پھر عقل کو لیجیے، اس کی تمام بہترین صلاحیتیں مسلّم، انسانی زندگی میں اس کی اہمیت بھی ناقابلِ انکار اور یہ بھی تسلیم کہ انسان کے اندر یہ بہت بڑی راہ نما طاقت ہے لیکن قطع نظر اس سوال کے کہ انسان کے لیے ’’الدین‘‘ کس کی عقل وضع کرے گی، زید کی؟ بکر کی؟ تمام انسانوں کی؟ یا انسانوں کے کسی خاص گروہ کی؟ اس زمانے کے لوگوں کی؟ یا کسی پچھلے زمانے والوں کی؟ یا آیندہ آنے والوں کی؟ سوال صرف یہ ہے کہ بجائے خود عقلِ انسانی کے حدود کا جائزہ لینے کے بعد کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’’الدین‘‘ کے وضع کرنے میں اُس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ اس کے تمام فیصلے منحصر ہیں اُس مواد پر جو حواس اُس کو فراہم کرکے دیں۔ وہ غلَط مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ غلَط فیصلہ کر دے گی، وہ ناقص مواد فراہم کرکے دیں گے تو یہ ناقص فیصلہ کر دے گی اور جن امور میں وہ کوئی مواد فراہم کرکے نہ دیں گے ان میں اگر یہ خود شناس ہے تو کوئی فیصلہ نہ کرے گی اور اگر برخود غلَط ہے تو اندھیرے میں چوبائی تیر چلاتی رہے گی۔ یہ محدود یتیں جس بے چاری عقل کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ آخر کس طرح اس کی اہل ہو سکتی ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے ’الدین‘ بنانے کی تکلیف اسے دی جائے۔ ’’الدین‘‘ بنانے کا انحصار جن مسائلِ عالیہ کے حل پر ہے اُن میں حواس سرے سے کوئی مواد فراہم ہی نہیں کرتے ہیں۔ پھر کیا عقل سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ناقص مواد پر صحیح وکامل قدریں متعین کرے گی۔ اسی طرح ’’الدین‘‘ کے جو دوسرے اجزائے ترکیبی میں نے بیان کیے ہیں ان میں سے کسی ایک جز کے لیے بھی حواس سے بالکل صحیح اورمکمل مواد حاصل نہیں ہو سکتا جس کی بنا پر عقل ایک جامع اور مکمل نظام بنا سکے۔ اور اس پر مزید یہ ہے کہ عقل کے ساتھ خواہش کا عنصر مستقل طور پر لگا ہوا ہے جو اسے ٹھیٹھ عقلی فیصلے دینے سے روکتا ہے اور اس کی راست روی کو کچھ ٹیڑھ کی طرف مائل کرکے ہی چھوڑتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ عقلِ انسانی حواس کے فراہم کردہ مواد کی ترتیب اور اس سے استدلال کرنے میں کوئی غلطی نہ کرے گی، تب بھی اپنی کم زوریوں کی بنا پر وہ اتنا بل بوتا نہیں رکھتی کہ اتنے بڑے کام کا بوجھ اس پر ڈالا جا سکے۔ یہ بوجھ اس پر ڈالنا اس پر بھی ظلم کرنا ہے اور خود اپنے اوپر بھی۔