Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎

یہ ایک سوال نامہ ہے جو جرمنی سے ایک طالب علم نے اسلامی ریاست اور خلافت کے بعض مسائل کی تحقیق کے لیے بھیجا ہے۔ اصل سوالات انگریزی میں ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ترجمہ دے رہے ہیں:
۱۔ کیا اسلامی ریاست کے سربراہ کے لیے صرف خلیفہ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے؟
۲۔ کیا اموی خلفا صحیح معنوں میں خلفا کہلائے جانے کے مستحق ہیں؟
۳۔ خلفائے بنو عباس خصوصاً المامون کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
۴۔ حضرت امام حسنؓ، حضرت امام حسینؓ اور ابن زبیرؓ کی سیاسی سرگرمیوں کے متعلق آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ آپ کی نظر میں ۶۸۰ء میں ملت اسلامیہ کا اصل رہنما کون تھا؟ حسینؓ، یایزید؟
۵۔ کیااسلامی ریاست میں خروج ایک نیکی کاکام قرار پاسکتا ہے؟
۶۔ اگر خروج کرنے والے مساجد یا دوسرے مقدس مقامات (حرم اور کعبہ) میں پناہ گزیں ہوں، تو ایسی صورت میں اسلامی ریاست کا ایسے لوگوں کے ساتھ کیا طرز عمل ہونا چاہیے؟
۷۔ وہ ایسے کون سے ٹیکس ہیں جو ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں سے ازروئے قرآن و سنت وصول کرنے کی مجاز ہے؟
۸۔ کیا کوئی خلیفہ ایسا کام بھی کرسکتا ہے جو سابق خلفا کے طرز عمل سے مختلف ہو؟
۹۔ حجاج بن یوسف کو بحیثیت گورنر اور منتظم آپ کیا حیثیت دیتے ہیں؟
۱۰۔ کیا اسلامی ریاست اس بات کا استحقاق رکھتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر ایسے ٹیکس عاید کرے جو نہ تو قرآن و سنت میں مذکور ہوں اور نہ ہی ان کی کوئی نظیر سابق خلفا کے ہاں ملتی ہو؟
جواب: آپ کے ارسال کردہ سوالات کے مفصل جوابات لکھنے کے لیے تو فرصت درکار ہے جو مجھے میسر نہیں، البتہ مختصر جوابات حاضر ہیں:
(۱)اسلامی ریاست کے رئیس یا صدر کے لیے خلیفہ کا لفظ کوئی لازمی اصطلاح نہیں ہے۔ امیر‘ امام‘ سلطان وغیرہ الفاظ بھی حدیث‘ فقہ‘ کلام اور اسلامی تاریخ میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں، مگر اصولاً جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کی بنیاد نظریۂ خلافت پر قائم ہو۔ ایک صحیح اسلامی ریاست نہ تو بادشاہی یا آمریت ہوسکتی ہے اورنہ ایسی جمہوریت جو حاکمیت عوام (popular sovereignty)کے نظریے پر مبنی ہو۔ اس کے برعکس صرف وہی ریاست حقیقت میں اسلامی ہوسکتی ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم کرلے‘ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو قانون برتراور اولین ماخذ قوانین مانے‘ اور حدود اللہ کے اندر رہ کر کام کرنے کی پابند ہو۔ اس ریاست میں اقتدار کی اصل غرض خدا کے احکام کا اجرا اور اس کی رضا کے مطابق برائیوں کا استیصال اوربھلائیوں کا ارتقا ہے۔ اس ریاست کا اقتدار‘ اقتدارِ اعلیٰ نہیں ہے، بلکہ خدا کی نیابت و امانت ہے۔ یہی معنی ہیں خلافت کے۔
(۲)اموی فرماں روائوں کی حکومت حقیقت میں خلافت نہ تھی۔ اگرچہ ان کی حکومت میں قانون اسلام ہی کا تھا‘ لیکن دستور (constitution)کے بہت سے اسلامی اصولوں کو انھوں نے توڑ دیا تھا۔ نیز ان کی حکومت اپنی روح میں اسلام کی روح سے بہت ہٹی ہوئی تھی۔ اس فرق کو ان کی حکومت کے آغاز ہی میں محسوس کرلیا گیا تھا۔ چنانچہ اس حکومت کے بانی حضرت امیر معاویہؓ کا اپنا قول یہ تھا کہ اَنَا اَوَّلُ الْمَلُوْکِ (میں سب سے پہلا بادشاہ ہوں)اور جس وقت حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کیا اُس وقت حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبدالرحمان نے اٹھ کر برملا کہا کہ:یہ تو قیصریت ہے کہ جب قیصر مرا تو اس کا بیٹا قیصر ہوگیا۔
(۳)اصولی حیثیت سے خلافت عباسیہ کی پوزیشن بھی وہی ہے جو خلافت بنی امیہ کی ہے۔ فرق بس اتنا تھا کہ خلفائے بنی امیہ دین کے معاملے میں بے پروا (indifferent)تھے اور اس کے برعکس خلفائے بنی عباس نے اپنی مذہبی خلافت اور روحانی سیاست کا سکہ بٹھانے کے لیے دین کے معاملے میں ایجابی طور پر دلچسپی لی۔ لیکن ان کی یہ دلچسپی اکثر دین کے لیے مضر ہی ثابت ہوئی۔ مثلاً: مامون کی دلچسپی نے جو شکل اختیار کی، وہ یہ کہ اس نے ایک فلسفیانہ مسئلے کو جو دین کا مسئلہ نہ تھا‘ خواہ مخواہ دین کا ایک عقیدہ بنایا اور پھر حکومت کی طاقت سے زبردستی اس کو تسلیم کرانے کے لیے ظلم و ستم کیا۔
(۴)جس دور کے متعلق یہ سوال کیا گیا ہے وہ حقیقت میں فتنے کا دور تھا۔ مسلمان اس وقت سخت انتشار ذہنی میں مبتلا تھے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کاحقیقی لیڈر کون تھا۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یزید کا سیاسی اثر جو کچھ بھی تھا صرف اس بنا پر تھا کہ اس کے پاس طاقت تھی اور اس کے والد نے ایک مضبوط سلطنت قائم کرنے کے بعد اسے اپنا ولی عہد بنا دیا تھا۔ یہ بات اگر نہ ہوتی اور یزید عام مسلمانوں کی صف میں شامل ہوتا تو شاید وہ آخری شخص ہوتا جس پر لیڈر شپ کے لیے مسلمانوں کی نگاہِ انتخاب پڑ سکتی۔ اس کے برعکس حسین ابن علیؓ اس وقت امت کے نمایاں ترین آدمی تھے اور ایک آزادانہ انتخاب میں اَغلب یہ ہے کہ سب سے زیادہ ووٹ ان کے حق میں ہی پڑتے۔
(۵) ظالم امرا کے مقابلے میں خروج ایسی صورت میں نہ صرف جائز، بلکہ فرض ہو جاتا ہے جب کہ ان کو ہٹا کر ایک صالح و عادل حکومت کرنے کا امکان ہو۔ اس معاملے میں امام ابوحنیفہ کا مسلک بہت واضح ہے، جسے ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اور الموافق المکی نے مناقب ابوحنیفہ میں نقل کیا ہے۔ اس کے برعکس ایک حکومت عادلہ کے خلاف خروج بہت بڑا گناہ ہے اور تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ ایسے خروج کو دبا دینے میں حکومت کی تائید کریں۔ بین بین حالت میں‘ جب کہ حکومت عادل نہ ہو، مگر صالح انقلاب کے بھی امکانات واضح نہ ہوں‘ پوزیشن مشتبہ ہے اور ائمہ و فقہا نے اس معاملے میں مختلف طرز عمل اختیار کیے ہیں۔ بعض نے صرف کلمۂ حق کہنے پر اکتفا کیا، مگر خروج کو ناجائز سمجھا۔ بعض نے خروج کیا اور جامِ شہادت نوش کرنے کو ترجیح دی اور بعض نے بہ امیدِ اصلاح تعاون بھی کیا۔
(۶) حکومت ِ عادلہ کے مقابلے میں جو لوگ خروج کریں اور وہ اگر مساجد میں پناہ لیں تو ان کا محاصرہ کیا جاسکتا ہے اور اگر وہ وہاں سے گولہ باری کریں تو جوابی گولہ باری بھی کی جاسکتی ہے۔ رہا حرم میں ان کا پناہ لینا تو اس صورت میں صرف محاصرہ کرکے اس حد تک تنگ کیا جاسکتا ہے کہ بالآخر باغی ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائیں۔ حرم میں قتل و خون کرنا یا حرم پر سنگ باری یا گولہ باری کرنا درست نہیں ہے۔ بخلاف اس کے ایک ظالم حکومت کا وجود خود گناہ ہے اور اپنے قیام و بقا کے لیے اس کی کوشش بھی گناہ میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔
(۷) قرآن و سنت نے ٹیکسوں کا کوئی نظام تجویز نہیں کیا ہے بلکہ مسلمانوں پر زکوٰۃ بطور عبادت اور غیر مسلموں پر جزیہ (بطور علامت اطاعت) لازم کرنے کے بعد یہ بات حکومت کی صواب دید پر چھوڑی ہے کہ جیسی ملک کی ضروریات ہوں ان کے مطابق باشندوں پر ٹیکس عاید کرے۔ خراج اور محاصل درآمد و برآمد اس کی ایک مثال ہیں جنھیں قرآن و سنت میں شرعاً مقرر نہیں کیا گیا تھا اور حکومت اسلامی نے اپنی صواب دید کے مطابق انھیں خود مقرر کیا۔ اس معاملے میں اصل معیار ملک کی حقیقی ضروریات ہیں۔ اگر کوئی فرماںروا اپنے تصرف میں لانے کے لیے ٹیکس وصول کرے تو حرام ہے اور ملک کی حقیقی ضروریات پر صرف کرنے کے لیے لوگوں کی رضامندی سے ان پر عاید کرے تو حلال ہے۔
(۸) جی ہاں۔ صرف یہی نہیں بلکہ خود اپنے کیے ہوئے سابق فیصلوں کو بھی بدل سکتا ہے۔
(۹) حجاج بن یوسف دنیوی سیاست کے نقطۂ نظر سے بڑا لائق اور دینی نقطۂ نظر سے سخت ظالم حاکم تھا۔
(۱۰) جی ہاں‘ ان شرائط کے ساتھ جو نمبر ۷ میں بیان ہوئی ہیں۔
(۳) الخلافت یا الحکومت۲۰۴؎
سوال: اگر بیسویں صدی میں بھی اسلام قابل نفاذ ہے تو موجودہ رجحان و نظریات کی جگہ لینے میں جو مشکلات یا موانع درپیش ہوں گے ان کا بہترین حل ابن خلدون کے ہر دو نظریہ حکومت و ریاست یعنی اَلْخَلاَفت یا اَلْحَکُوْمَتْ کس سے ممکن ہے؟
جواب: اس زمانے میں اسلامی نظام کو جو چیز روک رہی ہے اور جو رجحانات اور نظریات اس کے راستے میں سد راہ ہیں ان کا اگر تجزیہ کرکے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انھیں مسلمان ملکوں پر مغربی قوموں کے طویل سیاسی غلبے نے پیدا کیا ہے۔ مغربی قومیں جب ہمارے ملکوں پر مسلط ہوئیں تو انھوں نے ہمارے قانون ہٹا کر اپنا قانون ملک میں رائج کیا۔ ہمارے نظام تعلیم کو معطل کرکے اپنا نظام تعلیم رائج کیا۔ تمام چھوٹی بڑی ملازمتوں سے ان سب لوگوں کو برطرف کیا جو ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار تھے اور ہر ملازمت ان لوگوں کے لیے مخصوص کردی جو ان کے قائم کردہ نظام تعلیم سے فارغ ہو کر نکلے تھے۔ معاشی زندگی میں بھی اپنے ادارے اور طورطریقے رائج کیے اور معیشت کا میدان بھی رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لیے مخصوص ہوگیا جنھوں نے مغربی تہذیب و تعلیم کو اختیار کیا تھا۔ اس طریقے سے انھوں نے ہماری تہذیب اور ہمارے تمدن اور اس کے اصولوں اور نظریات سے انحراف کرنے والی ایک نسل خود ہمارے اندر پیدا کردی جو اسلام اور اس کی تاریخ‘ اس کی تعلیمات اور اس کی روایات‘ ہر چیز سے علمی طور پر بھی بیگانہ ہے اور اپنے رجحانات کے اعتبار سے بھی بیگانہ۔ یہی وہ چیز ہے جو دراصل ہمارے اسلام کی طرف پلٹنے میں مانع ہے اور یہی اس غلط فہمی کا موجب بھی ہے کہ اسلام اس وقت قابلِ عمل نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ساری تعلیم اور تربیت غیر اسلامی طریقے پر دی گئی ہو، وہ آخر اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے ہیں کہ اسلام قابلِ عمل نہیں ہے‘ کیونکہ نہ تو وہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ جس نظامِ زندگی کے لیے وہ تیار کیے گئے ہیں اسی کو وہ قابلِ عمل تصور کرسکتے ہیں۔
اب لامحالہ ہمارے لیے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں: یا تو ہم من حیث القوم کافر ہو جانے پر تیار ہوجائیں اور خواہ مخواہ اسلام کا نام لے کر دنیا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں، یا پھر خلوص اور ایمان داری کے ساتھ (منافقانہ طریق سے نہیں) اپنے موجودہ نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں اور اس کا پورے طریقے سے تجزیہ کرکے دیکھیں کہ اس میں کیا کیا چیزیں ہم کو اسلام سے منحرف بنانے والی ہیں اور اس میں کیا تغیرات کیے جائیں جن سے ہم ایک اسلامی نظام کو چلانے کے قابل لوگ تیار کرسکیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے تعلیمی کمیشن نے اس مسئلے کی طرف کوئی اچٹتی ہوئی توجہ بھی نہیں کی۔ یہ مسئلہ بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کے قابل ہے اور جب تک ہم اسے حل نہیں کرلیں گے، اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کی راہ کبھی ہموار نہ کرسکیں گے۔
ابنِ خلدون کے کسی نظریے کی طرف رجوع کرنے سے اس مسئلے کے حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی‘ کیونکہ اس مسئلے کی جو نوعیت اب پیدا ہوئی ہے وہ ابن خلدون کے زمانے میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔ مسئلے کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ مغربی استعمار رخصت ہوتے ہوئے ہمارے ملکوں میں اس نسل کو حکمران بنا کر چھوڑ گیا ہے جس کو اس نے اپنی تعلیم اور اپنی تہذیب کا دودھ پلا پلا کر اس طرح تیار کیا تھا کہ وہ جسمانی حیثیت سے تو ہماری قوم کا حصہ ہے، لیکن علمی اور ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے انگریزوں‘ فرانسیسیوں یا ولندیزیوں کا پورا جانشین ہے۔ اس طبقے کی حکومت جو مشکلات پیدا کرتی ہے ان کو رفع کرنے کا معاملہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے، جسے حل کرنا ابن خلدون کے نظریات کاکام نہیں ہے۔ اس لیے بڑے سنجیدہ غور و فکر کی اور حالات کو سمجھ کر اصلاح کے لیے نئی راہیں نکالنے کی ضرورت ہے۔
(۴) حکومتِ الٰہیہ اور پاپائیت کا اصولی فرق۲۰۵؎
سوال: رسالہ ’’پیغامِ حق‘‘ میں ابو سعید بزمی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے سلسلے میں لکھا ہے:
اسلامی سیاست کا ایک تصور وہ بھی ہے جسے حال ہی میں مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا ہے اور جس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ تاریخی حیثیت سے یہ اصول نیا نہیں۔ یورپ میں ایک عرصے تک تھیاکریسی (theocracy)کے نام سے اس کا چرچا رہا اور روم کے پاپائے اعظم کا اقتدار اسی تصور کا نتیجہ تھا۔ لیکن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ چونکہ خدا کوئی ناطق ادارہ نہیں‘ اس لیے جس شخص کو خدا کے نام پر اختیار و اقتدار مل جائے وہ بڑی آسانی سے اس کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ مولانا مودودی کے حلقۂ خیال کے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تصور سیاست پاپائے اعظم کے تصور سے مختلف ہے‘ لیکن چونکہ وہ حکومت کو عوام کے سامنے جواب دہ قرار نہیں دیتے اور اسی بنیاد پر جمہوریت کو غلط سمجھتے ہیں اس لیے نتیجتًا ان کا تصور پاپائے اعظم ہی کا تصور ہو کر رہ جاتا ہے۔
پھر بزمی صاحب اپنی طرف سے ایک حل پیش کرتے ہیں لیکن وہ بھی وجۂ تسلی نہیں ہوتا۔ آپ براہ کرم ترجمان القرآن کے ذریعے سے اس غلط فہمی کا ازالہ فرما دیں اور صحیح نظریے کی توضیح کردیں۔
جواب: بزمی صاحب نے غالباً میرا مضمون ’ اسلام کا نظریۂ سیاسی‘ ملاحظہ نہیں فرمایا ہے، ورنہ وہ دیکھتے کہ جو اعتراضات انھوں نے میرے مسلک پر کیے ہیں‘ ان کا پورا جواب اس مضمون میں موجود ہے۔ لیکن اگر انھوں نے اس مضمون کو پڑھا ہے اور پھر یہ اعتراضات کیے ہیں تو میں سوائے اس کے کہ اظہار تعجب کروں اور کچھ عرض نہیں کرسکتا۔ میرے اس مضمون میں یہ عبارتیں قابلِ ملاحظہ ہیں:
مگر یورپ جس تھیاکریسی سے واقف ہے‘ اسلامی تھیاکریسی اس سے بالکل مختلف ہے۔ یورپ اس تھیاکریسی سے واقف ہے‘ جس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا ہے اور عملاً اپنی خدائی تمام باشندوں پر مسلط کر دیتا ہے۔ ایسی حکومت کو الٰہی حکومت کہنے کے بجائے شیطانی حکومت کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ بخلاف اس کے اسلام جس تھیاکریسی کو پیش کرتا ہے وہ کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ عام مسلمان اسے خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔ اگر مجھے ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی اجازت دی جائے تو میں اس طرزِحکومت کو الٰہی جمہوری حکومت (theo-democratic state)کے نام سے موسوم کروں گا‘ کیونکہ اس میں خدا کی حاکمیت اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کے تحت مسلمانوں کو ایک محدود عمومی حکومت عطا کی گئی ہے۔ اس میں عاملہ مسلمانوں کی رائے سے بنے گی‘ مسلمان ہی اس کو معزول کرنے کے مختار ہوں گے‘ سارے انتظامی معاملات اور تمام وہ مسائل جن کے متعلق خدا کی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، مسلمانوں کے اجماع ہی سے طے ہوں گے اور الٰہی قانون جہاں تعبیر طلب ہوگا وہاں کوئی مخصوص طبقہ یا نسل نہیں، بلکہ عام مسلمانوں میں سے ہر وہ شخص اس کی تعبیر کا مستحق ہوگا جس نے اجتہاد کی قابلیت بہم پہنچائی ہو۔
پھر میں نے اوپر کی عبارت کے نیچے حاشیے میں اس کی مزید تشریح کی ہے کہ:
عیسائی پاپائوں اور پادریوں کے پاس مسیح علیہ السلام کی چند اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی شریعت سرے سے تھی ہی نہیں‘ لہٰذا وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق قوانین بناتے تھے اور انھیں یہ کہہ کر نافذ کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔
کوئی شخص جو مسیحی مذہب اور پاپائیت کی تاریخ سے واقف ہے‘ میرے اس اشارے کو جو میں نے ان چند فقروں میں کیا ہے‘ سمجھنے سے قاصر نہیں رہ سکتا۔ یورپ کا پاپائی نظام سینٹ پال کا پیرو تھا جس نے موسوی شریعت کو لعنت قرار دے کر مسیحیت کی بنیاد صرف ان اخلاقی تعلیمات پر رکھی تھی جو نئے عہدنامے میں پائی جاتی ہیں۔ ان اخلاقی تعلیمات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس پر ایک تمدن اور ایک سیاست کا نظام چلایا جاسکے، مگر جب پاپائوں نے یورپ میں بلاواسطہ یا بالواسطہ تھیاکریسی قائم کی تو اس کے لیے ایک قانونِ شریعت بھی وضع کیا، جو ظاہر ہے کہ کسی وحی و الہام سے ماخوذ نہ تھا‘ بلکہ خود ان کا گھڑا ہوا تھا۔ اس میں انھوں نے جو نظامِ عقائد‘ جو مذہبی اعمال و رسوم‘ جو نذریں اور نیازیں‘ جو معاشرتی ضوابط وغیرہ تجویز کیے تھے ان میں سے کسی کی سند بھی ان کے پاس کتاب اللہ سے نہ تھی۔ اسی طرح انھوں نے خدا اور بندے کے درمیان مذہبی منصب داروں کو جو ایک مستقل واسطہ قرار دے دیا تھا یہ بھی ان کا خود ساختہ تھا۔ نیز انھوں نے نظام کلیسا کے کارپردازوں کے لیے جو حقوق اور اختیارات تجویز کیے تھے اور جو مذہبی ٹیکس لوگوں پر لگائے تھے ان کے لیے بھی کوئی ماخذ ان کی اپنی ہوائے نفس کے سوا نہ تھا۔ ایسے نظام کا نام چاہے انھوں نے تھیاکریسی رکھ دیا ہو‘ لیکن وہ فی الحقیقت تھیاکریسی نہیں تھا۔ اس کو آخر اسلام کی حکومتِ الٰہیہ یا شرعی حکومت سے کیا مماثلت ہوسکتی ہے جس کے لیے کتاب و سنت کی صورت میں بالکل واضح اور ناقابل حذف و ترمیم قانون موجود ہے اور جس کو چلانا کسی مخصوص مذہبی طبقے کا اجارہ نہیں ہے۔
پھر بزمی صاحب کا یہ ارشاد بالکل عجیب ہے کہ ہم خلیفہ کو وہی حیثیت دیتے ہیں جو عیسائیوں میں پوپ کی حیثیت ہے اور یہ کہ ہم اسے عوام کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتے۔ اس کے جواب میں میں پھر اپنے اسی مضمون کی چند عبارتیں نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں۔ میں نے آیت :
وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِي الْاَرْضِ كَـمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝۰۠ النور55:24
سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
دوسری کانٹے کی بات اس آیت میں یہ ہے کہ خلیفہ بنانے کا وعدہ تمام مومنوں سے کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان میں سے کس کو خلیفہ بنائوں گا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ سب مومن خلافت کے حامل ہیں۔ خدا کی طرف سے جو خلافت مومنوں کو عطا ہوئی ہے وہ عمومی خلافت ہے۔
پھر آگے چل کر میں نے لکھا ہے کہ:
یہاں ہر شخص خلیفہ ہے۔ کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں ہے کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو سلب کرکے خود حاکم مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکمران بنایا جاتا ہے اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان‘ یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفا اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس شخص کی ذات میں مرکوز کر دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے جنھوں نے اپنی خلافت اس کو تفویض کی ہے۔
اس کے بعد میں نے پھر اسی مضمون میں دوسرے مقام پر تصریح کی ہے کہ:
اسلامی اسٹیٹ میں امام یا امیر یا صدر حکومت کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام مسلمانوں کو جو خلافت حاصل ہے‘ اس کے اختیارات وہ اپنے میں سے ایک بہترین شخص کا انتخاب کرکے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے خلیفہ کا جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس وہی اکیلا خلیفہ ہے‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی خلافت اس کی ذات میں مرتکز ہوگئی ہے۔
اس کے بعد یہ فقرہ بھی میرے اس مضمون میں موجود ہے کہ:
امیر تنقید سے بالاتر نہ ہوگا۔ ہر عامی مسلمان اس کے پبلک کاموں ہی پر نہیں، بلکہ اس کی پرائیویٹ زندگی پر بھی نکتہ چینی کرنے کا مجاز ہوگا۔ وہ قابلِ عزل ہوگا۔ قانون کی نگاہ میں اس کی حیثیت عام شہریوں کے برابر ہو گی۔ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاسکے گا اور وہ عدالت میں کسی امتیازی برتائو کا مستحق نہ ہوگا۔ امیر کو مشورے کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ مجلسِ شوریٰ ایسی ہوگی جسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ اس امر میں بھی کوئی مانع شرعی نہیں ہے کہ اس مجلس کو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔ ہر صورت میں عامہ مسلمین اس بات پر نظر رکھیں گے کہ امیر اپنے ان وسیع اختیارات کو تقویٰ اور اللہ کے خوف کے ساتھ استعمال کرتا ہے، یا نفسانیت کے ساتھ؟ بصورت دیگر رائے عام اس امیر کو مسند امارت سے نیچے بھی اتار لاسکتی ہے۔
ان تصریحات کے بعد بھی اگر کوئی شخص ہماری تھیاکریسی کو پاپان روم کی قائم کردہ تھیاکریسی سے مشابہ قرار دے تو بہرحال ہم اسے اس کی آزادی رائے سے محروم کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے، مگر یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ رائے علم و دلیل سے آزاد ہے۔
اسلامی حکومت اور مسلم حکومت۲۰۶؎
سوال: خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کی جو حکومتیں مختلف زمانوں میں قائم ہوئیں‘ وہ اسلامی حکومتیں تھیں یا غیر اسلامی؟
جواب: درحقیقت نہ وہ پوری اسلامی تھیں نہ پوری غیر اسلامی۔ ان میں اسلامی دستور کی دو اہم چیزوں کو بدل دیا گیا تھا۔ ایک یہ کہ: امارت انتخابی ہو‘ دوسرے یہ کہ: حکومت کا نظام مشورے سے چلایا جائے۔ باقی ماندہ اسلامی دستور چاہے اپنی صحیح اسپرٹ میں برقرار نہ رکھا گیا ہو‘ لیکن اسے منسوخ یا تبدیل نہیں کیا گیا تھا۔ ان حکومتوں میں قرآن و سنت ہی کو ماخذِ قانون مانا جاتا تھا‘ عدالتوں میں اسلامی قانون ہی نافذ ہوتا تھا اور مسلمان حکمرانوں نے کبھی یہ جرأت نہیں کی کہ قانونِ اسلامی کو منسوخ کرکے اس کی جگہ انسانی ساخت کے قوانین جاری کر دیں اور اگر کبھی کسی حکمران نے اس کی جرأت کی تو تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ کسی نہ کسی اللہ کے بندے نے اٹھ کر اس کے خلاف جہادِ عظیم کیا‘ یہاں تک کہ اس فسق کا سدِباب ہو کر رہا۔ ابن تیمیہؒ اور مجدد الف ثانی ؒ نے اس طرح کی کوششوں کے مقابلے میں جو کچھ کیا اس پر تاریخ گواہ ہے۔
مسئلۂ خلافت اور فرقہ پرستی
سوال: کیا خلافت کا مسئلہ اس وقت آسانی سے طے ہوسکتا ہے جب کہ اسلام میں ۷۲ فرقے موجود ہیں؟
جواب: میں یہاں تمام دنیائے اسلام کی خلافت کے مسئلے سے بحث نہیں کر رہا ہوں‘ بلکہ صرف پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام تک میری گفتگو محدود ہے۔ اگر مختلف مسلمان ملکوں میں ان اصولوں پرجو میں نے ابھی بیان کیے ہیں‘ اسلامی حکومتیں قائم ہو جائیں تو البتہ ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب ان سب کی ایک فیڈریشن بن سکے اور تمام دنیائے اسلام کا ایک خلیفہ منتخب کیا جاسکے۔ رہے ۷۲ فرقے تو وہ صرف علم کلام کی کتابوں کے صفحات میں پائے جاتے ہیں۔ عملاً پاکستان میں تو اس وقت تین ہی فرقے موجود ہیں: ایک: حنفی‘ دوسرے: اہل حدیث‘ تیسرے: شیعہ، اور آپ کو معلوم ہے کہ ان تینوںفرقوں کے علما پہلے ہی اسلامی حکومت کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کر چکے ہیں۔ لہٰذا اب اس اندیشے کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہی ہے کہ فرقوں کی موجودگی اسلامی حکومت کے قیام میں مانع

شیئر کریں