Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں

یہاں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ تاریخ سے اس کی مثالیں زیادہ تفصیل کے ساتھ دی جا سکیں مگر توضیحِ مدعا کے لیے دو چارمثالیں ناگزیر ہیں:
۱۔ یونان
اقوامِ قدیمہ میں سے جس قوم کی تہذیب سب سے زیادہ شان دار نظرآتی ہے وہ اہلِ یونان ہیں۔ اس قوم کے ابتدائی دَور میں اخلاقی نظریہ، قانونی حقوق اور معاشرتی برتائو ہر اعتبار سے عورت کی حیثیت بہت گری ہوئی تھی۔ یونانی خرافیات (mythology) میں ایک خیالی عورت پانڈورا (Pandora) کو اسی طرح تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا تھا جس طرح یہودی خرافیات میں حضرت حوا علیہا السلام کو قرار دیا گیا ہے۔ حضرت حوا کے متعلق اس غلط افسانے کی شہرت نے عورت کے بارے میں یہودی اور مسیحی اقوام کے رویے پر جو زبردست اثر ڈالا ہے اور قانون، معاشرت، اَخلاق، ہر چیز کو جس طرح متاثر کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قریب قریب ایسا ہی اثر پانڈورا کے توہم کا یونانی ذہن پر بھی ہوا تھا ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنیٰ درجہ کی مخلوق تھی۔ معاشرت کے ہر پہلو میں اس کا مرتبہ گرا ہوا رکھا گیا تھا اور عزت کا مقام مرد کے لیے مخصوص تھا۔
تمدنی ارتقا کے ابتدائی مراحل میں یہ طرزِ عمل تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ برقرار رہا۔ تہذیب اور علم کی روشنی کا صرف اتنا اثر ہوا کہ عورت کا قانونی مرتبہ تو جوں کا توں رہا۔ البتہ معاشرت میں اسے نسبتاً ایک بلند تر حیثیت دے دی گئی۔ وہ یونانی گھر کی ملکہ تھی۔ اس کے فرائض کا دائرہ گھر تک محدود تھا۔ اور ان حدود میں وہ پوری طرح بااقتدار تھی۔ اس کی عصمت ایک قیمتی چیز تھی جسے قدروعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ شریف یونانیوں کے ہاں پردے کا رواج تھا۔ ان کے گھروں میں زنان خانے مردان خانوں سے الگ ہوتے تھے۔ ان کی عورتیں مخلوط محفلوں میں شریک نہ ہوتی تھیں۔ نہ منظرِ عام پر نمایاں کی جاتی تھیں۔ نکاح کے ذریعہ سے کسی ایک مرد کے ساتھ وابستہ ہونا عورت کے لیے شرافت کا مرتبہ تھا اور اس کی عزت تھی اور بیسوا بن کر رہنا اس کے لیے ذلت کا موجب سمجھا جاتا تھا۔ یہ اس زمانہ کا حال تھا جب یونانی قوم خوب طاقت وَر تھی اور پورے زور کے ساتھ عروج و ترقی کی طرف جا رہی تھی۔ اس دور میں اَخلاقی خرابیاں ضرور موجود تھیں مگر ایک حد کے اندر تھیں۔ یونانی عورتوں سے اَخلاق کی جس پاکیزگی اور طہارت و عصمت کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس سے مرد مستثنیٰ تھے۔ ان سے نہ اس کا مطالبہ تھا اور نہ اخلاقًا کسی مرد سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ پاک زندگی بسر کرے گا۔ بیسوا طبقہ یونانی معاشرت کا ایک غیر منفک جزو تھا، اور اس طبقہ سے تعلق رکھنا مردوں کے لیے کسی طرح معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔
رفتہ رفتہ اہلِ یونان پر نفس پرستی اور شہوانیت کا غلبہ شروع ہوا اور اس دَور میں بیسوا طبقہ کو وہ عروج نصیب ہوا جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ رنڈی کا کوٹھا یونانی سوسائٹی کے ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ طبقوں تک ہر ایک کا مرکز و مرجع بنا ہوا تھا۔ فلاسفہ، شعرا، مورخین، اہلِ ادب اور ماہرینِ فنون، غرض تمام سیارے اسی آفتاب کے گرد گھومتے تھے۔ وہ نہ صرف علم و ادب کی محفلوں میں صدر نشین تھی، بلکہ بڑے بڑے سیاسی معاملات بھی اسی کے حضور میں طے ہوتے تھے۔ قوم کی زندگی و موت کا فیصلہ جن مسائل کے ساتھ وابستہ تھا ان میں اس عورت کی رائے وقیع سمجھی جاتی تھی جس کی دو راتیں بھی کسی ایک شخص کے ساتھ وفاداری میں بسر نہ ہوتی تھیں۔ یونانیوں کے ذوقِ جمال اور حسن پرستی نے ان کے اندر شہوانیت کی آگ کو اور زیادہ بھڑکایا۔ وہ اپنے اس ذوق کا اظہار جن مجسموں (یا آرٹ کے عریاں نمونوں) میں کرتے تھے وہی ان کی شہوانیت کو اور زیادہ ہوا دیتے چلے جاتے تھے، یہاں تک کہ ان کے ذہن سے یہ تصور ہی محو ہو گیا تھا کہ شہوت پرستی بھی کوئی اخلاقی عیب ہے۔ ان کا معیارِ اخلاق اتنا بدل گیا تھا کہ بڑے بڑے فلاسفہ اور معلّمینِ اخلاق بھی زِنا اور فحش میں کوئی قباحت اور کوئی چیز قابلِ ملامت نہ پاتے تھے۔ عام طور پر یونانی لوگ نکاح کو ایک غیر ضروری رسم سمجھنے لگے تھے اور نکاح کے بغیر عورت اور مرد کا تعلق بالکل معقول سمجھا جاتا تھا جسے کسی سے چھپانے کی ضرورت نہ تھی۔ آخرکار ان کے مذہب نے بھی ان کی حیوانی خواہشات کے آگے سپر ڈال دی۔ ’’کام دیوی‘‘ (aphrodite) کی پرستش تمام یونان میں پھیل گئی۔ جس کی داستان ان کے خرافیات میں یہ تھی کہ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے اس نے تین مزید دیوتائوں سے آشنائی کر رکھی تھی، اور ان کے ماسوا ایک فانی انسان کو بھی اس کی جناب میں سرفرازی کا فخر حاصل تھا۔ اسی کے بطن سے محبت کا دیوتا کیوپڈ پیدا ہوا، جو اُن دیوی صاحبہ اور اُن کے غیر قانونی دوست کی باہمی لگاوٹ کا نتیجہ تھا۔ یہ اس قوم کی معبودہ تھی، اور اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو قوم ایسے کریکٹر کو نہ صرف مثال (آئیڈیل) بلکہ معبودیت تک کا درجہ دے دے اس کے معیارِ اَخلاق کی پستی کا کیا عالم ہو گا۔ یہ اخلاقی انحطاط کا وہ مرتبہ ہے جس میں گرنے کے بعد کوئی قوم پھر کبھی نہ ابھر سکی۔ ہندوستان میں بام مارگ اور ایران میں مزوکیت کا ظہور ایسے ہی انحطاط کے دَور میں ہوا۔ بابل میں بھی قحبہ گری کو مذہبی تقدس کا درجہ ایسے ہی حالات میں حاصل ہوا جس کے بعد پھردنیا نے کبھی بابل کا نام افسانۂ ماضی کے سوا کسی دوسری حیثیت سے نہ سنا۔ یونان میں جب کام دیوی کی پرستش شروع ہوئی تو قحبہ خانہ عبادت گاہ میں تبدیل ہو گیا، فاحشہ عورتیں دیوداسیاں بن گئیں اور زنا ترقی کرکے ایک مقدس مذہبی فعل کے مرتبے تک پہنچ گیا۔
اسی شہوت پرستی کا ایک دوسرا مظہر یہ تھا کہ یونانی قوم میں عملِ قومِ لوط ایک وبا کی طرح پھیلا اور مذہب و اخلاق نے اس کا بھی خیرمقدم کیا۔ ہومر اور ہیلوڈ کے عہد میں اس فعل کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ مگر تمدن کی ترقی نے جب آرٹ اور ذوقِ جمال (aesthetics) کے مذہب ناموں سے عریانی اور لذاتِ نفس کی بندگی کو سراہنا شروع کیا تو شہوانی جذبات کا اشتعال بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گیا کہ فطرت کے راستہ سے تجاوزکرکے یونانیوں کو خلاف وضع فطرت میں تسکین کی جستجو کرنا پڑی۔ آرٹ کے ماہروں نے اس جذبہ کو مجسموں میں نمایاں کیا۔ معلّمینِ اَخلاق نے اسے دو شخصوں کے درمیان ’’دوستی کا مضبوط رشتہ‘‘ قرار دیا۔ سب سے پہلے دو یونانی انسان جو اس قدر کے مستحق سمجھے گئے کہ ان کے اہلِ وطن ان کے مجسمے بنا کران کی یاد تازہ رکھیں وہ ہر موڈیس اور ارسٹو گیٹن تھے جن کے درمیان غیر فطری محبت کا تعلق تھا۔
تاریخ کی شہادت تو یہی ہے کہ اس دَور کے بعد یونانی قوم کو زندگی کا کوئی دوسرا دَور پھر نصیب نہیں ہوا۔
۲۔ روم
یونانیوں کے بعد جس قوم کو دُنیا میں عروج نصیب ہوا وہ اہلِ روم تھے۔ یہاں پھر وہی اتار چڑھائو کا مرقع ہمارے سامنے آتا ہے جو اوپر آپ دیکھ چکے ہیں۔ رومی لوگ وحشت کی تاریکی سے نکل کر جب تاریخ کے روشن منظر پر نمودار ہوتے ہیں تو ان کے نظامِ معاشرت کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنے خاندان کا سردار ہے۔ اسے اپنے بیوی بچوں پر پورے حقوق مالکانہ حاصل ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں وہ بیوی کو قتل کردینے کا بھی مجاز ہے۔
جب وحشت کم ہوئی اور تمدن و تہذیب میں رومیوں کا قدم آگے بڑھا تو اگرچہ قدیم خاندانی نظام بدستور قائم رہا مگر عملاً اس کی سختیوں میں کچھ کمی واقع ہوئی اور ایک حد تک اعتدالی حالت پیدا ہوتی گئی۔ رومی جمہوریت کے زمانۂ عروج میں یونان کی طرح پردے کا رواج تو نہ تھا، مگر عورت اور جوان نسل کو خاندانی نظام میں کس کر رکھا گیا تھا۔ عصمت و عفت، خصوصًا عورت کے معاملہ میں ایک قیمتی چیز تھی اور اسے معیارِ شرافت سمجھا جاتا تھا۔ اَخلاق کا معیار کافی بلند تھا۔ ایک مرتبہ رومی سینٹ کے ایک ممبر نے اپنی بیٹی کے سامنے اپنی بیوی کا بوسہ لیا تو اسے قومی اخلاق کی سخت توہین سمجھا گیا اور سینٹ میں اس پر ملامت کا ووٹ پاس کیا گیا۔ عورت اور مرد کے تعلق کی جائز اور شریفانہ صورت نکاح کے سوا کوئی نہ تھی۔ ایک عورت اسی وقت عزت کی مستحق ہو سکتی تھی جب کہ وہ ایک خاندان کی ماں (matron) ہو۔ بیسوا طبقہ اگرچہ موجود تھا اور مردوں کو ایک حد تک اس طبقہ سے ربط رکھنے کی آزادی بھی تھی، مگر عام رومیوں کی نگاہ میں اس کی حیثیت نہایت ذلیل تھی اور اس سے تعلق رکھنے والے مردوں کو بھی اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا۔
تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اہلِ روم کا نظریہ عورت کے بارے میں بدلتا چلا گیا اور رفتہ رفتہ نکاح و طلاق کے قوانین اور خاندانی نظام کی ترکیب میں اتنا تغیر رونما ہوا کہ صورتِ حال سابق حالات کے بالکل برعکس ہو گئی۔ نکاح محض ایک قانونی معاہدہ (civil contract) بن کر رہ گیا جس کا قیام و بقا فریقین کی رضا مندی پر منحصر تھا۔ ازدواجی تعلق کی ذمہ داریوں کو بہت ہلکا سمجھا جانے لگا۔ عورت کو وراثت اور ملکیتِ مال کے پورے حقوق دے دیے گئے اور قانون نے اسے باپ اور شوہر کے اقتدار سے بالکل آزاد کر دیا۔ رومی عورتیں معاشی حیثیت سے نہ صرف خودمختار ہو گئیں بلکہ قومی دولت کا ایک بڑا حصہ بتدریج ان کے حیطۂ اختیار میں چلا گیا۔ وہ اپنے شوہروں کو بھاری شرح سود پر قرض دیتی تھیں، اور مال دار عورتوں کے شوہر عملًا ان کے غلام بن کر رہ جاتے تھے۔ طلاق کی آسانیاں اس قدر بڑھیں کہ بات بات پر ازدواج کا رشتہ توڑا جانے لگا۔ مشہور رومی فلسفی و مدبر سنیکا (4ق۔م تا 65ئ) سختی کے ساتھ رومیوں کی کثرتِ طلاق پر ماتم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اب روم میں طلاق کوئی بڑی شرم کے قابل چیز نہیں رہی، عورتیں اپنی عمر کا حساب شوہروں کی تعداد سے لگاتی ہیں۔‘‘ اس دَور میں عورت یکے بعد دیگرے کئی کئی شادیاں کرتی جاتی تھی۔ مارشل (43ء تا104ء) ایک عورت کا ذکر کرتا ہے جو دس خاوند کر چکی تھی۔ جو دنیل (60ء تا130ء) ایک عورت کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے پانچ سال میں آٹھ شوہر بدلے۔ سینٹ جروم (340ء تا 420ء) ان سب سے زیادہ ایک باکمال عورت کا حال لکھتا ہے جس نے آخری بار تیسواں شوہر کیا تھا اور اپنے شوہر کی بھی وہ اکیسویں بیوی تھی۔
اس دَور میں عورت اور مرد کے غیر نکاحی تعلق کو معیوب سمجھنے کا خیال بھی دلوں سے نکلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے معلّمین اخلاق بھی زنا کو ایک معمولی چیز سمجھنے لگے۔ کاٹو (Cato) جسے 184ء ۔ ق۔ م میں روم کا محتسب اخلاق مقرر کیا گیا تھا، صریح طور پر جوانی کی آوارگی کو حق بجانب ٹھہراتا ہے۔ سسرو جیسا شخص نوجوانوں کے لیے اَخلاق کے بند ڈھیلے کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ حتّٰی کہ اپکٹیٹس(Epictetus) جو فلاسفہ روقیئن (stoics) میں بہت ہی سخت اخلاقی اصول رکھنے والا سمجھا جاتا تھا، اپنے شاگردوں کو ہدایت کرتا ہے کہ ’’جہاں تک ہو سکے شادی سے پہلے عورت کی صحبت سے اجتناب کرو۔ مگر جو اس معاملہ میں ضبط نہ رکھ سکیں انھیں ملامت بھی نہ کرو۔‘‘
اَخلاق اور معاشرت کے بند جب اتنے ڈھیلے ہو گئے تو روم میں شہوانیت، عریانی اور فواحش کا سیلاب پھوٹ پڑا۔ تھیٹروں میں بے حیائی و عریانی کے مظاہرے ہونے لگے۔ ننگی اور نہایت فحش تصویریں ہر گھر کی زینت کے لیے ضروری ہو گئیں۔ قحبہ گری کے کاروبار کو وہ فروغ نصیب ہوا کہ قیصر ٹائبیرئس (14ء تا 37ء) کے عہد میں معزز خاندانوں کی عورتوں کو پیشہ ور طوائف بننے سے روکنے کے لیے ایک قانون نافذ کرنے کی ضرورت پیش آ گئی۔ فلورا (Flora) نامی ایک کھیل رومیوں میں نہایت مقبول ہوا کیوں کہ اس میں برہنہ عورتوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی۔ عورتوں اور مردوں کے برسرِ عام یک جا غسل کرنے کا رواج بھی اس دَور میں عام تھا۔ رومی لٹریچر میں فحش اور عریاں مضامین بے تکلف بیان کیے جاتے تھے اور عوام و خواص میں وہی ادب مقبول ہوتا تھاجس میں استعارہ و کنایہ تک کا پردہ نہ رکھا گیا ہو۔
بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد روم کا قصرِ عظمت ایسا پیوند خاک ہوا کہ پھر اس کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہی۔
۳۔مسیحی یورپ
مغربی دنیا کے اس اَخلاقی انحطاط کا علاج کرنے کے لیے مسیحیت پہنچی اور اول اول اس نے بڑی اچھی خدمات انجام دیں۔ فواحش کا انسداد کیا۔ عریانی کو زندگی کے ہر شعبے سے نکالا۔ قحبہ گری کو بند کرنے کی تدبیریں کیں۔ طوائف، مغنیہ اور رقاصہ عورتوں کو ان کے پیشہ سے توبہ کرائی۔ اور پاکیزہ اَخلاقی تصورات لوگوں میں پیدا کیے۔ مگر عورت اور صنفی تعلقات کے بارے میں آبائے مسیحین جو نظریات رکھتے تھے وہ انتہا پسندی کی بھی انتہا تھے، اور ساتھ ہی فطرتِ انسانی کے خلاف اعلانِ جنگ بھی۔
ان کا ابتدائی اور بنیادی نظریہ یہ تھا کہ عورت گناہ کی ماں اور بدی کی جڑ ہے۔ مرد کے لیے معصیت کی تحریک کا سرچشمہ اور جہنم کا دروازہ ہے۔ تمام انسانی مصائب کا آغاز اسی سے ہوا ہے۔ اس کا عورت ہونا ہی اس کے شرم ناک ہونے کے لیے کافی ہے۔ اسے اپنے حسن و جمال پر شرمانا چاہیے کیوں کہ وہ شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اسے دائمًا کفارہ ادا کرتے رہنا چاہیے کیوں کہ وہ دنیا اور دنیا والوں پر لعنت اور مصیبت لائی ہے۔
ترتولیاں (Tertullian) جو ابتدائی دور کے ائمہ مسیحیت میںسے تھا عورت کے متعلق مسیحی تصور کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
وہ شیطان کے آنے کا دروازہ ہے وہ شجرِ ممنوع کی طرف لے جانے والی، خدا کے قانون کو توڑنے والی اور خدا کی تصویر، مرد کو غارت کرنے والی ہے۔
کرائی سوسٹم (Chrysostum) جو مسیحیت کے اولیائے کبار میں شمار کیا جاتا ہے، عورت کے حق میں کہتا ہے:
ایک ناگزیر بُرائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گر دل ربائی، ایک آراستہ مصیبت۔
ان کا دوسرا نظریہ یہ تھا کہ عورت اور مرد کا صنفی تعلق بجائے خود ایک نجاست اور قابلِ اعتراض چیز ہے، خواہ وہ نکاح کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ اخلاق کا یہ راہبانہ تصور پہلے سے اشراقی فلسفہ (neo-platonism) کے زیرِ اثر مغرب میں جڑ پکڑ رہا تھا۔ مسیحیت نے آکر اسے حد کو پہنچا دیا۔ اب تجرد اور دوشیزگی معیارِ اَخلاق قرار پائی اور تاہل کی زندگی اَخلاقی اعتبار سے پست اور ذلیل سمجھی جانے لگی۔ لوگ ازدواج سے پرہیز کرنے کو تقوٰی، تقدس اور بلندیٔ اَخلاق کی علامت سمجھنے لگے۔ پاک مذہبی زندگی بسر کرنے کے لیے یہ ضروری ہو گیا کہ یا تو آدمی نکاح ہی نہ کرے، اگر نکاح کر لیا ہو تو میاں اور بیوی ایک دوسرے سے زن و شو کا تعلق نہ رکھیں۔ متعدد مذہبی مجلسوں میں یہ قوانین مقرر کیے گئے کہ چرچ کے عہدہ دار تخلیہ میں اپنی بیویوں سے نہ ملیں۔ میاں اور بیوی کی ملاقات ہمیشہ کھلی جگہ میں ہو اور کم از کم دو غیر آدمی موجود ہوں۔ ازدواجی تعلق کے نجس ہونے کا تخیل طرح طرح سے مسیحیوں کے دل میں بٹھایا جاتا تھا۔ مثلاً ایک قاعدہ یہ تھا کہ جس روز چرچ کا کوئی تہوار ہو اس سے پہلے کی رات جس میاں بیوی نے یک جا گزاری ہو وہ تہوار میں شریک نہیں ہوسکتے۔ گویا انھوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے جس سے آلودہ ہونے کے بعد وہ کسی مقدس مذہبی کام میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہے۔ اس راہبانہ تصور نے تمام خاندانی علائق، حتّٰی کہ ماں اور بیٹے تک کے تعلق میں تلخی پیدا کر دی، اور ہر وہ رشتہ گندگی اور گناہ بن کر رہ گیا جو نکاح کا نتیجہ ہو۔
ان دونوں نظریات نے نہ صرف اخلاق اور معاشرت میں عورت کی حیثیت حد سے زیادہ گرا دی بلکہ تمدنی قوانین کو بھی اس درجہ متاثر کیا کہ ایک طرف ازدواجی زندگی مردوں اور عورتوں کے لیے مصیبت بن کر رہ گئی اور دوسری طرف سوسائٹی میں عورت کا مرتبہ ہر حیثیت سے پست ہو گیا۔ مسیحی شریعت کے زیرِ اثر جتنے قوانین مغربی دنیا میں جاری ہوئے ان سب کی خصوصیات یہ تھیں:
۱۔ معاشی حیثیت سے عورت کو بالکل بے بس کرکے مردوں کے قابو میں دے دیا گیا۔ وراثت میں اس کے حقوق نہایت محدود تھے اور ملکیت میں اس سے بھی زیادہ محدود۔ وہ خود اپنی محنت کی کمائی پر بھی اختیار نہ رکھتی تھی بلکہ اس کی ہر چیز کا مالک اس کا شوہر تھا۔
۲۔ طلاق اور خلع کی سرے سے اجازت ہی نہ تھی۔ زوجین میں خواہ کتنی ہی ناموافقت ہو، باہمی تعلقات کی خرابی سے خواہ گھر نمونہ جہنم بن گیا ہو، مذہب اورقانون دونوں انھیں زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہنے پر مجبور کرتے تھے۔ بعض انتہائی شدید حالات میں زیادہ سے زیادہ جوتدارک ممکن تھا وہ صرف یہ تھا کہ زوجین میں تفریق (separation) کرا دی جائے۔ یعنی وہ ایک دوسرے سے بس الگ کر دیے جائیں۔ الگ ہو کر نکاحِ ثانی کرنے کا حق نہ عورت کو تھا نہ مرد کو۔ درحقیقت یہ تدارک پہلی صورت سے بھی بد تر تھا کیوں کہ اس کے بعد ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ یا تو وہ دونوں راہب اور راہبہ بن جائیں، یا پھر تمام عمر بدکاری کرتے رہیں۔
۳۔ شوہر کے مرنے کی صورت میں بیوی کے لیے اور بیوی کے مرنے کی صورت میں شوہر کے لیے نکاحِ ثانی کرنا سخت معیوب بلکہ گناہ قرار دیا گیا تھا۔ مسیحی علما کہتے تھے کہ یہ محض حیوانی خواہشات کی بندگی اور ہوس رانی ہے۔ ان کی زبان میں اس فعل کا نام ’’مہذب زناکاری‘‘ تھا۔ چرچ کے قانون میں مذہبی عہدہ داروں کے لیے نکاحِ ثانی کرنا جرم تھا۔ عام ملکی قوانین میں بعض جگہ اس کی سرے سے اجازت ہی نہ تھی اور جہاں قانون اجازت دیتا تھا وہاں بھی رائے عام جو مذہبی تصورات کے زیرِ اثر تھی اسے جائز نہ رکھتی تھی۔
۴۔ جدید یورپ
اٹھارہویں صدی عیسوی میں یورپ کے فلاسفہ اور اہلِ قلم نے جب سوسائٹی کے خلاف فرد کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی اور شخصی آزادی کا صور پھونکا تو ان کے سامنے وہی غلط نظامِ تمدن تھا جو مسیحی نظام اخلاق و فلسفہ زندگی اور نظامِ جاگیرداری (feudal system) کے منحوس اتحاد سے پیدا ہوا تھا اور جس نے انسانی رُوح کو غیر فطری زنجیروں میں جکڑ کر ترقی کے سارے دروازے بند کر رکھے تھے۔ اس نظام کو توڑ کر ایک نیا نظام بنانے کے لیے جو نظریات جدید یورپ کے معماروں نے پیش کیے اس کے نتیجے میں انقلاب فرانس رونما ہوا اور اس کے بعد مغربی تہذیب و تمدن کی رفتارِ ترقی ان راستوں پر لگ گئی جن پر بڑھتے بڑھتے وہ آج کی منزل پر پہنچی ہے۔
اس دَورِ جدید کے آغاز میں صنفِ اناث کو پستی سے اُٹھانے کے لیے جوکچھ کیا گیا۔ اجتماعی زندگی پر اس کے خوش گوار نتائج مرتب ہوئے۔ نکاح و طلاق کے پچھلے قوانین کی سختی کم کی گئی۔ عورتوں کے معاشی حقوق، جو بالکل سلب کر لیے گئے تھے، بڑی حد تک انھیں واپس دیے گئے۔ ان اخلاقی نظریات کی اصلاح کی گئی جن کی بِنا پر عورت کو ذلیل و حقیر سمجھا جاتا تھا۔ معاشرت کے ان اصولوں میں ترمیم کر دی گئی جن کی وجہ سے عورت فی الحقیقت لونڈی بن کر رہ گئی تھی۔ اعلیٰ درجہ کی تعلیم و تربیت کے دروازے مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی کھولے گئے۔ ان مختلف تدابیر سے رفتہ رفتہ عورتوں کی وہ قابلیتیں جو غلط قوانینِ معاشرت اور جاہلانہ اَخلاقی تصورات کے بھاری بوجھوں تلے دبی ہوئی تھیں، اُبھر آئیں۔ انھوں نے گھروں کو سنوارا ۔ معاشرت میں نفاست پیدا کی۔ رفاہِ عامہ کے بہت سے مفید کام کیے۔ صحتِ عامہ کی ترقی، نئی نسلوں کی عمدہ تربیت، بیماروں کی خدمت اور فنونِ خانہ داری کی نشوونما، یہ سب کچھ اس بیداری کے ابتدائی پھل تھے جو تہذیبِ نو کی بدولت عورتوں میں رونما ہوئی لیکن جن نظریات کے بطن سے یہ نئی تحریک اُٹھی تھی ان میں ابتدا ہی سے افراط کا میلان موجود تھا۔ انیسویں صدی میں اس میلان نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے مغربی معاشرت بے اعتدالی کی دوسری انتہا پر پہنچ گئی۔
۵۔ نئی مغربی معاشرت کے تین ستون
یہ نظریات جن پر نئی مغربی معاشرت کی بِنا رکھی گئی ہے، تین عنوانوں کے تحت آتے ہیں:
(۱) عورتوں اور مردوں کی مساوات
(۲) عورتوں کا معاشی استقلال (economic independence)
(۳) دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط۔
ان تین بنیادوں پرمعاشرت کی تعمیر کرنے کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا بالآخر وہی ظاہر ہوا۔
(۱) مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اَخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق میں مساوی ہوں، بلکہ تمدنی زندگی میں عورت بھی وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں، اور اَخلاقی بندشیں عورت کے لیے بھی اسی طرح ڈھیلی کر دی جائیں جس طرح مرد کے لیے پہلے سے ڈھیلی ہیں۔ مساوات کے اس غلط تخیل نے عورت کو اس کے ان فطری وظائف سے غافل اور منحرف کر دیا جن کی بجا آوری پر تمدن کی بقا بلکہ نوعِ انسانی کی بقا کا انحصار ہے۔ معاشی، سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں نے ان کی شخصیت کو پوری طرح اپنے اندر جذب کر لیا۔ انتخابات کی جدوجہد، دفتروں اور کارخانوں کی ملازمت، آزاد تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں کے ساتھ مقابلہ، کھیلوں اور ورزشوں کی دوڑ دھوپ، سوسائٹی کے تفریحی مشاغل میں شرکت، کلب، اسٹیج اور رقص و سرود کی مصروفیتیں، یہ اور ان کے سوا اور بہت سی ناکردنی و ناگفتنی چیزیں۔ اس پر کچھ اس طرح چھا گئیں کہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں، بچوں کی تربیت، خاندان کی خدمت، گھر کی تنظیم، ساری چیزیں اس کے لائحہ عمل سے خارج ہو کر رہ گئیں، بلکہ ذہنی طور پر وہ ان مشاغل… اپنے اصلی فطری مشاغل… سے متنفر ہو گئی۔ اب مغرب میں خاندان کا نظام، جو تمدن کا سنگِ بنیاد ہے، بُری طرح منتشر ہو رہا ہے۔ گھرکی زندگی، جس کے سکون پر انسان کی قوتِ کارکردگی کی نشوونما کا انحصار ہے، عملًا ختم ہو رہی ہے۔ نکاح کا رشتہ، جو تمدن کی خدمت میں عورت اور مرد کے تعاون کی صحیح صورت ہے، تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ کم زور ہو گیا ہے۔ نسلوں کی افزائش کو برتھ کنٹرول، اسقاطِ حمل اور قتلِ اولاد کے ذریعہ سے روکا جا رہا ہے۔ اَخلاقی مساوات کے غلط تخیل نے عورتوں اور مردوں کے درمیان بداَخلاقی میں مساوات قائم کر دی ہے۔ وہ بے حیائیاں جو کبھی مردوں کے لیے بھی شرم ناک تھیں، اب وہ عورتوں کے لیے شرم ناک نہیں رہیں۔
(۲) عورت کے معاشی استقلال نے اسے مرد سے بے نیاز کر دیا ہے۔ وہ قدیم اُصول کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام کرے، اب اس نئے قاعدہ سے بدل گیا ہے کہ عورت اور مرد دونوں کمائیں اور گھر کا انتظام بازار کے سپرد کر دیا جائے۔ اس انقلاب کے بعد دونوں کی زندگی میں بجز ایک شہوانی تعلق کے اور کوئی ربط ایسا باقی نہیں رہا جو انھیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہونے پر مجبور کرتا ہو اور ظاہر ہے کہ محض شہوانی خواہشات کا پورا کرنا کوئی ایسا کام نہیں ہے جس کی خاطر مرد اور عورت لامحالہ اپنے آپ کو ایک دائمی تعلق ہی کی گرہ میں باندھنے اور ایک گھر بنا کر مشترک زندگی گزارنے پر مجبور ہوں۔ جو عورت اپنی روٹی آپ کماتی ہے، اپنی تمام ضروریات کی خود کفیل ہے، اپنی زندگی میں دوسرے کی حفاظت اور اعانت کی محتاج نہیں ہے، وہ آخر محض اپنی شہوانی خواہش کی تسکین کے لیے کیوں ایک مرد کی پابند ہو؟ کیوں اپنے اوپر بہت سی اَخلاقی اور قانونی بندشیں عائد کرے؟ کیوں ایک خاندان کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے؟ خصوصًا جب کہ اَخلاقی مساوات کے تخیل نے اس کی راہ سے وہ تمام رکاوٹیں بھی دُور کر دی ہوں جو اسے آزاد شہوت رانی کا طریقہ اختیار کرنے میں پیش آ سکتی تھیں تو وہ اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے آسان، پُر لطف اور خوش نما راستہ چھوڑ کر قربانیوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ سے لدا ہوا پرانا دقیانوسی (old fashioned) راستہ کیوں اختیار کرے؟ گناہ کا خیال مذہب کے ساتھ رخصت ہوا۔ سوسائٹی کا خوف یوں دُور ہو گیا کہ سوسائٹی اب اسے فاحشہ ہونے پر ملامت نہیں کرتی بلکہ ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔ آخری خطرہ حرامی بچے کی پیدائش کا تھا، سو اس سے بچنے کے لیے مانع حمل کے ذرائع موجود ہیں۔ ان ذرائع کے باوجود حمل قرار پا جائے تو اسقاط میں بھی کوئی مضایقہ نہیں۔ اس میں کام یابی نہ ہو تو بچے کو خاموشی کے ساتھ قتل کیا جا سکتا ہے اور اگر کم بخت جذبہ مادری نے (جو بد قسمتی سے ابھی بالکل فنا نہیں ہو سکا ہے) بچے کو ہلاک کرنے سے روک بھی دیا تو حرامی بچے کی ماں بن جانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ اب ’’کنواری ماں‘‘ اور ’’ناجائز مولود‘‘ کے حق میں اتنا پروپیگنڈا ہو چکا ہے کہ جو سوسائٹی انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کی جرات کرے گی، اسے خود تاریک خیالی کا اُلٹا الزام اپنے سر لینا پڑے گا۔
یہ وہ چیز ہے جس نے مغربی معاشرت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ آج ہر ملک میں لاکھوں جوان عورتیں تجرد پسند ہیں جن کی زندگی آزاد شہوت رانی میں بسر ہو رہی ہے۔ ان سے بہت زیادہ عورتیں ہیں جو عارضی جذبات محبت کے زور سے شادیاں کر لیتی ہیں، مگر چوں کہ اب شہوانی تعلق کے سوا مرد اور عورت کے درمیان کوئی ایسا احتیاجی ربط باقی نہیں رہا ہے جو انھیں مستقل وابستگی پر مجبور کرتا ہو، اس لیے مناکحت کے رشتہ میں اب کوئی پائداری نہیں رہی۔ میاں اور بیوی جو ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہو چکے ہیں، آپس کے تعلقات میں کسی مراعاتِ باہمی اور کسی مدارات (compromise)کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ نری شہوانی محبت کے جذبات بہت جلدی ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک ادنیٰ وجہ اختلاف بلکہ بسا اوقات صرف سرد مہری ہی انھیں ایک دوسرے سے جدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیش تر نکاحوں کا انجام طلاق یا تفریق پر ہوتا ہے۔ مانع حمل، اسقاط، قتلِ اولاد، شرح پیدائش کی کمی اور ناجائز ولادتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بڑی حد تک اسی سبب کی رہین منت ہے۔ بدکاری، بے حیائی اور امراضِ خبیثہ کی ترقی میں بھی اس کیفیت کا بڑا دخل ہے۔
مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیرمعمولی ترقی دے دی ہے۔ صنفی میلان (sexual attraction) جو پہلے ہی فطری طور پر مرد اورعورت کے درمیان موجود ہے اور کافی طاقت ور ہے، دونوں صنفوں کے آزادانہ میل جول کی صورت میں بہت آسانی کے ساتھ غیر معمولی حد تک ترقی کر جاتا ہے۔ پھر اس قسم کی مخلوط سوسائٹی میں قدرتی طور پردونوں صنفوں کے اندر یہ جذبہ اُبھر آتا ہے کہ صنف مقابل کے لیے زیادہ سے زیادہ جاذبِ نظر (attractive) بنیں اور اَخلاقی نظریات کے بدل جانے کی وجہ سے ایسا کرنا معیوب بھی نہ رہا ہو، بلکہ علانیہ شانِ دل ربائی پیدا کرنے کو مستحسن سمجھا جانے لگا ہو تو حسن و جمال کی نمائش رفتہ رفتہ تمام حدود کو توڑتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ برہنگی کی آخری حد کو پہنچ کر ہی دم لیتی ہے۔ یہی کیفیت اس وقت مغربی تہذیب میں پیدا ہو گئی ہے۔ صنفِ مقابل کے لیے مقناطیس بننے کی خواہش عورت میں اتنی بڑھ گئی ہے اور اتنی بڑھتی چلی جا رہی ہے کہ شوخ و شنگ لباسوں، غازوں، سرخیوں اور بنائو سنگار کے نت نئے سامانوں سے اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ بے چاری تنگ آ کر اپنے کپڑوں سے باہر نکل پڑتی ہے، یہاں تک کہ بسا اوقات تارتک لگا نہیں رہنے دیتی۔ ادھر مردوں کی طرف سے ہر وقت ھل من مزید کا تقاضا ہے، کیوں کہ جذبات میں جو آگ لگی ہوئی ہے وہ حسن کی ہر بے حجابی پر بجھتی نہیں بلکہ اور زیادہ بھڑکتی ہے اور مزید بے حجابی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ا ن غریبوں کی پیاس بھی بڑھتے بڑھتے تونس بن گئی ہے، جیسے کسی کو لو لگ گئی ہو اور پانی کا ہر گھونٹ پیاس کو بجھانے کی بجائے اور بھڑکا دیتا ہو۔ حد سے بڑھی ہوئی شہوانی پیاس سے بے تاب ہو کر بے چارے ہر وقت ہر ممکن طریقے سے اس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ ننگی تصویریں، یہ صنفی لٹریچر، یہ عشق و محبت کے افسانے، یہ عریاں اور جوڑواں ناچ، یہ جذباتِ شہوانی سے بھری ہوئی فلمیں۔ آخر کیا ہیں؟ سب اسی آگ کو بجھانے … مگر دراصل بھڑکانے… کے سامان ہیں جو اس غلط معاشرت نے ہر سینے میں لگا رکھی ہے اور اپنی اس کم زوری کو چھپانے کے لیے اس کا نام انھوں نے رکھا ہے ’’آرٹ‘‘۔
یہ گھن بڑی تیزی کے ساتھ مغربی قوموں کی قوتِ حیات کو کھا رہا ہے، یہ گھن لگنے کے بعد آج تک کوئی قوم نہیں بچی۔ یہ ان تمام ذہنی اور جسمانی قوتوں کو کھا جاتا ہے جو قدرت نے انسانوں کو زندگی اور ترقی کے لیے عطا کی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ ہر طرف سے شیطانی محرکات میں گھرے ہوئے ہیں، جن کے جذبات کو ہر آن ایک نئی تحریک اور ایک نئے اشتعال سے سابقہ پڑے، جن پرایک سخت ہیجان انگیز ماحول پوری طرح چھا گیا ہو، جن کے خون کو عریاں تصویریں، فحش لٹریچر، ولولہ انگیز گانے، برانگیختہ کرنے والے ناچ، عشق و محبت کی فلمیں،دل چھیننے والے زندہ مناظر اور صنفِ مقابل سے ہر وقت کی مڈبھیڑ کے مواقع پیہم ایک جوش کی حالت میں رکھتے ہوں، وہ کہاں سے وہ امن، وہ سکون اور وہ اطمینان لا سکتے ہیں جو تعمیری اور تخلیقی کاموں کے لیے ضروری ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایسے ہیجانات کے درمیان انھیں، اور خصوصًا ان کی جوان نسلوں کو وہ ٹھنڈی اور پُرسکون فضا میسر ہی کہاں آ سکتی ہے جو ان کی ذہنی اور اخلاقی قوتوں کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہے۔
ہوش سنبھالتے ہی تو بہیمی خواہشات کا دیو انھیں دبوچ لیتا ہے۔ اس کے چنگل میں پھنس کر وہ پنپ کیسے سکتے ہیں؟
۶۔ فکر ِ انسانی کی اَلم ناک نارسائی
تین ہزار سال کے تاریخی نشیب و فراز کی یہ مسلسل داستان ایک بڑے خطہ زمین سے تعلق رکھتی ہے جو پہلے بھی دو عظیم الشان تہذیبوں کا گہوارہ رہ چکا ہے، اور اب پھر جس کی تہذیب کا ڈنکا دنیا میں بج رہا ہے۔ ایسی ہی داستان مصر، بابل، ایران اور دوسرے ممالک کی بھی ہے اور خود ہمارا ملک ہندسان{ FR 6789 } بھی صدیوں سے افراط و تفریط میں گرفتار ہے۔ ایک طرف عورت داسی بنائی جاتی ہے۔ مرد اس کا سوامی اور پتی دیو، یعنی مالک اور معبود بنتا ہے۔ اسے بچپن میں باپ کی، جوانی میں شوہر کی اور بیوگی میں اولاد کی مملوکہ بن کر رہنا پڑتا ہے۔ اسے شوہر کی چتا پر بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ اسے ملکیت اور وراثت کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس پر نکاح کے انتہائی سخت قوانین مسلط کیے جاتے ہیں جن کے مطابق وہ اپنی رضا اور پسند کے بغیر ایک مرد کے حوالہ کی جاتی ہے اورپھر زندگی کے آخری سانس تک اس کی ملکیت سے کسی حال میں نہیں نکل سکتی۔ اسے یہودیوں اور یونانیوں کی طرح گناہ اور اخلاقی و روحانی پستی کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی مستقل شخصیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب اس پر مہر کی نگاہ ہوتی ہے تو اسے بہیمی خواہشات کا کھلونا بنا لیا جاتا ہے۔ وہ مرد کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے اورایسی سوار ہوتی ہے کہ خود بھی ڈوبتی ہے اور اپنے ساتھ ساری قوم کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ یہ لنگ اور یونی کی پوجا، یہ عبادت گاہوں میں برہنہ اور جوڑواں مجسمے، یہ دیو داسیاں (religious prostitutes) یہ ہولی کے کھیل اور یہ دریائوں کے نیم عریاں اشنان آخر کس چیز کی یاد گاریں ہیں؟ اس بام مارگی تحریک کی باقیات غیر صالحات ہی تو ہیں جو ایران، بابل، یونان اور روم کی طرح ہندوستان میں بھی تہذیب و تمدن کی انتہائی ترقی کے بعد وبا کی طرح پھیلی اور ہندو قوم کو صدیوں کے لیے تنزل اور انحطاط کے گڑھے میں پھینک گئی۔
اس داستان کو غائر نگاہ سے دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ عورت کے معاملہ میں نقطۂ عدل کو پانا، اسے سمجھنا اور اس پر قائم ہونا، انسان کے لیے کس قدر دشوار ثابت ہوا ہے۔ نقطہ عدل یہی ہو سکتا ہے کہ ایک طرف عورت کو اپنی شخصیت اور اپنی قابلیتوں کی نشوونما کا پورا موقع ملے، اور اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ صلاحیتوں کے ساتھ انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔ مگردوسری طرف اسے اخلاقی تنزل و انحطاط کا ذریعہ اورانسانی تباہی کا آلہ نہ بننے دیا جائے، بلکہ مرد کے ساتھ اس کے تعاون کی ایسی سبیل مقررکر دی جائے کہ دونوں کا اشتراکِ عمل ہر حیثیت سے تمدن کے لیے صحت بخش ہو۔ اس نقطہ عدل کو دنیا صدہا برس سے تلاش کرتی رہی ہے مگر آج تک نہیں پا سکی۔ کبھی ایک انتہا کی طرف جاتی ہے اور انسانیت کے پورے نصف حصہ کو بے کار بنا کر رکھ دیتی ہے۔ کبھی دوسری انتہا کی طرف جاتی ہے اورانسانیت کے دونوں حصوں کو ملا کر غرق مئے ناب کر دیتی ہے۔
نقطۂ عدل ناپید نہیں، موجود ہے۔ مگر ہزاروں سال افرا و تفریط کے درمیان گردش کرتے رہنے کی وجہ سے لوگوں کا سرکچھ اتنا چکرا گیا ہے کہ وہ سامنے آتا ہے اور یہ پہچان نہیں سکتے کہ یہی تو وہ مطلوب ہے جسے ہماری فطرت ڈھونڈ رہی تھی۔ اس مطلوبِ حقیقی کو دیکھ کر وہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں، اس پر آوازے کستے ہیں، اور جس کے پاس وہ نظر آتا ہے الٹا اسی کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی مثال اس بچے کی سی ہے، جو ایک کوئلے کی کان میں پیدا ہوا ہو اور وہیں جوانی کی عمر تک پہنچے۔ ظاہر ہے کہ اسے وہی کوئلے کی ماری ہوئی آب و ہوا اور وہی کالی کالی فضا عین فطری چیز معلوم ہو گی اور جب وہ اس کان سے نکال کر باہر لایا جائے گا توعالم فطرت کی پاکیزہ فضا میں ہر شے کو دیکھ دیکھ کر اول اول ضرور اپرائے گا۔ مگر انسان آخر انسان ہے۔ اس کی آنکھیں کوئلے کی چھت اور تاروں بھرے آسمان کا فرق محسوس کرنے سے کب تک انکار کر سکتی ہیں؟ اس کے پھیپھڑے گندی ہوا اور صاف ہوا میں آخر کب تک تمیز نہ کریں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں