جو لوگ خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنی املاک میں صحیح تصرف نہ کرسکتے ہوں اور ان کو ضائع کر رہے ہوں، یا بجا طور پر اندیشہ ہو کہ ضائع کر دیں گے، ان کے بارے میں قرآن ہدایت کرتا ہے کہ ان کی املاک ان کے اختیار میں نہ دی جائیں، بلکہ وہ ان کے سرپرست یا قاضی کے انتظام میں رہیں، اور انہیں صرف اس وقت سونپی جائیں جب اس امر کا اطمینان ہو جائے کہ وہ اپنے معاملات کو ٹھیک طرح سنبھال سکیں گے:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا وَّارْزُقُوْھُمْ فِيْھَا وَاكْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۰ۚ النساء 5,6:4
اور اپنے اموال، جنھیں اللہ نے تمہارے لیے زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے، نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ البتہ انہیں اس میں سے کھلائو اور پہنائو اور ان سے معقول بات کرو ۔ اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں اور تم ان میں ہوشمندی محسوس کرو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو۔
اس آیت میں ایک اہم نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ شخصی املاک اگرچہ ان اشخاص ہی کی ملک ہیں جو ان پر قانوناً حقِ ملکیت رکھتے ہوں، لیکن وہ بالکلیہ انھی کی نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ اجتماعی مفاد بھی وابستہ ہے۔ اسی بنا پر قرآن اَمْوَالَہُمْ (ان کے مال) کہنے کے بجائے اَمْوَالَکُمْ (تمہارے مال) کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ اور اسی بنیاد پر وہ سرپرستوں اور قاضیوں کو یہ اختیار دیتا ہے کہ جہاں شخصی املاک میں بے جا تصرف سے معاشرے کا اجتماعی نقصان کیا جا رہا ہو، یا ایسے نقصان کا معقول اندیشہ ہو، وہاں مالک کے حقِ ملکیت اور حقِ انتفاع کو برقرار رکھتے ہوئے اس کا حقِ تصرف اپنے ہاتھ میں لے لیں۔(ابن العربی، احکام القرآن، ج ۱، ص ۱۳۳۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن، ج ۱، ص ۴۵۲۔ الجصّاص، احکام القرآن، ج ۲، ص ۷۲۔۷۳۔)