سب سے پہلے ناظر کو قرآن کی اصل سے واقف ہونا چاہیے۔ وہ خواہ اس پر ایمان لائے، یا نہ لائے‘ مگر اس کتاب کو سمجھنے کے لیے اسے نقطۂ آغاز کے طور پر اس کی وہی اصل قبول کرنی ہوگی جو خود اس نے اور اس کے پیش کرنے والے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان کی ہے اور وہ یہ ہے:
۱۔ خداوندِ عالم نے‘ جو ساری کائنات کا خالق اور مالک اور فرماں روا ہے‘ اپنی بے پایاں مملکت کے اس حصے میں‘ جسے زمین کہتے ہیں‘ انسان کو پیدا کیا۔ اسے جاننے اور سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں دیں۔ بھلائی اور برائی کی تمیز دی۔ انتخاب اور ارادے کی آزادی عطا کی۔ تصرف کے اختیارات بخشے اور فی الجملہ ایک طرح کی خود اختیاری (autonomy) دے کر اسے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا۔
۲۔ اس منصب پر انسان کو مقرر کرتے وقت خداوند ِ عالم نے اچھی طرح اس کے کان کھول کر یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی تھی کہ تمھارا اور سارے جہان کا مالک‘ معبود اور حاکم میں ہوں۔ میری اس سلطنت میں نہ تم خود مختار ہو‘ نہ کسی دوسرے کے بندے ہو‘ اور نہ میرے سوا کوئی تمھاری اطاعت و بندگی اور پرستش کا مستحق ہے۔ دنیا کی یہ زندگی جس میں تمھیں اختیارات دے کر بھیجا جارہا ہے دراصل تمھارے لیے ایک امتحان کی مدت ہے جس کے بعد تمھیں میرے پاس آنا ہوگا اور میں تمھارے کام کی جانچ کرکے فیصلہ کروں گا کہ تم میں سے کون امتحان میں کامیاب رہا ہے اور کون ناکام۔ تمھارے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ مجھے اپنا واحد معبود اور حاکم تسلیم کرو‘ جو ہدایت میں بھیجوں اس کے مطابق دنیا میں کام کرو اور دنیا کو دار الامتحان سمجھتے ہوئے، اس شعور کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تمھارا اصل مقصد میرے آخری فیصلے میں کامیاب ہونا ہے۔ اس کے برعکس تمھارے لیے ہر وہ رویہ غلط ہے جو اس سے مختلف ہو۔ اگر پہلا رویہ اختیار کرو گے (جسے اختیار کرنے کے لیے تم آزاد ہو) تو تمھیں دنیا میں امن و اطمینان حاصل ہوگا اور جب میرے پاس پلٹ کر آئو گے تو میں تمھیں ابدی راحت و مسرت کا وہ گھردوں گا جس کا نام جنت ہے، اور اگر دوسرے کسی رویے پر چلو گے (جس پر چلنے کے لیے بھی تم کو آزادی ہے) تو دنیا میں تم کو فساد اور بے چینی کا مزا چکھنا ہوگا اور دنیا سے گزر کر عالم آخرت میں جب آئو گے‘ تو ابدی رنج و مصیبت کے اس گڑھے میں پھینک دیے جائو گے جس کا نام دوزخ ہے۔
۳۔ یہ فہمائش] نصیحت[ کرکے مالک کائنات نے نوع انسانی کو زمین میں جگہ دی اور اس نوع کے اوّلین افراد (آدم و حواعلیہما السلام) کو وہ ہدایت بھی دے دی جس کے مطابق انھیں اور ان کی اولاد کو زمین میں کام کرنا تھا۔ یہ اوّلین انسان جہالت اور تاریکی کی حالت میں پیدا نہیں ہوئے تھے، بلکہ اللہ نے زمین پر ان کی زندگی کا آغاز پوری روشنی میں کیا تھا۔ وہ حقیقت سے واقف تھے۔ انھیں ان کا قانون حیات بتا دیا گیا تھا۔ ان کا طریق زندگی اللہ کی اطاعت (یعنی اسلام) تھا اور وہ اپنی اولاد کو یہی بات سکھا کر گئے کہ وہ اللہ کےمطیع (مسلم) بن کر رہیں۔ لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ انسان اس صحیح طریق زندگی (دین) سے منحرف ہو کر مختلف قسم کے غلط رویوں کی طرف چل پڑے۔ انھوں نے غفلت سے اس کو گم بھی کیا اور شرارت سے اس کو مسخ بھی کر ڈالا۔ انھوں نے اللہ کے ساتھ زمین و آسمان کی مختلف انسانی اور غیر انسانی‘ خیالی اور مادی ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھیرا لیا۔ انھوں نے اللہ کے دیے ہوئے علم حقیقت (العلم) میں طرح طرح کے اوہام اور نظریوں اور فلسفوں کی آمیزش کرکے بے شمار مذاہب پیدا کرلیے۔ انھوں نے خدا کے مقرر کیے ہوئے عادلانہ اصولِ اخلاق و تمدن (شریعت) کو چھوڑ کر، یا بگاڑ کر اپنی خواہشات نفس اور اپنے تعصبات کے مطابق ایسے قوانینِ زندگی گھڑ لیے جن سے اللہ کی زمین ظلم سے بھر گئی۔
۴۔ اللہ نے جو محدود خود اختیاری انسان کو دی تھی اس کے ساتھ یہ بات مطابقت نہ رکھتی تھی کہ وہ اپنی تخلیقی مداخلت سے کام لے کر ان بگڑے ہوئے انسانوں کو زبردستی صحیح رویے کی طرف موڑ دیتا، اور اس نے دنیا میں کام کرنے کے لیے جو مہلت اس نوع کے لیے اور اس کی مختلف قوموں کے لیے مقرر کی تھی اس کے ساتھ یہ بات بھی مطابقت نہ رکھتی تھی کہ اس بغاوت کے رونما ہوتے ہی وہ انسانوں کو ہلاک کر دیتا۔ پھر جو کام ابتدائے آفرینش سے اس نے اپنے ذمے لیا تھا وہ یہ تھا کہ انسان کی خود اختیاری کو برقرار رکھتے ہوئے‘ اس کی مہلت عمل کے دوران میں‘ اس کی رہنمائی کا انتظام وہ کرتا رہے گا۔ چنانچہ اپنی اس خود عائد کردہ ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے اس نے انسانوں ہی میں سے ایسے آدمیوں کو استعمال کرنا شروع کیا جو اس پر ایمان رکھنے والے اور اس کی رضا کی پیروی کرنے والے تھے، اس نے ا ن کو اپنانمائندہ بنایا۔ اپنے پیغامات ان کے پاس بھیجے۔ ان کوعلمِ حقیقت بخشا۔ انھیں صحیح قانون حیات عطا کیا اور انھیں اس کام پر مامور کیا کہ بنی آدم کو اسی راہ راست کی طرف پلٹنے کی دعوت دیں جس سے وہ ہٹ گئے تھے۔
۵۔ یہ پیغمبر مختلف قوموں اور ملکوں میں اٹھتے رہے۔ ہزار ہا برس تک ان کی آمد کا سلسلہ چلتا رہا۔ ہزارہا کی تعداد میں وہ مبعوث ہوئے۔ ان سب کا ایک ہی دین تھا‘ یعنی وہ صحیح رویہ جو اوّل روز ہی انسان کو بتا دیا گیا تھا۔ وہ سب ایک ہی ہدایت کے پیرو تھے‘ یعنی اخلاق و تمدن کے وہ ازلی و ابدی اصول جو آغاز ہی میں انسان کے لیے تجویز کر دیے گئے تھے اور ان سب کا ایک ہی مشن تھا‘ یعنی یہ کہ اس دین اور اس ہدایت کی طرف اپنے ابنائے نوع کو دعوت دیں۔ پھر جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں ان کو منظم کرکے ایک ایسی امت بنائیں جو خود اللہ کے قانون کی پابند ہو اور دنیا میں قانونِ الٰہی کی اطاعت قائم کرنے اور اس قانون کی خلاف ورزی روکنے کے لیے جدوجہد کرے۔ ان پیغمبروں نے اپنے اپنے دور میں اپنے اس مشن کو پوری خوبی کے ساتھ ادا کیا‘ مگر ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ انسانوں کی ایک کثیر تعداد تو ان کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوئی اور جنھوں نے اسے قبول کرکے امت مسلمہ کی حیثیت اختیار کی وہ رفتہ رفتہ خود بگڑتے چلے گئے حتیٰ کہ ان میں سے بعض امتیں ہدایت الٰہی کو بالکل ہی گم کر بیٹھیں اور بعض نے اللہ کے ارشادات کو اپنی تحریفات اور آمیزشوں سے مسخ کر دیا۔
۶۔ آخر کار خداوند عالم نے سرزمین عرب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کام کے لیے مبعوث کیا جس کے لیے پچھلے انبیاء (علیھم السلام) آتے رہے تھے۔ ان کے مخاطب عام انسان بھی تھے اور پچھلے انبیاء ؑ کے بگڑے ہوئے پیرو بھی۔ سب کو صحیح رویے کی طرف دعوت دینا‘ سب کو از سر نو خدا کی ہدایت پہنچا دینا اورجو اس دعوت و ہدایت کو قبول کریں‘ انھیں ایک ایسی امت بنا دینا ان کاکام تھا جو ایک طرف خود اپنی زندگی کا نظام اللہ کی ہدایت پر قائم کرے اور دوسری طرف دنیا کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرے ____ اسی دعوت اور ہدایت کی کتاب یہ قرآن ہے جو اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی۔۳۶؎