اسی بنیاد پر قرآن یہ اصول قائم کرتا ہے کہ انسان ان ذرائع کے اکتساب اور استعمال کے معاملے میں نہ تو آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے خود حرام و حلال اور جائز و ناجائز کے حدود وضع کرلینے کا مجاز ہے، بلکہ یہ حق خدا کا ہے کہ اس کے لیے حدود مقرر کرے۔ وہ عرب کی ایک قدیم قوم، مدین کی اس بات پر مذمت کرتا ہے کہ وہ لوگ کمائی اور خرچ کے معاملے میں غیر محدود حقِ تصرف کے مدعی تھے:
قَالُوْا يٰشُعَيْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِيْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰۗؤُا۰ۭ ھود 87:11
انہوں نے کہا، اے شعیبؑ کیا تیری نماز تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے باب دادا پوجتے تھے یا ہم اپنے اموال میں اپنی مرضی سے جو کچھ کرنا چاہیں وہ نہ کرسکیں؟
وہ اس بات کو ’’جھوٹ‘‘ قرار دیتا ہے کہ آدمی خود کسی چیز کو حرام اور کسی کو حلال کہے:
وَلَا تَــقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ النحل116:16
اور اپنی زبانوں سے یہ جھوٹے احکام نہ لگائو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام۔( ’’یعنی جس کی تمہیں احتیاج تھی اور جس کو تم نے زبانِ حال سے مانگا، خواہ زبانِ قال سے مانگا ہو یا نہ مانگا ہو۔‘‘ بیضاوی، انوار التنزیل، ج ۳، ص ۱۶۱، مصطفیٰ البابی، مصر، ۱۳۳۰ھ (۱۹۱۲ء)
وہ اس اختیار کو اللہ اور ( اس کے نائب کی حیثیت سے) اس کے رسولؐ کے لیے خاص کرتا ہے:
يَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہٰىہُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَہُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْہِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْہِمْ۰ۭ الاعراف 157:7
وہ (رسولؐ) ان کو بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے، پاک چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتا ہے، اور وہ بوجھ اور بندشیں ان پر سے اتارتا ہے جن سے وہ لدے اور جکڑے ہوئے تھے۔