پاکستان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے مطالبے سے اسلامی قانون سازی کے متعلق مختلف خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دوست اپنی الجھنو ں کے لیے رقم طراز ہیں:
اسلام میں قانون سازی کی حقیقت و ماہیت اور اس کے دائرۂ عمل کے تعین میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک طرف یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں قانون سازی کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے۔ قانون اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنا دیا ہے۔ مسلمانوں کاکام اس پر عمل کرنا اور اسے نافذ کرنا ہے۔ دوسری طرف اب کچھ لوگوں کے نزدیک قانون سازی کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو اس بات کا بھی حق دے دیا گیا ہے کہ وہ عبادت سے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ تفصیلات تک میں ترمیم و تنسیخ کرسکتے ہیں۔ مثلاً: وہ نماز اور روزے کی عملی شکلوں میں بھی حذف و اضافہ کرسکتے ہیں۔
براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں کہ اسلام میں قانون سازی کے حدود اور اس کی مختلف نوعیتیں کیا کیا ہیں۔ نیز اسے بھی صاف کریں کہ خلفا کے انفرادی اور شورائی فیصلوں اور ائمہ‘ فقہا و مجتہدین کی آرا کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں اگر شوریٰ اور اجماع کی حقیقت پر بھی کچھ روشنی ڈال دی جائے تو مناسب ہے۔
جواب:۔ قانون سازی کا اصول
اسلام میں دائرۂ عبادات کے اندر قانون سازی کی قطعاً کوئی گنجایش نہیں ہے، البتہ عبادات کے علاوہ معاملات کے اس دائرے میں قانون سازی کی گنجایش موجود ہے جس میں کتاب و سنت خاموش ہے۔ اسلام میں قانون سازی کی بنیاد یہ اصول ہے کہ عبادات میں صرف وہی عمل کرو جو بتا دیا گیا ہے اور اپنی طرف سے کوئی نیا طریقۂ عبادت ایجاد نہ کرو اور معاملات میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے اس کے پابند رہو۔ جس چیز سے روک دیا گیا ہے اس سے رک جائو اور جس چیز کے بارے میں شارع (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) نے سکوت اختیار کیا ہے اس میں تم اپنی صواب دید کے مطابق کرنے کے لیے آزاد ہو۔‘‘ امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب ’الاعتصام‘ ج۲،ص۱۱۵ میں اس اصول کو یوں بیان کیا ہے:
عبادات کا حکم عادات کے حکم سے مختلف ہے۔ عادات میں قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے اس میں گویا اپنی صواب دید پر کام کرنے کا اِذن دے دیا گیا ہے۔ بخلاف اس کے عبادات میں کوئی ایسی بات استنباط سے نہیں نکالی جاسکتی جس کی اصل شرع میں موجود نہ ہو‘ کیونکہ عادات کے برعکس عبادات کا سررشتہ حکمِ صریح اور اذنِ صریح سے بندھا ہوا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ عادات میں فی الجملہ ہماری عقلیں راہ صواب معلوم کرسکتی ہیں اور عبادات میں ہم خود عقل سے یہ نہیں معلوم کرسکتے کہ اللہ سے تقرب کا راستہ کون سا ہے۔
قانون سازی کے چار شعبے
معاملات میں قانون سازی کے چار شعبے ہیں:
الف۔ تعبیر‘ یعنی جن معاملات میں شارع نے امر یا نہی کی تصریح کی ہے ان کے بارے میں نص کے معنی یا ان کا منشا متعین کرنا۔
ب۔ قیاس‘ یعنی جن معاملات میں شارع کا کوئی براہ راست حکم نہیں ہے‘ مگر جن سے ملتے جلتے معاملات میں حکم موجود ہے‘ ان میں علت حکم مشخص کرکے اس حکم کو اس بنیاد پر جاری کرنا کہ یہاں بھی وہی علت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر یہ حکم اس سے مماثل واقعہ میں دیا گیا تھا۔
ج۔ استنباط و اجتہاد‘ یعنی شریعت کے بیان کردہ وسیع اصولوں کو جزوی مسائل و معاملات پر منطبق کرنا اور نصوص کے اشارات‘ دلالتوں اور اقتضاء آت کو سمجھ کر یہ معلوم کرنا کہ شارع ہمارے زندگی کے معاملات کو کس شکل میں ڈھالتا ہے۔
د۔ جن معاملات میں شارع نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے ان میں اسلام کے وسیع مقاصد اور مصالح کو ملحوظ رکھ کر ایسے قوانین بنانا جو ضرورت کو بھی پورا کریں اور ساتھ ساتھ اسلام کے مجموعی نظام کی روح اور اس کے مزاج کے خلاف بھی نہ ہوں۔ اس چیز کو فقہاء نے مصالح مرسلہ اوراستحسان وغیرہ ناموں سے موسوم کیا ہے۔ مصالح مرسلہ کے معنی ہیں: وہ عمومی مصلحتیں جن کو ہماری صواب دید پر چھوڑا گیا ہے اور استحسان سے مراد یہ ہے کہ ایک معاملے میں بظاہر قیاس تو ایک حکم لگاتا ہے، مگر عظیم تر دینی مصلحتیں ایک دوسرے حکم کا تقاضا کرتی ہیں‘ اس لیے پہلے حکم کے بجائے دوسرے حکم کو ترجیح دے کر جاری کیا جائے۔
مصالح مرسلہ اور استحسان
تعبیر‘ قیاس اور استنباط کے لیے تو کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے‘ البتہ مصالح مرسلہ اور استحسان پر ہم کچھ مزید روشنی ڈالیں گے۔ امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب ’الاعتصام‘ میں اس موضوع پر ایک مستقل باب لکھا ہے اور اس کی ایسی نفیس تشریح کی ہے جس سے بہتر اصول فقہ کی کسی کتاب میں نظر سے نہیں گزری۔ اس میں وہ مفصل دلائل دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ مصالح مرسلہ سے مراد قانون سازی کی بالکل کھلی چھوٹ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے‘ بلکہ اس کے لیے تین شرطیں لازم ہیں:
٭ اول یہ کہ: جو قانون اس طریقے پر بنایا جائے وہ مقاصد شریعت کے مطابق ہو نہ کہ ان کے خلاف۔
٭ دوم یہ کہ: جب وہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے تو عام عقلیں اس کو قبول کریں۔
٭ تیسرے یہ کہ: وہ کسی حقیقی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے‘ یا کسی حقیقی مشکل کو رفع کرنے کے لیے ہو۔ (الاعتصام، ج۲،۲۵،ص۱۱۰ تا ۱۱۴)
پھر وہ استحسان پر بحث کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اگر بظاہر کسی دلیل کی بنا پر قیاس یہ چاہتا ہو کہ ایک معاملے میں ایک خاص حکم لگایا جائے‘ مگر فقیہ کی نگاہ میں وہ حکم مصلحت کے خلاف ہو، یا اس سے کوئی ایسا نقصان یا حرج لازم آتا ہو جو اسلامی نقطۂ نظر سے رفع کرنے کے لائق ہے، یا وہ عرف کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر دوسرا مناسب حکم لگا دینا استحسان ہے۔ بہرحال استحسان کے لیے شرط یہ ہے کہ ظاہر قیاس کو چھوڑ کر خلافِ قیاس حکم لگانے کے لیے کوئی قوی تر وجہ ہونی چاہیے جسے معقول دلائل کے ساتھ قابلِ لحاظ ثابت کیا جاسکے۔ (ایضًا ج۲، ص ۱۱۸،۱۱۹)
عدالتی فیصلوں اور ملکی قانون کا فرق
ان چار شعبوں کے متعلق کسی مجتہد یا امام کی انفرادی رائے اور تحقیق ایک ماہرانہ رائے اور تحقیق تو ہوسکتی ہے‘ جس کا وزن رائے دینے والے کی علمی شخصیت کے وزن کے مطابق ہی ہوگا‘ مگر بہرحال وہ ’قانون‘ نہیں بن سکتی۔ قانون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مملکت اسلامیہ کے ارباب حل و عقد کی شوریٰ ہو، اور وہ اپنے اجماع سے یا جمہوری فیصلے (یعنی اکثریت کے فیصلے) سے ایک تعبیر،ایک قیاس، ایک استنباط و اجتہاد یا ایک استحسان و مصلحت مرسلہ کو اختیار کرکے قانون کی شکل دے دیں۔ خلافتِ راشدہ میں قانون سازی کی یہی شکل تھی۔۱۹۶؎
یہاں میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں جن سے اندازہ ہوگا کہ خلافت راشدہ میں قومی و ملی ضرورتیں پیش آنے پر قانون سازی کس طرح ہوتی تھی اور اس دور میں ’قانون‘ اور عدالتی فیصلوں کے درمیان کیا فرق تھا:
الف۔ شراب کے متعلق قرآن میں صرف حرمت کا حکم دیا گیا ہے‘ اس کے لیے سزا کی کوئی ’حد‘ مقرر نہیں کی گئی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہیں کی گئی تھی‘ بلکہ آپؐ جس کو جیسی سزا مناسب سمجھتے تھے دے دیتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے اپنے زمانے میں ۴۰ کوڑوں کی سزا دی‘ لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ قانون نہیں بنایا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جب شراب نوشی کی شکایات زیادہ بڑھیں تو انھوں نے صحابہ کی مجلسِ شوریٰ میں معاملہ پیش کیا۔ حضرت علیؓ نے ایک مختصر تقریر میں تجویز پیش کی کہ اس کے لیے ۸۰ کوڑوں کی سزا مقرر کر دی جائے۔ شوریٰ نے اس سے اتفاق کیا اور آئندہ کے لیے یہی قانون ’اجماع‘ کے ساتھ بنا دیا گیا۔ (الاعتصام‘ ج۲۔ ص ۱۰۱)
ب۔ خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ قانون بھی بنایا گیا کہ کاریگروں کو اگر کوئی چیز بنانے کے لیے دی جائے (مثلاً کپڑا سینے کے لیے یا سونا زیور بنانے کے لیے) اور وہ ضائع ہو جائے تو انھیں اس کی قیمت کا تاوان دینا ہوگا۔ یہ فیصلہ بھی حضرت علیؓ کی اس تقریر پر ہوا کہ اگرچہ کاریگر کو ایسی صورت میں بظاہر قابل الزام قرار نہیں دیا جاسکتا جب کہ چیز کے ضائع ہونے میں اس کی غفلت کا دخل نہ ہو‘ لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ کاریگر لوگوں کی چیزوں کی حفاظت کرنے میں غفلت برتنے لگیں گے۔ اس لیے مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں ضامن قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ یہ فیصلہ بھی اجماع سے ہوا۔(ایضاً ،ج۲،ص۱۰۲)
ج۔ حضرت عمرؓ نے اس امر کا فیصلہ کیا کہ اگر ایک آدمی کے قتل میں چند آدمیوں نے شرکت کی ہو تو سب سے قصاص لیا جائے۔ امام مالکؒ اور شافعیؒ نے اس فیصلے کو قبول کیا ہے، مگر اس کو ’قانون‘ کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا گیا‘ کیونکہ یہ ایک عدالتی فیصلہ تھا‘ شوریٰ میں اجماع سے یا جمہوری رائے سے قانون نہیں بنایا گیا تھا۔ (ایضاً‘ ج۲،ص۱۰۷)
د۔ مفقود الخبرکی بیوی اگر عدالت کی اجازت سے نکاح ثانی کر چکی ہو، اور پھر اس کا سابق شوہر آجائے تو آیا وہ پہلے شوہر کو ملے گی، یا دوسرے شوہر کے پاس رہے گی؟ اس مسئلے میں خلفائے راشدین نے مختلف فیصلے کیے ہیں‘ مگر کسی فیصلے کو بھی ’قانون‘ کی حیثیت حاصل نہیں ہے‘ کیونکہ اس مسئلے کو شوریٰ میں پیش کرکے اجماع سے یا جمہور کی رائے سے کوئی فیصلہ نہ ہوا تھا۔ (ایضاً ج۲، ص۱۲۶)
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ اسلام میں عدالتی فیصلوں کی وہ حیثیت نہیں ہے جو انگریزی قانون میں ہے۔ انگریزی قانون میں ججوں کے فیصلوں کی نظیریں ’قانون‘ کا درجہ اختیار کرلیتی ہیں‘ مگر اسلام میں اگرچہ ایک جج کا وہ فیصلہ نافذ ضرور ہوگا جو اس نے کسی مقدمے میں نص کی ایک تعبیر اختیار کر کے‘ یا اپنے قیاس یا اجتہاد سے کیا ہو‘ لیکن اس کو ایک مستقل ’’قانون‘‘ کی حیثیت حاصل نہ ہوگی، بلکہ ایک ہی جج ایک مقدمے میں ایک فیصلہ دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے اپنے اس فیصلے کا پابند نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد اسی سے ملتے جلتے دوسرے مقدمے میں وہ دوسرا فیصلہ دے سکتا ہے، اگر اس پر اپنی پچھلی رائے کی غلطی واضح ہو چکی ہو۔
خلافتِ راشدہ کے بعد جب شوریٰ کا نظام درہم برہم ہوگیا تو ائمہ مجتہدین نے جو فقہ کے مختلف نظام مرتب کیے ان کو نیم قانونی حیثیت اس بنا پر حاصل ہوگئی کہ ایک علاقے کے باشندوں کی عظیم اکثریت نے کسی ایک امام کی فقہ کو قبول کر لیا۔مثلاً: عراق میں امام ابو حنیفہؒ کی فقہ‘ یا اندلس میں امام مالکؒ کی فقہ‘ یا مصر میں امام شافعی ؒ کی فقہ وغیرہ۔ لیکن اس قبولیت عام نے کہیں بھی کسی فقہ کو صحیح معنوں میں ’قانون‘ نہیں بنا دیا۔ وہ قانون جہاں بھی بنی ہے اس بنا پر بنی ہے کہ ملک کی حکومت نے اسے بطور قانون تسلیم کرلیا۔
اجماع
اجماع کی تعریف میں علما کے اقوال مختلف ہیں۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اجماع اس چیز کا نام ہے کہ:’ایک مسئلے میں تمام اہل علم متفق ہوں اور کوئی ایک قول بھی اس کے خلاف نہ پایا جاتا ہو۔ ابن جریر طبری اورابوبکر رازی کی اصطلاح میں اکثریت کا قول بھی ’اجماع‘ ہے۔ امام احمدؒ جب کسی مسئلے میں یہ کہتے ہیں کہ: ’ہمارے علم میں اس کے خلاف کوئی قول نہیں ہے‘ تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ امام موصوف کے نزدیک اس مسئلے میں اجماع ہے۔
یہ امر سب کے نزدیک مسلّم ہے کہ’اجماع‘ حجت ہے۔یعنی نص کی جس تعبیر پر‘ یا جس قیاس و اجتہاد پر‘ یا جس قانون مصلحت پر اجماع امت ہو گیا ہو، اس کی پیروی لازم ہے، لیکن اختلاف جس امر میں ہے وہ اجماع کا وقوع و ثبوت ہے نہ کہ بجائے خود اجماع کا حجت ہونا۔ جہاں تک خلافت راشدہ کے دور کا تعلق ہے‘ چونکہ اس زمانے میں اسلامی نظام جماعت باقاعدہ قائم تھا اور شوریٰ پر نظام چل رہا تھا‘ اس لیے اس وقت کے اجماعی اور جمہوری فیصلے تو معلوم اور معتبر روایات سے ثابت ہیں۔ لیکن بعد کے دور میں جب نظامِ جماعت درہم برہم اور شوریٰ کا طریقہ ختم ہوگیا تو یہ معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا کہ کس چیز پر فی الحقیقت اجماع ہے اور کس چیز پر نہیں ہے۔اسی بنا پر خلافت راشدہ کے دورکا اجماع تو ناقابل انکار مانا جاتا ہے‘ مگر بعد کے دور میں جب کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں مسئلے پر اجماع ہے تو محققین اس کے اس دعوے کو رد کر دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کس بات پر اجماع ہے اورکس بات پر نہیں ہے، اسلامی نظام کا قیام ضروری ہے۔
عام طور پر جو یہ مشہور ہے کہ امام شافعیؒ یا امام احمد بن حنبلؒ سرے سے اجماع کے وجود ہی کے منکر تھے، یا کسی دوسرے امام نے اس کا انکار کیا ہے، یہ سب کچھ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب کسی مسئلے پر بحث کرتے ہوئے کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر اجماع ہے‘ در آنحالیکہ اس کا کوئی ثبوت موجود نہ ہوتا‘ تو یہ لوگ اس کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کرتے تھے۔ امام شافعیؒ نے اپنی کتاب ’جماع العلم‘ میں اس مسئلے پر مفصل بحث کرکے یہ بتایا ہے کہ دنیائے اسلام کے پھیل جانے اور جگہ جگہ اہل علم کے منتشر ہو جانے اور نظام جماعت درہم برہم ہو جانے کے بعد اب کسی جزوی مسئلے کے متعلق یہ معلوم کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس میں تمام علما کے اقوال کیا ہیں۔ اس لیے جزئیات میں اب اجماع کا دعویٰ کرنا غلط ہے، البتہ اسلام کے اصولوں اور اس کے ارکان اور بڑے بڑے مسائل کے بارے میں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ان پر اجماع ہے‘ مثلاً: یہ کہ نماز کے اوقات پانچ ہیں‘ یا روزے کے حدود یہ ہیں وغیرہ۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہؒ یوں بیان کرتے ہیں:
اجماع کے معنی یہ ہیں کہ کسی حکم پر تمام علمائے مسلمین متفق ہو جائیں اور جب کسی حکم پر تمام امت کا اجماع ثابت ہو جائے تو کسی شخص کو اس سے نکلنے کا حق نہیں رہتا‘ کیونکہ پوری امت کبھی ضلالت پر متفق نہیں ہو سکتی۔ لیکن بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں اجماع ہے، حالانکہ دراصل وہ نہیں ہوتا‘ بلکہ بسا اوقات دوسرا قول راجح ہوتا ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہؒ ،ج۱‘ ص ۴۰۶)
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی مسئلے میں نص شرع کی کسی تعبیر پر‘ یا کسی قیاس یا استنباط پر‘ یا کسی تدبیر و مصلحت پر اب بھی اہل حل و عقد کا اجماع‘ یا ان کی اکثریت کا فیصلہ فی الواقع ہو جائے تو وہ حجت ہوگا اور قانون قرارپائے گا۔ اس طرح کا فیصلہ اگر تمام دنیائے اسلام کے اہل حل و عقد کریں تو وہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قانون ہوگا اور کسی ایک اسلامی مملکت کے اہل حل و عقد کریں تو وہ کم از کم اس مملکت کے لیے تو قانون ہونا چاہیے۔