جو جائیدادیں اور اموال اور آمدنیاں حکومت کی ملک ہوں، ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کا صَرف محض دولت مند طبقوں کے مفاد میں نہیں بلکہ عام لوگوں کے مفاد میں ہونا چاہیے، اور خصوصیت کے ساتھ ان کے صَرف میں معاشرے کے کمزور طبقات کی بھلائی کا زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے:
مَآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ مِنْ اَہْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ۰ۙ كَيْ لَا يَكُوْنَ دُوْلَۃًۢ بَيْنَ الْاَغْنِيَاۗءِ مِنْكُمْ۰ۭ ……. لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ ……. وَالَّذِيْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ ……. وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِہِمْ الحشر 7-10:59
جو کچھ پھیر دے اللہ اپنے رسول کی طرف بستیوں کے لوگوں سے وہ اللہ کے لیے ہے اور رسول کے لئے(ابن العربی، احکام القرآن، ج ۱، ص ۱۳۳۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ج ۱، ص ۴۵۲۔ الجصّاص، احکام القرآن، ج ۲، ص ۷۲۔۷۳۔
) اور قرابت داروں کے لیے( اس سے مراد اسلامی ریاست کے نظم و نسق اور دفاع کے مصارف ہیں۔ اسی مد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء اپنا گزارہ لیتے تھے اور اپنے عمال (باستثناء عاملینِ زکوٰۃ) کی تنخواہیں بھی دیتے تھے۔ عاملینِ زکوٰۃ کی تنخواہیں خود مال زکوٰۃ میں سے دی جاتی تھیں۔
) اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافر کے لئے، تا کہ یہ مال صرف تمہارے مال داروں ہی میں چکر نہ لگاتا رہے… نیز وہ ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال دیئے گئے ہیں… اور وہ ان انصار کا حق بھی ہے جو مہاجرین کے آنے سے پہلے ایمان کے ساتھ دارالاسلام میں مقیم تھے… اور اس میں بعد کے آنے والوں کا حق بھی ہے۔۔