دوسرا اہم حکم یہ ہے کہ جائز طریقوں سے جو دولت کمائی جائے اس کو جمع نہ کیا جائے، کیوں کہ اس سے دولت کی گردش رک جاتی ہے، اور تقسیم دولت میں توازن برقرار نہیں رہتا۔ دولت سمیٹ سمیٹ کر جمع کرنے والا نہ صرف خود بدترین اخلاقی امراض میں مبتلا ہوتا ہے بلکہ درحقیقت وہ پوری جماعت کے خلاف ایک شدید جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اور اس کا نتیجہ آخر کار خود اس کے اپنے لیے بھی برا ہے ۔ اسی لیے قرآن مجید بخل اور قارونیت کا سخت مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۰ۭ آل عمران 180:3
جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھا ہے، بلکہ درحقیقت یہ ان کے لیے برا ہے۔
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo التوبہ 34:9
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذابِ الیم کی خبر دے دو۔
یہ چیز سرمایہ داری کی بنیاد پر ضرب لگاتی ہے ۔ بچت کو جمع کرنا اور جمع شدہ دولت کو مزید دولت پیدا کرنے میں لگانا، یہی دراصل سرمایہ داری کی جڑ ہے۔ مگر اسلام سرے سے اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی اپنی ضرورت سے زائد دولت کو جمع کر کے رکھے۔