ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں قرآن اس اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ ٹیکسوں کا بار صرف ان لوگوں پر پڑنا چاہیے جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال رکھتے ہیں، اور ان کی دولت کے بھی صرف اس حصے پر یہ بار ڈالا جانا چاہیے جو ان کی ضرورت سے زائد بچتا ہو:
وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ۰ۥۭ قُلِ الْعَفْوَ۰ۭ البقرہ 219:2
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں، کہو جو کچھ تمہاری ضرورت سے بچے۔
اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات
قرآن کے ان ۲۲ نکات میں انسان کی معاشی زندگی کے لیے جو اسکیم مرتب کی گئی ہے اس کے بنیادی اصول اور نمایاں خصائص یہ ہیں:
۱۔ یہ اسکیم معاشی انصاف ایسے طریقے سے قائم کرتی ہے جس سے ایک طرف ہر طرح کے معاشی ظلم اور بے جا استحصال کا سدِّباب بھی ہو، اور دوسری طرف معاشرے میں اخلاقی فضائل کا نشوونما بھی ہوسکے۔ قرآن کے پیش نظر ایسا معاشرہ بنانا نہیں ہے جس میں کوئی کسی کے ساتھ خود نیکی نہ کرسکے اور افراد کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا یہ کام ایک اجتماعی مشن کے ذریعے سے ہوتا رہے، کیوں کہ اس طرح کے معاشرے میں اخلاقی فضائل کے نشوونما کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ قرآن اس کے برعکس وہ معاشرہ بناتا ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے ساتھ رضا کارانہ اور بے غرضانہ فیاضی، ہمدردی اور احسان کا برتائو کریں اور اس کی بدولت ان کے درمیان آپس کی محبت فروغ پائے۔ اس غرض کے لیے وہ زیادہ تر انحصار لوگوں کے اندر ایمان پیدا کرنے اور ان کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے بہتر انسان بنانے کی تدبیروں پر کرتا ہے۔ پھر جو کسر باقی رہ جاتی ہے اس کو پورا کرنے کے لیے وہ ان جبری احکام سے کام لیتا ہے جو اجتماعی فلاح کے لیے ناگزیر ہیں۔ (نکات نمبر 8تا 13 اور 15 تا 19)
۲۔ اس میں معاشی اقدار کو اخلاقی اقدار سے الگ رکھنے کے بجائے دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا ہے اور معیشت کے مسائل کو مجرد معاشی نقطۂ نظر سے لے کر حل کرنے کے بجائے انہیں اس مجموعی نظامِ حیات کے تناسب میں رکھ کر حل کیا گیا ہے جس کی عمارت اسلام نے کلیتًہ خدا پرستانہ تصورِ کائنات و فلسفۂ اخلاق پر استوار کی ہے۔ (نکات نمبر 1,2,4,5)
۳۔ اس میں زمین کے معاشی وسائل و ذرائع کو نوعِ انسانی پر خدا کا فضلِ عام قرار دیا گیا ہے ، جس کا تقاضا یہ ہے کہ شخصی، گروہی یا قومی اجارہ داریوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے اور اس کے بجائے خدا کی زمین پر بنی نوع انسان کو اکتسابِ رزق کے زیادہ سے زیادہ ممکن حد تک کھلے مواقع دیئے جائیں۔ (نکتہ 5)
۴۔ اس میں افراد کو شخصی ملکیت کا حق دیا گیا ہے مگر غیر محدود نہیں۔ فرد کے حقِ ملکیت پر دوسرے افراد اور معاشرے کے مفاد کی خاطر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ یہ اسکیم ہر فرد کے مال میں اس کے اقربا، ہمسایوں، دوستوں، حاجت مند اور کم نصیب انسانوں، اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کے حقوق بھی قائم کرتی ہے۔ ان حقوق میں سے بعض جبری طور پر قابل تنفیذ ہیں اور بعض کو سمجھنے اور ادا کرنے کے لیے خود افراد کو ذہنی و اخلاقی تربیت کے ذریعے سے تیار کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ (نکات 3,5,7-15,17,19)
۵۔ انسانی زندگی کے معاشی نظام کو چلانے کی فطری صورت اس اسکیم کی رو سے یہ ہے کہ افراد اسے آزادانہ سعی وجہد کے ذریعے سے چلائیں اور ترقی دیں۔ لیکن یہ آزادانہ سعی وجہد اس میں بے قید نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ معاشرے کی اور خود ان افراد کی اپنی اخلاقی و تمدنی اور معاشی بھلائی کے لیے اسے بعض حدود سے محدود کیا گیا ہے۔ (نکات 6,7,15,22)
۶۔ اس میں عورت اور مرد دونوں کو ان کی کمائی ہوئی اور میراث یا دوسر ے جائز ذرائع سے پائی ہوئی دولت کا یکساں مالک قرار دیا گیا ہے اور دونوں صنفوں کو اپنے حق ملکیت سے متمتع ہونے کے یکساں حقوق دیئے گئے ہیں۔ (نکات 3,4,18)
۷۔ اس میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک طرف تو لوگوں کو بخیلی اور رہبانیت سے روک کر خدا کی نعمتوں کے استعمال پر ابھارا گیا ہے، اور دوسری طرف انہیں اسراف اور فضول خرچی اور عیاشی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ۔ (نکات 5,8-10)
۸۔ اس میں معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے یہ انتظام کیاگیا ہے کہ دولت کا بہائو نہ تو غلط ذرائع سے کسی خاص سمت میں چل پڑے اور نہ جائز ذرائع سے آئی ہوئی دولت کہیں ایک جگہ سمٹ کر بے کار رکی رہ جائے۔ اس کے ساتھ وہ یہ انتظام بھی کرتی ہے کہ دولت زیادہ سے زیادہ استعمال اور گردش میں آئے اور اس کی گردش سے خصوصیت کے ساتھ ان عناصر کو حصہ ملے جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنا مناسب حصہ پانے سے محروم رہ جاتے ہوں۔ (نکات 6-10,12,13,15,17-19,21)
۹۔ یہ اسکیم معاشی انصاف قائم کرنے کے لیے قانون اور ریاست کی مداخلت پر زیادہ انحصار نہیں کرتی ۔ چند ناگزیر تدابیر کو ریاست کی ذمہ داری قرار دینے کے بعد وہ اس مقصد کے لیے اپنی بقیہ تدابیر کا نفاذ افراد کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور معاشرے کی اصلاح کے ذریعے سے کرتی ہے تا کہ آزاد سعی و جہد کی معیشت کے منطقی تقاضوں کو برقرار رکھتے ہوئے معاشی انصاف کا مقصد حاصل ہوسکے۔ (نکات 5-22)
۱۰۔ معاشرے کے مختلف عناصر میں طبقاتی کشمکش پیدا کرنے کے بجائے وہ اس کے اسباب کو ختم کر کے ان کے درمیان تعاون اور رفاقت کی روح پیدا کرتی ہے ۔
(نکات 4,6-12,15-17,21,22)
یہ اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں جس طرح عملاً ریاست اور معاشرے کے نظام میں نافذ کئے گئے تھے اس سے ہم کو احکام اور نظائر کی شکل میں بہت سی مزید تفصیلات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بحث اس باب کے موضوع سے خارج ہے۔ اس کے متعلق حدیث، فقہ، تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں وسیع مواد موجود ہے جس کی طرف تفصیلات کے لیے رجوع کیا جاسکتا ہے