Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎

دوسرا۸۵؎ ماخذ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ہدایات کو اور اس کے دیے ہوئے اصولوں کو عرب کی سرزمین میں کس طرح نافذ کیا‘ کس طرح اسلام کے تخیل کو عمل کا جامہ پہنایا‘ کس طرح اس تخیل پر ایک سوسائٹی کی تشکیل کی‘ پھر کس طرح اس سوسائٹی کو منظم کر کے ایک اسٹیٹ کی شکل دی اور اس اسٹیٹ کے مختلف شعبوں کو کس طرح چلا کر بتایا۔ یہ چیزیں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہمیں معلوم ہوسکتی ہیں اور انھی کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قرآن کا ٹھیک ٹھیک منشا کیا ہے۔ یہ قرآن کے دیے ہوئے اصولوں کا عملی حالات پر انطباق ہے جس سے ہم کو اسلامی دستور کے لیے نہایت قیمتی نظائر (precedents) حاصل ہوتی ہیں اور دستوری روایات (conventions of the constitution)کا بڑا اہم مواد بہم پہنچتا ہے۔
سنت ہمارے دستوری قانون کا دوسرا ماخذ ہے اور بڑا ہی اہم ماخذ ہے۔ افسوس ہے کہ ایک عرصے سے ایک گروہ اس کی اہمیت کو کم کرنے اور اس کے قانونی حجت (legal sanction) ہونے کے پہلو کا انکار کرکے لوگوں کے ذہنوں میں انتشار برپا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس لیے ہم مختصراً اس کے حجت ہونے پر روشنی ڈالیں گے۔
یہ۸۶؎ ایک ناقابل انکار تاریخی حقیقت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی رہنمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی، ایک نیا نظام تہذیب و تمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے‘ یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپؐ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمائندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن ؟ یا آپؐ کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنانے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپؐ عام مسلمانوں کی طرح محض ایک مسلمان رہ جاتے تھے، جس کا قول و فعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانونی سند و حجت نہیں رکھتا۔ پہلی بات تسلیم کی جائے تو سنت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند و حجت ماننے کے سوا چارہ نہیں رہتا، البتہ دوسری صورت میں اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف نامہ بر نہیں تھے‘ بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر‘ حاکم اور معلم بھی تھے جن کی پیروی و اطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا تھا اور آپ ان تمام حیثیتوں میں مامور من اللہ تھے۔ مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں نے باختیارِ خود آپؐ کو اپنا لیڈر منتخب نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس قیادت کے منصب سے وہ نعوذ باللہ آپ کو ہٹانے کے مجاز تھے اور نہ ہی ایسا ہوا کہ مدینہ پہنچ کر جب اسلامی ریاست کی بنا ڈالی گئی اس وقت انصار و مہاجرین نے کوئی مشاورت منعقد کرکے یہ طے کیا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری اس ریاست کے صدر اور قاضی اور افواج کے قائد اعلیٰ ہوں گے۔ قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمام حیثیتیں خود متعین کرتا ہے اور یہ سب منصب نبوت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغازِ اسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دنیا میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمونۂ واجب الاتباع اور ان کے امر و نہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ کوئی غیر مسلم عالم بھی اس امرِ واقعی سے انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حیثیت مانی ہے اور اسی بنا پر اسلام کے قانونی نظام میں سنت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سنت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کرسکتا ہے جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف تلاوتِ قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ہی ان کی حیثیت نبوت ختم ہو جاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعویٰ کرے بھی تو اسے بتانا ہوگا کہ یہ مرتبہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کااسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
اس بارے میں کوئی اشتباہ نہیں چھوڑا گیا کہ قرآن نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حیثیت متعین کی ہے اور منصب رسالت کے کون کون سے کام آپؐ نے انجام دیے۔
(الف)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم و مربی
قرآن پاک۸۷؎ میں چار مقامات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کی یہ تفصیل بیان کی گئی ہے:
۱۔ وَاِذْ يَرْفَعُ اِبْرٰھٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ۝۰ۭ ……… رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰـتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيْہِمْ۝۰ۭ البقرہ127-129:2
اور یاد کرو جب کہ ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (کعبہ) کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (انھوں نے دعا کی)… اے ہمارے پروردگار، ان لوگوں میں خود انھی کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرما جو انھیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
۲۔ كَـمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَo البقرہ151:2
جس طرح ہم نے تمھارے اندر خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا‘ جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمھارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
۳۔ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ آل عمران164:3
اللہ نے ایمان لانے والوں پر احسان فرمایا جب کہ ان کے اندر خود انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
۴۔ ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ الجمعہ62:2
وہی ہے جس نے امیوں کے درمیان خود انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
ان آیات میں بار بار جس بات کو بتاکید دہرایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف آیاتِ قرآن سنا دینے کے لیے نہیں بھیجا تھا‘ بلکہ اس کے ساتھ بعثت کے تین مقصد اور بھی تھے:
٭ ایک یہ کہ آپؐ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں۔
٭ دوسرے یہ کہ اس کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھائیں۔
٭ اور تیسرے یہ کہ آپؐ افراد کا بھی اور ان کی اجتماعی ہیئت کا بھی تزکیہ کریں یعنی اپنی تربیت سے ان کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کریں اور ان کے اندر اچھے اوصاف اور بہتر نظام اجتماعی کو نشوونما دیں۔
ظاہر ہے کہ کتاب اور حکمت کی تعلیم صرف قرآن کے الفاظ سنا دینے سے زائد ہی کوئی چیز تھی، ورنہ اس کا الگ ذکر بے معنی تھا۔ اسی طرح افراد اور معاشرے کی تربیت کے لیے آپؐ جو تدابیر بھی اختیار فرماتے تھے وہ بھی قرآن کے الفاظ کو پڑھ کر سنا دینے سے زائد ہی کچھ تھیں‘ ورنہ تربیت کی اس الگ خدمت کا ذکر کرنے کے کوئی معنی نہ تھے اور قرآن پہنچانے کے علاوہ یہ معلّم اور مربی کے مناصب جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مامور فرمایا تھا۔ کیا قرآن کی ان صاف اور مکرر تصریحات کے بعد اس کتاب پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ یہ دونوں مناصب رسالت کے اجزا نہ تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان مناصب کے فرائض اور خدمات بحیثیت رسول نہیں، بلکہ اپنی پرائیویٹ حیثیت میں انجام دیتے تھے؟ اگر نہیں کہہ سکتا تو بتائیے کہ قرآن کے الفاظ سنانے سے زائد جو باتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کتاب و حکمت کے سلسلے میں فرمائیں اور اپنے قول و عمل سے افراد اور معاشرے کی جو تربیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اسے من جانب اللہ ماننے اور سند تسلیم کرنے سے انکار خود رسالت کا انکار نہیں تو اور کیا ہے؟
(ب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شارح کتاب اللہ
سورہ نحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْہِمْ النحل44:16
اور (اے نبیؐ) یہ ذکر ہم نے تمھاری طرف اس لیے نازل کیا ہے تم لوگوں کے لیے واضح کر دو اس تعلیم کو جو اُن کی طرف اتاری گئی ہے۔
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد یہ خدمت کی گئی تھی کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ جو احکام و ہدایات دے اُن کی آپؐ توضیح و تشریح فرمائیں۔ ایک موٹی سی عقل کا آدمی بھی کم از کم اتنی بات تو سمجھ ہی سکتا ہے کہ کسی بات کی تشریح و توضیح محض اس کتاب کے الفاظ پڑھ کر سنا دینے سے نہیں ہوتی، بلکہ تشریح کرنے والا اس کے الفاظ سے زائد کچھ کہتا ہے، تاکہ سننے والا کتاب کا مطلب پوری طرح سمجھ جائے اور اگر کتاب کی کوئی بات کسی عملی مسئلے سے متعلق ہو تو شارح عملی مظاہرہ (practical demonstration)کرکے بتاتا ہے کہ مصنف کا منشا اس طرح عمل کرنا ہے۔ یہ نہ ہو تو کتاب کے الفاظ کا مطلب و مدّعا پوچھنے والے کو پھر کتاب کے الفاظ ہی سنا دینا کسی طفلِ مکتب کے نزدیک بھی تشریح و توضیح قرار نہیں پاسکتا۔ اب فرمائیے کہ اس آیت کی رُو سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے شارح اپنی ذاتی حیثیت میں تھے، یا خدا نے آپؐ کو شارح مقرر کیا تھا؟ یہاں تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ہی یہ بیان کر رہا ہے کہ رسول اپنے قول اور عمل سے اس کا مطلب واضح کرے، پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ شارح قرآن کی حیثیت سے آپؐ کے منصب کو رسالت کے منصب سے الگ قرار دیا جائے اور آپؐ کے پہنچائے ہوئے الفاظ قرآن کو لے کر آپؐ کی شرح و تفسیر قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے؟ کیا یہ انکار خود رسالت کا انکار نہ ہوگا۔
(ج)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت پیشوا و نمونۂ تقلید
سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ…… قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَالرَّسُوْلَ۝۰ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَo آل عمران31-32:3
(اے نبیؐ) کہو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا… کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی‘ پھر اگر وہ منہ موڑتے ہیں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
اور سورۂ احزاب میں فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللہَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ ۔ الاحزاب21:33
تمھارے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک نمونۂ تقلید ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو۔
ان دونوں آیتوں میں خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشوا مقرر کر رہا ہے‘ ان کی پیروی کا حکم دے رہا ہے‘ ان کی زندگی کو نمونۂ تقلید قرار دے رہا ہے‘ اور صاف فرما رہا ہے کہ یہ روش اختیار نہ کرو گے تو مجھ سے کوئی امید نہ رکھو‘ میری محبت اس کے بغیر تمھیں حاصل نہیں ہوسکتی‘ بلکہ اس سے منہ موڑنا کفر ہے۔ اب فرمائیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رہنما اور لیڈر خود بن بیٹھے تھے، یا مسلمانوں نے آپؐ کو منتخب کیا تھا، یا اللہ نے اس منصب پر آپؐ کو مامور کیا تھا؟ اگر قرآن کے یہ الفاظ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور من اللہ رہنما و پیشوا قرار دے رہے ہیں‘ تو پھر آپؐ کی پیروی اور آپؐ کے نمونۂ زندگی کی تقلید سے انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا سراسر لغو ہے کہ اس سے مراد قرآن کی پیروی ہے۔ اگر یہ مراد ہوتی تو فَا تَّبِعُوا الْقُرْآنَ فرمایا جاتا نہ کہ فَا تَّبِعُوْنِیْ اور اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اسوہ حسنہ کہنے کے تو کوئی معنی ہی نہ تھے۔
(د) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شارع
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۝۰ۭ الاعراف 157:7
وہ ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے ان کو روکتا ہے اور ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور بندھن اتار دیتا ہے جو اُن پر چڑھے ہوئے تھے۔
اس آیت کے الفاظ اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریعی اختیارات (legislative powers)عطا کیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر و نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے‘ بلکہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے‘ وہ بھی اللہ کے دیے ہوئے اختیارات سے ہے‘اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ یہی بات سورہ حشر میں اسی صراحت کے ساتھ ارشاد ہوئی ہے:
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ۝۰ۤ وَمَا نَہٰىكُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا۝۰ۚ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ
الحشر59: 7
جو کچھ رسولؐ تمھیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کردے اس سے رک جائو اور اللہ سے ڈرو‘ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جاسکتی کہ ان میں قرآن کے امر اور قرآن کی تحلیل و تحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں، بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہوگی۔ اللہ نے یہاں امر و نہی اور تحلیل و تحریم کو رسولؐ کا فعل قرار دیا ہے نہ کہ قرآن کا۔ پھر کیا کوئی شخص اللہ میاں سے یہ کہنا چاہتا ہے کہ آپ سے بیان میں غلطی ہوگئی‘ آپ بھولے سے قرآن کے بجائے رسولؐ کا نام لے گئے۔
(ھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت قاضی
قرآن میں ایک جگہ نہیں‘ بکثرت مقامات پر اللہ تعالیٰ اس امر کی تصریح فرماتا ہے کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قاضی مقرر کیا ہے۔ مثال کے طور پر چند آیات ملاحظہ ہوں:
۱۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۝۰ۭ النساء:105:4
(اے نبی ؐ) ہم نے تمھاری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اللہ کی دکھائی ہوئی روشنی میں فیصلہ کرو۔
۲۔ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنْ كِتٰبٍ۝۰ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ الشوریٰ 15:42
اور (اے نبیؐ) کہو کہ میں ایمان لایا ہوں اس کتاب پر جو اللہ نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کروں۔
۳۔ اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝۰ۭ النور51:24
ایمان لانے والوں کاکام تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جائیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف تاکہ رسولؐ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔
۴۔ وَاِذَا قِيْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ رَاَيْتَ الْمُنٰفِقِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْكَ صُدُوْدًاo النسائ 61:4
اورجب ان کو کہا جاتا ہے کہ آئو اللہ کی نازل کردہ کتاب کی طرف اور رسول کی طرف تو تم دیکھتے ہو منافقوں کو کہ وہ تم سے کنی کتراتے ہیں۔
۵۔ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًاo النسائ65:4
پس (اے نبیؐ) تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں‘ پھر جو فیصلہ تو کرے اس کی طرف سے اپنے دل میں کوئی تنگی تک محسوس نہ کریں بلکہ اسے بسر و چشم قبول کرلیں۔
یہ تمام آیتیں اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ یا مسلمانوں کے مقرر کیے ہوئے جج نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے جج تھے۔ تیسری آیت بتا رہی ہے کہ آپؐ کے جج ہونے کی حیثیت رسالت کی حیثیت سے الگ نہیں تھی، بلکہ رسول ہی کی حیثیت میں آپؐ جج بھی تھے اور ایک مومن کا ایمان بالرسالت اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ آپؐ کی اس حیثیت کے آگے بھی سمع و طاعت کا رویہ نہ اختیار کرلے۔ چوتھی آیت میں مَااَنْزَلَ اللّٰہ(قرآن) اور رسول دونوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے دو مستقل مرجع ہیں، ایک: قرآن قانون کی حیثیت سے‘ دوسرے: رسول صلی اللہ علیہ وسلم جج کی حیثیت سے‘ اور ان دونوں سے منہ موڑنا منافق کا کام ہے نہ کہ مومن کا۔ آخری آیت میں بالکل بے لاگ طریقے سے کہہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شخص جج کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا وہ مومن ہی نہیں ہے‘ حتیٰ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے فیصلے پر کوئی شخص اپنے دل میں بھی تنگی محسوس کرے تو اس کا ایمان ختم ہو جاتا ہے۔
(و) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت حاکم و فرماںروا
قرآن مجید اسی صراحت اور تکرار کے ساتھ بکثرت مقامات پر یہ بات بھی کہتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حاکم و فرماںروا تھے اور آپؐ کو یہ منصب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے عطا ہوا تھا:
۱۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ النساء64:4
ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن (sanction)سے۔
۲۔ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ النساء80:4
جو رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
۳۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللہَ۝۰ۭ الفتح10:48
(اے نبیؐ ) یقیناً جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔
۴۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ o محمد33:47
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اعمال کو باطل نہ کرلو۔
۵۔ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب36:33
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب کسی معاملے کا فیصلہ اللہ اور اس کا رسول کر دے تو پھر ان کے لیے اپنے اس معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرلینے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔
۶۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ النساء59:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں‘ پھر اگر تمھارے درمیان نزاع ہو جائے تو اس کو پھیر دو اللہ اور رسولؐ کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور روز آخر پر۔
یہ آیات صاف بتا رہی ہیں کہ رسولؐ کوئی ایسا حاکم نہیں ہے جو خود اپنی قائم کردہ ریاست کا سربراہ بن بیٹھا ہو‘ یا جسے لوگوں نے منتخب کرکے سربراہ بنایا ہو‘ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیا ہوا فرماںروا ہے۔ اس کی فرماںروائی اس کے منصبِ رسالت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا رسول ہونا ہی اللہ کی طرف سے اس کا حاکمِ مطاع ہونا ہے۔ اس کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ اس سے بیعت دراصل اللہ سے بیعت ہے۔ اس کی اطاعت نہ کرنے کے معنی اللہ کی نافرمانی کے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں اہل ایمان کو (جن میں ظاہر ہے کہ پوری امت اور اس کے حکمران سب شامل ہیں) قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جس معاملے کا فیصلہ وہ کرچکا ہو اس میں وہ خود کوئی فیصلہ کریں۔
ان تمام تصریحات سے بڑھ کر صاف اور قطعی تصریح آخری آیت کرتی ہے جس میں یکے بعد دیگرے تین اطاعتوں کا حکم دیا گیا ہے:
٭ سب سے پہلے اللہ کی اطاعت
٭ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت
٭ پھر تیسرے درجے میں اولی الامر کی اطاعت
اس سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ رسول، اولی الامر میں شامل نہیں ہے‘ بلکہ ان سے الگ اور بالاتر ہے اور اس کا درجہ خدا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوئی وہ یہ کہ اولی الامر سے نزاع ہوسکتی ہے، مگر رسول سے نزاع نہیں ہوسکتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نزاعات میں فیصلے کے لیے مرجع دو ہیں‘ ایک اللہ‘ دوسرا اُس کے بعد اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ظاہر ہے کہ اگر مرجع صرف اللہ ہوتا تو صراحت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر محض بے معنی ہوتا۔ پھر جب کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے سے مراد کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا مطلب بھی اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ عہد رسالت میں خود ذاتِ رسولؐ کی طرف اور اس عہد کے بعد سنت رسولؐ کی طرف رجوع کیا جائے۔۸۸؎
سنت کے مآخذ قانون ہونے پر امت کا اجماع
اب اگر آپ واقعی قرآن کو مانتے ہیں اور اس کتاب مقدس کا نام لے کر خود اپنے من گھڑت نظریات کے معتقد بنے ہوئے نہیں ہیں‘ تو دیکھ لیجیے کہ قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی طرف سے مقرر کیا ہوا معلم‘ مربی‘ پیشوا‘ رہنما‘ شارح کلام اللہ‘ شارع (law giver)‘ قاضی اور حاکم و فرماںروا قرار دے رہا ہے‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رُو سے منصب رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ کلامِ الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بنا پر صحابہ کرامؓ کے دور سے لے کر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورہ بالا تمام حیثیات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا ماخذ قانون (source of law)ہے۔
سنت کو بجائے خود ماخذِ قانون تسلیم کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ کیا ہے۔ میں اس کے جواب میں عرض کروں گا کہ آج پونے چودہ سو۸۹؎ سال گزر جانے کے بعد پہلی مرتبہ ہم کو اس سوال سے سابقہ پیش نہیں آگیا ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال قبل جو نبوت مبعوث ہوئی تھی اس نے کیا سنت چھوڑی تھی۔ دو تاریخی حقیقتیں ناقابلِ انکار ہیں:
۱۔ ایک یہ کہ قرآن کی تعلیم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر جو معاشرہ اسلام کے آغاز میں پہلے دن قائم ہوا تھا وہ اس وقت سے آج تک مسلسل زندہ ہے۔ اس کی زندگی میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے اور اس کے تمام ادارے اس ساری مدت میں پیہم کام کرتے رہے ہیں۔ آج تمام دنیا کے مسلمانوں میں عقائد اور طرز فکر‘ اخلاق اور اقدار‘ عبادات اور معاملات‘ نظریۂ حیات اور طریقِ حیات کے اعتبار سے جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے‘ جس میں اختلاف کی بہ نسبت ہم آہنگی کا عنصر بہت زیادہ موجود ہے‘ جو اُن کو تمام رُوئے زمین پر منتشر ہونے کے باوجود ایک امت بنائے رکھنے کی سب سے بڑی بنیادی وجہ ہے‘ یہی اس امر کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ اس معاشرے کو ایک سنت پر قائم کیا گیا تھا اور وہ سنت ان طویل صدیوں کے دوران میں مسلسل جاری رہی ہے۔ یہ کوئی گم شدہ چیز نہیں ہے جسے تلاش کرنے کے لیے ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنا پڑ رہا ہو۔
جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد نبوت میں مسلمانوں کے لیے محض ایک پیرو مرشد اور واعظ نہیں تھے بلکہ عملاً ان کی جماعت کے قائد‘ رہنما‘ حاکم‘ قاضی‘ شارع‘ مربی‘ معلم سب کچھ تھے اور عقائد و تصورات سے لے کر عملی زندگی کے تمام گوشوں تک مسلم سوسائٹی کی پوری تشکیل آپؐ ہی کے بتائے‘ سکھائے اور مقرر کیے ہوئے طریقوں پر ہوئی تھی۔ اس لیے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آپؐ نے نماز،روزے اور مناسکِ حج کی جو تعلیم دی ہو، بس وہی مسلمانوں میں رواج پا گئی ہو اور باقی باتیں محض وعظ و ارشاد میں مسلمان سن کر رہ جاتے ہوں، بلکہ فی الواقع جو کچھ ہوا، وہ یہ تھا کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی نماز فورًا مسجدوں میں رائج ہوئی اور اسی وقت جماعتیں اُس پر قائم ہونے لگیں‘ اسی طرح شادی بیاہ اور طلاق و وراثت کے متعلق جو قوانین ٓپؐ نے مقرر کیے انھی پر مسلم خاندانوں میں عمل شروع ہوگیا۔ لین دین کے جو ضابطے آپؐ نے مقرر کیے انھی کا بازاروں میں چلن ہونے لگا۔ مقدمات کے جو فیصلے آپؐ نے کیے وہی ملک کا قانون قرار پائے۔ لڑائیوں میں جو معاملات آپؐ نے دشمنوں کے ساتھ اور فتح پاکر مفتوح علاقوں کی آبادی کے ساتھ کیے وہی مسلم مملکت کے ضابطے بن گئے اور فی الجملہ اسلامی معاشرہ اور اس کا نظام حیات اپنے تمام پہلوئوں کے ساتھ انھی سنتوں پر قائم ہوا‘ جو آپؐ نے خود رائج کیں، یا جنھیں پہلے کے مروّج طریقوں میں سے بعض کو برقرار رکھ کر آپؐ نے سنتِ اسلام کا جز بنا لیا۔
یہ وہ معلوم و متعارف سنتیں تھیں جن پر مسجد سے لے کر خاندان‘ منڈی‘ عدالت‘ ایوانِ حکومت اور بین الاقوامی سیاست تک مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے تمام ادارات نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں عمل درآمد شروع کر دیا تھا اور بعد میں خلفائے راشدین کے عہد سے لے کر دورِ حاضر تک ہمارے اجتماعی ادارات کا ڈھانچہ انھی پر قائم ہے۔ پچھلی صدی تک تو ان ادارات کے تسلسل میں ایک دن کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اگر کوئی انقطاع رونما ہوا ہے تو صرف حکومت و عدالت اور پبلک لاء کے ادارات عملاً درہم برہم ہو جانے سے ہوا ہے …ان (سنتوں) کے معاملے میں ایک طرف حدیث کی مستند روایات اور دوسری طرف امت کا متواتر عمل‘ دونوں ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔
۲۔ دوسری تاریخی حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ہر زمانے میں مسلمان یہ معلوم کرنے کی پیہم کوشش کرتے رہے ہیں کہ سنتِ ثابتہ کیا ہے۔ ایک تو وہ معلوم اور متعارف سنتیں تھیں جن کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں اور دوسرے ان معلوم و متعارف سنتوں کے علاوہ ایک قسم سنتوں کی وہ تھی جنھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شہرت اور رواجِ عام حاصل نہ ہوا تھا‘ جو مختلف اوقات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے‘ ارشاد‘ امر و نہی‘ تقریر۹۰؎ و اجازت‘ یا عمل کو دیکھ کر یا سُن کر خاص خاص اشخاص کے علم میں آئی تھیں اور عام لوگ ان سے واقف نہ ہوسکے تھے ……ان سنتوں کا علم جو متفرق افراد کے پاس بکھرا ہوا تھا‘ امت نے اس کو جمع کرنے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فوراً ہی شروع کر دیا، کیونکہ خلفا‘ حکام‘ قاضی‘ مفتی اور عوام سب اپنے اپنے دائرۂ کار میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق کوئی فیصلہ یا عمل اپنی رائے اور استنباط کی بنا پر کرنے سے پہلے ہی معلوم کرلینا ضروری سمجھتے تھے کہ اس معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت تو موجود نہیں ہے۔ اسی ضرورت کی خاطر ہر اس شخص کی تلاش شروع ہوئی جس کے پاس سنت کا کوئی علم تھا‘ اور ہر اس شخص نے جس کے پاس ایسا کوئی علم تھا خود بھی اس کو دوسروں تک پہنچانا اپنا فرض سمجھا۔ یہی روایت حدیث کا نقطۂ آغاز ہے اور ۱۱ھ سے تیسری چوتھی صدی تک ان متفرق سنتوں کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ موضوعات گھڑنے والوں نے ان کے اندر آمیزش کرنے کی جتنی کوششیں بھی کیں وہ قریب قریب سب ناکام بنا دی گئیں، کیونکہ جن سنتوں سے کوئی حق ثابت یا ساقط ہوتا تھا‘ جن کی بنا پر کوئی چیز حرام یا حلال ہوتی تھی‘ جن سے کوئی شخص سزا پا سکتا تھا یا کوئی ملزم بری ہو سکتا تھا، غرض یہ کہ جن سنتوں پر احکام اور قوانین کا مدار تھا‘ ان کے بارے میں حکومتیں اور عدالتیں اور افتا کی مسندیں اتنی بے پروا نہیں ہوسکتی تھیں کہ یونہی اٹھ کر کوئی شخص قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتا اور ایک حاکم یا جج‘ یا مفتی اسے مان کر کوئی حکم صادر کر ڈالتا۔ اسی لیے جو سنتیں احکام سے متعلق تھیں ان کے بارے میں پوری چھان بین کی گئی‘ سخت تنقید کی چھلنیوں سے ان کو چھانا گیا‘ روایت کے اصولوں پر بھی انھیں پرکھا گیا اور درایت کے اصولوں پر بھی‘ اور وہ سارا مواد جمع کر دیا گیا جس کی بنا پر کوئی روایت مانی گئی ہے یا ردّ کر دی گئی ہے‘ تاکہ بعد میں بھی ہر شخص اس کے رد و قبول کے متعلق تحقیقی رائے قائم کرسکے۔ چونکہ ان کے لیے سنت قانون کی حیثیت رکھتی تھی‘ اسی پر ان کی عدالتوں میں فیصلے ہونے تھے اور ان کے گھروں سے لے کر حکومتوں تک کے معاملات چلنے تھے‘ اس لیے وہ اس کی تحقیق میں بے پروا اور لا اُبالی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس تحقیق کے ذرائع بھی اور اس کے نتائج بھی ہم کو اسلام کی پہلی خلافت کے زمانے سے لے کر آج تک نسلاً بعد نسلٍ میراث میں ملے ہیں اور بلا اِنقطاع ہر نسل کا کیا ہوا کام محفوظ ہے۔
ان دو حقیقتوں کو اگر کوئی شخص اچھی طرح سمجھ لے اور سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع کا باقاعدہ علمی مطالعہ کرے تو اسے کبھی یہ شبہہ لاحق نہیں ہوسکتا کہ یہ کوئی لاَیَنْحَلمعمّاہے جس سے وہ دوچار ہوگیا ہے۔

شیئر کریں