خلافت کی اس تشریح سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے کہ اسلامی دستور میں ریاست کے حدودِ عمل کیا ہیں۔ جب یہ ریاست اللہ کی خلافت ہے اور اللہ کی قانونی حاکمیت تسلیم کرتی ہے تو لامحالہ اس کا دائرۂ اختیار اُن حدود کے اندر ہی محدود رہے گا جو اللہ نے مقرر کی ہیں۔ ریاست جو کچھ کرسکتی ہے ان حدود کے اندر ہی کر سکتی ہے‘ ان سے تجاوز کرنے کی وہ ازروئے دستور مجاز نہیں ہے۔ یہ بات صرف منطقی طور پر ہی خدا کی قانونی حاکمیت کے اصول سے نہیں نکلتی بلکہ قرآن خود اس کو صاف صاف بیان کرتا ہے۔ وہ جگہ جگہ احکام دے کر متنبہ کرتا ہے:
٭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا۰ۭ البقرہ 187:2
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں، ان کے پاس نہ پھٹکو۔
٭ تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا۔ البقرہ229:2
یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں‘ ان سے تجاوز نہ کرو۔
٭ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ البقرہ229:2
اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔
پھر وہ بطور ایک قاعدے کلیے کے یہ حکم دیتا ہے کہ:
٭ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۰ۭ النساء59:4
اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘ پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو، اگر تم ایمان رکھتے ہو اللہ اور آخرت کے دن پر۔
اس آیت کی رو سے ریاست کی اطاعت لازمًا خدا اور رسولؐ کی اطاعت کے تحت ہے، نہ کہ اس سے آزاد‘ اور اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ احکامِ خدا اور رسولؐ کی پابندی سے آزاد ہو کر ریاست کو سرے سے اطاعت کے مطالبے کا حق ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی نکتے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں واضح فرمایا کہ:
۱۔لَاطَاعَۃَ لِمَنْ عَصَی اللہ ۔ (طبرانی)
کوئی اطاعت اس شخص کے لیے نہیں ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے۔
۲۔لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (مشکوۃ ۳۵۲۵)
خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کے لیے اطاعت نہیں ہے۔
اس اصول کے ساتھ دوسرا اصول جو یہ آیت مقرر کرتی ہے‘ یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں جو اختلاف بھی رونما ہو‘ خواہ وہ افراد اور افراد کے درمیان ہو، یا گروہوں اور گروہوں کے درمیان، یا رعیت اور ریاست کے درمیان یا ریاست کے مختلف شعبوں اور اجزاء کے درمیان‘ بہرحال اس کا فیصلہ کرنے کے لیے رجوع اس بنیادی قانون ہی کی طرف کیا جائے گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دیا ہے۔ یہ اصول اپنی عین نوعیت ہی کے اعتبار سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ریاست میں لازمًاکوئی ادارہ ایسا ہونا چاہیے جو اختلافی معاملات کا فیصلہ کتاب اللّٰہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کرے۔