حق و صواب ہے۔
عہد رسالتؐ میں رفعِ نزاع کا طریقہ
اب دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ کے دور میں عمل درآمد کیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں جو معاملات براہ راست آپؐ تک پہنچتے تھے، ان میں تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا بتانے والے اور اس کے مطابق نزاعات کا فیصلہ کرنے والے آپؐ خود تھے، لیکن ظاہر بات ہے کہ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلی ہوئی آبادی کو جو معاملات پیش آتے تھے وہ سب کے سب براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تک نہیں پہنچائے جاتے تھے اور نہ آپؐ ہی سے شخصًا ان کا فیصلہ حاصل کیا جاتا تھا۔ اس کے بجائے مملکت کے مختلف علاقوں میں آپؐ کی طرف سے معلمین مامور تھے جو لوگوں کو دین سکھاتے تھے اور عام لوگ اپنے روزمرہ کے معاملات میں انھی سے معلوم کرتے تھے کہ کتاب اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طریقے کی تعلیم دی ہے۔ اس کے علاوہ ہر علاقے میں امیر‘ عامل اور قاضی مقرر تھے جو اپنے اپنے دائرۂ عمل سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیش تر معاملات کے خود فیصلے کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کے لیے فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پورا کرنے کا جو طریقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پسند فرمایا تھا وہ حضرت معاذؓ بن جبل کی مشہور حدیث میں بیان ہوا ہے:
اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مَعَاذًا اِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ کَیْفَ تَقْضِیْ قَالَ اَقْضِیْ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللہِ قَالَ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللہِ قَالَ فَبِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ قَالَ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ قَالَ اَجْتَھِدُ بِرَاْیِیْ قَالَ الْحَمْدُ للّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِمَا یَرْضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اللہِ۔ ۱۹۷؎
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف قاضی بنا کر روانہ کیا تو ان سے پوچھا تم کس طرح فیصلے کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا: اس ہدایت کے مطابق جو اللہ کی کتاب میں ہے۔ فرمایا: اگر کتاب اللہ میں نہ ملے۔ عرض کیا: پھر جو سنت رسول اللہ میں ہو۔ فرمایا: اگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ملے۔ عرض کیا: میں اپنی رائے سے (حق و صواب تک پہنچنے کی) پوری کوشش کروں گا۔ اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شکر ہے اس خدا کا جس نے رسولؐ اللہ کے فرستادہ شخص کو وہ طریقہ اختیار کرنے کی توفیق دی جو رسولؐ اللہ کو پسند ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں شوریٰ کے نظام کی بنا بھی ڈال دی تھی اور ہر ایسے معاملے میں جس کے متعلق آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص حکم نہ ملا ہو، آپؐ معاشرے کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ اس کی ایک نمایاں مثال وہ مشاورت ہے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے پر فرمائی تھی کہ لوگوں کو نماز کے اوقات پر جمع کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور جس کے نتیجے میں بالآخر اذان کا طریقہ آپؐ نے مقرر فرمایا۔
خلافت ِ راشدہ کا تعامل
قریب قریب یہی طریق کار عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافتِ راشدہ میں جاری رہا۔ فرق صرف یہ تھا کہ عہد رسالت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود موجود تھے، اس لیے معاملات کا آخری فیصلہ آپ سے شخصًا حاصل کیا جاسکتا تھا اور بعد کے دور میں مرجع آپؐ کی ذات نہ رہی، بلکہ وہ روایات ہوگئیں جو آپؐ کی سنت کے متعلق لوگوں کے پاس محفوظ تھیں۔ اس دور میں تین ادارے الگ الگ پائے جاتے تھے، جو اپنے اپنے مقام و موقف کے لحاظ سے فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ کا منشا پورا کرتے تھے:
۱۔ عام اہلِ علم جو کتاب اللہ کو جانتے تھے اور جن کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں یا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق عمل یا حضور اکرم کی تقریر۱۹۸؎ کے بارے میں کوئی علم موجود تھا، ان سے صرف عوام الناس ہی اپنی زندگی کے معاملات میں فتوے نہیں لیتے تھے بلکہ خود خلفائے راشدین کوبھی جب کسی مسئلے کا فیصلہ کرنے میں یہ معلوم کرنے کی ضرورت پیش آتی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی حکم دیا ہے یا نہیں‘ تو انھی لوگوں کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ خلیفۂ وقت نے علم نہ ہونے کی وجہ سے ایک مسئلے کا فیصلہ اپنی رائے سے کر دیا ہے اور بعد میں جب معلوم ہوا ہے کہ اس معاملے میں کوئی دوسری بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے تو اس فیصلے کو بدل دیا ہے۔ ان اہلِ علم کی موجودگی کا فائدہ صرف یہی نہ تھا کہ فردًافردًاوہ عوام اور اولی الامر کے لیے ایک ذریعۂ علم کاکام دیتے تھے‘ بلکہ اس سے بڑھ کر ان کا عظیم تر فائدہ یہ تھا کہ مجموعی طور پر وہ اس بات کی ضمانت تھے کہ کوئی عدالت اور کوئی حکومت اور کوئی مجلس شوریٰ کتاب اللہ و سنت رسولؐ اللہ کے خلاف فیصلہ نہ کرسکے۔ ان کی مضبوط رائے عام نظام اسلامی کی پشت پناہ تھی۔ ہر غلط فیصلے کو ٹوکنے کے لیے اُن کا چوکنّا رہنا نظام کے صحیح چلنے کا ضامن تھا۔کسی مسئلے میں ان کا اتفاق رائے اس بات کی دلیل تھا کہ اس مسئلۂ خاص میں دین کی راہ متعین ہے جس سے ہٹ کر فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور ان کا اختلاف رائے یہ معنی رکھتا تھا کہ اس مسئلے میں دو یا زیادہ اقوال کی گنجائش ہے، اگرچہ فیصلہ ایک ہی قول پر ہوچکا ہو۔ ان کی موجودگی میں یہ ممکن نہ تھا کہ امت کے اندر کوئی بدعت قبول عام حاصل کرلے جائے‘ کیونکہ ہر طرف دین کے جاننے والے لوگ اس پر گرفت کرنے کے لیے موجود تھے۔
۲۔ قضاء یعنی عدلیہ جس کے ضابطے کی وضاحت حضرت عمرؓ نے قاضی شریح کے نام اپنے ایک فرمان میں اس طرح کی ہے:
اِقْضِ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللہِ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللہِ فَبِسُنَّۃِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللہِ وَلَافِیْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاقْضِ بِمَا قَضٰی بِہِ الصَّالِحُوْنَ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللہِ وَلاَ فِیْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ وَلَمْ یَقْضِ بِہِ الصَّالِحُوْنَ فَاِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ وَاِنْ شِئْتَ فَتَاَخَّرْ وَلَااَرَی التَّاَخُّرَ اِلاَّ خَیْرًا لَّکَ وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔
(النسائی، کتاب آداب القضاۃ)
فیصلہ اس حکم پر کرو جو کتاب اللہ میں ہو‘ اگر کتاب اللہ میں نہ ہو تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر‘ اگر نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو پھر صالحین نے جو فیصلے کئے ہوں ان کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر کسی معاملے کا حکم نہ کتاب اللہ میں ملتا ہو، اور نہ سنت رسول اللہ میں اور نہ صالحین کے فیصلوں میں اس کے متعلق کوئی نظیر موجود ہوتو تمھیں اختیار ہے چاہے خود پیش قدمی کرو یا رک جائو‘ اور میرے نزدیک رک جانا تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے۔۱۹۹؎
اسی ضابطے کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
قَدْ اَتٰی عَلَیْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِیْ وَلَسْنَا ھُنَالِکَ ثُمَّ اِنَّ اللہَ عَزَّوَجَلَّ قَدَّرَعَلَیْنَا اَنْ بَلَغْنَا مَاتَرَوْنَ فَمَنْ عُرِضَ لَہ‘ مِنْکُمْ قَضَائً بَعْدَ الْیَوْمِ فَلْیَقْضِ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللہِ فَاِنْ جَائَ اَمْرٌ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللہِ فَلْیَقْضِ بِمَا قَضٰی بِہٖ نَبِیُّہ‘صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاِنْ جَائَ اَمْرٌ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللہِ وَلاَ قَضٰی بِہٖ نَبِیُّہ‘ فَلْیَقْضِ بِمَا قَضٰی بِہِ الصَّالِحُوْنَ فَاِنْ جَائَ اَمْرٌ لَیْسَ فِیْ کِتَابِ اللہِ وَلَا قَضٰی بِہٖ نَبِیُّہ‘صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضٰی بِہِ الصَّالِحُوْنَ فَلْیَجْتَھِدْ بِرَأْیِہٖ وَلَا یَقُوْلُ اِنِّیْ اَخَافُ وَاِنِّیْ اَخَافُ فَاِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَالْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَ ذٰلِکَ اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ فَدَعْ مَا یُرِ یْبُکَ اِلٰی مَالَایُرِیْبُکَ۔ (النسائی‘ کتاب مذکور)
وہ زمانہ گزر چکا ہے جب ہم نہ فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہماری یہ حیثیت تھی کہ فیصلے کریں (یعنی سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا دور)۔ اب تقدیر الٰہی سے ہم اس حالت کو پہنچے ہیں جو تم لوگ دیکھ رہے ہو۔ پس اب تم میں سے جس کے سامنے کوئی معاملہ فیصلے کے لیے پیش ہو تو اسے چاہیے کہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرے اور اگر کوئی ایسا معاملہ آجائے جس کا حکم کتاب اللہ میں نہ ہو تو اس کا فیصلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق کرے اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ اس کا حکم نہ کتاب اللہ میں ہو اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ فرمایا ہو تو صالحین نے اس کا جو فیصلہ کیا ہو اس کی پیروی کرے۔ لیکن اگر ایک معاملہ ایسا آجائے جو نہ کتاب اللہ میں ہو‘ نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں میں، نہ صالحین نے اس سے پہلے کبھی اس کا فیصلہ کیا ہو‘ تو اپنی رائے سے (حق و صواب تک پہنچنے کی) پوری کوشش کرے اور یہ نہ کہے کہ میں ڈرتا ہوں‘ میں ڈرتا ہوں‘ کیونکہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح اور ان دونوں کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں۔ سو مشتبہ امور میں آدمی کو وہ فیصلہ کرنا چاہیے جو اس کے ضمیر کو نہ کھٹکے اور ایسا فیصلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس کے متعلق خود اس کے ضمیر میں کھٹک ہو۔
یہ عدلیہ صرف عوام ہی کے باہمی نزاعات کا فیصلہ کرنے کی مجاز نہ تھی‘ بلکہ انتظامیہ (executive)کے خلاف بھی وہ لوگوں کے دعاوی سنتی اور ان کے فیصلے کرتی تھی۔ اس کے سامنے حاضر ہونے سے نہ کوئی گورنر مستثنیٰ تھا نہ خود خلیفۂ وقت۔ اسی طرح انتظامیہ کے بڑے سے بڑے شخص‘ حتیٰ کہ خلیفۂ وقت کو بھی اور خود حکومت کو بھی اگرکسی کے خلاف کوئی ذاتی یا سرکاری دعویٰ ہوتا تھا تو اسے عدالت میں جانا ہوتا تھا اور عدالت ہی یہ طے کرتی تھی کہ خدا اور رسولؐ کے قانون کی رُو سے اس کا صحیح فیصلہ کیا ہے۔
۳۔ اولی الامر‘ یعنی خلیفہ اور اس کی مجلس شوریٰ۔ یہ وہ آخری بااختیار ادارہ تھا جو قرآن کی ہدایت کے مطابق باہمی مشورے سے یہ طے کرتا تھا کہ معاشرے اور مملکت کو پیش آنے والے مختلف معاملات میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا حکم ثابت ہے اور کسی معاملے کا حکم کتاب و سنت میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں کون سا طرز عمل دین کے اصول اور اس کی روح اور جماعتِ مسلمین کی مصلحت کے لحاظ سے اقرب الی الصواب ہے۔ اس ادارے کے بکثرت فیصلے احادیث وآثار اور فقہ کی کتابوں میں مستند ذرائع سے نقل ہوئے ہیں اور اکثر و بیش تر کے ساتھ وہ تفصیلی بحثیں بھی منقول ہوئی ہیں جو فیصلہ کرتے وقت صحابہؓ کی مجلس میں ہوئی تھیں۔ ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ادارہ پوری سختی کے ساتھ جس قاعدے کلیے کی پابندی کرتا تھا وہ یہ تھا کہ ہر معاملے میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے‘ پھر یہ معلوم کیا جائے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاملہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا ہے تو آپؐ نے اس کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے اور اپنی صواب دید پر صرف اس صورت میں فیصلہ کیا جائے جب کہ یہ دونوں ماخذِ ہدایت خاموش ہوں۔ جس معاملے میں بھی اللہ کی کتاب سے کوئی آیت یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے کوئی نظیر ان کو مل گئی ہے‘ اس میں کبھی انھوں نے اس سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پورے دور صحابہؓ میں اس قاعدے کے خلاف ایک مثال بھی ہم کو نہیں ملتی۔ اگرچہ عملاً مملکت میں آخری فیصلے کے اختیارات اولی الامر ہی کو حاصل تھے‘ لیکن قانوناً وہ قرآن اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری فیصلہ کن سند تسلیم کرتے تھے اور مسلم معاشرہ بھی ان کے اقتدار کی اطاعت اسی اطمینان و اعتماد کی بنا پر کرتا تھا کہ وہ اپنے فیصلوں میں قرآن و سنت کی پیروی سے تجاوز نہ کریں گے۔ ان میں سے کسی کے ذہن میں یہ وہم و گمان تک نہ تھا کہ وہ نصِ قرآن کے خلاف کوئی قانون بنانے یا حکم دینے کے مجاز ہیں۔ اسی طرح کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی اس تصور نے کبھی راہ نہیں پائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے کے صاحب امر تھے اور ہم اپنے زمانے کے صاحب امر ہیں، ہم اس کے پابند نہیں ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور حکومت میں جو احکام دیے ہوں ان کے نظائر کی پیروی کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کا ادارہ جس روز وجود میں آیا اسی روز خلیفۂ اول نے اپنے خطبے میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ:
اَطِیْعُوْنِیْ مَا اَطَعْتُ اللہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَاِنْ عَصَیْتُ اللہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَلاَ طَاعَۃَ لِیْ عَلَیْکُمْ۔
میری اطاعت کرو جب تک کہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتا رہوں، اور اگر میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو میرے لیے کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔
اس اعلان سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ خلافت کا یہ ادارہ قائم ہی اس معاہدے پر ہوا تھا کہ خلیفہ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اور امت خلیفہ کی اطاعت کرے گی۔ دوسرے الفاظ میں امت پر خلیفہ کی اطاعت اس شرط کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ خدا اور رسولؐ کے احکام کی پیروی کرے گا۔ اس شرط کے فوت ہوتے ہی امت پر سے خلیفہ کی اطاعت کا فریضہ آپ سے آپ ساقط ہو جاتا تھا۔
عقلِ عام کا تقاضا
اس کے بعد ذرا عقل عام سے کام لے کر دیکھیے کہ قرآن مجید کی آیت زیر بحث کا منشا کیا ہے اور اس کے تقاضے عملاً کس طرح پورے ہوسکتے ہیں۔
یہ آیت پورے مسلم معاشرے کو خطاب کرکے اسے علی الترتیب تین اطاعتوں کا ملتزم قراردیتی ہے۔ پہلے خدا کی‘ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی‘ پھر ان اُولی الامر کی جو خود اس معاشرے میں سے ہوں، اور نزاعات کے بارے میں ہدایت کرتی ہے کہ فیصلے کے لیے خدا اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو۔ اس سے آیت کا جو منشا ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے پر اصل اطاعت خدا اور رسولؐ کی واجب ہے‘ اُولی الامر کی اطاعت خدا اور رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ نزاع صرف عوام کے درمیان ہی نہیں، عوام اور اولی الامر کے درمیان بھی ہوسکتی ہے‘ اور نزاع کی تمام صورتوں میں آخری فیصلہ کُن اقتدار اُولی الامر کا نہیں،بلکہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ان کا جو حکم بھی ہو، اس کے آگے عوام کو بھی سرجھکا دینا چاہیے اور اُولی الامر کو بھی۔
اب پہلا سوال یہ ہے کہ فیصلے کے لیے خدا اور رسولؐ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا خود سامنے موجود ہو اور اس کے حضور مقدمہ پیش کرکے فیصلہ حاصل کیا جائے‘ بلکہ اس سے مراد خدا کی کتاب سے یہ معلوم کرنا ہے کہ معاملہ متنازع فیہ میں اس کا حکم کیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ ذات رسولؐ سے براہ راست رجوع کیا جائے‘ بلکہ لامحالہ اس کا مطلب بھی یہی ہوسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپؐ کے قول و عمل سے ہدایت حاصل کی جائے۔ یہ بات تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ممکن نہ تھی کہ عدن سے لے کر تبوک تک‘ اور بحرین سے لے کر جدے تک ساری مملکت اسلامیہ کا ہر باشندہ اپنے ہر معاملے کا فیصلہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کراتا ہو۔ اس زمانے میں بھی سنت رسولؐ ہی کو احکام کا ماخذ ہونا چاہیے تھا۔
اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہے کہ نزاعات میں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت سے فیصلہ حاصل کرنے کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ یہ فیصلہ انسان ہی دیں گے‘ کتاب اور سنت خود تو نہیں بولیں گے۔ لیکن لامحالہ یہ انسان وہی ہونے چاہییں جن کے پاس کتاب و سنت کا قابلِ اعتماد علم ہو، اور کتاب و سنت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے والے بہرحال نزاع کے فریقین خود نہیں ہوسکتے‘ ان کے سوا کوئی تیسرا غیر جانب دار شخص یا ادارہ ایسا ہونا چاہیے جو ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ اب یہ بات نزاعات کی نوعیت پر منحصر ہے کہ کس قسم کی نزاع میں فیصلہ دینے کے لیے کون موزوں ہوسکتا ہے۔ ایک قسم کی نزاع ایسی ہے جس کا فیصلہ ہر ذی علم آدمی کرسکتا ہے۔ دوسری قسم کی نزاع لازماً ایک عدالت چاہتی ہے، اور بعض نزاعات اپنی نوعیت ہی کے لحاظ سے ایسی ہیں کہ ان کا حتمی فیصلہ اولی الامر کے سوا کوئی اور نہیں کرسکتا، مگر ان سب صورتوں میں فیصلے کا ماخذ کتاب و سنت ہی کو ہونا چاہیے۔
یہ وہ بات ہے جو عقلِ عام کی مدد سے آیت کے الفاظ پر غور کرکے ہر شخص سمجھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے ذہن میں کوئی ایچ پیچ نہ ہو۔ اب ایک نظریہ بھی دیکھ لیجیے کہ دنیا کا معروف طریقہ اس آیت کے تجویز کردہ نظام اور اس کی عملی صورت کے سمجھنے میں ہماری کیا مدد کرتا ہے۔ دنیا میں آج قانون کی حکومت (rule of law)کا بڑا چرچا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں انصاف کے قیام کے لیے قانون کی بالاتری ناگزیر ہے جس کے آگے بڑے اور چھوٹے سب یکساں ہوں اور جسے عامی اور حاکم اور خود حکومت پر بے لاگ طریقے سے نافذ کیا جائے۔ اس قانون کو چاہے ایک پارلیمنٹ ہی بنائے‘ مگر جب وہ قانون بن جائے تو جب تک وہ قانون ہے خود پارلیمنٹ کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس حاکمیت قانون کے نظریے کو جہاں بھی عملی جامہ پہنایا گیا ہے وہاں لازماً چار چیزوں کا ہونا ضروری سمجھا گیا ہے:
٭ ایک: ایسا معاشرہ جو قانون کا احترام کرنے والا ہو، اور اس کی پیروی کا حقیقی ارادہ رکھتا ہو۔
٭ دوسرے‘ معاشرے میں بکثرت ایسے لوگوں کا پایا جانا جو قانون کو جانتے ہوں‘ لوگوں کو قانون کی پیروی میں مدد دے سکتے ہوں، اور جن کا مجموعی علم اور رسوخ و اثر اس بات کا ضامن ہو کہ نہ معاشرہ قانون کی راہ سے ہٹ سکے اور نہ سیاسی اقتدار کو اس سے ہٹنے کی جرأت ہوسکے۔
٭ تیسرے: ایک بے لاگ عدلیہ جو عوام اور حاکم اور حکومت کی باہمی نزاعات میں قانون کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلے کرے۔
٭ چوتھے: ایک بلند ترین اختیارات رکھنے والا ادارہ جو معاشرے کو پیش آنے والے تمام مسائل و معاملات کا آخری حل تجویز کرے اور وہی حل معاشرے میں قانون کی حیثیت سے نافذ ہو۔
ان حقائق کو نگاہ میں رکھ کر جب آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ قرآن مجید کی زیر بحث آیت دراصل اسلامی معاشرے میں قانون کی فرماںروائی ہی قائم کرتی ہے اور اس پر عمل درآمد کے لیے وہی چار چیزیں درکار ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ وہ جس قانون کی فرماںروائی قائم کرتی ہے وہ فی الواقع اس کا مستحق ہے اور دنیا میں جن قوانین کی بالاتری قائم کی جاتی ہے وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔ وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کو بالاتر قانون قرار دیتی ہے جس کے آگے سب کو سرتسلیم خم کر دینا چاہیے اور جس کے تابع ہونے میں سب یکساں ہوں۔ اس کا مخاطب ایک ایسا معاشرہ ہے جو اس قانون پر ایمان لائے اور اپنے قلب و ضمیر کے تقاضے سے اس کی اطاعت کرے۔ اس کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں اہل الذکر کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی ہو جن کی مدد سے افرادِ معاشرہ اپنی زندگی کے معاملات میں ہر جگہ ہر وقت اس بالاتر قانون کی رہنمائی حاصل کرتے رہیں اور جن کے ذریعے سے رائے عام اس نظام کی حفاظت کے لیے ہمیشہ بیدار رہے۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ایک نظامِ عدالت موجود ہو جو عوام ہی کے درمیان نہیں، بلکہ عوام اور ان کے حاکموں کے درمیان بھی بالاتر قانون کے مطابق فیصلے کرے اور وہ اولی الامر کے ایک ایسے ادارے کی طالب بھی ہے جو خود اس بالاتر قانون کا تابع ہو، اور معاشرے کی اجتماعی ضروریات کے لیے اس کی تفسیر و تعبیر اور اس کے تحت اجتہاد کے آخری اختیارات استعمال کرے۔