Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟

ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے‘ اگر وہ بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں،اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو خدا کی اطاعت میں دیں اور اپنے انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات کا فیصلہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے مطابق کریں۔ اسلام اس بات کو گوارا کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں کہ آپ ایمان کا اعلان تو کریں اللہ رب العالمین پر اور زندگی کے معاملات طے کریں غیر الٰہی قانون کے مطابق۔ یہ وہ سب سے بڑا تناقض ہے جس کا تصور کیا جاسکتا ہے اور اسلام اس کو گوارا کرنے کے لیے نہیں‘ اس تناقض کو مٹانے کے لیے آیا ہے، اور اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کے مطالبے کی پشت پر دراصل یہی احساس کار فرما ہے کہ اگر مسلمان خدا کے قانون کی پیروی نہیں کرتا تو اس کا دعویِ اسلام ہی مشتبہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر پورا قرآن دلیل ہے۔۳؎
۱۔ قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے۔ خلق اسی کی ہے، لہٰذا فطرتاً امر کا حق (right of rule) بھی صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ اس کے ملک (dominion)میں اس کی خلق پر‘ خود اس کے سوا کسی دوسرے کا امر جاری ہونا اور حکم چلنا بنیادی طور پر غلط ہے۔ صحیح راستہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت میں اس کے قانونِ شرعی کے مطابق حکمرانی ہو اور فیصلے کیے جائیں۔
۱۔ قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ آل عمران3: 26
کہو: اے اللہ‘ مالک الملک! تو جس کو چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے۔
۲۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ۔ فاطر35:13
وہ ہے اللہ‘ تمھارارب، ملک اسی کا ہے۔
۳۔ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ ۔ بنی اسرائیل17:111
بادشاہی میں کوئی اس کا شریک (partner)نہیں۔
۴۔ فَالْحُکْمُ لِلّٰہِ الْعَلِیِّ الْکَبِیْرِ ۔ المومن40:12
لہٰذا حکم اللہ بزرگ و برتر کے لیے خاص ہے۔
۵۔ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا ۔ الکہف18:26
اور وہ اپنے حکم میں کسی کو حصے دار نہیں بناتا۔
۶۔ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ ۔ اعراف7:54
خبردار! خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے۔
۷۔ یَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْئٍ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَکُلَّہٗ لِلّٰہِ ۔ آل عمران3:154
لوگ پوچھتے ہیں کیا امر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہہ دو کہ امر سارا اللہ کے لیے مخصوص ہے۔
اس اصل الاصول کی بنا پر قانون سازی کا حق انسان سے سلب کرلیا گیا ہے، کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے‘ بندہ اور محکوم ہے‘ اور اس کاکام صرف اس قانون کی پیروی کرنا ہے جو مالک الملک نے بنایا ہو، البتہ قانون الٰہی کی حدود کے اندر استنباط و اجتہاد سے تفصیلاتِ فقہی مرتب کرنے کا معاملہ دوسرا ہے جس کی اجازت ہے۔ نیز جن امور میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی صریح حکم نہ دیا ہو‘ ان میں روح شریعت اور مزاج اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ قانون بنانے کا حق اہل ایمان کو حاصل ہے، کیونکہ ایسے امور میں کسی صریح حکم کا نہ ہونا بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے متعلق ضوابط و احکام مقرر کرنے کا قانونی حق اہل ایمان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے، یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت و باغی اور خارج از اطاعتِ حق ہے‘ اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلے پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے:
۱۔ وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ ۔ النحل16:116
اور تم اپنی زبانوں سے جن چیزوں کا ذکر کرتے ہو‘ ان کے متعلق جھوٹ گھڑ کر یہ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال (lawfull)ہے اور یہ حرام (unlawfull)ہے۔
۲۔ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ۔ الاعراف7:3
جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے اولیا (اپنے ٹھیرائے ہوئے کارسازوں) کی پیروی نہ کرو۔
۳۔ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ المائدہ5:45
اور جو اس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو ایسے تمام لوگ کافر ہیں۔
۴۔ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ ۔ النساء4:60
اے نبیؐ! کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں اس ہدایت پر ایمان لانے کا جو تم پر اور تم سے پہلے کے انبیاء پر اتاری گئی ہے، اور پھر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملے کا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انھیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت سے کفر کریں (یعنی اس کے حکم کو تسلیم نہ کریں)۔
خداوند ِ عالم کی زمین پر صحیح حکومت اور عدالت صرف وہ ہے‘ جو اس قانون کی بنیاد پر قائم ہو‘ جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے‘ اسی کا نام خلافت ہے] ارشاد ہوتا ہے:[
۱۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ۔ النساء4:64
اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ حکم الٰہی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔
۲۔ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرٰ کَ اللّٰہُ ۔ النساء4: 64
اے نبیؐ! ہم نے تمھاری طرف کتاب برحق نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اسی روشنی کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمھیں دکھائی ہے۔
۳۔ وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَاۗءَہُمْ وَاحْذَرْہُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللہُ اِلَيْكَ۝۰ۭ۔ المائدہ5:49
اور یہ کہ تم ان کے درمیان حکومت کرو اس ہدایت کے مطابق جو اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ہوشیار رہو کہ وہ تمھیں فتنے میں مبتلا کرکے اس ہدایت کے کسی جز سے نہ پھیر دیں جو اللہ نے تمھاری طرف نازل کی ہے۔
۴۔ اَفَحُکْمَ الْجَاھِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ۔ المائدہ5:50
کیا یہ لوگ جاہلیت کی حکومت چاہتے ہیں؟
۵۔ یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔ ص38:26
اے دائود! ہم نے تم کو خلیفہ مقرر کیا ہے۔ لہٰذا تم حق کے ساتھ لوگوں کے درمیان حکومت کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ اللہ کے راستے سے وہ تم کو بھٹکا لے جائے گی۔
اس کے برعکس ہر وہ حکومت اور ہر وہ عدالت باغیانہ ہے جو خداوند عالم کی طرف سے اس کے پیغمبروں کے لائے ہوئے قانون کے بجائے کسی دوسری بنیاد پر قائم ہو۔ بلالحاظ اس کے کہ تفصیلات میں ایسی حکومتوں اور عدالتوں کی نوعیتیں باہم کتنی ہی مختلف ہوں۔ ان کے تمام افعال بے اصل‘ بے وزن اور باطل ہیں۔ ان کے حکم اور فیصلے کے لیے سرے سے کوئی جائز بنیاد ہی نہیں ہے۔ حقیقی مالک الملک نے جب انھیں سلطان (charter)عطا ہی نہیں کیا تو وہ جائز حکومتیں اور عدالتیں کس طرح ہوسکتی ہیں۔۴؎ وہ تو جو کچھ کرتی ہیںخدا کے قانون کی رو سے سب کا سب کالعدم ہے۔ اہل ایمان (یعنی خدا کی وفادار رعایا) ان کے وجود کو بطور ایک خارجی واقعے (defacto) کے تسلیم کرسکتے ہیں، مگر بطور ایک جائز وسیلہ انتظام و فصل قضایا (dejure)کے تسلیم نہیں کرسکتے۔ ان کاکام اپنے اصل فرماںروا (اللہ) کے باغیوں کی اطاعت کرنا اور ان سے اپنے معاملات کا فیصلہ چاہنا نہیں ہے اور جو ایسا کریں‘ ادّعائے اسلام و ایمان کے باوجود‘ وفاداروں کے زمرے سے خارج ہیں۔ یہ بات صریح عقل کے خلاف ہے کہ کوئی حکومت ایک گروہ کو باغی بھی قرار دے اور پھر اپنی رعایا پر ان باغیوں کے اقتدار کو جائز بھی تسلیم کرے اور اپنی رعایا کو ان کا حکم ماننے کی اجازت دے دے:
۱۔ قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا o اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ۔ الکہف18:103-105
اے نبیؐ! ان سے کہو: کیا میں تمھیں بتائوں کہ اپنے اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ ناکام و نامراد کون ہیں؟ وہ یہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی پوری سعی بھٹک گئی (یعنی انسانی کوششوں کے فطری مقصودرضائے الٰہی سے ہٹ کر دوسرے مقاصد کی راہ میں صرف ہوئی) اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم خوب کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کی ملاقات (یعنی اس کے سامنے حاضر ہو کر حساب دینے) کا عقیدہ قبول نہ کیا۔ اس لیے ان کے سب اعمال حبط (کالعدم) ہوگئے اور قیامت کے روز ہم انھیں کوئی وزن نہ دیں گے۔
۲۔ تِلْکَ عَادٌ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَہٗ وَ اتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ ھود11:59
یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے احکام ماننے سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی اطاعت نہ کی اور ہر جبار دشمنِ حق کے امر کا اتباع کیا۔
۳۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ مَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ ۔ ھود11:96-97
اور ہم نے موسیٰ کو اپنی آیات اور واضح روشن سلطان کے ساتھ فرعون اور اس کے اعیان ریاست کے پاس بھیجا مگر ان لوگوں نے (ہمارے فرستادہ شخص کے بجائے) فرعون کے امر کی پیروی کی حالانکہ فرعون کا امر درست نہ تھا۔ (یعنی مالک الملک کے سلطان پر مبنی نہ تھا)
۴۔ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا ۔ الکہف18:28
اور تو کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے (یعنی اس حقیقت کے شعور و ادراک سے کہ ہم اس کے رب ہیں) غافل کر دیا ہے‘ جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کی اور جس کا امر حق سے ہٹا ہوا ہے۔
۵۔ قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا۔ الاعراف7:33
اے نبیؐ! کہہ دو کہ میرے رب نے حرام کیا ہے فحش کاموں کو خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور معصیت کو‘ اور حق کے بغیر ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کو‘ اور اس بات کو کہ تم اللہ کے ساتھ (حاکمیت اور الوہیت میں) ان کو شریک کرو جن کے لیے اللہ نے کوئی سلطان نازل نہیں کیا ہے۔
۶۔ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ۔ یوسف12:40
تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی بندگی کرتے ہو‘ وہ تو محض نام ہیں، جو تم نے اور تمھارے اگلوں نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سلطان نازل نہیں کیا ہے۔ حکم صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔
۷۔ وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا۔ النساء4:115
اور جو کوئی رسولؐ سے جھگڑا کرے در آں حالیکہ راہ راست اس کو دکھا دی گئی‘ اور ایمان داروں کا راستہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے‘ اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود مڑ گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
۸۔ فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ۔ النساء4:65
پس تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اے نبی! تجھ کو اپنے باہمی اختلاف میں فیصلہ کرنے والا نہ تسلیم کریں۔
۹۔ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا۔ النساء4:61
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آئو رسولؐ کی طرف تو تونے منافقین کو دیکھا کہ وہ تمھاری طرف آنے سے کتراتے ہیں۔
۱۰۔ وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا ۔ النساء4:141
اور اللہ نے کافروں (یعنی اپنی سلطنت کے باغیوں) کے لیے اہلِ ایمان (یعنی اپنی وفادار رعایا) پر کوئی راہ نہیں رکھی ہے۔
یہ قرآن کے محکمات ہیں۔ ان میں کچھ بھی متشابہ نہیں ہے اور یہی وہ مرکزی عقیدہ ہے جس پر اسلام کے نظام فکر‘ نظام اخلاق اور نظام تمدن کی بنیاد رکھی گئی ہے اور مسلمان اپنے ایمان کے تقاضے پورے نہیں کرسکتے جب تک وہ اسلامی معاشرہ اور اسلامی حکومت قائم نہ کرلیں۔ خدا کے قانون کی بالادستی قائم کیے بغیر بحیثیت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے، اس لیے ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے کہ خلافت الٰہی کا نظام قائم ہو، اور زندگی کے تمام معاملات خدا کے قانون کے مطابق طے ہوں۔ انبیائے کرام علیہم السلام اس مقصد کے لیے مبعوث کیے گئے کہ خدا کی حاکمیت کا نظام قائم کریں۔ اس لیے دیکھیے کہ ہجرت سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ دعا منگوائی جاتی ہے:
وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا ۔
بنی اسرائیل17: 80
اور دعا کر کہ پروردگار! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مدد گار بنا دے۔
یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے، تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کرسکوں‘ فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں‘ اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کرسکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصریؒ اور قتادہؒ نے کی ہے‘ اور اس کو ابن جریرؒ اور ابن کثیرؒ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے اور اسی کی تائید یہ حدیث کرتی ہے کہ:
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَالَایَزَعُ بِالْقُرَآنِ۔ (تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص ۵۹۔ البدایہ و النہایۃ، ج۲، ص۱۰۔تفسیر فتح القدیر للشوکانی ج۳، ص ۳۵۶، ص ۲۵۶۔ کنزالعُمال حدیث ۱۴۲۸۴)
یعنی اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سدباب قرآن سے نہیں کرتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے‘وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جب کہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سکھائی ہے‘ تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز، بلکہ مطلوب و مندوب ہے‘ اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں، بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے۔۵؎

شیئر کریں