قرآن اس دنیا میں انسان کے صحیح مقام اور زندگی کے متعلق اس کے پورے نظریے کو ایک آیت میں بیان کرتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ وَ الْقُرْاٰنِ وَ مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَ ذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۔ التوبۃ9:111
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور مارتے مرتے ہیں۔ ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے‘ تورات اور انجیل اور قرآن میں، اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں منائو اپنے سودے پر جو تم نے اللہ سے چکا لیا ہے۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہاں ایمان کے اس معاملے کو جو اللہ اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبیعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال اللہ کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضے میںاللہ کی طرف سے اس وعدے کو قبول کرلیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بَیع کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے۔
جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے‘ اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے‘ کیونکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرُّف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خریدو فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے‘ نہ کوئی چیز اللہ کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے، لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیتاً اس کے حوالے کر دیا ہے اور وہ ہے اس کا اختیار‘ یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادے میں آزاد ہونا (free will and freedom of choice)۔اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خود مختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے، ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں‘ مالک ہوگیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ اللہ کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود ہی اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر اللہ کے حقوق مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے، ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرلے کہ وہ اللہ سے بے نیاز ہو کر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب منشا تصرّف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے اللہ اُسے خریدنا چاہتا ہے، بلکہ اس معاملے کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے‘ اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت (نہ کہ بہ مجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے اور زندگی بھر اس میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں، بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر تو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خود مختاری کو (جو تیری حاصل کردہ نہیں، بلکہ میری عطا کردہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورت جنت ادا کروں گا۔ جو انسان اللہ کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کرلے‘ وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے اور جو شخص اس سے انکار کر دے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے‘ وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔
بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تضمّنات کا تجزیہ کیجیے:
۱۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنےاللہ پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے، بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملے گی‘ جس کے ادا کرنے کا اللہ کی طرف سے وعدہ ہے‘ اس کے عوض اپنی آج کی خود مختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے۔
۲۔ دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اُس کی رُو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے، لیکن اللہ کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خود مختاری کو اللہ کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادّعائے ملکیت سے کلیتاً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو، اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو، لیکن اپنے جسم و جان کا‘ اپنے دل و دماغ اور بدن کی قوتوں کا‘ اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو، اور ان میں اپنے حسبِ منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو‘ تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے‘ مگر اللہ کے ہاں یقیناً وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا، کیونکہ اس نے اللہ کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رُو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں اللہ کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا‘ یہ دونوں طرز عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مُدعیِ ایمان نے یا تو جان و مال کو اللہ کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔
۳۔ ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں اللہ پر ایمان لایا ہو‘ اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویّے میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا، اِلاَّیہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع کو بھول کر کوئی خود مختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ اہلِ ایمان سے مرکب ہو، وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی‘ کوئی سیاست‘ کوئی طرز تمدن و تہذیب‘ کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ اللہ کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کرسکتا اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تَنَبُّہ ہوگا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئے گا۔ اللہ سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں، بہرحال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے۔ خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’مسلمان‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’غیر مسلم‘ کے نام سے۔
۴۔ اس بیع کی رُو سے اللہ کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں، بلکہ وہ مرضی ہے جو اللہ خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو اللہ کی مرضی ٹھیرا لینا اور اس کا اتباع کرنا اللہ کی مرضی کا اتباع نہیں‘ بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدۂ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ اللہ کے ساتھ اپنے معاہدۂ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا پورا رویۂ زندگی اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر علیہ السلام کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔
یہ اس بیع کے تضمنات ہیں اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملے میں قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا نفس و مال اللہ کے ہاتھ بیچ دیا‘‘ بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور اللہ کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے۔‘‘ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اُس وقت ہوگی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحے تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ اَزرُوئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔
ان امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اس میں ان لوگوں کا ذکر تھا جنھوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا‘ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر‘ بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے اللہ اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت‘ اپنے مال‘ اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویے پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جارہا ہے کہ وہ ایمان جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے‘ محض یہ مان لینے کانام نہیں ہے کہ اللہ ہے اور وہ ایک ہی ہے‘ بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ اللہ ہی تمھارے نفس اور تمھارے مال کا مالک ہے۔ پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اس نفس و مال کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے سے جی چراتے ہو اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو اللہ کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو‘ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال اللہ کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انھیں بے دریغ قربان کرتے ہیں اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ ساجز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ تورات اور انجیل میں موجود نہیں ہے، مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں، ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں‘ مثلاً:
۱۔ مبارک ہیں وہ جو راست بازی کے سبب ستائے گئے ہیں‘ کیونکہ آسمان کی بادشاہت انھی کی ہے۔ (متی ۵:۱۰)
۲۔ جوکوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا۔ (متی۱۰: ۳۹)
۳۔ جس کسی نے گھروں‘ یا بھائیوں‘ یا بہنوں‘ یا باپ‘ یا ماں‘ یا بچوں‘ یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سوگنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا۔ (متی۱۹: ۲۹)
البتہ تورات جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا اور یہی مضمون کیا‘ وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جزو لَایَنْفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ تورات میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں ہے کہ واقعی تورات اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادہ پرست اور دنیا کی خوش حالی کے بھوکے ہوگئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الٰہی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انھوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر تورات میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے:
۱۔ سن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر۔ (استثناء۶: ۴‘۵)
اور یہ کہ:
۲۔ کیا وہ تمھارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا۔ (استثناء ۳۲:۶)
لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اس ملک کے مالک ہو جائو گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے‘ یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو پوری نہیں ہے اور پھر وہ خالص کلام الٰہی پر بھی مشتمل نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام اللہ کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات‘ ان کے نسلی تعصبات‘ ان کے اوہام‘ ان کی آرزوئوں اور تمنائوں‘ ان کی غلط فہمیوں اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلۂ عبارت میں کلام الٰہی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو ان زوائد سے ممیز کرنا قطعاً غیر ممکن ہو جاتا ہے۔۳۷؎