انبیاء علیہم السلام بالعموم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالخصوص اللہ تعالیٰ کی اس سیاسی اور قانونی حاکمیت کے مظہر ہیں۔ یعنی اللہ کی اس حاکمیت کا نفاذ انسانوں میں جس واسطے سے ہوتا ہے وہ واسطہ اللہ کے پیغمبر ہیں۔ اس لیے ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے طریقے کی پیروی اور ان کے فیصلوں کو بے چون و چرا ماننا ہر اس فرد اور گروہ اور قوم کے لیے لازم ہے جو اللہ کی اس حاکمیت کو تسلیم کرے۔ یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں:
۱۔ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۰ۚ النساء80:4
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
۲۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۰ۭ النساء64:4
ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
۳۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۰ۭ النساء:105:4
اے محمدؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس روشنی میں حکم کرو جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے۔
۴۔ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۰ۚ الحشر 7:59
اور جو کچھ رسولؐ تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے تم کو روک دیں اس سے رک جائو۔
۵۔ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النساء65:4
پس نہیں‘ تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے اختلاف میں تجھ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو کچھ تو فیصلہ دے اس پر اپنے نفس میں کوئی تنگی تک نہ محسوس کریں اور سربسر تسلیم کرلیں۔
یہ ایک اسلامی ریاست کے دستور کی دوسری بنیاد ہے۔ اس میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار کے بعد دوسرا اقرار یہ ہونا چاہیے کہ اس ریاست میں کتاب اللہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ ثابتہ کو بھی ماخذِ قانون کی حیثیت حاصل ہوگی اور اس کی انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ میں کسی کو بھی سنت کے خلاف احکام دینے‘ قانون بنانے اور فیصلے کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔