دوسری دقّت یہ ہے کہ ہمارے فقہی لٹریچر میں دستوری مسائل کہیں الگ ابواب کے تحت یکجا بیان نہیں کیے گئے ہیں بلکہ دستور اور قوانین ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ قانون سے الگ دستور کا جداگانہ تصوّر بہت بعد کے زمانے کی پیداوار ہے، بلکہ خود لفظ دستور کا استعمال بھی اپنے جدید معنوں میں ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ البتہ ان مسائل پر جنھیں ہم اب دستوری مسائل کہتے ہیں‘ تمام فقہائے اسلام نے بحث کی ہے، مگر ان کی بحثیں ہم کو فقہی کتابوں کے اندر مختلف قانونی ابواب میں بکھری ہوئی ملتی ہیں۔ ایک مسئلے پر کتاب القضاء میں بحث ہے تو دوسرے پر کتاب الامارت میں۔ ایک مسئلہ کتاب السیر (مسائل صلح و جنگ کی کتاب) میں بیان ہوا ہے تو دوسرا کتاب النکاح والطلاق میں‘ ایک مسئلہ کتاب الحدود (فوجداری قانون کی کتاب) میں آیا ہے تو دوسرا کتاب الفے (پبلک فینانس کی کتاب) میں۔ پھر ان کی زبان اور اصطلاحات آج کل کی رائج اصطلاحوں سے اس قدر مختلف ہیں کہ جب تک کوئی شخص قانون کے مختلف شعبوں اور ان کے مختلف مسائل پر کافی بصیرت نہ رکھتا ہواور پھر عربی زبان سے بھی بخوبی واقف نہ ہواس کو یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ کہاں قانونِ ملکی کے درمیان قانون بین الاقوام کا کوئی مسئلہ آ گیا ہے اور کہاں پرسنل لاء کے درمیان دستوری قانون کے کسی مسئلے پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ پچھلی صدیوں کے دوران میں ہمارے بہترین قانونی دماغوں نے غایت درجہ بیش قیمت ذخیرہ چھوڑا ہے، مگر آج کی چھوڑی ہوئی میراث کو چھان پھٹک کر ایک ایک قانونی شعبے کے مواد کو الگ الگ کرنا اور اسے منقح صورت میں سامنے لانا ایک بڑی دیدہ ریزی کا کام ہے جس کے لیے موجودہ نسلیں، جنھوں نے مدتوں سے دوسروں کے پس خوردہ پر قناعت کر لی ہے، مشکل ہی سے آمادہ ہو سکتی ہیں۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ آج وہ اپنی اس آبائی میراث کو بے جانے بوجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔